پچھلے مضمون میں ایک سوال پیدا ہوا ۔
کرہ ارض پر خرگوش کی ابتدا یعنی خرگوشوں کا جد امجد ، برفانی خرگوش تھا یا جنگلی خرگوش ؟
لیکن بوڑھے کو اتنا معلوم ہے کہ انسانی تہذیبوں میں خرگوش کی اہمیت رہی ہے ۔جیسے پانچ ہزار سال پرانی اور ترقی یافتہ دیوارِ چین بنانے والی چینی تہذیب نے خلائی مخلوق (آدم اور اُس کی زوج) کی خوبیوں(یانگ) اور خامیوں(ین)کو سال کے 12 مہینوں کی نسبت سے حیوانات سے موسوم کردیا ۔جس میں چوتھا سال خرگوش کا سال قرار پایا ۔
یوں انسان میں خرگوش کی انسانی خوبیوں اور خامیوں کی مشھابھات دیکھی جاسکتی ہیں لیکن جو اہمیت ہے وہ اِ ن کی نسل کی ہے جو کئی گروہوں میں جسمانی ساخت اور رنگت میں بٹ کر مخصوص علاقوں سے پہچانی جاتی ہیں ۔
تو سب سے پہلے بوڑھے کی پاس امپورٹڈ خرگوش (بَک اور ڈو ) کی 2018 میں فوتیدگی کے باعث ، اپنے بچوں کے بچوں کے کھلواڑ کے لئے ، مقامی بنیز خریدے ۔ 9 جنوری 2022 کو راؤ جعفر اقبال نے بوڑھے کو اپنے وٹس ایپ گروپ (PARI Organising Council )۔ یعنی پاکستان میں خرگوشوں کی فلاح و بہبود اور برائے انسانی خوراک کے لئے قائم کیا گیا ۔
بوڑھے کی گھٹی میں پڑا ہوا ھے ، کہ آئینِ نو سے کبھی نہ ڈرنا ۔ ورنہ منزل کٹھن ہوجائے گی ۔
لہذا ، اُفق کے پار بسنے والے میں پیارے دوستو ، بوڑھے نے ، موصول ہونے والی روازنہ کی بنیاد پر ، راؤ جعفر اقبال کے اُکسانے پر مقامی خرگوشوں سے بڑھ کر امپورٹڈ خرگوشوں کے سمندر میں کچھا پہن کر تجرباتی چھلانگ لگا دی ۔
یوں ، بوڑھے کی پاس امپورٹڈ خرگوش کی 2018 کے بعد پہنچنے والی ،
٭- 11 مارچ کو ، تین خرگوشی (بَک اور ڈو ) جوڑوں کی نیوزی لینڈ وھائٹ نسل ہے ۔ جن میں سے دو بَک اور ایک ڈو ، اپنے بے تحاشا اناج کھانے کی وجہ سے اپھارے کا شکار ہوکر، بوڑھے کی سرپرستی سے جدا ہوکر بوڑھے کے ہی گھر میں دفن ہوئے ۔
٭- 2 اپریل کو ، برفی کے کہنے پردو خرگوشی (بَک اور ڈو ) انگورا جائینٹ جوڑوں کا اضافہ ہوا ۔ جن میں سے، ایک ڈو ، اپنے بے تحاشا اناج کھانے کی وجہ سے اپھارے کا شکار ہوکر، بوڑھے کی سرپرستی سے جدا ہوکر بوڑھے کے ہی گھر میں دفن ہوئے ۔
٭- 2 اپریل کو ، دو خرگوشی (بَک اور ڈو ) جائینٹ فلیمش ٹیلی مینو اور سلور اضافہ ہوا ۔ ایک ڈو اور دو بَک ، اپنے بے تحاشا اناج کھانے کی وجہ سے اپھارے کا شکار ہوکر، بوڑھے کی سرپرستی سے جدا ہوکر بوڑھے کے ہی گھر میں دفن ہوئے ۔ علی رضا کو فون کیا تو اُس نے ، ایک اور خرگوش پال ریٹارڈ میجر ، جاوید اصغر کا موبائل نمبر دیا ، اُن سے رابطہ ہوا وہ اگلے دن بوڑھے کے گھر آگئے ، بوڑھے کے گھر میں قائم ادارہ پرورش جانور و پرنداں دیکھا ۔ خرگوشوں کو ڈالی جانے والی خوراک دیکھی، ونڈے کو مسترد کر دیا ۔ اور بوڑھے کو لے کر اپنے فارم ہاؤس پہنچے ، بوڑھا مرعوب ہوا ۔ یوں بوڑھے کے استادوں میں کئی استادوں کے ساتھ ، اِ ن کا سایہ بھی پڑنے لگا ۔ کیوں کہ جو خرگوشوں کی خوراک اِنہوں نے بتائی اور جو علی رضا نے بتائی ، اُن سے بنایا ہوا دلیہ بوڑھے اپنے ، پانچوں بچ جانے والے امپورٹڈ خرگوشوں کو دے رہا ہے ۔
بوڑھے نے پہلے اِن خرگوشوں کو علیحدہ اپارٹمنٹ میں رکھا ۔ پھر ایک کالونی پارک سسٹم تجرباتی طور پر بنایا ۔
سفید سفید خرگوشوں کی کالونی آباد ہوتے ہی بوڑھے کے سارے پرندے اور مقامی خرگوش ، اُن کے ارد گرد جمع ہوجاتے اور اُن کو دیکھتے ۔ جب مرغوں نے تمام حدود پار کرتے ہوئے کالونی میں اُن کی غذا پر ہاتھ مانے کی کوشش کی تو بوڑھے نے اُن کے اوپر ، بوریوں کا سائیبان بنا دیا ۔
بڑھیا نے کہا کہ اِنہیں کیوں قید کر رکھا ہے ، اِنہیں بھی آزاد پھرنے دیں ۔ لہذا اُنہیں بھی مقامی خرگوشوں کی طرح آزاد کردیا ۔
یہ بھی قلانچیں بھرتے ، موقع پا کر لان کی طرف نکل جاتے واپس دوڑایا جاتا ۔ بلی کی طرح ہر جگہ کو سونگھتے پھرتے ، مرغیوں کے دڑبے میں گھس جاتے ۔
بوڑھے کے مقامی خرگوشنی نے 4 بنیز دیئے ، برفی کی تو عید ہوگئی وہ چاروں کو اٹھائے پھرتی ، پھر ایک سے اُس کی دوستی ہو گئی ۔
بوڑے کا یہ تجرباتی پلان تھا کہ خرگوشوں کے گوشت کے بزنس کو کیسے پھیلایا جائے کہ پاکستان میں مقامی لوگ خرگوش کے گوشت کو کھانا شروع کردیں ۔ لیکن اِ سکے لئے پہلے مقامی خرگوش کے گوشت سے کی جائے ، اِس کے لئے بوڑھے نے ایک پلان بنایا۔کہ کیوں نہ مارکیٹ سے خرگوش کے تیس دن کے بچے خرید کر فی سبیل اللہ اُن کو دیئے جائیں، جو خرگوش کا گوشت کھاتے ہیں اور خرگوش کو کم از کم خرچ پر ، پال بھی سکیں ۔جب اُنہیں مہارت ہوجائے تو پھر بوڑھا اُنہیں اپنی تجربہ گاہ کے ۔ نیوزی لینڈ بنیز اُنہیں ، اپنی ریٹرن پالیسی کے مطابق دے۔
٭٭٭٭جاری ٭٭٭٭
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں