مشرقِ بعید - لاہور تا کولمبو (سری لنکا)
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
سری لنکا کے وقت کے مطابق ایک بج کر 55 منٹ ، پاکستان کے وقت کے مطابق ایک بج کر 25 منٹ اور سنگاپور کے وقت کے مطابق ، 4 بج کر 25 منٹ گویا ، ساڑھے چھ گھنٹے کے سفر کے بعد ہم سنگاپور کے ، چانگی ائر پورٹ کے ٹرمینل 3 پر اترے ۔
بھئی
کیا بڑا ائر پورٹ ہے، ایک ٹرمینل سے دوسرے ٹرمینل تک جانے کے لئے ، خود
کار سکائی ٹرین چلتی ہے ۔ائر پورٹ کے تین ٹرمینل ہیں ۔ ہر دو منٹ بعد
ایک جہاز اترتا ہے اور دوسرا روانہ ہوتا ہے ، ٹیکسی وے پر انتظار میں جہاز
یوں انتظار کرتے نظر آرہے تھے کہ جیسے آگے روٹ لگا ہوا ہے ۔ دنیا کی ہر ائر
لائین ، یہاں سے گذرتی ہے ۔
ہم ٹرمینل 3 سے ٹرمینل 2 پر پہنچے جہاں اگلے دن سلک ائر کی فلائیٹ ایم آئی 296 ، سنگا پور کے وقت کے مطابق 9 بج کر 25 منٹ پر تھی ۔ہم پاکستان سے تین گھنٹے آگے تھے ۔
ہم ٹرمینل 3 سے ٹرمینل 2 پر پہنچے جہاں اگلے دن سلک ائر کی فلائیٹ ایم آئی 296 ، سنگا پور کے وقت کے مطابق 9 بج کر 25 منٹ پر تھی ۔ہم پاکستان سے تین گھنٹے آگے تھے ۔
ٹرمینل 2 پر میجسٹک ہوٹل میں 3 بیڈ کا کمرہ بُک کروایا ہوا
تھا ؛ جو 6 گھنٹے کے لئے تھا ، یعنی شام
7بجے سے رات ایک بجے تک ، چنانچہ مزید 6
گھنٹے کے پیسے ادا کر کے صبح 7 بج تک وقت بڑھا لیا ، چابی لے کر کمرے میں پہنچے ، بوڑھے نے غسل کیا ، چائے بنائی اور پھر تینوں آٹھ بجے ٹرمینل 2 کی سیر کو نکلے ۔
چم چم کی ماما نے چم
چم کو بتایا کہ اُس کے لئے ائر پورٹ پر کیا کیا تفریح ہیں۔ پیسٹل کلر پینٹنگ ، سن
فلاور گارڈن، جھولے ، پاؤں دبانے کی
مشینیں ، بٹر فلائی گارڈن ، میکڈونلڈ ، سب وے ، انڈین فوڈ ۔ ائر پورٹ پر ہر تین
گھنٹے کے لئے انٹرنیٹ کنیکشن فری جو پاسپورٹ دکھانے پر ملتا ۔
چم چم کی ساری کارگذاریاں ، بڑھیا ، فیملی
گروپ پر وٹس ایپ کر رہی تھی ۔ دس بجے کھانے کا پروگرام بنا ، لفٹ سے تیسری منزل پر پہنچے ، چم چم کو سب وے
نظر آیا ، اُس نے سب وے پر کھانے کا شور مچا دیا ، سب وے کے پاس پہنچے ، بوڑھے اور بڑھیا کو متلی سی ہونے لگی ۔
بوڑھے نے پوچھا ،"حلال فوڈ؟"
چھوٹی سی گول مٹول سنگا پوری لڑکی بولی ، " نہیں "
بوڑھے نے پوچھا ،"حلال فوڈ؟"
چھوٹی سی گول مٹول سنگا پوری لڑکی بولی ، " نہیں "
واپس لوٹے توچم چم مچل گئی ، کہ کھائے گی تو سب وے ہی کھائے گی ، نانو ، آوا اچھے
نہیں ہیں ، سب کھانے کھانے کے لئے ہوتے ہیں ، بابا نے بتایا کہ انہوں نے سنگا پور
میں سب کھانے کھائے تھے ۔
بوڑھے کا دماغ گھوم گیا ، " کیا ، آپ
کے بابا نے یہ کہا تھا کہ اُس نے سب کھانے کھائے تھے؟ "
" جی یہی کہا تھا " چم چم بولی ۔
" کیا یہ بھی کہا تھا ، کہ انڈین فوڈ بھی کھایا تھا ؟" بوڑھے نے پوچھا ۔
" ہاں ، بابا نے سب کھانے کھائے تھے " چم چم تقریباً روتے ہوئے بولی ۔" نانو میں بھی کھاؤں گی "
" اچھا ایسا کرتے ہیں کہ ابھی انڈین فوڈ کھاتے ہیں ، میں بابا سے پوچھوں گا ، پھر جو کھانے بابا نے کھائے وہ کھلا دوں گا " بوڑھے نے چم چم کو سمجھایا ۔
" پرامِس " وہ بولی
" پرامس، اگر آپ کے بابا نے مگر مچھ ، چھپکلی ، سانپ ، کچھوے ، کیکڑے اور آکٹوپس کھائے ، تو وہ بھی کھانے پڑیں گے " بوڑھا بولا
" نو وے !! آوا ، آپ مجھے کچھ بھی کھانے پر مجبور نہیں کر سکتے " چم چم بولی " میری مرضی جو میں کھاؤں "
" میں میکڈونلڈ ، کھاؤں گی" چم چم میکڈونلڈ کا بورڈ دیکھ کر بولی ۔
بڑھیا نے ، میکڈونلڈ پر کھڑی لڑکی سے پوچھا " آپ کے پاس حلال فوڈ ہے ؟"
" جی ہاں ہمارے پاس صرف چکن اور بیف ہے " وہ بولی " اور وہ دیکھیں حلال فوڈ کا لوگو "
بوڑھے نے آگے بڑھ کر لوگو کو غور سے دیکھا ، اور چم چم کو کہا ،" اپنی پسند کا آرڈر دے دو اور ہاں سب تمھیں کھانا ہے کوئی بھی چیز نا بچے ، میں نہیں کھاؤں گا ۔ نانو بے شک کھا لے "
نانو نے بھی انکار کر دیا ، چنانچہ چم چم نے برگر اور نّگٹ لئے چپس اور کو ک ساتھ ملی ۔ نانو نے اُسے کھانا کھلایا ۔
پھر ہم تینوں انڈین ریسٹورینٹ گئے ، پہلی خوشی تو یہ ملی ، کہ انگلش سے پیچھا چھوٹا ، کاونٹر پر موجود ہندی نوجوان ، ہندی بول رہا تھا جو ہمیں اردو لگ رہی تھی ، ویسے بھی پانچ ہزار سالوں سے بولی جانے والی ہندی کی اردو ، نومولود سگی بہن تھی ، لیکن پھر 1857 کے بعد ھندی نے ، فارسی اور عربی سے رشتہ داری گانٹھ لی ۔
اُس نے جن کھانوں کے نام بتائے وہ سب قابوں میں پڑے شوکیس میں گرم ہورہے تھے ، بوڑھے نے اپنی مسلمانی بچانے کے لئے ، دال چاول کا آرڈر دیا ۔ بڑھیا نے بھی دال چاول پر اکتفا کرنے کا ارادہ کیا ، بوڑھے نے ماش کی دال اور بڑھیا نے لوبیئے کی دال منگوائی ۔ جس میں ذائقہ کم اور پیٹ بھرنے کا سامان تھا ۔ ہاں ساتھ انہوں نے جھونگے میں ایک ایک رکابی میں دال دی ، جو ارہر کی دال کے مشابہ تھی مگر اُس کی سیرت نہ بڑھیا پہچان پائی اور نہ بوڑھا ، لیکن وہ مزیدار تھی ، ایک تقریبا 80 سالہ دھان پان سے بڑھیا ، ٹیبل صاف کرنے پر لگی تھی بوڑھے نے اشارہ کر کے پوچھا ،" کیا یہ اور مل سکتی ہے "
وہ ایک ٹرے میں دو رکابیاں لے آئی ، لوبیا اور ماش ایک طرف ، دونوں نے چاول اُس دال سے تر کیے اور پیٹ بھر کر کھایا ۔ بوڑھے نے کھانے کے بچے ہوئے پیسوں میں سے ، ایک سنگا پوری ڈالر کی اُسے ٹپ دی تو وہ خوش ہو گئی ۔
" جی یہی کہا تھا " چم چم بولی ۔
" کیا یہ بھی کہا تھا ، کہ انڈین فوڈ بھی کھایا تھا ؟" بوڑھے نے پوچھا ۔
" ہاں ، بابا نے سب کھانے کھائے تھے " چم چم تقریباً روتے ہوئے بولی ۔" نانو میں بھی کھاؤں گی "
" اچھا ایسا کرتے ہیں کہ ابھی انڈین فوڈ کھاتے ہیں ، میں بابا سے پوچھوں گا ، پھر جو کھانے بابا نے کھائے وہ کھلا دوں گا " بوڑھے نے چم چم کو سمجھایا ۔
" پرامِس " وہ بولی
" پرامس، اگر آپ کے بابا نے مگر مچھ ، چھپکلی ، سانپ ، کچھوے ، کیکڑے اور آکٹوپس کھائے ، تو وہ بھی کھانے پڑیں گے " بوڑھا بولا
" نو وے !! آوا ، آپ مجھے کچھ بھی کھانے پر مجبور نہیں کر سکتے " چم چم بولی " میری مرضی جو میں کھاؤں "
" میں میکڈونلڈ ، کھاؤں گی" چم چم میکڈونلڈ کا بورڈ دیکھ کر بولی ۔
بڑھیا نے ، میکڈونلڈ پر کھڑی لڑکی سے پوچھا " آپ کے پاس حلال فوڈ ہے ؟"
" جی ہاں ہمارے پاس صرف چکن اور بیف ہے " وہ بولی " اور وہ دیکھیں حلال فوڈ کا لوگو "
بوڑھے نے آگے بڑھ کر لوگو کو غور سے دیکھا ، اور چم چم کو کہا ،" اپنی پسند کا آرڈر دے دو اور ہاں سب تمھیں کھانا ہے کوئی بھی چیز نا بچے ، میں نہیں کھاؤں گا ۔ نانو بے شک کھا لے "
نانو نے بھی انکار کر دیا ، چنانچہ چم چم نے برگر اور نّگٹ لئے چپس اور کو ک ساتھ ملی ۔ نانو نے اُسے کھانا کھلایا ۔
پھر ہم تینوں انڈین ریسٹورینٹ گئے ، پہلی خوشی تو یہ ملی ، کہ انگلش سے پیچھا چھوٹا ، کاونٹر پر موجود ہندی نوجوان ، ہندی بول رہا تھا جو ہمیں اردو لگ رہی تھی ، ویسے بھی پانچ ہزار سالوں سے بولی جانے والی ہندی کی اردو ، نومولود سگی بہن تھی ، لیکن پھر 1857 کے بعد ھندی نے ، فارسی اور عربی سے رشتہ داری گانٹھ لی ۔
اُس نے جن کھانوں کے نام بتائے وہ سب قابوں میں پڑے شوکیس میں گرم ہورہے تھے ، بوڑھے نے اپنی مسلمانی بچانے کے لئے ، دال چاول کا آرڈر دیا ۔ بڑھیا نے بھی دال چاول پر اکتفا کرنے کا ارادہ کیا ، بوڑھے نے ماش کی دال اور بڑھیا نے لوبیئے کی دال منگوائی ۔ جس میں ذائقہ کم اور پیٹ بھرنے کا سامان تھا ۔ ہاں ساتھ انہوں نے جھونگے میں ایک ایک رکابی میں دال دی ، جو ارہر کی دال کے مشابہ تھی مگر اُس کی سیرت نہ بڑھیا پہچان پائی اور نہ بوڑھا ، لیکن وہ مزیدار تھی ، ایک تقریبا 80 سالہ دھان پان سے بڑھیا ، ٹیبل صاف کرنے پر لگی تھی بوڑھے نے اشارہ کر کے پوچھا ،" کیا یہ اور مل سکتی ہے "
وہ ایک ٹرے میں دو رکابیاں لے آئی ، لوبیا اور ماش ایک طرف ، دونوں نے چاول اُس دال سے تر کیے اور پیٹ بھر کر کھایا ۔ بوڑھے نے کھانے کے بچے ہوئے پیسوں میں سے ، ایک سنگا پوری ڈالر کی اُسے ٹپ دی تو وہ خوش ہو گئی ۔
بوڑھے اور بڑھیا پر آہستہ آہستہ تھکن غالب آرہی تھی ، رات 12 بجے چم چم نے آٹھ سال کا ہوجانا تھا ، گو کہ چم چم
کے ساتویں سال کا آخری دن تین گھنٹے پہلے ہی ختم ہوچکا تھا ، مگر
ٹریڈیشنل طور پر رات 12 بجے کا بہرحال
انتظار کرنا تھا ۔ چنانچہ چم چم نے اپنے
لئے گفٹ ایک ڈاگی پسند کیا ، ایک
حلال کپ کیک خریدا ،کیوں کہ سارے بڑے کیک مشکوک تھے ، رات ساڑھے
گیارہ بجے ، جب پاکستان میں ساڑھے آٹھ بج رہے تھے واپس ہوٹل میں آئے ، بوڑھے نے دوبارہ چائے بنائی ، رات 12 بجے چم
چم نے کپ کیک کاٹا۔
اُسے سالگرہ کی مبارکباد دی، چم چم نے کیک کھایا اور دونوں نے مل کر چائے پی ، چم چم تو لیٹتے ہی ، خواب میں ماما کے پاس پہنچ گئی ۔
بوڑھا ، مُفتے کے انٹر نیٹ پر اپنے لیپ ٹاپ سے فیس بُک کے دوستوں میں مگن ہوگیا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
مشرقِ بعید - سنگا پور تا ٹِمور لِسٹے (ایسٹ تِمور)
اُسے سالگرہ کی مبارکباد دی، چم چم نے کیک کھایا اور دونوں نے مل کر چائے پی ، چم چم تو لیٹتے ہی ، خواب میں ماما کے پاس پہنچ گئی ۔
بوڑھا ، مُفتے کے انٹر نیٹ پر اپنے لیپ ٹاپ سے فیس بُک کے دوستوں میں مگن ہوگیا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
مشرقِ بعید - سنگا پور تا ٹِمور لِسٹے (ایسٹ تِمور)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں