انسانی تہذیب جو صدیوں پرانی ہے ، جس کی ابتداء آسمان کی پنہائیوں سے الارض پر جنت سے بطور سزا اتارے گئے ، پہلے انسان آدم اور اُس کی ذریّت جس کے لئے الارض کو رَبِّ الْعَالَمِينَ نے ، انسان کے لئے الارض کوسکون کے لئے جنت اور تنبیہ کے لئے دوزخ کی متشابھات بنادیا۔
اور کتابِ فہرست رہائش برائے الارض اُسے تھما دی ۔
أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّهَ يَسْجُدُ لَهُ مَن فِي السَّمَاوَاتِ وَمَن فِي الْأَرْضِ وَالشَّمْسُ وَالْقَمَرُ وَالنُّجُومُ وَالْجِبَالُ وَالشَّجَرُ وَالدَّوَابُّ وَكَثِيرٌ مِّنَ النَّاسِ وَكَثِيرٌ حَقَّ عَلَيْهِ الْعَذَابُ وَمَن يُهِنِ اللَّهُ فَمَا لَهُ مِن مُّكْرِمٍ إِنَّ اللَّهَ يَفْعَلُ مَا يَشَاءُ [22:18]
وہ الارض پر اپنے ارددگرد پھیلی ہوئی کائینات کو دیکھتا،الدَّوَابُّ (حیوانات) پر نظر ڈالتا اور پھر اُس نے اُنہیں اپنی خوراک ، سواری شکار اور لطف کے لئے استعمال کرنا شروع کردیا ۔ رات کو کھلے آسمان کے نیچے لیٹے وہ جگمگاتےالنُّجُومُ (ستاروں) کو دیکھتا، اُن سے باتیں کرتا اور اُن سے مشھابھات تراشتا اورخواب میں یہ تمام ستارے مختلف تشبیھات بن کر اُسے مستقبل کی اچھی راہیں دکھاتے ۔ اور جرائم پر سرزنش کرتے ۔ یوں انسان کی ستارہ شناسی ( فلمی ستارے نہیں) کی خفتہ صلاحیتیں ذہن میں بیدار ہونا شرو ع ہوئیں ۔
اب یہ نہیں معلوم کہ پہلی انسانی تہذیب کون سی تھی؟ افریقی یا میسوپوٹمیائی !۔
لیکن اِس بوڑھے کے فہم کے مطابق ۔ آدم افریقی اور اُس کی زوج نیلی آنکھوں والی ہی تھی ۔جن کی نسل میں ، رنگت اور زُبان سے فرقے بنے اور جھگڑے پیدا ہونے کے ساتھ مختلف التشبیہ انسانی حیوانات وجود میں آنا شروع ہو گئے ۔ ( فہم کو مزید بہتر بنانے کے لئے پڑھیں۔ افریقہ کے ماضی بعید میں سفر )۔
بوڑھے کی بچپن سے حیوانات میں دلچسپی تھی ، اُنہیں پالنا بوڑھے کے کئی مشغلوں میں سے ایک تھا ۔ہر وہ حیوان جس کا بچہ بوڑھے کو ملتا بوڑھا اُسے گھر لے آتا اور بوڑھے کے بچے بھی اتنی ہی دلچسپی کے ساتھ ، اُس حیوان کی دیکھ بھال کرتے ۔ ریٹائرمنٹ کے بعدجب بچوں نے شادی کے بعد ،اپنے گھروں کی راہ دوسرے شہروں بغرض رزق و اسباب لی تو بوڑھے اور بڑھیا کا سفر چم چم کے دو چوزوں چنکو اور پنکو سے شروع ہوا۔اور چلتا ، رُکتا اور پھر چلتا چلتا، خرگوش بانی تک آپہنچا ۔ خرگوشوں سے بوڑھے کی دلچسپی، جنگلی خرگوشوں کے شکار اور اُنہیں کھانے تک تھی ۔ پالتو خرگوشوں کو نہ پالنے کی وجہ اُن کی حیرت انگیز بہبود آبادی کا ، سال میں فی خرگوشنی 50 سے 100 نو مولود تھا ۔ جس کی پرورش معاشی اور رہائشی اعتبار سے ممکن نہ تھی ۔
عدیس
ابابا سے واپسی کے بعد برفی کی فرمائش پر، برفی کے لئے روئی کے گالوں
کی طرح دو سرخ آنکھوں والے ، مقامی خرگوش کیا آئے گھر کے لان میں زندگی دوڑ
گئی ۔یوں خرگوش بانی کا جو باب ابھی بند تھا ،وہ کھل گیا ۔
اُفق کے پار بسنے والے دوست جانتے ہیں کہ خرگوش ستاروں کی دنیا کا باسی ہے ۔جسے رات کو کروٹیں بدلتے اور علم الآفاق کر غور و فکر کرنے والوں نے، آیات اللہ میں اپنی تشبہیات سے ڈھونڈھ نکالا ۔
کرہ ارض پر خرگوش کی ابتدا یعنی خرگوشوں کا جد امجد ، برفانی خرگوش تھا یا جنگلی خرگوش ؟
کیوں کہ اِس کا تعین اِس لیے ضروری ہے کہ بات ، زُبان نہیں بلکہ رنگت پر رُک جاتی ہے یعنی کالا خرگوش یا گورا خرگوش ، کالی ، بھوری ، سرخ آنکھوں والا یا نیلی آنکھوں والا خرگوش ۔
خرگوشوں کی راہ کھوجتے کھوجتے ایک نیک دل، خرگوش پال برادری کے دوست جناب راؤ جعفر اقبال کے وٹس ایپ گروپ میں پہنچ گیا ۔ بہت اچھی کاوش تھی ۔ خرگوشوں کی نئی نئی قسمیں جو پاکستان میں برائے خوراک (گوشت) ہیں اُن کے بارے معلوم ہوا ۔ یعنی تین سے پانچ کلو کے خرگوش ۔
گو کہ اِس نئے جانور نے ابھی تک اپنے "جد یعنی خر" کا ریکارڈ نہیں توڑا ، صرف کانوں کی لمبائی سے اپنی ذرّیت کو انسانوں میں مقبول کروادیا ۔لیکن کوششیں جاری ہیں ۔ خرگوشوں کی نہیں بلکہ انسانوں کی، کہ کیسے اُس کا وزن بڑھایا جائے ، پروٹین سے بھرپور غذا کھلا کر۔
بوڑھے نے بھی مرغیاں، بطخیں ، کبوتر ، طوطے ،مقامی خرگوش پالنے کے علاوہ ، جہازی سائز کے خرگوشوں کی دنیا میں قدم رکھ دیا ہے۔ اور ابتداء اِن کے بچوں سے کی ہے ۔ جو پہلی چار نیوزی لینڈ وھائیٹ ، خرگوش کے بچوں کی کھیپ بذریعہ کورئیر، 100 آسٹرو لارپ چوزوں کے ہری پور کے باشندے راشد افضال کے آن لائن فراڈ کے بعد منگوائی۔
وہ رائے ونڈ سے جناب امجد صاحب نے پہنچائی ۔جن میں سے ایک راستے میں دم توڑ گیا۔جو غالباً ناقص پیکنگ کا نتیجہ تھا۔
یہ نیوزی لینڈ وھائیٹ خرگوش ترکی سے ، براستہ انڈونیشیاء سے ٹیٹو شدہ پاکستان امپورٹ ہوئے ۔ نہایت صحت مند اور خوبصورت ، افسوس کے ساتھ بوڑھے کو خوشی بھی ہوئی کہ وہ امپورٹڈ خرگوش پال برادری میں شامل ہو چکا ہے ۔
دادا بابا ہمار گھر گریویارڈ (قبرستان) بن چکا ہے۔ برفی نے لقاء کبوتر کے دفن ہونے کے بعد کہا
کیوں کہ بوڑھا اپنے بچوں اور اب اُن کے بچوں کی فرمائش پر خریدے گئے ۔تمام پالتو مرنے والے پرندے و حیوانات باقائدہ تقریب کے ساتھ دفن ہیں ۔چنانچہ نیوزی لینڈر بنّی کو بھی دفن کر دیا گیا ۔
اب مسئلہ پیدا ہوا رہائش کا ۔ مقامی خرگوش تو عام فلیٹوں یعنی ریبٹ کوارٹرز میں رکھے ہوئے تھے
لہذا ، انہیں گیسٹ روم -1 اور 2 میں رہائش دی ۔کیوں کہ وہ ولایتی النسل تھے ، اِس کے باوجود کہ ایشیاء (ترکی) میں نیوزی لینڈ سے جبراً ھجرت کروا کر طفولیت سے بلوغیت تک پہنچا کر ، ایکسپورٹ کوالٹی بنا کر ، انڈونیشیا اور پاکستان پہنچا دیا ۔
دادا بابا ، یہ بنیز نہیں ، بگ ریبٹ ہیں ۔ برفی نے ریمارکس دیئے ۔
نہیں ، جان ، یہ ابھی گو گو گاگا ہیں۔ جب یہ بڑے ہوں گے تو آپ انہیں مشکل سے اٹھا سکو گی ۔ بوڑھےنے برفی کو ایک پکچر دکھائی۔
برفی پریشان ہوگئی کہ وہ اتنے بڑے ریبٹ کوکیسے اُٹھائے گی ۔ دادا بابا نے برفی کو کہا کہ وہ ایکسرسائز کرے تاکہ اُس میں پاور آجائے۔
امپورٹڈ خرگوشوں کے لئے یوزر فرینڈلی بنگلے بھی بنوانے تھے ۔ چنانچہ فوری بنیاد پر نئی تعمیر شروع کی ۔جس کے لئے مدد ، ریبٹ ایسوسی ایشن کےعامر اقبال نے مختلف ریبٹ بنگلوں کی تصاویر بھیجیں تنزانیہ کے ایک دوست نے بھی اپنے فارم کی وڈیوبھجوائی ۔ چنانچہ بوڑھے نے ، اپنے فہم کے مطابق دستیاب سامان، یعنی پڑتل کی لکڑی اور جالی سےخرگوشوں کی ھاؤسنگ سکیم کے لئے ،بنگلے بنائے ۔جن پر کل لاگت 2995 روپے آئی۔
جن میں نکاسی کا پورا انتظام کیا۔یوں ۔ Burfi Rabbitary ا کی ابتداء ہوگئی ۔
بوڑھے نے امپورٹڈ خرگوشوں کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے لئے گوگل آنٹی سے مدد لی ۔یوں وہ ایک وڈیو خرگوشوں کو گوشت کے لئے کیسے تیار کیا جائے پر پہنچا ، جہا ں ایک پیاری سی خاتون ۔ نیوزیلینڈ وھائیٹ کی پرورش کے بارے میں معلومات کا دریا بہا رہی تھی۔ یوں بوڑھا علمِ خرگوش پال کے متعلق باعلم ہوتا گیا ۔
٭٭٭٭جاری ٭٭٭٭
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں