Pages

میرے چاروں طرف افق ہے جو ایک پردہء سیمیں کی طرح فضائے بسیط میں پھیلا ہوا ہے،واقعات مستقبل کے افق سے نمودار ہو کر ماضی کے افق میں چلے جاتے ہیں،لیکن گم نہیں ہوتے،موقع محل،اسے واپس تحت الشعور سے شعور میں لے آتا ہے، شعور انسانی افق ہے،جس سے جھانک کر وہ مستقبل کےآئینہ ادراک میں دیکھتا ہے ۔
دوستو ! اُفق کے پار سب دیکھتے ہیں ۔ لیکن توجہ نہیں دیتے۔ آپ کی توجہ مبذول کروانے کے لئے "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ پوسٹ ہونے کے بعد یہ آپ کے ہوئے ، آپ انہیں کہیں بھی کاپی پیسٹ کر سکتے ہیں ، کسی اجازت کی ضرورت نہیں !( مہاجرزادہ)

جمعہ، 1 اپریل، 2022

کمیشن کا نوجوان امیدوار اور بوڑھی کتھا

جنٹلمین کیڈٹ ۔ محمد نعیم الدین خالد ۔ فرسٹ ٹرم اور رنگ زیب کمپنی پاکستان ملٹری اکیڈمی کاکول ایبٹ آباد ۔
معلوم نہیں کہ ماضی  کے  بعیدی  واقعات  کیوں چشمِ زدن میں   دماغ کی اتھاہ گہرائیوں کسی ڈولفن مچھلی کی طرح  اُفق کے پردے پر پوری جزئیات سے  نمودار ہوتے ہیں ۔
سر میں نے ریکروٹنگ آفس جانا ہے تاکہ 150 لانگ کورس کے بارے معلومات حاصل کرو ں۔
"واہ زبردست"   بوڑھا بولا ، شاندار آئیڈیا   ۔ ضرور کوشش کرو ۔ نوجوان حافظ حمزہ ریاض کو بوڑھے نے تھپکی دی ۔ کوئی مدد چاھئیے تو ضرور بتانا ۔  ابھی تھوڑی دیر پہلے حمزہ نمل یونیورسٹی سے لینگوئج کورس کی کلاس اٹینڈ کرکے آیا ۔حافظ حمزہ ریاض بوڑھے کی پوتی  برفی کو سپارہ پڑھاتا  ہے ، آج جمعہ کی چھٹی تھی   تو بوڑھے نے اُسے ، فوج میں کمیشن لینے کے گُُر پڑھا دیئے  اور بوڑھا اُس کے جانے کے بعد ،  اپنے ماضی میں گم ہوگیا ۔    بوڑھی داستان جوان ہو کر سامنے آگئی  ۔
 یہ  1974 اپریل کی ہی  بات ہے کہ تحریری  امتحان  کے  ڈیڑھ ماہ بعد ہمیں یہ مژدہ پڑھنے کو ملا کہ۔ میڈیکل بورڈ کے سامنے سی ایم ایچ ملیر کینٹ میں پیش ہوں۔ اِس کا مطلب تھا کہ ہم تحریری امتحان میں پاس ہوگئے ہیں۔
 بس کیا تھا ہم تیسرے مرحلے کے لئے تیار ہونا شروع ہوئے۔ ارسطو اور افلاطون نے ہمیں ایک کام کی بات بتائی کہ،
 ”کھانسنے کے بعد ڈاکٹر یک دم  امیدوار کا پیٹ پکڑ کر زور سے دباتا ہے اور اُس کے بعد ٹونٹی لگا کر دل کی دھڑکنیں گنتا ہے۔ بس وہاں تیار رہنا  وہ سب سے خوفناک مرحلہ ہوتا ہے“
 ہم میڈیکل کے لئے پہنچے وہاں بھانت بھانت کے لوگ آئے تھے۔ 
ہم  میڈیکل میں کامیاب ہوگئےاور آئی ایس ایس بی ،کے آخری مرحلے کی تیاری میں مصروف ہونا پڑا ۔  تیاری کیا تھی بس اپنی انگریزی کو انگلش میں تبدیل کرنا تھا۔ 
افلاطون نے کہا ،" انگلش فلمیں دیکھو ، انگلش "
ارسطو نے کہا ، "ابے ، اُس  کی انگلش ٹھیک کروانے کا بول کردار خراب  کروانے کا نہیں "  

پھر ارسطو نے ہمیں اپنے گھر سے ، آئی ایس ایس بی کی تیاری کی کتابیں لا کر دیں ۔   جو بقول اُس کے نئی نکور تھیں ۔ کیوں کہ اُس نے اُنہیں چُھوا تک نہیں ۔ہمارے پاس بھی وہ تقریباً نئی نکور ہی رہیں ۔

 ستمبر  1974 کے آخری دن ہمیں لیٹر ملا کہ 27 اکتوبر سے 31 اکتوبر کے درمیان   ، ہمیں کوہاٹ میں انٹر سروسز سلیکشن بورڈ کر روبرو پیش ہونا ہے ۔
 لہذا  ہم 27 اکتوبر 1974 کے دن 1500 بجے سے پہلے پہلے ، ڈپٹی اسسٹنٹ  ایڈجوٹنٹ جنرل کے پاس رپورٹ کریں ۔
    ریل سے راولپنڈی کا  عوامی میل میں سفر  ، دو دن چچا کے ہاں قیام اور پھر وہاں سے   بس  اڈے پر پہنچے جہاں ، سے آدھی بس  " فیوچر کمیشنڈ آفیسراں " کی تھی ، بس میں نوجوانوں کی موجودگی کے باوجود پراسرار ، خاموشی چھائی ہوئی تھی ۔ جن کے جلو میں  کوہاٹ  پہنچے۔
  " فیوچر کمیشنڈ آفیسراں " کا یہ قافلہ ،  بس اڈے پر آئی  ہوئی ،ایس ایس بی کی بس میں بیٹھ کر ، منزلِ مقصود  پہنچا ، جہاں اپنے کاغذات دیئے ، ایک چٹ دی جس میں کمرے کا نمبر اور چیسٹ نمبر لکھا تھا ، ویٹرز نے سامان اٹھایا ، کمرے میں پہنچے ، خودکو تازہ دم کیا اور میس پہنچ گئے۔ جہاں ہمیں بریفنگ دی گئی اور فارم بھروائے گئے اور اگلے دن ہمیں ٹیسٹوں کے رولر میں سے گذارا جانے لگا اور یوں چوتھا دن آگیا۔ گو کہ ہمیں تقریباً   آئی ایس ایس بی  کی کٹھالی سے گذرے نصف صدی گذر گئی  لیکن کل کا واقعہ لگتا ہے ۔تین دن آئی ایس ایس بی میں گذار کر  چوتھے دن   ہمیں  دن ہمیں نامہ اعمال ملنا تھا۔ سب ایک دوسرے سے اپنی پرفارمنس کے بارے میں پوچھ رہے تھے۔  اپنی پرفارمنس کے بارے میں ہر امید وار ، پُر امید تھا۔کہ وہ یقیناً منتخب ہوجائے گا ۔
سوائے ہمارے  ،وہ یوں کہ جب ڈپٹی  پریذیڈنٹ نے اپنے انٹرویو میں پوچھا،
”اخبار پڑھتے ہو؟“
 ہم نے جواب دیا،”نہیں“ ۔ 
”کیوں؟“ اُنہوں نے پوچھا۔
”سر ! میں  بی اے فائینل ائر کے امتحان دے رہا ہوں، وقت نہیں ملتا“  ہم نے جواب دیا۔
”آج اینٹی روم میں اخبار تو دیکھا ہوگا؟“ سوال ہوا۔
”جی سر!“  ہم نے جواب دیا۔
”اُس میں سے کیا پڑھا؟“ انہوں نے پھر پوچھا۔
 ”سر جو صفحہ میرے ہاتھ آیا اُس میں سے صرف ٹارزن کی کہانی پڑی“  ہم نے جواب دیا۔
 ”ہوں ں ں ں،" ایک لمبا ہنکارا  بھر کر پوچھا ،
"  کیا تھا اُس میں؟“
ہم  وہ قسط سنا دی جو اخبار میں تھی۔
”تمھیں ٹارزن کی کیا بات پسند ہے؟“ پھر سوال ہوا  ۔ 
”سر، ٹارزن مضبوط کردار کا ایک ہمدرد انسان ہے جو مصیبت میں گھرے لوگوں کی مدد کرتا ہے“۔ہم نے جواب دیا ۔ 
اُنہوں نے میری آنکھوں میں دیکھتے ہوئے،  مسکرا کر پوچھا،
”اور اُس کی بیوی جین تمھیں کیسی لگتی ہے؟“۔
 ”سرو ہ بھی ٹارزن کی طرح ایک بہادر اور ہمدرد عورت ہے“ ہم نے جواب دیا ۔ 
”اچھا اگر تم نہ سلیکٹ ہوئے تو آئیندہ کیا کروگے؟“  انہوں نے پوچھا۔ دل میں سوچا سر غلیل تو ہر حالت میں بنانی ہے ۔ خوا ہ سائیکل کی ٹیوب سے بنے یا  ۔ ۔ ۔ ۔  !
 ”سر میں اکنامکس میں ماسٹر کرنے کے بعد ایجوکیشن کور کے لئے ایپلائی کروں گا“ میں نے جواب دیا۔ 
”گڈ ٹھیک ہے۔ ایجو کیشن آفیسر، تم جاسکتے ہو، وش یو گڈ لک“  انہوں نے مستقبل بعید کی امید دلائی ۔
یوں  آفس سے کشتیاں جلا کر باہر نکل آیا۔ سب اینٹی روم میں بیٹھے ہوئے ، ایک بجے کھانا کھایا ، کھانے کے بعد میس کے سامنے  جمع ہونے  کا حکم ملا ،  تھوڑی دیر بعد ایک سٹاف آیا اور بولا،
”جن صاحب کے میں نام پکاروں وہ سب پریزیڈنٹ صاحب کے انٹرویو کے لئے رک جائیں گے اور باقی تمام صاحب ،اپنی کلیرینس کروا کر گھر جائیں۔ لیٹر اُن کے گھر آجائیں گے"۔
 کوئی پندرہ امیدواروں کے نام پکارے گئے۔ اُن میں سے ایک ہمارا بھی تھا۔  وقار، ذوالفقار، فاروق،طغرل،   وغیرہ کے نام یاد   ہیں ۔ کیوں کہ ہم سب ساتھ پی ایم اے  گئے تھے۔
 ہم سب کو سلیکشن کا مژدہ سنایا گیا اور کچھ فارم بھروائے گئے اورعصر کے بعد   " فیوچر کمیشنڈ آفیسراں " نے  آئی ایس ایس بی سے گھر اور پھر اکیڈمی جانے  کے لئے خوشی خوشی  رختِ سفر باندھا۔
اِس خوشی کے عالم کا لمحہ، شگفتہ گوئی کے  جناب مرزا صاحب سے   پوچھا جاسکتا ہے ۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

خیال رہے کہ "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ !

افق کے پار
دیکھنے والوں کو اگر میرا یہ مضمون پسند آئے تو دوستوں کو بھی بتائیے ۔ آپ اِسے کہیں بھی کاپی اور پیسٹ کر سکتے ہیں ۔ ۔ اگر آپ کو شوق ہے کہ زیادہ لوگ آپ کو پڑھیں تو اپنا بلاگ بنائیں ۔