Pages

میرے چاروں طرف افق ہے جو ایک پردہء سیمیں کی طرح فضائے بسیط میں پھیلا ہوا ہے،واقعات مستقبل کے افق سے نمودار ہو کر ماضی کے افق میں چلے جاتے ہیں،لیکن گم نہیں ہوتے،موقع محل،اسے واپس تحت الشعور سے شعور میں لے آتا ہے، شعور انسانی افق ہے،جس سے جھانک کر وہ مستقبل کےآئینہ ادراک میں دیکھتا ہے ۔
دوستو ! اُفق کے پار سب دیکھتے ہیں ۔ لیکن توجہ نہیں دیتے۔ آپ کی توجہ مبذول کروانے کے لئے "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ پوسٹ ہونے کے بعد یہ آپ کے ہوئے ، آپ انہیں کہیں بھی کاپی پیسٹ کر سکتے ہیں ، کسی اجازت کی ضرورت نہیں !( مہاجرزادہ)

بدھ، 9 دسمبر، 2020

یادیں - شاہین کرکٹ کلب جونیئر میرپورخاص

ستمبر میں ذاکر کا فون آیا ، نعیم بھائی  نومبر  کے آخری ہفتے میں بیٹے کی شادی ہے۔ سارے پرانے دوست آئیں گے ۔  ضرور آنا ۔
وعدہ ہو گیا ، راجہ امجد حسین سے بات ہوئی اُس نے بھی ساتھ جانے کی حامی بھری 
بڑھیا نے پوچھا ،" کہاں جارہے ہو ؟"
نومبر میں ذاکر کے بیٹے کی شادی ہے ، وہاں میرا اور امجد کا جانے کا پروگرام ہے ۔ " میں نے جواب دیا ۔
 ذاکر بھائی وہی ، جو رائے ونڈ سے اپنے سارے بچوں کے ساتھ آئے تھے ؟ بڑھیا نے پوچھا ۔
   ہاں وہی -" میں نے جوابدیا
  میں بھی چلوں گی - بڑھیا بولی 
  بہتر ہے ۔ بوڑھے نے جواب دیا
"  چار نومبر کو سلیم آزاد کا فون آیا ۔" سنا ہے تم میرپورخاص آرہے ہو ؟
 - ویسے کس نے بتائی  کمال ہے ، یہ خبر  بھی اخبار میں لگ گئی-  میں نے پوچھا
جس نے بتائی ، اُس سے بات کرو ۔ اور آزاد نے فون ذاکر کے ہاتھ میں تھما دیا ۔
" ہاں نعیم بھائی ، تیاری ہے ، ذاکر نے پوچھا -
ذاکر بھائی بالکل تیاری ہے ۔ کیا تاریخ رکھی ہے؟
۔ 28 نومبر ۔ تو پھر آؤ گے ؟
یار 7 نومبر رکھتے تو میں اور بڑھیا بھی آتے مگر اب امجد کے ساتھ آؤں گا ۔ میں نے کہا ۔
۔7 نومبر میں کیا خاص بات ہے ، بتاؤ تو وہ رکھ دیتے ہیں ۔ذاکر نے ہنستے ہوئے کہا
وہ میرے شادی کا دن ہے ، میں نے جواب دیا ۔ 
تو پہلے بتاتے ! ذاکر بولا ۔ 
امجد کو بتایا کہ ذاکر نے 28 نومبر بیٹے کی شادی رکھی ہے ، کیا پروگرام ہے ؟
امجد نے کہا کہ 5 نومبر کو اُس کے چھوٹے بیٹے کی شادی ہے ۔
یہ تو گڑ بڑ ہو گئی ، پلان میں یہ تو نہیں تھا ؟" میں نے کہا ، "میں اور بڑھیا جارہے ہیں اب جلدی واپس آناپڑے گا۔ 
تو میرپور خاص ، ہفتہ پہلے چلے جاؤ ۔ امجد بولا ۔
۔14 نومبر کو چم چم اور اُس کی ماما عدیس ابابا کے لئے روانہ ہو گئیں ۔ 
ہم دونوں نے 21 نومبر کوکراچی پہنچنا تھا ۔ بشیر بھائی کو بتا دیا تھا ، کہ اُن کے پاس 25 نومبر کو   حیدر آباد پہنچیں گے  اور وہاں سے میرپورخاص شادی پر جائیں گے ۔
پورا پروگرام فکس ہو گیا ۔کہ نومبر کےتیسرے ہفتے کے شروع میں کرونا کا غلغلہ مچ گیا ۔ اور اوپر تلے تین جاننےوالوں کی وفات ہوئی ، سی ایم ایچ کا کرونا وارڈ مکمل بھر گیا ، رفاع میڈیکل ہسپتال میں جہاں چھوٹی بہو ، ایم فِل کر رہی ہے وہاں سک کو حکم ملا کہ کرونا ٹیسٹ کروائیں ۔ جی ایچ کیو   میں بھی متاثرین کو کرونا ٹیسٹ کروانے کا حکم ملا ۔بڑی بیٹی جو عدیس ابابا میں یو این او میں ہے ، اُس نے حکم صادر کر دیا ، کہ ماما اور پپا ،آپ کو کراچی جانے کی ضرورت نہیں گھر پر رہیں ۔ چھوٹی بیٹی جو فوج میں میجر ہے ، اُس نے بھی گھیراؤ کردیا ، بوڑھا اور بڑھیا ، جولائی میں عدیس ابا باسے واپس آنے کے بعدمیجر بیٹے اورڈاکٹر بہو کے ساتھ رہ رہے تھے ۔ کہ اِس کرونائی ماحول میں گھر سے باہر نکلنے کی کیا ضرورت ۔ 
لہذا ، 23 نومبر کو ذاکر بھائی کو فون کیا ، مجبوری بتائی اور شادی پر نہ آنے کی معذرت کی ، اُس نے بھی بتایا کہ کرونا کی وجہ سے وہ بھی اپنے مہمانوں کی تعداد مختصر کر رہا ہے ۔
امجد کو فون کیا اور کرونا کی مجبوری بتائی ، یوں بوڑھا اور بڑھیا ایک بار پھر پنڈی میں محصور ہو گئے ۔ 
ذاکر کی کال 6 دسمبر کو آئی ۔کہ وہ امجد کے بیٹے کی شادی سے واپس پنڈی آرہا ہے ساتھ ایک میرپورخاص کا دوست بھی ہے ۔ پنڈی پہنچ کر آپ سے ملنے کا پروگرام بناتے ہیں ۔
چنانچہ 7 نومبر کی شام ، شاہین کرکٹ کلب جونیئر میرپورخاص کی ٹیم کے تین کھلاڑی ، بمع ایک پشاوری دوست میرے گھر پہنچے ۔ 
ذاکر کا بڑا بھائی مصطفیٰ میرا  میٹرک کا کلاس فیلو تھا لیکن وہ آرٹس کا سٹوڈنٹ تھا۔ ذاکر آٹھویں میں پڑھتا تھا- اُس کے ساتھ  سلیم اور سلیم کا چھوٹا بھائی نعیم بھی تھا ۔
اے دوست کسی ھمدم دیرینہ کا ملنا۔۔ بہتر ھے ملاقات مسیحا و خضر سے۔۔
تو یہ 68 سالہ بوڑھا عمررفتہ کی دیواروں پر سے چھلانگ مار کرلڑکپن میں چلا گیا اور تحت الشعور  میں دفن یادوں کے ذخیروں کی کڑیاں جُڑیں اور شعور میں سیلاب کی طرح اُمڈ اُمڈ کر آنے لگیں باتوں باتوں میں سلیم نے بتایا کہ آپ کے سسر اور ہمارے نانا  کے گھروں کی دیوار والکرٹ لمیٹڈ کاٹن جنگ فیکٹری کی کالونی میں ساتھ جڑی ہوئی تھی ۔1964 میں ہم سیٹلائیٹ ٹاؤن آگئے تھے ۔
بڑھیا چونکہ مہمانوں کے لئے بریانی بنانے میں مصروف تھی- لہذا اُسے میں نے صرف یہ معلومات دی کہ سلیم اور نعیم کے نانا ، خالو کے پڑوسی تھے ۔
وہ کہنے لگی، اُن کی بہن کا  نام معلوم ہو تو میں شاید پہچان جاؤں ۔ویسے بھی میں اُس وقت 6 سال کی تھی ۔ 
اتنے میں برفی کے پاپا۔ آفس سے آگئے ۔ تھوڑی دیر بیٹھا اور کپڑے تبدیل کرنے چلا گیا ، اور  جاتے جاتے، ماں کو کہا کہ نہ مہمانوں نے ماسک پہنے ہیں اور نہ ہی پپا نے ۔ 
خیر رات 10 بجے وہ چلے گئے ۔ میں نے میرپورخاص وٹس ایپ گروپ پر تصویر ڈالی اور لکھا بوجھو تو جانیں ؟
اگلے دن میں نے بڑھیا کی سلیم سے بات کروائی اور کہا ، کہ اِنہیں والکرٹ کے محلے دار خواتین کا بتاؤ ، شائد یاداشت واپس آجائے ، اور یہی ہوا سلیم نے سب محلے والوں کے نام  گھروں کے حساب سے ترتیب وار  اور ہم عمر لڑکیوں کے نام بتائے ، جو آج کل اپنے پوتے پوتیوں اور نواسے نواسیوں کو کھلا رہی ہیں ۔ تو بڑھیا نے قبولا کہ سلیم بھائی کی یاداشت ماشاء اللہ بہت تیز ہے- اور پھر جب سلیم نے بتایا ، کہ آپ کے گھر بہت بڑا سانپ نکلا تھا جسے ہمارے تایا نے مارا تھا ، تو بڑھیا حیران رہ گئی کہ، سلیم بھائی ۔ آپ کو یہ بھی یاد ہے ؟
آج  9 دسمبر کو مہاجر زادہ ، مغرب کے بعدنعیم  راجپوت کے گیسٹ ھاؤس گیا تاکہ ماضی کی مزید باتیں دھرائی جائیں ۔ باتوں باتوں میں  میرے کراچی کے عزیز دوست ، افتخار احمد قریشی کا ذکر نکلا ۔ تو معلوم ہوا  کہ افتخار کی سب سے چھوٹی بھانجی  راشدہ    ، کی بیٹی کی شادی ذاکر کے بیٹے سے ہوئی ہے ۔
افتخار کے بہنوئی اقتدار خان ۔ ذاکر کے بلاک   میں رہتے تھے   ۔ افتخار کی دو  بھانجیوں کی شادیاں میرپو رخاص میں ہوئیں اور دو کی کراچی ۔ سب سے چھوٹی بھانجی ذاکر کی سمدھن کی شادی ناظم آبا د ایل بلاک  میں رہنے والے ، اپنے ماموں رفیق احمد قریشی کے بیٹے سے ہوئی تھی  ۔رفیق بھائی کراچی کی ایک فرم میں چارٹرڈ اکاونٹنٹ تھے ۔اُس وقت اُن کے تین بچے تھے دو بیٹے اور ایک بیٹی ۔ افتخار سے میری آخری   ملاقات  ،2005 میں  محمود آباد میں ہوئی تھی-  جب میں میرپورخاص گیا تھا ۔افتخار ڈی ایچ اے میں اکاونٹنٹ تھا ۔اُن کے منجھلے بھائی مسعود  کراچی میں رہتے تھے- افتخار کے والد اور والدہ مجھ سے بہت پیار کرتے تھے ۔  اُس کی امی کہتیں کہ نعیم اِسے پڑھنے کا کہو ، افتخار کی بہن نفو (نفیسہ ) باجی اور میرے کہنے سے،افتخار نے ایف کام کی شام کی کلاسز میں میرے ساتھ  داخلہ لے لیا ۔لیکن پھر چھوڑ دیا کہ پرائیویٹ امتحان دوں گا ۔بعد میں معلوم ہو کہ وہ گھریلو حالات کی وجہ سے فیس نہیں ادا کرسکتا۔میں نے اُس کے ا  متحان  کے لئے رجسٹریشن  اور فیس بھجوائی ، خیرہم دونوں نے ساتھ امتحان دیا۔ سنٹر اسلامیہ کالج بنا ۔ ہم دونوں پاس ہوئے اور میں نے فوج کا رُخ کیا اور افتخار ملازمتیں چھاننے لگا ۔
افتخار اداکار محمد علی سے اور بوڑھا وحید مراد سے انسپائر تھا ، اُس کا لہجہ ، کندھے جھکا کر چلنے کا انداز مکمل اپنے اندر سمولئے تھی اور اِس بوڑھے نے وحید مراد کے بالوں کے سٹائل کو اپنا لیا ، اگر وحید مراد اور محمد علی کی فلمیں چل رہی ہوتیں تو ٹاس سے فیصلہ ہوتا کہ کون سے پہلی دیکھی جائے گی اور اگر دونوں ایک ساتھ فل میں ہوتے تو کوئی مسئلہ نہ ہوتا۔ ہر اتوار کا میٹنی شو ہم کسی نہ کسی سینما میں گذارتے ۔
   
  پھر اور دوستوں کا ذکر ہو ا، پھر ذاکر کا پروگرام بنا کہ بچوں کے لئے کچھ لیا جائے ، ہم تینوں امتیاز سپر سٹور پر پہنچے رات کے 9 بجنے والے تھے وہ اند داخل ہونے کا شٹر بند کرنے والے تھے ، ہم تینوں بوڑھوں کو اندر جانے کی اجازت دے دی ، ذاکر اور نعیم نے شاپنگ کی ، پھر رات 10 بجے اُنہیں چکلالہ سکیم 1 میں اتار کر یہ بوڑھا گھر واپس ہوا۔
    ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
افتخار کے ساتھ پرانی یادیں :
     

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

خیال رہے کہ "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ !

افق کے پار
دیکھنے والوں کو اگر میرا یہ مضمون پسند آئے تو دوستوں کو بھی بتائیے ۔ آپ اِسے کہیں بھی کاپی اور پیسٹ کر سکتے ہیں ۔ ۔ اگر آپ کو شوق ہے کہ زیادہ لوگ آپ کو پڑھیں تو اپنا بلاگ بنائیں ۔