کربلا ، محل وقوع اور وجہ تسمیہ .
عربی زبان کے یہ دو لفظ کربل اور کربلَة معنی اور تلفظ کے لحاظ سے تقریبا یکساں ہیں یاقوت حموی لکھتے ہیں .
"کربلآ جو مد کے ساتھ لکھا جاتا ہے اسی کا جڑواں کربلہ ہے " . (صفحہ 229 جلد 7 معجم البلدان )
پہلے عرض کیا جا چکا ہے کہ ارض طف کے میدانوں کی مضافاتی زمین کربلا کہلاتی تھی جو نرم ملائم زمین تھی اور غلہ پچھوڑنے کے کام آتی تھی اور اسی بنا پر کربلا کہلاتی تھی .
عربی میں فصل کو خاص کر گندم کی فصل کو پچھوڑنے یعنی بھوسہ اڑا کر صاف کرنے کو کربل کہتے ہیں اور جو مٹی ملے پانی میں (کیچڑ) مشکل سے چل کر آیا ہو اسے مکربلا کہتے ہیں.(صفحہ 720 المنجد طبع بیروت )
گندم کی طرح جب غلہ صاف کرتے ہیں تو کہتے ہیں (کربلت الحنت طہ )اور کربل نام ہے الخماس کی طرح کے پودوں کا اور یہ قسم یہاں بکثرت اگتی تھی یہ زمین زرعی تو نہ تھی لیکن سرخ پھولوں والے پودے جن پر ترش پھل لگتا ہے اور پتے ان کے کاسنی ہوتے ہیں بکثرت اگتے تھے . (صفحہ 229 جلد 7 معجم البلدان)
کربلا کی زمین جو طف کی زمین میں شامل تھی اور عربی اشعار میں کربلا کی بجاے طف کا نام ہی آیا ہے .شیعہ مورخ عمدہ الطالب فی النساب آل ابی طالب صفحہ 20 پر لکھتے ہیں کہ عون اور محمّد الاصغر اپنے چچا زاد بھائی حسین کے ساتھ طف کی لڑائی میں قتل ہوے .
فرزندان علی کی تعداد کا ذکر کرتے ہوے کہ ان کے 19 بیٹے تھے جن میں سے چند ان کی حیات میں فوت ہو گئے باقی 13 میں سے 6 طف کے مقام پر قتل ہوئے (صفحہ 25 )
عباس بن علی کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں اور عباس طف کے مقام پر شہید ہوئے . (صفحہ 45 )
علامہ ابن حزم محمّد بن عبدللہ بن جعفر کے تذکرہ میں لکھتے ہیں . مقام طف پر قتل ہوئے . (صفحہ 61 جمرہ الانساب)
علامہ ابن کثیر لکھتے ہیں کہ حسین کا قتل الطف کے مقام پر ہوا جسے کربلا کہتے ہیں- (صفحہ 198 جلد 8 البدایه )
الغرض کربلا ارض طف میں واقعہ تھا اور یہ عراق کی سر سبز و شاداب زمین کے ساتھ اور اس سے قدرے بلند زمین تھی.
مجم البلدان کے مصنف لکھتے ہیں کہ
" اور طف ،کوفہ کے پاس کی وہ میدانی زمین ہے جو صحراۓ شام کے راستے میں آتی ہے جہاں حسین بن علی مقتول ہوئے تھے اور یہ زمین سر سبز و شاداب اور زرخیز صحرائی زمین ہے جس میں متعد پانی کے چشمے بہتے ہیں.جن میں الصید ، القتقتانہ ، و ہمیہ چشمہ جمل اور اس جیسےاور کئی چشمے بہتے ہیں. (صفحہ 51 جلد 6 معجم البلدان یاقوت حموی مطبوعہ لزپرک 1867 )
اس ارض الطف کے ساتھ ساتھ ایران کے شہنشاہ شاپور نے ایک طویل عریض خندق اس غرض سے کھدوائی تھی کہ اہل عرب ان چشموں کو اپنے کام میں نہ لا سکیں ارض الطف میں ایسے بھی چشمے تھے جہاں مچھلیاں بکثرت تھیں اور یہاں مچھلی کا شکار بہت ہوتا تھا اس وجہ سے اس چشمے کا نام ہی عین الصید پڑھ گیا تھا .(صفحہ 51 معجم البلدان.)
یہ علاقہ دریاۓ فرات کی ساحلی زمین پر واقعہ تھا اور یہ زمین نرم اور ملائم تھی .کربلا کی زمین چونکہ نرم اور ملائم تھی اس لئے اسکا نام کربلا موسوم ہوا ،(صفحہ 229 معجم البلدان جلد 7 .)
جیسے پہلے عرض کیا جا چکا ہے کہ عمدۃ الطالب کے شیعہ مورخ نے اس بات کا بھی صاف الفاظ میں اظہار کیا ہے کہ حضرت حسین کو گھیر کر اس جگہ نہیں لایا گیا تھا بلکہ راستے میں جب ان کو اطلاع ملی کہ اب کوفہ میں ان کا کوئی ہمدرد اور مدد گار نہیں رہا اور ہانی بن عروه بھی بغاوت پھیلانے کے جرم میں قتل ہو چکے ہیں تو حسین نے اپنے موقف سے رجوع کر کے طے کر لیا کہ کوفہ کی بجائے سیدھے دمشق میں امیر المومنین یزید بن معاویہ کے پاس چلے جائیں . (صفحہ 179 عمدۃ الطالب)
اور وہ ملک شام کی طرف مڑ گئے یزید بن معاویہ کے پاس جانے کے لئے ، اور قادسیہ و کوفہ سے شام دمشق کا راستہ کربلا سے ہو کر جاتا ہے یہی شیعہ مورخ لکھتے ہیں
"جب حسین کو گورنر کوفہ کا حکم ماننے کے لئے کہا گیا تو انہوں نے منع کیا اور یزید کے پاس چلے جانا پسند کیا " (صفحہ 179 )
اب دیکھئے اس بات کو ابو محنف نے کس انداز میں پیش کیا اور کیسا مسخ شدہ واقعہ بیان کیا.کہتے ہیں کہ
" حسین اس مقام پر پہنچے تو ان کا گھوڑا یہاں رک گیا وہ اس پر سے اترے اور دوسرے گھوڑے پر چڑھے - مگر اس نے بھی ایک قدم نہ اٹھایا پھر تیسرے پر چڑھے وہ بھی نہ چلا اس طرح برابر سات گھوڑے بدلے مگر ان سب کا یہی حال ہوا کوئی بھی آگے کو نہ چلا یہ حال دیکھ کر آپ نے لوگوں سے پوچھا کہ اس مقام کا نام کیا ہے ؟
تو لوگوں نے کہا غاضریہ
تو پوچھا اس نام کے علاوہ بھی کوئی نام ہے ؟
تو کہا نینوا !
تو پوچھا اس نام کے علاوہ کوئی اور نام "
تو کہا شاطی الفرات !
تو پوچھا اس نام کے علاوہ کوئی اور نام ؟
تو کہا کربلا !
یہ سن کر آپ نے ایک آہ سرد کھینچی اور فرمایا کہ
" زمین "کرب و بلا" اب یہیں اتر پڑو!
یہی مقام ہمارے سفر کی انتہا ہے !
یہیں ہمارا خون بہے گا !
یہیں ہماری عزت و حرمت لٹے گی !
واللہ یہیں ہمارے مرد قتل کئے جائیں گے!
یہیں ہمارے بچے ذبح ہوں گے !
یہیں ہماری قبروں کی زیارت کو لوگ آئیں گے!
میرے نانا نے اسی تربت کا وعدہ کیا تھا !
آپ (نانا) کا قول غلط نہیں ہو سکتا.(صفحہ 49 مقتل ابی محنف)
کربلا سے " کرب و بلا " گھڑ کر غیب دانی کی صفت جو سوائے خدا بزرگ بر تر کے کسی نبی اور رسول کو بھی حاصل نہ ہوئی کس طرح حضرت حسین سے منسوب کی.
عربی زبان کے یہ دو لفظ کربل اور کربلَة معنی اور تلفظ کے لحاظ سے تقریبا یکساں ہیں یاقوت حموی لکھتے ہیں .
"کربلآ جو مد کے ساتھ لکھا جاتا ہے اسی کا جڑواں کربلہ ہے " . (صفحہ 229 جلد 7 معجم البلدان )
پہلے عرض کیا جا چکا ہے کہ ارض طف کے میدانوں کی مضافاتی زمین کربلا کہلاتی تھی جو نرم ملائم زمین تھی اور غلہ پچھوڑنے کے کام آتی تھی اور اسی بنا پر کربلا کہلاتی تھی .
عربی میں فصل کو خاص کر گندم کی فصل کو پچھوڑنے یعنی بھوسہ اڑا کر صاف کرنے کو کربل کہتے ہیں اور جو مٹی ملے پانی میں (کیچڑ) مشکل سے چل کر آیا ہو اسے مکربلا کہتے ہیں.(صفحہ 720 المنجد طبع بیروت )
گندم کی طرح جب غلہ صاف کرتے ہیں تو کہتے ہیں (کربلت الحنت طہ )اور کربل نام ہے الخماس کی طرح کے پودوں کا اور یہ قسم یہاں بکثرت اگتی تھی یہ زمین زرعی تو نہ تھی لیکن سرخ پھولوں والے پودے جن پر ترش پھل لگتا ہے اور پتے ان کے کاسنی ہوتے ہیں بکثرت اگتے تھے . (صفحہ 229 جلد 7 معجم البلدان)
کربلا کی زمین جو طف کی زمین میں شامل تھی اور عربی اشعار میں کربلا کی بجاے طف کا نام ہی آیا ہے .شیعہ مورخ عمدہ الطالب فی النساب آل ابی طالب صفحہ 20 پر لکھتے ہیں کہ عون اور محمّد الاصغر اپنے چچا زاد بھائی حسین کے ساتھ طف کی لڑائی میں قتل ہوے .
فرزندان علی کی تعداد کا ذکر کرتے ہوے کہ ان کے 19 بیٹے تھے جن میں سے چند ان کی حیات میں فوت ہو گئے باقی 13 میں سے 6 طف کے مقام پر قتل ہوئے (صفحہ 25 )
عباس بن علی کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں اور عباس طف کے مقام پر شہید ہوئے . (صفحہ 45 )
علامہ ابن حزم محمّد بن عبدللہ بن جعفر کے تذکرہ میں لکھتے ہیں . مقام طف پر قتل ہوئے . (صفحہ 61 جمرہ الانساب)
علامہ ابن کثیر لکھتے ہیں کہ حسین کا قتل الطف کے مقام پر ہوا جسے کربلا کہتے ہیں- (صفحہ 198 جلد 8 البدایه )
الغرض کربلا ارض طف میں واقعہ تھا اور یہ عراق کی سر سبز و شاداب زمین کے ساتھ اور اس سے قدرے بلند زمین تھی.
مجم البلدان کے مصنف لکھتے ہیں کہ
" اور طف ،کوفہ کے پاس کی وہ میدانی زمین ہے جو صحراۓ شام کے راستے میں آتی ہے جہاں حسین بن علی مقتول ہوئے تھے اور یہ زمین سر سبز و شاداب اور زرخیز صحرائی زمین ہے جس میں متعد پانی کے چشمے بہتے ہیں.جن میں الصید ، القتقتانہ ، و ہمیہ چشمہ جمل اور اس جیسےاور کئی چشمے بہتے ہیں. (صفحہ 51 جلد 6 معجم البلدان یاقوت حموی مطبوعہ لزپرک 1867 )
اس ارض الطف کے ساتھ ساتھ ایران کے شہنشاہ شاپور نے ایک طویل عریض خندق اس غرض سے کھدوائی تھی کہ اہل عرب ان چشموں کو اپنے کام میں نہ لا سکیں ارض الطف میں ایسے بھی چشمے تھے جہاں مچھلیاں بکثرت تھیں اور یہاں مچھلی کا شکار بہت ہوتا تھا اس وجہ سے اس چشمے کا نام ہی عین الصید پڑھ گیا تھا .(صفحہ 51 معجم البلدان.)
یہ علاقہ دریاۓ فرات کی ساحلی زمین پر واقعہ تھا اور یہ زمین نرم اور ملائم تھی .کربلا کی زمین چونکہ نرم اور ملائم تھی اس لئے اسکا نام کربلا موسوم ہوا ،(صفحہ 229 معجم البلدان جلد 7 .)
جیسے پہلے عرض کیا جا چکا ہے کہ عمدۃ الطالب کے شیعہ مورخ نے اس بات کا بھی صاف الفاظ میں اظہار کیا ہے کہ حضرت حسین کو گھیر کر اس جگہ نہیں لایا گیا تھا بلکہ راستے میں جب ان کو اطلاع ملی کہ اب کوفہ میں ان کا کوئی ہمدرد اور مدد گار نہیں رہا اور ہانی بن عروه بھی بغاوت پھیلانے کے جرم میں قتل ہو چکے ہیں تو حسین نے اپنے موقف سے رجوع کر کے طے کر لیا کہ کوفہ کی بجائے سیدھے دمشق میں امیر المومنین یزید بن معاویہ کے پاس چلے جائیں . (صفحہ 179 عمدۃ الطالب)
اور وہ ملک شام کی طرف مڑ گئے یزید بن معاویہ کے پاس جانے کے لئے ، اور قادسیہ و کوفہ سے شام دمشق کا راستہ کربلا سے ہو کر جاتا ہے یہی شیعہ مورخ لکھتے ہیں
"جب حسین کو گورنر کوفہ کا حکم ماننے کے لئے کہا گیا تو انہوں نے منع کیا اور یزید کے پاس چلے جانا پسند کیا " (صفحہ 179 )
اب دیکھئے اس بات کو ابو محنف نے کس انداز میں پیش کیا اور کیسا مسخ شدہ واقعہ بیان کیا.کہتے ہیں کہ
" حسین اس مقام پر پہنچے تو ان کا گھوڑا یہاں رک گیا وہ اس پر سے اترے اور دوسرے گھوڑے پر چڑھے - مگر اس نے بھی ایک قدم نہ اٹھایا پھر تیسرے پر چڑھے وہ بھی نہ چلا اس طرح برابر سات گھوڑے بدلے مگر ان سب کا یہی حال ہوا کوئی بھی آگے کو نہ چلا یہ حال دیکھ کر آپ نے لوگوں سے پوچھا کہ اس مقام کا نام کیا ہے ؟
تو لوگوں نے کہا غاضریہ
تو پوچھا اس نام کے علاوہ بھی کوئی نام ہے ؟
تو کہا نینوا !
تو پوچھا اس نام کے علاوہ کوئی اور نام "
تو کہا شاطی الفرات !
تو پوچھا اس نام کے علاوہ کوئی اور نام ؟
تو کہا کربلا !
یہ سن کر آپ نے ایک آہ سرد کھینچی اور فرمایا کہ
" زمین "کرب و بلا" اب یہیں اتر پڑو!
یہی مقام ہمارے سفر کی انتہا ہے !
یہیں ہمارا خون بہے گا !
یہیں ہماری عزت و حرمت لٹے گی !
واللہ یہیں ہمارے مرد قتل کئے جائیں گے!
یہیں ہمارے بچے ذبح ہوں گے !
یہیں ہماری قبروں کی زیارت کو لوگ آئیں گے!
میرے نانا نے اسی تربت کا وعدہ کیا تھا !
آپ (نانا) کا قول غلط نہیں ہو سکتا.(صفحہ 49 مقتل ابی محنف)
کربلا سے " کرب و بلا " گھڑ کر غیب دانی کی صفت جو سوائے خدا بزرگ بر تر کے کسی نبی اور رسول کو بھی حاصل نہ ہوئی کس طرح حضرت حسین سے منسوب کی.
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں