Pages

میرے چاروں طرف افق ہے جو ایک پردہء سیمیں کی طرح فضائے بسیط میں پھیلا ہوا ہے،واقعات مستقبل کے افق سے نمودار ہو کر ماضی کے افق میں چلے جاتے ہیں،لیکن گم نہیں ہوتے،موقع محل،اسے واپس تحت الشعور سے شعور میں لے آتا ہے، شعور انسانی افق ہے،جس سے جھانک کر وہ مستقبل کےآئینہ ادراک میں دیکھتا ہے ۔
دوستو ! اُفق کے پار سب دیکھتے ہیں ۔ لیکن توجہ نہیں دیتے۔ آپ کی توجہ مبذول کروانے کے لئے "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ پوسٹ ہونے کے بعد یہ آپ کے ہوئے ، آپ انہیں کہیں بھی کاپی پیسٹ کر سکتے ہیں ، کسی اجازت کی ضرورت نہیں !( مہاجرزادہ)

پیر، 18 نومبر، 2019

اُفق کے پار ، تصوّرات کی دُھند میں لپٹا ایتھوپیا

جب انسان تجارت کی غرض سے زمین پر پھیلے تو خطہ عرب کے تاجر بھی یمن کے علاقے  سے  جہاں سے بحیرہ قلزم دونوں سرزمین کے درمیان 20 میل  کی سرحد بناتا ہے ، وہاں سے کشتیوں اور جہازوں کے ذریعے  عبور کرکے افریقہ کی سرزمین (موجودہ جبوتی) میں داخل ہوئے، کب ؟
تاریخ کے مطابق   یہ تقریباً   1000 قبل مسیح   کے  لگ بھگ کا واقعہ ہے ۔ کہا جاتا ہے کہ کشتیاں گہرے سمندر کے بجائے  ساحل کے نزدیک چلتی تھیں ، جیسے  کولمبس ہندوستان کے سفر پر چلا تھا مگر  ریڈ انڈین کے دیس جاپہنچا ،   ویسے یمنیوں کی کشتی ہوا کے زور پر افریقی سرزمین جا لگی ہو  اور  جبوتی کے راستے صومالیہ پہنچے اور وہاں  سے  یمنی   اریٹیریا اور پھر شائد ایتھوپیا تک پہنچے ہیں ۔
تو ذکر ہو رہا تھا  عربوں، بلکہ یمنیوں کی آمد کا  ۔ 1000 قبلِ مسیح میں  جنوبی عرب   کے کچھ  قبیلوں  کے افراد، بحیرہ احمر  کا 20 میل کا پاٹ عبور  کرکے موجودہ جبوتی سے ہوتے ہوئے   اریٹیریا میں جاکر آباد ہو گئے۔
  زبانِ شوخِ من ترکی  کے باوجود ،مقامی باشندوں کے ساتھ، ان کے اختلاط سے ایک نئی قوم وجود میں آئی جسے حیباشا کے نام سے موسوم کیا گیا۔ بعد ازاں عرب اس تمام علاقے کو جو اب ایتھو پیا میں شامل ہے۔ حیباشان  کہنے لگے اور یہاں کے رہنے والوں کو حیباشی  (حباشان)  ۔ حبش  ،  ٹرکی (مرغ) کو کہا جاتا ہے جو یہاں پایا جاتا ہے ۔
 بہر حال   دو اقوام  کا ملاپ وجود  میں آیا ۔  لیکن ایک بات طے ہے کہ قوموں کے اِس اختلاط سے  خوبصورت  ناک و خد و خال والی نئی قوم شمالی افریقہ  کے علاقوں میں وجود میں آئی ۔
 مہاجر زادہ اور اُس کی بیوی مارننگ والک کرتے ہوئے اپنے ٹھکانے کے نزدیک  کوئی 50 گز کے فاصلے پر چھوٹی چھوٹی دکانیں دیکھیں  تو معلومات کے لئے ، دکاندار بچوں سے بات کی ، ایک عربی دکاندار  خاتون سے  بھی ملاقات ہوئی ، جو جدہ سے شادی ہو کر کوئی 40 سال پہلے عدیس ابابا پہنچی ۔ اب اپنے بچوں کے ساتھ گروسری شاپ چلاتی ہے ۔
 سنا تھا کہ ایتھوپیئن پاکستانیوں سے اچھا سلوک نہیں کرتے ہیں کیوں کہ E-VISA کھلنے پر تمام کھیپئے ،  بیگ میں چائینیز موبائل اُٹھائے  عدیس ابابا کے گلی کوچوں میں پھیل گئے کئی گرفتار ہوئے ، بالآخر ایتھوپیئن گورنمنٹ نے  پاکستانیوں سے ہاتھ جوڑ کر معافی مانگ لی ۔
اب ایتھوپیا کا ویزہ ملنا امریکہ کے ویزے سے بھی مشکل ہے ، کیوں ؟
کہ پاکستان میں ایتھوپیئن ایمبیسی ہی نہیں ہے !
بوڑھا  ،  چم چم کو صبح سکول چھوڑنے جا رہا تھا ، کہ آواز آئی ،" نمستے"
بوڑھےنے نوجوان کی طرف دیکھا وہ ، موبائل کارڈ لئے ہاتھ میں کھڑا تھا ۔
جواب دیا ،" او حالیگان بانا "
وہ حیرت سےبوڑھے کا منہ تکنے لگا ۔
بوڑھے  نے حملہ کیا ، انٹار کے بنٹار کے چمبوترا ، گھباچو "
 وہ ہوّنق سا مونہہ لے کر چل پڑا ، کہ اِس" انجان بولی والے  بوڑھے کو کیا بیچنا  ؟"۔ 
بوڑھا اور چم چم ، آگے بڑھے تو چم چم نے پوچھا ،
" آوا ، آپ کون سی لینگوئج بول رہے تھے ؟"
بوڑھے نے جواب دیا  ،" سواحلی "
بولی،" آپ کو تو فلوئینٹ آتی ہے "
بوڑھے  نے کہا ،" آن چی گوچاں ، چی چاں چیاؤں چیاؤں"
وہ کھلکھلا کر ہنسی ۔ بولی ، " آوا آپ نے اُسے فول بنا دیا "
چم چم جب سکول میں چائینی سیکھ رہی تھی تو بوڑھے کو سکھاتی ، بوڑھا  تنگ آکر، 
"چیاؤں ، میاؤں چی چاں چو ں چوں"  بولتا ۔وہ کھلکھلا کر  ہنستی
 ایسٹ تِمور میں جب تمام جتن کے بعد بھی   دکاندار لڑکی ، بوڑھے  کی  انگلش نہیں سمجھتی ، تو  بوڑھا  چینی بولنا شروع کر دیتا ۔ 
ایک دفعہ ، ہوٹل میں سوئمنگ کے لئے گئے ، وہاں بوڑھے نے یہی ترکیب دھرائی ، تو ویٹرس نے پوچھا ،" یہ کون سی زُبان ہے؟ "
چم چم نے  مسکراتے  ہوئے کہا ،" چینی "
وہ بولی ،" یہ چینی نہیں "
بوڑھے نے چم چم کو مشکل سے نکالتے ہوئے کہا  ،" یہ منگولیئن ہے "
اس نے سر ہلایا اور ہماری جان چھوٹی ۔ بعد میں معلوم ہوا اُس تِموری خاتون کا شوہر چینی ہے ۔ 
ارے ہاں تو ذکر ہورہا تھا ، تاریخ کی دُھند میں چھپے ہوئے ایتھوپیا کا ۔

ہماری واقفیت ایتھوپیا سے آٹھویں جماعت  کے جغرافیہ  کے ذریعے ہوئی  ، اور مزید معلومات وزیر اعظم پاکستان اور یہاں کے بادشاہ   ہائل سلاسی  کی اخباروں میں چھپنے والی تصاویر سے ہوئی۔ 

جب بوڑھا اور بڑھیا ، چم چم کے تعاقب میں  اسلام آباد سے ایتھوپیا براستہ  دوبئی 12 اکتوبر کو  پہنچے تو  ، عدیس ابابا  کے وقت کے مطابق  1:35 پر اور پاکستان کے مطابق  3:35 پر  بول انٹرنیشنل ائر پورٹ پر  امارات ائرلائن کا جہاز لینڈ کر گیا ۔ اب   پاسپورٹ پر ویزہ لگوانا تھا ۔ 
اپروول چونکہ وٹس ایپ ہوگئی تھی اُس  کی فوٹو کاپی کروائی  ، لہذا بوڑھے اور بڑھیا کے پاسپورٹ  سمیت ، امیگریشن کی ونڈو سے باری آنے پر ، دیگر کاغذات کے ساتھ پکڑا دیں ،
" پاکستانی"  امیگریشن خاتون نے پوچھا۔

" الحمد للہ  ، یس "  بوڑھے نے جواب دیا ۔
بوڑھے اور بڑھیا کی تصویریں اتاری گئیں  ۔
" یو ویٹ " ، خاتون نے روکھے منہ سے کہا ۔

دونوں کے پاسپورٹ لے کر ، امیگریشن آفیسر  ، غائب ہوگیا ، آدھے گھنٹے بعد آیا  اور بولا ،
" بنک کاونٹر پر جاؤ اور ویزہ فیس جمع کروادو " اور اشارہ کرکے بتایا کہ بنک کاونٹر کہاں ہے ؟
بوڑھا بڑھیا کو وہیں چھوڑ کر ، فیس جمع کروانے چلا گیا ۔

ویزہ کیا تھا ایک ربڑ سٹیمپ  جو پاسپورٹ پر تاریخ  لکھ دی اور 50 ڈالر  فی کس وصول کرلئے 
لگوایا ۔اور سامان لینے کے لئے  بوڑھا اور بڑھیا  ، ٹرانزٹ گیٹ سے باہر نکلے ، تو بوڑھے کو دور سے اپنے بیگ  ریمپ پر نظر آئے -وہ کیسے ؟
وہ ایسے کہ چم چم نے ، ایسٹ تِمور جاتے وقت کیبن  بیگز اور   لگیج بیگز پر گلابی ربن لگا ئے  تاکہ بیگ دور سے نظر آجائیں ۔ لیکن عدیس ابابا ائر پورٹ پر یہ ٹیکنیک فیل ہو گئی ۔ کیوں؟

" آوا،  مسافروں نے اپنے بیگ  لینے کے لئے ہمارے بیگ ریمپ سے گرا دئے اور سب کے بیگ ہمارے بیگ کے کلرز کے تھے ۔آپ بڑے ٹیگ سائن لگائیں تاکہ آپ کو دور سے  نظر آجائیں " چم چم نے ہدایات دیں ۔
بات درست تھی ، ہمارے تمام سفروں میں چم چم ہماری گائیڈ تھی اب وہ پریشان کہ بوڑھا نانا اور بوڑھی ننا کیسے آئیں گے ؟
لہذا بوڑھے نے صفائی کے پیلے 4 عدد کپڑے بازار سے خریدے ، جب اُنہیں پلاسٹک  چڑھا کر ، اسلام آباد ائر پورٹ پر  رکھا تو یوں لگ رہا تھا کہ یہ بھکشوؤں کا سامان ہے جو اُن کے ہی کپڑوں میں لپیٹا گیا ہے ۔ 
آخری وقت میں بوڑھے کو معلوم ہوا کہ  فی کس 35 کلو گرام کے بجائے   30 کلو گرام  لے جانے کی اجازت ہے ۔ بوڑھے اور بڑھیا کی دوائیاں اور مصالحہ جات کا کل وزن  10 کلو گرام تھا ۔ بڑھیا کے انسولین کے انجیکشن (3 ماہ کا کوٹہ) وہ الگ ۔
بوڑھے نے اپنے اور بڑھیا کے 10 کلوگرام  کے کپڑے ، پاکستان پوسٹ سے مبلغ 10 ہزار روپے میں ایتھوپیا بھجوادئے ۔ اگر یہ جہاز سے اضافی بیگج میں بھجوائے جاتے تو بہتر تھا کہ یہ کپڑے یہیں چھوڑ جائیں اور عدیس ابابا سے نئے کپڑے خرید لیں ۔ 


چنانچہ ، بوڑھا   بڑے آرام سے  اپنا اور بڑھیا کا کیبن بیگج  گھسیٹتا ہوا چلتا رہا ، خواہ ٹرالی کی صورت میں ہی کیوں نہ ہو۔ 
بوڑھے نے اپنے تینوں بیگز  ، اُٹھائے اور ٹرالی پر رکھ  کر سامان  چیکنگ کی لائن میں کھڑا ہوگیا ۔ ابھی 5 منٹ ہوئے تھے کہ کالج کی 6 چلبلی افریقی لڑکیوں نے   ایک   اور لائن بنا لی جو بوڑھے  کے آگے کھڑی ہوئی لڑکی سے مل گئی ۔
بڑھیا نے کہا ، " اِنہیں پیچھے ہٹائیں یہ کہا بیچ میں گھس گئیں ؟"

بڑھیا کوجلدی تھی باہر چم چم اور اُس کی ماما انتظار کر رہی تھیں ۔اور سامان چیکنگ کر کے ٹیگ اتارنے والا بڑے آرام سے اپنی ڈیوٹی دے رہا تھا ۔
" میرا خیال ہے ، کہ یہ ایک گروپ ہے ، پہلے سے کھڑی لڑکی سے جڑ گیا ہے " بوڑھے نے کہا۔
" معاف کرنا نیک دل خاتون ، آپ جوان ہیں ، کیا یہ بہتر نہیں ہوگا کہ آپ سب اِس بڑھیا کے پیچھے کھڑی ہوجائیں " 
بوڑھے کے آگے جو خاتون کھڑی تھی وہ بولی ،" یہ میرے ساتھ ہیں "
" ٹھیک ہے ، یہ سامان لے کر بعد میں آئی ہیں ، یہ پیچھے جائیں  اور اگر یہ آپ کے ساتھ ہیں تو آپ اِن کے ساتھ ہوجائیں " بوڑھے نے ترکیب بتائی ۔

اُس نیک دل خاتون نے ، امھارک میں کچھ کہا ، تو وہ  چھ کی چھ لڑکیاں  پیچھے چلی گئیں  ، یو ں بڑھے اور بڑھیا کی باری  6 جلدباز لڑکیاں سے پہلے مگر 40 منٹ بعد آئی ۔  بوڑھا ٹرالی کو دھکا دیتے ہوئے جب بلڈنگ سے باہر نکلا تو سامنے بڑی سے پودوں کی باڑ ،  بائیں طرف ایک لمبی سے راہ داری نظر آئی ۔ جب بوڑھا اور بڑھیا  راہداری کے آخر میں گئے  ، تو یو ٹرن لیا ،اب دائیں طرف ایک لمبی سی راہ داری   تھی ، بڑھیا کو چم چم نظر آئی ، بوڑھے کو نظر آئی ، بوڑھے نے ٹرالی سمیت دوڑ لگا دی اور بڑھیا سے پہلے پہنچ گیا۔
 چم چم اور اُس کی ماما کی خوشی کا ٹھکانہ نہیں ، کیوں کہ بوڑھا اور بڑھیا بخیریت عدیس ابابا پہنچ گئے ۔ گھر پہنچنے تک ہماری چم چم چہچہاتی رہی ۔ 
گھر پہنچ کر بوڑھے اور بڑھیا نے روشن اور ہوادار فلیٹ سے عدیس ابا با کا نظارہ کیا ۔ تا حدِ نظر کئی منزلہ بلڈنگز ، ہوٹل اور سرکاری عمارات کا جنگ ہے ۔ 
یقین نہیں آتا کہ ایتھوپیا کا یہ شہر اتنا خوبصورت ،گرم بگولوں سے پاک ،  ٹھنڈا اور  2000 میٹر کی بلندی پر ہوگا ۔
چم چم نے اپنا مکمل پلان بتایا ، کہ وہ ہمیں ایتھوپیا کیسے گھمائے گی ؟  
" آوا ، یہاں آتش فشاں بھی ہے  اور سالٹ لیک بھی ، اور ننا   یہاں آپ کو معلوم ہے کہ بہت خوبصورت چرچ ہیں  ، لیکن پہلے آپ میرے سکول جائیں گے اور  کل میں نے آپ لوگوں کے آنے کی خوشی میں اپنے دوستوں کو پیزا  پارٹی دی ہے۔"
چم چم  نے بلا تھکان بولتے ہوئےکہا ،"  شام کا کھانا ماما انڈین ریسٹورینٹ سے منگوائیں گی ،ننا  وہاں کی بریا نی بہت اچھی ہوتی ہے "
" میری بریانی سے بھی اچھی" بڑھیا نے پوچھا 

" نہیں ننا ، آپ کی بریانی سے اچھی نہیں ، آپ بریانی مصالحہ لائی ہیں ۔ اچھا میرے لئے کیا چیزیں لائی ہیں ؟" چم چم نے پوچھا ۔
اور بڑھیا اپنا سوٹ کیس کھول کر بیٹھ گئی ۔
٭٭٭٭واپس ٭٭٭

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

خیال رہے کہ "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ !

افق کے پار
دیکھنے والوں کو اگر میرا یہ مضمون پسند آئے تو دوستوں کو بھی بتائیے ۔ آپ اِسے کہیں بھی کاپی اور پیسٹ کر سکتے ہیں ۔ ۔ اگر آپ کو شوق ہے کہ زیادہ لوگ آپ کو پڑھیں تو اپنا بلاگ بنائیں ۔