Pages

میرے چاروں طرف افق ہے جو ایک پردہء سیمیں کی طرح فضائے بسیط میں پھیلا ہوا ہے،واقعات مستقبل کے افق سے نمودار ہو کر ماضی کے افق میں چلے جاتے ہیں،لیکن گم نہیں ہوتے،موقع محل،اسے واپس تحت الشعور سے شعور میں لے آتا ہے، شعور انسانی افق ہے،جس سے جھانک کر وہ مستقبل کےآئینہ ادراک میں دیکھتا ہے ۔
دوستو ! اُفق کے پار سب دیکھتے ہیں ۔ لیکن توجہ نہیں دیتے۔ آپ کی توجہ مبذول کروانے کے لئے "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ پوسٹ ہونے کے بعد یہ آپ کے ہوئے ، آپ انہیں کہیں بھی کاپی پیسٹ کر سکتے ہیں ، کسی اجازت کی ضرورت نہیں !( مہاجرزادہ)

بدھ، 6 اپریل، 2022

پاکستان میں ریبٹ میٹ مارکیٹنگ۔

بوڑھے کو جانور اور پرندے پالنے کا شوق ہے اور یہی شوق اُس کے بچوں کو بھی تھا ۔جو اسلام آباد شفٹ ہونے کے بعد ، ختم کردیا ۔ 

  بچوں کے بچوں کی خواہش پر، چوزے ، مرغیاں  ، دیسی ، ولائیتی ، فینسی ، اصیل  ، طوطے ، کبوتر ، غمرے ، بٹیر ،تیتر  ،  پرندے ،  بلیاں ، کتے  اور  خرگوش   ، سب پالنے لگا ، یہ شوق دوبارہ کراچی کمپنی سے  چم چم کے لئے ، رنگ برنگے  چوزے، چنّو اور منّو ،  خریدنے سے  دوبارہ شروع  ہو ا-

امپورٹڈ  خرگوشوں کے سلسلے میں میرا پہلا رابطہ ،ایک وٹس ایپ فورم JOBS,BUSINESS, INCENTIVE  سے شروع ہوا ، جس کے ایک ویٹرن  ممبر راؤ جعفر اقبال   نے مجھے  پاکستان ایسوسی ایشن آف ریبٹ انڈسٹری (PARI)میں شامل کرکے کیا۔ وٹس ایپ پر ممبروں کی باتیں ، خرگوش کہانیاں ، قصے ،جھگڑے ، تصاویر نے بوڑھے کو بہت محظوظ کیا اور معلومات دیں ۔ 

راؤ جعفر صاحب نے ، اپنے رانگڑوں کی ایک تنظیم  کی داغ بیل ڈالنے کی کوشش کی ، جس میں خرگوش  کے گوشت کی اہمیت اور ایکسپورٹ کے لئے کاوش کے لئے پرائیوٹ  لمیٹڈ کمپنی کی شروعات کے لئے ، خرگوش پال شوقین کو اکھٹا اور ایک پلیٹ فارم پرلانے کی کوشش شروع کیں ، اپنا پلان بتایا ۔ بوڑھا جہاں پسند آجاتا ، اپنا لائیک کا حصہ ضرور ڈالتا ۔ کئی ممبروں نے معلومات کے   غیرملکی  ، فارمرز کی وڈیوز ڈالیں ، بوڑھے نے خوب انجوائے کیا ۔ 

جیسے  پہلے لکھا ہے   ۔ کہ بوڑھا بھی خرگوشوں کا شوقین ، بوڑھے سے ملنے کے لئے آنے والے مہمان ، ہرے بھرے لان میں ، پول چیئرز پر بیٹھ کر اپنے ارد گرد ، سفید رؤئی کے گالوں کو لڑھکتے اور پھدکتے دیکھتے ، بوڑھے کا اُن کو اپنے ہاتھ سے مساج کرانے اور  ، خوراک کھلانے  کی وڈیو بناتے ، اپنے بچوں  کو بھجواتے  اور انجوائے کرتے-

بوڑھے کےعلم میں اضافہ ہوا   کہ پاکستان میں امپورٹڈ خرگوشوں کے فارم گھر گھر بن رہے ہیں ، جو پاکستان کے بڑے فارمرز کے زیر سایہ پھل پھول رہے ہیں ۔ جو مبارکباد کے مستحق ہیں کہ وہ اس انڈسٹری کو فروغ دے رہے ۔ 
  اپنی  پروڈکشن ھب بڑھانے کے لئے ،بڑے فارمرز چھوٹے فارمرز کو خرگوش ایک نر اور تین یا زیادہ مادہ مختلف قیمتوں بیچتے ہیں ، نئے فارمرز کے ساتھ یہ ایگریمنٹ کرتے ہیں کہ وہ جب یہ مادائیں بچے دیں گی۔ تو وہ نر بچے  اِن ہی کو بیچیں گے اور مادائیں اپنے پاس رکھیں تاکہ اُن کے فارم کی  قوتِ افزائش بڑھے ۔اور وہ معاشی لحاظ سے  بہتر سے بہتر ہوتے جائیں ، کیوں کہ ایک مادہ ایک جھول میں  تین سے نو بچے دیتی ہے اور بچوں کی پیدائش کے بعد دوبارہ حاملہ ہو جاتی ہے ۔یوں پورے سال میں  ایک مادہ سے کم از کم 12 اور  کاغذی پلاننگ کے مطابق ، زیادہ سے زیادہ 36 بچے حاصل کئے جا سکتے ہیں ۔ 
اُن کی مارکیٹنگ چال نے نے کئی کولمبس جنم دیئے۔ جو کروڑ پتی تو نہیں لکھ پتی  بننے کے چکر  ، اِن فارمز کے گرداب میں پھنس گئے ، ایسا ہی ایک کیس ، " پری " کے پاس آیا جس میں ایک بڑے فارمر داتا ریبٹ اور حمزہ رندھاوا کا تھا ۔ بوڑھے کو راؤ صاحب نے " جسٹس آف پیس " وٹس ایپ گروپ میں ڈال دیا ۔ حمزہ رندھاوہ نے بوڑھے کی ڈیمانڈ پر ایگریمنٹ بھجوایا ۔ 
بوڑھے کا اصول ہے کہ جب بھی کسی مسئلے کو سمجھنا ہو ، تو زیرو پوائینٹ سے شروع کرو، جو آپس میں لین دین (بزنس )کے معاملے میں ایگریمنٹ ہی ہوتا  ہے ۔ ہم مسلمان ہیں ، لہذا ہمارے  لئے ، رحمت للعالمین کے تلاوت کردہ  الفاظ کی اہمیت ہے ۔ اور ہم ہی ایگریمنٹ میں ایسا جھول ڈالتے ہیں ، جس سے  مُحَمَّدٌ  رَّسُولَ اللَّهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ   نے منع  (البقرہ 282) کیا کیاہے ۔
تواُفق کے پار بسنے والے میرے خرگوش پال دوستو ۔ آئیں ہم اب دریا کی مضالف سمت تیرتے ہیں اگر آپ میں ہمت ہے اور وہ یہ کہ میں ،  6 مہینے تک خرگوش پال کر ، خرگوشت مافیا کو کیوں بیچوں ۔ یاد رکھیں کوئی غیر ملکی آپ کے خرگوش کا گوشت آپ سے نہیں لے گا ۔
آپ کو اپنی محنت چند ٹکوں کی خاطر ، ایکسپورٹر مافیا کو دے کراِن کو ہزاروں  روپے کا فائدہ پہنچاتے ہیں ۔
 کیوں نہ اپنے ،رشتہ داروں ، عزیزوں ،  دوستوں اور اُن لوگوں کو خرگوش کا گوشت کھلاؤں جو مہنگا بکرے کا گوشت نہیں کھا سکتے ، سفید گوشت یعنی مرغی  اور مچھلی  کھانے کی ہمت نہیں ۔

تو آئیں: کیوں نہ  ایک بار پاکستانی میں خرگوش   کے گوشت کی کھپت میں اضافے کے لئے  ، عوام میں کچن گارڈن کی طرح مقبول کرانے کے لئے   کیوں نہ ایسا پروگرام بنایا جائے ، جو مقامی خرگوش کے گوشت کے گھریلو استعمال  کو فروغ دیا جائے ۔

٭٭٭٭٭٭٭جاری ٭٭٭٭٭٭

  مزید مضامین

 فہرست ۔ خرگوشیات  

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

خیال رہے کہ "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ !

افق کے پار
دیکھنے والوں کو اگر میرا یہ مضمون پسند آئے تو دوستوں کو بھی بتائیے ۔ آپ اِسے کہیں بھی کاپی اور پیسٹ کر سکتے ہیں ۔ ۔ اگر آپ کو شوق ہے کہ زیادہ لوگ آپ کو پڑھیں تو اپنا بلاگ بنائیں ۔