Pages

میرے چاروں طرف افق ہے جو ایک پردہء سیمیں کی طرح فضائے بسیط میں پھیلا ہوا ہے،واقعات مستقبل کے افق سے نمودار ہو کر ماضی کے افق میں چلے جاتے ہیں،لیکن گم نہیں ہوتے،موقع محل،اسے واپس تحت الشعور سے شعور میں لے آتا ہے، شعور انسانی افق ہے،جس سے جھانک کر وہ مستقبل کےآئینہ ادراک میں دیکھتا ہے ۔
دوستو ! اُفق کے پار سب دیکھتے ہیں ۔ لیکن توجہ نہیں دیتے۔ آپ کی توجہ مبذول کروانے کے لئے "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ پوسٹ ہونے کے بعد یہ آپ کے ہوئے ، آپ انہیں کہیں بھی کاپی پیسٹ کر سکتے ہیں ، کسی اجازت کی ضرورت نہیں !( مہاجرزادہ)

ہفتہ، 23 نومبر، 2019

اسرار کے پردوں میں لپٹا ایتھوپیا

ایتھوپیا کی تاریخ بہت پرانی ہے ۔کتنی 24 نومبر 1974 میں ایتھوپیا کے افار مثلث(Afar Triangle) میں وادیءِ اواش (Awash Valley)کے علاقے ھدار(Hadar) میں ، آثارِ قدیمہ کے ماہرین کی کھدائی کے دوران دریافت ہونے والے ایک ڈھانچےکی ہڈیوں کی عمر پوٹاشیم آرگن ریڈیو میٹرک سے تقریباً 3,200,000سال نکالی گئی ہے۔
 گویا بن مانس سے انسان بننے کی طرف ارتقائی سفرایک 1.2 میٹربندریا، یا اِس کے قبیل کے جانوروں نےہاتھوں اور پیروں پر چلنے کے بجائے دونوں ٹانگوں پر چلنے کا ارادہ کیا ۔ اور یو ں ایتھوپیائی انسانی نسل کا سراغ، قدیم حیاتِ انسانی کی تحقیق کرنے والوں نے ڈارون کی تھیوری سے 1974 میں جوڑ دیا گیا ۔
اگر ہم اِس افسانے کو صحیح تسلیم کر لیں ، تو نسلِ “ لوسی “ جو وقت کے ساتھ ارتقائی منازل سے گذرتی موجودہ ایتھوپیائی خاتون تک پہنچی ، جن کے بارے میں بڑھیا کی رائے ہے کہ یہاں کی خواتین ، ہندوستانی اداکاراؤں سے جسمانی طور پر زیادہ حسین ہیں۔ پتلی کمر اور ناقابلِ یقین کولہوں کا پھیلاؤ یقیناً ارتقائی عمل کا حصہ رہا ہوگا۔
لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ باقی افریقہ میں ارتقائی عمل سے گذرنے والی نسلِ “ لوسی “حسن کی اِس دوڑ کا حصہ کیوں نہیں بنیں ، شاید یہ اُن کے “لوسوں “ کا نقص رہا ہو گا ۔

قدیم حیاتِ انسانی کی تحقیق کرنے والوں نے یقیناً بہت محنت کی اور ہم اُن کی محنت پر رائے زنی کر رہے ہیں اور ایسے ہی ہوتی رہی ، لیکن کیا کیا جائے کہ جب ہم انسانی ارتقائی عمل سے گذرنے والی نسلوں پر نظر ڈالتے ہیں تو ، نسلِ “ لوسی “ کی جدا جدا رنگت اور خد و خال ہمیں بھی شیرٹن ہوٹل کے سوئمنگ پول پر جا کر پریشان کردیتے ہیں ۔جہاں نومبر کے 26 ڈگری موسم    میں  بین الاقوامی  نسل  ِ انسانی ،پیراکی  سے لطف اندوز ہوتی ہے ۔ جس میں یہ نسلِ برصغیر بھی چم چم  کے ساتھ  ایک کونے میں پول  کے کنارے گرم  پانی میں  گردن تک بیٹھی لطف اندوز تھی ۔
اپنے پاس پانی میں لطف اندوز ہوتی ایک نیلی آنکھوں والی اطالوی حسینہ نے جب ایک ایتھوپیئن بچے کو سہارا دے کر گود میں اُٹھا یا تو بوڑھا چپ نہ رہ سکا پوچھا،
"آپ کا بے بی ہے ؟”
 اُس مہ لقا نے ،بے بی کے گال پر بوسہ دیتے ہوئے کہا ، “ یس “ 
 ابھی ابتدائی تعارف ہو رہا تھا ، کہ برصغیر کا یہ کھچڑی نما سفید بالوں والا بوڑھا ، انڈیا کا ہے یا پاکستان کا ، کہ ایک گھنگریالے بالوں والا ہمارے ہی قدکا ، کٹّر ایتھوپئین نوجوان، پانچ سالہ نیلی آنکھوں والی شہزادی نما بچی کو گود میں اٹھائے اُس اطالوی حسینہ کے پاس آیا ، بچی کو اُسے تھمایا اور ایتھوپیئن بچے کو گود میں لیا ، اطالوی حسینہ نے میری طرف دیکھتے ہوئے کہا ۔
 “ مسٹر کالید فرام پیکسٹن “
 گھنگریالے بالوں والے نوجوان نے بوڑھے سے ہاتھ ملایا ، جو ڈنمار ک میں ڈپلومیٹ ہے اور چھٹیاں گذارنے عدیس ابابا آیا ہوا ہے ۔اور ہمارے ہی فلور پر رہائش پذیر ہے ۔
چھ سال پہلے اُس کی محبت کی شادی اطالوی حسینہ سے ہوئی اور محبت کی ابتدا اطالوی حسینہ کی طرف سے ہوئی ، یوں اطالوی حسینہ کے سوئیٹ بکس میں “گلاب جامن اوربرفی “ کی مٹھاس بھری ہوئی ہے ۔یقیناً نسلوں کا یہ ملاپ ، خالقِ کائینات کی نشانیاں ہیں ۔ شائد گلاب جامن اپنے پردادا کے خاندان پر چلا گیا ۔
 بوڑھا سوچ رہا تھا ، کہ اگر یہ ایتھوپیئن ڈپلومیٹ کی شادی ( کزن نہیں بلکہ )حمار (Hamer) قبیلے کی کسی خاتون سے زبردستی کروائی جاتی ، نسلِ “ لوسی “ اپنے ارتقائی مدار سے نہ نکلتی ۔لیکن سوال پھر پیدا ہوتا ہے کہ اطالوی نسلِ “ لوسی “ میں دودھیا رنگت کہاں سے آئی ؟
 اب یہ تو کہا نہیں جاسکتا کہ ، دودھیا ئی رنگت والے انسان کے بچے تھے اور گلاب جامنی رنگت والے بندر کے بچے ۔
 بوڑھے کی فلسفیانہ رائے (جس سے آپ کا متفق ہونا قطعی ضروری نہیں) ،یہ حتمی نتیجہ اخذ کرتی ہے ، کہ” ایڈم (Adam)“ گلاب جامنی تھا اور “ ایو (Eve) “ دودھیائی رنگت لیے ہوئے ، نیلی آ نکھوں والی ایک خوبصورت تخلیق ، جبھی تو “ ایو “  کے اُبھرتے  معصومانہ جذبات نے اُسے “ کاٹھ کا اُلّو” سمجھ کر “ پھل چکھنے پر “ مجبور کردیا ، یوں دونوں کو لات مار کر گارڈن سے باہر نکال دیا گیا ۔کہ اب جاؤ اور رنگ برنگی نسلِ انسانی کوفروغ دو ۔
اور پھر جب  گلاب جامنی رنگت والی  نسل کی بہتات ہوگئی ، تو   دودھیائی رنگت والوں نے لات مار کر ، جا منی رنگت والوں کو سرخ سمندر (قلزم)کے پار جنوب میں دھکیل دیا ۔
 لیکن کیا کیا جائے نسل انسانی کی تنوع پسندی کا ، دودھیائی رنگت والے ،سرخ سمندر (قلزم) عبور کرتے اور گلاب جامنی رنگت والی لوسیوں کو لوسوں سمیت کو اٹھا کر شمال کی طرف لے آتے ،جہاں لوسیوں کو خوابگاہ کی زینت بناتے اور لوسوں کو خدمت گذار ، جواب میں گلاب جامنی رنگت والے ، کثیر الازواج ، شوہر کی ترسی ،دودھیائی رنگت والی لوسیوں کو اٹھاتے اور سرخ سمندر (قلزم) کے جنوب میں لے آتے ۔ یو ں سرخ سمندر (قلزم) کے دونوں طرف مٹیالی رنگت ، اور ہلکی بھوری ، شربتی اور کرنجی  آنکھوں ، والی لوسیاں اور لوسے جنم لینے لگے ۔

جِس کے نتیجے میں خالقِ کائینات کے مٹھائی کے ڈبے (کرہ ارض) میں مختلف النوع رنگت والی مٹھائیوں کی گردان(تصریف)  بننا شروع ہوگئی ۔
لوسی سے لوسیوں کی طرف بوڑھے نے اِس لئے قدم اُٹھایا کہ پرسنل میسج پر ایک دوست نے لکھا ،
" مہاجر زادہ صاحب : پہلے آپ کے مضمون دلچسپ ہوتے تھے ،   اب بالکل بور ، آپ غیر ملکی سفر کر رہے ہیں ، مستنّصر حسین تارڑ کی طرح   مزیدار مضمون لکھیں "
بوڑھے نے جواب دیا "
" نوجوان ، پہلی بات تو یہ ہے ، کہ مستنّصر صاحب  نے ، جب بیرون ملک تنہا سفر کیا، تو اُن کے بازوؤں کی مچھلیاں پھڑکا کرتی تھیں ۔
دوئم ، گو کہ وہ   منڈی بہاؤالدین  کی پیداوار تھے ، مگر لاہوریئے بن چکے تھے اور نظر باز اتنے کہ بیٹے کے ساتھ شمالی علاقوں کا سفر کرتے  اُنہیں جرسیوں میں خرگوش پُھدکتے نظر آتے ۔
بوڑھا بے چارہ   ایک تو بڑھیا کے ساتھ سفر کر رہا ہے ، وہ بھی جب گھر سے باہر نکلنا ہوتا ہے ، توبڑھیا کے ڈرسے لیپ ٹاپ بند کئے بغیر چپل پہن کر باہر سبزی لینے یا چم چم کو سکول سے لانے نکل جاتا ہے۔جب سڑک پر نکلتا ہے تو اچانک خیال آتا ہےکہ وہ  تو پڑھنے والی عینک  لگا کر باہر نکل آیا ہے ۔ ویسے بھی  بوڑھا عمر کے اُس حصے میں پہنچ چکا ہے ۔  جہاں  پچاس سالہ میک اَپ زدہ  ایتھوپیئن حسینہ بھی  بوڑھے کو " پاپا " کہہ کر بلاتی ہے ۔ ایسے میں خدوخال پر شاعری  بَھک  سے ہوا میں تحلیل ہوجاتی ہے ۔ اور بوڑھا  ایتھوپیئن حسینہ کے یہ کہنے پر،"پاپا اتنے بوڑھے ہو کر بھی ہینڈ سم ہیں "، خود کو محل میں شیشے کے گھر میں کھڑی ہوئی ، شہنشاہِ ایتھوپیا کی کار کی مانند سمجھتا ہے ، جو استعمال کے قابل نہ ہونے کے باوجود اب بھی قابلِ قدر ہے ،
 لہذا تھوڑے کو بہت سمجھو  ، لیکن یہ خیال رہے کہ بوڑھا اقبال کے  غُنچہ بائی کو بالا خانے پر ، اپنے طپنچے سے قتل کرنے سے پہلے کہے جانے والےشعر   سے متفق ہے ۔ یعنی 
وجودِ زَن سے ہے تصویر کائینات میں رنگ ۔
تو ذکر ہو رہا تھا ،  اسرار کے پردوں میں لپٹے ایتھوپیا کا ، چم چم کے تعاقب میں عدیس ابابا آنے کے بعد بوڑھے کہ ذہن پر چھائے ہوئے ایتھوپیا کی پر اسراریت کے پردے یکے بعد دیگرے اترنا شروع ہو گئے ۔ 
کوئی ایتھوپیاً نوجوان ، بوڑھے کو نہ زرد بخار میں مبتلاء نظر آیا اور نہ ہیضے یا ایبولا کا شکا ر ۔  جن کے ٹیکے بوڑھے اور بڑھیا نے  یکم اکتوبر میں کوئٹہ میں لگوا کر انٹرنیشنل ویکسینیشن کارڈ  پر بطورِ ثبوت  تحریر بمع مہر کروا لئے تھے ۔ نہ ہی فضاء میں  گھٹن تھی اور نہ ہی  موسم کا وہ جبر  جس کے لئے افریقہ مشہور ہے ۔
چھ چھ منزلہ عمارتوں اور وسیع سڑکوں میں  گھرا ہو اعدیس ابابا   ، امھارک دیوتا  حائلی سلاسی  کے عدیس ابا سے قطعی مختلف ہے ۔ 
امھارک دیوتا کے نام پر آپ یقیناً چونکے ہوں گے ۔ کیوں کہ شاید آپ کو علم نہیں ، کہ ماؤں   کے نام سے چلنے والی اولاد جو خود کو نبیوں سے منسوب کرواتی  اور درباری کلا کار ،ایسی ایسی درفتنیاں چھوڑتے ہیں جس کے باعث عوام الناس اُن  اولادوں کو سجدہ کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں ۔ جیسا کہ ہمارے ملک میں سیّدوں اور شاہ نامی  مجاوروں کا ہے ۔ 
برصغیر کے بادشاہوں نے اُن کے  چھوٹے دماغوں کی وجہ سے اُنہیں ایک حد سے آگے نہ بڑھنے دیا ، لہذا وہ خود ساختہ ، اولادِ انبیاء کے مجاور بن کر عوام میں مقبول ہوگئے، افریقہ  میں چونکہ بائبل کا راج تھا ، لہذا بائیبل کے دیومالائی کرداروں  سے خود کو منسلک کرنے کے بعد اپنی راجدھانی میں  دیوتا بن کر سجدے کروانے لگے ۔ 
ـــــــــــــــــــــــــــــــــ
اگلا مضمون : 
6- موجودہ جمہوری ایتھو پیا   
٭٭٭٭واپس ٭٭٭


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

خیال رہے کہ "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ !

افق کے پار
دیکھنے والوں کو اگر میرا یہ مضمون پسند آئے تو دوستوں کو بھی بتائیے ۔ آپ اِسے کہیں بھی کاپی اور پیسٹ کر سکتے ہیں ۔ ۔ اگر آپ کو شوق ہے کہ زیادہ لوگ آپ کو پڑھیں تو اپنا بلاگ بنائیں ۔