Pages

میرے چاروں طرف افق ہے جو ایک پردہء سیمیں کی طرح فضائے بسیط میں پھیلا ہوا ہے،واقعات مستقبل کے افق سے نمودار ہو کر ماضی کے افق میں چلے جاتے ہیں،لیکن گم نہیں ہوتے،موقع محل،اسے واپس تحت الشعور سے شعور میں لے آتا ہے، شعور انسانی افق ہے،جس سے جھانک کر وہ مستقبل کےآئینہ ادراک میں دیکھتا ہے ۔
دوستو ! اُفق کے پار سب دیکھتے ہیں ۔ لیکن توجہ نہیں دیتے۔ آپ کی توجہ مبذول کروانے کے لئے "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ پوسٹ ہونے کے بعد یہ آپ کے ہوئے ، آپ انہیں کہیں بھی کاپی پیسٹ کر سکتے ہیں ، کسی اجازت کی ضرورت نہیں !( مہاجرزادہ)

ہفتہ، 11 جون، 2016

بکروں والی مسجد

مجھے یاد ہے ہمارے ابّا کے پاس ایک یاماہا موٹر سائیکل ہوا کرتی تھی۔ بھائی مجھ سے  بڑا ہے تو وہ موٹر سائکل کے پیچھے اور میں آگے بیٹھا کرتا اور ابّا ہم کو سکول چھوڑا کرتےتھے۔ 

راہ میں ایک قبرستان اور اس سے ملحق چھوٹی سی مسجد آتی تھی۔ قبرستان کے آخر اور مسجد کے ذرا پہلے ایک شخص چارپائی سے دو بکرے باندھے بیٹھا ہوتا۔ روزانہ صبح، جب موٹر سائیکل اس بکرے والے کے قریب پہنچتی ،تو ہمارے ابا دو بار سر کو جھکاتے۔
مجھے اس لیے معلوم ہوتا کہ ان کا چہرہ میرے سر سے آ ٹکراتا۔ 
وقت گزرتا گیا اور میں ترقی کر کے موٹر سائیکل کے آگے سے پیچھے آ گیا ۔ میں نے بھی بکرے والے بابے کے پاس، ابّا کی تقلید میں دو بار "بکروں والی مسجد" کے سامنے ، سر جھکانا شروع کر دیا ۔ وقت گذرتا گیا ، سکول سے کالج میں آنے کے بعد راستہ تبدیل ہو گیا ۔ لیکن جب کبھی اِس راستے سے گذرنا ہوتا ۔ تو خودکار نظام کے تحت "بکروں والی مسجد" کے سامنے سر جھک جاتا ۔ جس سکول میں، میں اور بھائی پڑھتے تھے ، وہ دور تھا ، گھر کے نزدیک بھی پرائمری تک سکول کھل گیا تھا ، جہاں دونوں بیٹے پڑھتے تھے ، بڑا چھٹی کلاس میں آیا ، تو اپنے پرانے سکول میں داخل کروا دیا ۔
ابّا نے مشورہ دیا ، کہ چھوٹے کو بھی وہیں داخل کروا دو ۔ تاکہ دونوں بھائی ایک ہی سکول میں رہیں ، چنانچہ دونوں بھائیوں کو اپنے پرانے سکول میں داخل کروا دیا ۔
بچوں کو داخل کروانے گیا تو سکول کا ماحول تبدیل ، ایک منزل سکول اب تین منزلہ بن چکا تھا ۔ نئے کلاس روم بن گئے ، ہمارے وقت صرف دو سیکشن ہوتے تھے ۔ اب چار سیکشن اور جونئیرز (پہلی سے پانچویں تک) کا الگ احاطہ اور گیٹ اور سینئیر سیکشن ( چھٹی سے میٹرک تک ) الگ ۔ پرانے اساتذہ ، نہیں تھے ، پرنسپل بھی تبدیل ، جونئیر سیکشن میں خواتین ٹیچرز بھی دیکھیں ۔

چنانچہ چھتیس سال بعد اسی راستے سے اپنے دونوں بچوں کو سکول چھوڑنے جاتا ہوں،چھوٹا آگے بیٹھتا ہے اور بڑا پیچھے  جو میرا روزانہ کا معمول ہے ۔

بچوں کو چھوڑتے ہوئے کوئی تیسرا دن تھا ، صبح "بکروں والی مسجد" کے سامنے گزرتے ہوئے ، جہاں اب بھی دو بکرے بندھے ہوئے تھے ، میں نے حسبِ عادت دو بار سر کو جھکایا تو اچانک ببلو نے مجھ سے سوال کیا:
" بابا آپ روزانہ یہاں سے گزرتے ہوئے، دو بار سر کیوں جھکاتے ہیں۔"
ذہن میں ماضی گردش کرنے لگا ، ہم نے اپنے والد سے ، کبھی سوال نہیں کیا ، جو وہ کرتے ہم دونوں بھائی چپ کر کے عمل کرتے ، بڑوں سے سوال کرنا معیوب سمجھا جاتا تھا ۔ زیادہ ہوا تو دوستوں سے پوچھ لیا ، وہ بھی ایک جواب دیتے ،
" ہمیں کیا معلوم "
گھر میں جو رسومات اور مذہبی تہوار اُن پر چُپ کر کے عمل کرتے ، ہم کیا یہی رواج تھا اور اسلام کا حصہ بھی ۔ ویسے بھی سوال کرنے سے آدمی مذہب سے دور ہوجاتا ہے ۔

اب یہاں
"بکروں والی مسجد" کے سامنے کے پاس سرجھکانا بھی ہمارے نزدیک خالصتاً تقلیدِ تواتر تھی  کہ ضرور یہ "مقدس بکرے"  ہیں تو ہمارے والد روزانہ صبح یہاں سے گزرتے دو بار سر جھکا لیا کرتے۔
میں نےبتایا ۔ " جن میں اور تایا ، دادا کے ساتھ یہاں سے گذرتے تھے ، تو دادا سر جھکاتے تھے ، تو ہم بھی جھکانے لگے "
"مگر کیوں ؟" ببلو نے پوچھا ۔
"  دادا سے پوچھا ہی نہیں " اور وہ خاموش ہو گیا۔
 
رات کو کسبِ معاش کے سلسلے ایسے کہ مجھے گھر آتے دیر ہو جاتی ہے اور بچے سوجاتے ہیں ۔ گھر آیا تو کھانا کھانے  بیگم نے بتایا،
"ببلو! ، آپ سے کچھ بات کرنا چاہ رہا تھا مگر انتظار کرتے کرتے سو گیا۔"

خیر، صبح جب ہم ٹھیک اس مقام سے گزرے اور میں نے عادتاً "مقدس بکرے"  والے مقام پر دو بار سر جھکایا تو ببلو نے گزشتہ روز والا سوال پھر دہرایا۔
" کل میں نے بتایا نا ، کہ یہ "مقدس بکرے"  ہیں۔ دادا بھی سر جھکاتے تھے" میں نے جان چھڑانے کے لئے کہا ،
"  آپ کی مرضی آپ جھکاؤ یا نہ جھکاؤ !"
 ببلو بولا ،
" بابا میں نے رات کو دادا سے پوچھا تھا کہ وہ ایسا کیوں کیا کرتے ہیں؟ "
"کیا کہا اُنہوں نے ؟"میں نے پوچھا ۔
" دادا نے بتایا ،  پہلی بار سر جھکا کر قبرستان کے پاس "السلام علیکم یا اہل القبور' اور دوسری بار، مسجد کے سامنے "السلام علیکم و رحمت اللہ و برکاتہ" پڑھتے تھے ۔ انہوں نے 
"مقدس بکرے"  والی کوئی بات نہیں بتائی "
ببلو کا جواب ، مجھے سُن کر گیا ۔
اُس نے پوچھا !
" بابا ! آپ کو یہ بات کس نے بتائی؟
کیا آپ نے کبھی دادا سے سوال نہیں کیا کہ وہ دو بار سر کیوں جھکایا کرتے تھے ؟"

اتنے میں سکول آ گیا اور وہ دونوں بھائی ہنستے مسکراتے  ہاتھ ہلاتے، مجھے شرمندہ چھوڑ کر سکول میں داخل ہو گئے۔

میں ادھیڑ عمر انسان ہوں اور اپنی زندگی کی شعوری عمر کی تقریباً چار دہائیاں !
میں نے سوال کی اہمیت اور تحقیق کی ضرورت جانے بغیر ہی گزار دیں!
میں سوچتا ہوں کہ مجھ میں اور جانوروں میں کیا فرق ہے !
(ماخوذ)
 
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭


وَلَقَدْ ذَرَأْنَا لِجَهَنَّمَ كَثِيرًا مِّنَ الْجِنِّ وَالْإِنسِ لَهُمْ قُلُوبٌ لَّا يَفْقَهُونَ بِهَا وَلَهُمْ أَعْيُنٌ لَّا يُبْصِرُونَ بِهَا وَلَهُمْ آذَانٌ لَّا يَسْمَعُونَ بِهَا أُولَـٰئِكَ كَالْأَنْعَامِ بَلْ هُمْ أَضَلُّ أُولَـٰئِكَ هُمُ الْغَافِلُونَ﴿7/179﴾


 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

خیال رہے کہ "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ !

افق کے پار
دیکھنے والوں کو اگر میرا یہ مضمون پسند آئے تو دوستوں کو بھی بتائیے ۔ آپ اِسے کہیں بھی کاپی اور پیسٹ کر سکتے ہیں ۔ ۔ اگر آپ کو شوق ہے کہ زیادہ لوگ آپ کو پڑھیں تو اپنا بلاگ بنائیں ۔