Pages

میرے چاروں طرف افق ہے جو ایک پردہء سیمیں کی طرح فضائے بسیط میں پھیلا ہوا ہے،واقعات مستقبل کے افق سے نمودار ہو کر ماضی کے افق میں چلے جاتے ہیں،لیکن گم نہیں ہوتے،موقع محل،اسے واپس تحت الشعور سے شعور میں لے آتا ہے، شعور انسانی افق ہے،جس سے جھانک کر وہ مستقبل کےآئینہ ادراک میں دیکھتا ہے ۔
دوستو ! اُفق کے پار سب دیکھتے ہیں ۔ لیکن توجہ نہیں دیتے۔ آپ کی توجہ مبذول کروانے کے لئے "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ پوسٹ ہونے کے بعد یہ آپ کے ہوئے ، آپ انہیں کہیں بھی کاپی پیسٹ کر سکتے ہیں ، کسی اجازت کی ضرورت نہیں !( مہاجرزادہ)

پیر، 23 جنوری، 2023

مذاہب انسانی - زرتشت

 زرتشت،  ایک قدیم آریائی مذہب ہے، زرتشت یا زردشت ایران کے پارسی مذہب کے پیغمبر کا نام ہے ۔
 یہ دنیا کے قدیم مذاہب میں سے ایک ہے۔ ایک ایرانی پیغمبر زرتشت نے اس مذہب کی بنیاد رکھی تھی۔ اسے مزدیسنا پارسی یا آتش پرستوں کا مذہب بھی کہا جاتا ہے۔ بعض کے نزدیک اس مذھب کی تاریخ اتنی پرانی ہے کہ ابھی تک انسان اس کی ابتدا کو صحیح طور پر نہیں جان سکا۔،
لیکن  اکثر محقیقین کا خیال ہے کہ یہ مذھب نمرود کے زمانے سے پہلے کا ہے اور اس کا ظہور 3500 سال قبل فارس میں ہوا تھا۔

 زرتشتیت کی کتابوں میں ایک خدا کا تصّور بھی موجود ہے۔
ایک خدا "اہورا" جو"مزدا' (دانا) کہلاتا تھا۔ 

"اہورمزدا"میں۔"اہور" کا مطلب ہے "آقا" اور "مزدا" کے معنی "عقل مند" کے ہیں۔ یعنی اہور مزدا کا مطلب ہے عقلمند آقا یا عقلمند مالک۔


اس فلسفے کا کہنا ہے کہ کائنات میں تمام طاقتیں چاہے اچھائی کی ہوں یا برائی کی، وہ سب آہور امزدا یعنی خدا نے ہی پیدا کیں ہیں،  

دساتیر کے مطابق خدا کی صفات
درج ذیل ہیں:

وہ ایک ہے۔
اس کا کوئی ہمسر نہیں۔
نہ اس کی ابتدا ہے اور نہ ہی انتہا۔
نہ اس کا کوئی باپ ہے نہ ہی کوئی بیٹا،
نہ کوئی بیوی ہے اور نہ ہی اولاد ہے۔
وہ بے جسم اور بے شکل ہے۔
نہ آنکھ اس کا احاطہ کرسکتی ہے۔
نہ ہی فکری قوت سے اسے تصور میں لایا جاسکتا ہے۔
وہ ان سب سے بڑھ کر ہے جن کے متعلق ہم سوچ سکتے ہیں۔
وہ ہم سے زیادہ ہمارے نزدیک ہے۔
بعض لوگوں کا کہنا ہے دوسرے مذاہب جیسے کہ یہودیت اور اسلام نے  اس زرتشتی مذہب کی تعلیمات کاپی کیں ہیں۔۔

زرتشت نے عبادت میں کثرت پرستی یعنی کئی دیوتاؤں کی پرستش کو منع کر دیا۔ اس نے انھیں دو اقسام میں بانٹ دیا۔ یعنی ایک وہ جو فائدہ پہنچانے والے اور سچے تھے اور دوسرے وہ جو بدطینت اور جھوٹے تھے اور جن سے بچنا ضروری تھا۔

نیک طاقتوں میں سب سے اونچا درجہ "اہورا مزدا" کا تھا۔
اور اس خدا کے دو روپ پیش کیے گئے ۔۔
نیکی کی طاقت والا خدائے "یزداں" کہلاتا ہے۔۔ کائنات میں نیکی یا اچھائی کی طاقتیں اسکی مرہونِ منت ہیں۔ جس کی مدد نیک روحیں کرتی ہیں۔ یا ان کی خدمت میں چھ چھوٹے دیوتا ہوتے تھے (ویسے ابتدائی دور میں صرف ایک ہی خدا مانا جاتا تھا)۔ یہ چھ دیوتا "اہورا مزدا" کے چھ پہلوؤں کی نمائندگی کرتے ہیں یعنی نیک خیالات (وہومنا)، اعلیٰ پایہ کی نیکی (آشا وہستا)، روحانی بادشاہت (کشتھرا ویریا)، مقدس زہر (اسپنتا ارمائتی)، کفارہ (ہارو وتات) اور لافانیت (امریتات)۔ شروع میں یہ سب "اہورا مزدا" کے خواص تھے جو بعد میں فرشتے بن گئے۔

جبکہ خدا کا دوسرا روپ شیطانی ہے۔ جسے " اہرمن" کہا جاتا ہے۔ جو تخریبی سرگرمیوں یا بدی کی طاقتوں کا ماخذ ہے۔ نیک "اہورا" کے مقابلہ میں بدروحیں تھیں جو دیو کہلاتے تھے جن کا سربراہ اہرمن کہلاتا ہے۔ زرتشت کے نزدیک تمام طاقتوں کا منبع وہی ایک خدا ایہورامزدا ہی ہے ،نیکی کی طاقتیں یا تعمیری قوتیں بھی وہیں سے نکلتی ہیں اور براہی کی طاقتیں یا تخریبی قوتیں بھی اسی کے مرہون منت ہیں ۔۔۔اسکے سوا اور کہیں سے کچھ نہیں بنا۔۔

زرتشتی مذہب کے نظریہ تخلیق اور معادیات کی بنیاد خیر و شر کی ان دو بڑی طاقتوں کی کشمکش پر ہے۔ یہ لوگ آگ کو پاک مانتے ہیں۔ ان کا عقیدہ ہے کہ آگ ہر ناپاکی سے مبرا ہوتی ہے اس لیئے آگ خدا کا مظہر ہے۔ وہ اپنے گھروں اور معبدوں میں ہر وقت آگ روشن رکھتے ہیں۔ اسی لیئے عام لوگ ان کو آتش پرست سمجھتے ہیں۔ جبکہ وہ آگ کو خدا سمجھ کر نہیں پوجتے اور یہ لوگ بھی  دن میں پانچ وقت  نماز پڑھتے ہیں۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ عربوں نے نماز کا طریقہ اور بعد میں پانچ نمازیں بھی اسی مذہب سے کاپی کیں۔۔

"اویستا "AVESTA ان کی مقدس کتاب ہے۔ زرتشت کی حمد یا گاتھا (Gathas) میں جن مقامات یا شخصیتوں کا ذکر ہے، تاریخ میں ان کا پتہ نہیں چلتا اور اس لیے صحیح زمان و مکان کا تعین کرنا مشکل ہے لیکن یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ وہ مشرقی ایران کے کسی حصہ میں تھے اور مغربی ایشیا کے ترقی یافتہ حصوں سے دور رہتے تھے۔

یہ زمانہ سائرس دوم سے پہلے کا ہے جب ایران ابھی متحد نہیں ہوا تھا۔ دارا اور اس کے جانشینوں کے آثار میں بہت ہی معمولی اشارے ملتے ہیں۔ ہخامنشی دور حکومت میں کچھ عرصہ کے لیے زرتشت سرکاری مذہب رہا۔ سکندر اعظم کے حملہ کے بعد ہخامنشی دور حکومت ختم ہو گیا۔ اس کے بعد زرتشتی مذہب کا زور بھی ٹوٹ گیا۔ ساسانی دور حکومت میں اسے پھر عروج حاصل ہوا اور چار سو سال تک یہ سرکاری مذہب رہا اور مسیحیت سے ٹکر لیتا رہا۔

زرتشتی مذہب اپنے شروع کے دور میں ایران کے امن پسند لوگوں کی عکاسی کرتا ہے۔ یہ لوگ اپنے دشمن خانہ بدوشوں سے بالکل مختلف تھے جو نیچر پرست تھے۔ کئی کئی دیوتاؤں کو مانتے تھے اور جن کی زندگی زیادہ تر گھوڑوں کی پیٹھ پر گزرتی تھی۔ زرتشت اپنے لوگوں کو وہ انصاف پسند و پاک باز (آشا) بتلاتے تھے اور خانہ بدوشوں کو جھوٹے اور دھوکا باز۔
 
زرتشت ہمیشہ زمین کی پیداوار بڑھانے اور مویشیوں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنے کی تلقین کرتے تھے اس لیے کہ مویشیوں کی محنت ہی سے غذا پیدا ہوتی ہے۔ چنانچہ انھوں نے دیوتا متھرا کے سامنے بیلوں کی قربانی منع کردی اور عبادت کے وقت ہاوما (ایک قسم کی نشہ آور چیز) کے استعمال پر بھی پابندی لگا دی۔

زرتشتی مذہب کے مطابق اس ساری کائنات کی تاریخ (یعنی اس کا ماضی، حال اور مستقبل) چار ادوار میں تقسیم کی جاسکتی ہے جس میں سے ہر ایک دور 3 ہزار سال کا ہے۔ پہلے دور میں کسی مادہ کا وجود نہیں تھا۔ دوسرا دور زرتشت کی آمد کے عین پہلے کا ہے اور تیسرے میں ان کی تعلیم کی اشاعت ہوئی۔ پہلے 9 ہزار سالوں میں نیکی اور بدی کی جنگ جاری رہی۔

 نیک لوگ آہور مزدا کے ساتھ رہے اور بد لوگ اہرمن کے۔

ہر شخص کو موت کے بعد دوزخ کے پل (چنواتو پریتو) سے گزرنا ہوتا ہے۔ شاید اسلام نے بھی یہیں سے پل صراط کا نظریہ لیا۔۔۔تو زرتشت میں آخرت میں   اگر کوہی  بد ہے تو پل تنگ ہو جاتا ہے اور وہ دوزخ میں گر جاتا ہے اور اگر نیک ہے تو اس کے لیے جنت کا راستہ کھل جاتا ہے۔
یہ بھی اپنے ایک نبی کے قرب قیامت دوبارہ آنے کے قائل ہیں کہ چوتھے دور میں دنیا کو بچانے والا "ساوشیانت"  نمودار ہوگا۔ تمام مردے زندہ ہوں گے اور ان کے اعمال کا حساب کتاب ہوگا۔ بد ہمیشہ کے لیے سزا کے مستوجب ہوں گے اور نیک ہمیشہ کے لیے اپنی نیکی کا پھل پائیں گے۔

زرتشتی مذہب میں آگ کی جو اتنی اہمیت اور حرمت دکھلائی جاتی ہے اس سے یہ ایک غلط خیال رائج ہے کہ ان میں پہلے آگ کی پرشتش کا رواج تھا۔ اصل یہ ہے کہ نہ صرف آگ بلکہ پانی اور زمین بھی یعنی خالص قدرتی اشیا آہور مزدا کی نمائندہ ہیں اور ان چیزوں کو پاک و صاف رکھنے کی ہر ممکنہ کوشش کی جاتی ہے۔

زرتشت مذہب کے مطابق انسان آزاد ہے کہ وہ نیکی یا بدی دونوں میں سے ایک کا انتخاب کرے اور پھر اس کے پھل کے لیے تیار رہے۔ اس انتخاب میں جسم اور روح دونوں کو حصہ لینا چاہیے۔ نیکی و بدی کی ٹکر جسم و روح کی ٹکر نہیں ہے اور اس لیے دوسرے قدیم مذاہب کے برعکس تجرد اور کفارہ کے لیے روزے ممنوع ہیں۔ اس کی اجازت صرف روح کی پاکیزگی کے لیے ہے۔ بدی کے خلاف انسان کی جدوجہد منفی نوعیت کی ہے یعنی اسے اپنے آپ کو ہمیشہ پاک و صاف رکھنا چاہیے اور موت کی طاقتوں کو اس کا موقع نہیں دینا چاہیے کہ وہ اسے ناپاک بنا سکیں۔ اسی لیے مردہ چیزوں کو چھونے سے بھی پرہیز کیا جاتا ہے۔

ایرانیوں سے سود لینا منع قرار دیا گیا تھا اور یہ ہدایت کی گئی تھی کہ قرض دار کو چاہیے کہ وہ قرض کو ایک مقدس امانت سمجھے۔ سب سے بڑا گناہ بے اعتقادی ہے۔اس مذہب میں  مرتد کے لیے موت کی سزا ہے۔

یہ لوگ سال میں ایک بار قربانی کرتے ہیں پہلے تو اس دن جانور ذبح کرتے تھے پر اب کچھ تو جانور ذبح کرتے ہیں اور کچھ صرف پھل وغیرہ تقسیم کرتے ہیں۔اب آہستہ جانوروں کی قربانی ختم کر دی گہی ہے۔۔

ان کے عقیدے کے مطابق ہر دور میں نبی آتے رہتے ہیں پر ہر نبی ویستا کی ہی تعلیم دیتا ہے۔
 تیسری صدی عیسوی کے ارد گرد ان کے ایک نبی جس کا نام اردا تھا کو معراج آسمانی ہوئی اور وہ ایک براق یعنی اڑنے والے گھوڑے نما جانور پر بیٹھ کر آسمانی خدا سے ملنے آسمانوں پر گیا تھا وہاں اس کو جنت دوزخ دکھائی گئی اور اس کو پل صراط سے بھی گزارا گیا
اور واپسی آتے وقت خدا نے اس کو پانچ وقت کی نماز تحفے میں دی اور کہا کہ جو بندہ پانچ وقت نماز نہیں پڑھے گا وہ سخت گناہ گار ٹھہرے گا یہ سارا واقعہ ان کی ایک اہم مذہبی کتاب
Book Of Arda Veraf  
میں درج ہے۔

زرتشتی اخلاقیات کی بنیاد اس کے اعلیٰ مذہبی فلسفہ پر ہے۔ انسان اس کائنات میں ایک بے بس ہستی نہیں ہے۔ اسے انتخاب کی پوری آزادی ہے اور وہ پوری شان و شوکت کے ساتھ، اہرمن کے خلاف، نیکی کی فوج کا سپاہی بن سکتا ہے۔

اس مذہب کا نہایت سادہ لیکن بلیغ فلسفہ یہ ہے" نیچر یا فطرت یا قدرت ہی صرف پاک و صاف اور نیک ہے وہ دوسروں کے ساتھ ایسی کوئی چیز نہیں کرے گی جو وہ اپنے لیے پسند نہیں کرتی ہے"۔

اوستا نے انسان کے لیے تین فرائض مقرر کیے ہیں" :جو دشمن ہیں انھیں دوست بناؤ۔ جو بد ہیں انھیں نیک بناؤ۔ جو جاہل ہیں انھیں قابل بناؤ۔" سب سے بڑی نیکی زہد ہے اور اس لیے خدا کی عبادت پہلا فرض ہے اور اس کے لیے صفائی، قربانی اور دعا کا طریقہ اختیار کرنا چاہیے اور اس کے بعد عمل اور گفتار نیک، کردار نیک، پندار نیک، میں ایمانداری اور عزت و احترام ملحوظ رہنا چاہیے۔

زرتشتیت سے پہلے ایران میں جو مذاہب تھے ان کے بارے میں تفصیلات بہت کم ملتی ہیں
بعد کے دور میں دوسرے مذاہب کی طرح زرتشت مذہب میں بھی معاشرتی خود ساختہ رسوم ورواج داخل ہو گہے۔   زرتشتی لوگوں میں آگ کی پوجا کی بدعت شروع ہو گئی جو سجدے پر پوری ہوتی۔  شروع میں معبد بنانا اور بت رکھنا منع تھے۔ قربان گاہیں پہاڑیوں پر، محلوں میں یا شہر کے مرکز میں بنائی جاتی تھیں اور ان میں آہور مزدا کے احترام میں آگ جلائی جاتی تھی۔ بعد میں ہر گھر میں آگ جلائی جانے لگی۔ اسے کبھی بجھنے نہیں دیا جاتا تھا۔ جیسے جیسے زمانہ گزرتا گیا مذہبی پیشواؤں، پروہتوں وغیرہ نے اپنے اپنے مفادات کی خاطر بے شمار رسوم اس مذہب کا حصہ بنالیں اور اس طرح مذہب کی شکل ہی بدل دی۔

ابتدائی توحیدی شروعات کے بعد آہستہ آہستہ اس میں وقت کے  ساتھ ساتھ آتش پرستی آتی چلی گئی اور دیوی دیوتا پیدا ہو گئے۔ 600 قبل مسیح میں اس کی اصلاح کے لئے "زرتشت زردشت" نام کے رہنما پیغمبر پیدا ہوئے تھے۔ اور 400 قبل مسیح سے اس مذہب کا باقاعدہ تحریری ریکارڈ موجود بنایا گیا ۔
زرتشتی پیغمبر پر نازل ہونے والی اہم کتاب  اوستا (Avesta) ہی ہے اس کے علاوہ اور بھی  کچھ مذہبی کتابیں ہیں. جنہیں آسمانی سمجھا جاتا ہے۔

ہندومت

آریا کے معنی ”بزرگ“ اور ”معزز“ کے ہیں۔ یہ اُس قوم کا نام ہے جو تقریباً اڑھائی ہزار سال قبل مسیح وسط ایشیاء سے چراگاہوں کی تلاش میں نکلی اور کھلیانوں کو پامال کرتی ہوئی یہاں کے قدیم مہذب قوموں دراوڑ کو جنوب کی طرف دھکیل کر خود ملک پر قبضہ کر لیا۔ آریاؤں کے کچھ قبیلوں نے یورپ کا رخ کیا اور وہاں جاکر آباد ہو گئے۔

 دراوڑ ہی ہندوستان کے اصل باشندے ہیں۔ یہ لوگ بہت سے قبائل میں منقسم ہیں۔ ہر ایک کی اپنی اپنی زبان ہے۔ لیکن بنیاد مشترک ہے۔ دراوڑ اپنے زمانے کی مہذب اقوام میں شمار ہوتے تھے۔ انھوں نے تقریباً چھ ہزار سال قبل مسیح زمین سے گیہوں، جو، کپاس اور گنا اگانے اور روئی سے دھاگا بنا کر کپڑا تیار کرنے کا طریقہ سیکھ لیا تھا۔ جب کہ یونان، سمیریا اور روم کے لوگ اس وقت تک سوتی پارچہ بافی سے قطعاً نا آشنا تھے۔

آریائی قبائل نے جب برصغیر کی زرخیزی دیکھ کر یہاں پر ہجوم کیا۔ تو یہاں کے پر امن کھیتی باڑی والے "دراوڑی" ان وحشی لوگوں سے مقابلہ نہ کرسکے۔ اور مطیع ہوگے۔
ان پر مستقل قبضہ اور ماتحت رکھنے کے لیے کچھ بڑوں کو اس وقت کی منظم ریاست ایران میں مزہبی تعلیم اور طبقاتی نظام کی تدوین کے لیے بھیجا گیا۔ اس وقت ایران میں بت پرستی، دیوی دیوتا کا دور چل رہا تھا۔ بحرحال چار سال کے بعد وہ جب نیا مزہب تشکیل کروا کر لائے تو وہ آنے والی 30 صدیوں تک انسانی تزلیل کا مسودہ تھا۔

تین ہزار سے زائد عرصے سے رائج اس نظام کے تحت ہندوؤں کو ان کے کرما (کام) اور دھرما (فرض) کی بنیاد پر مختلف سماجی گروہوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔
مانوسمرتی ہندو قوانین کا سب سے اہم ماخذ سمجھا جاتا ہے، ذات پات کے نظام کو سوسائٹی میں تنظیم اور ترتیب کی بنیاد پر تسلیم کیا گیا اور اس کے حق میں دلائل دیئے گئے ہیں۔

ذات پات کا نظام ہندوؤں کو برہمن، شتری، ویش اور شودر کے نام سے چار کیٹیگریوں میں تقسیم کرتا ہے۔ کہا جاتا ہے۔ تقسیم کا ماخد تخلیق سے متعلقہ ہندو دیوتا براہما ہے۔

طبقاتی تقسیم
1:- براہمن جن کا کام تعلیم تربیت اور دماغی کاموں کی انجام دہی ہے۔  وہ برہما کے سر سے وجود میں آئے ہیں۔

2:-شتری:- جو پیشہ کے لحاظ سے حکمران اور سپاہ گری سے متعلق ہیں اور وہ براہما کے بازوؤں سے وجود میں آئے ہیں۔

3:-  ویش ہیں جو تجارت پیشہ ہیں اور براہما کی رانوں سے وجود میں آئے ہیں۔

4:- شودروں کا نمبر آتا ہے جو براہما کے پیروں سے بنے ہیں اور وہ ہاتھوں سے کرنے والے کام اختیار کرتے ہیں۔

ان ذاتوں کو تین ہزار مزید ذاتوں اور ثانوی ذاتوں میں تقسیم کیا جاتا ہے جس کا بنیاد مخصوص پیشوں پر ہوتی ہے۔

5:- مقامی دراوڑوں کو اچھوتوں یا دلتوں کا درجہ دیا گیا۔ ان کا شمار ہندو ذات پات کے نظام سے باہر سمجھا جاتا ہے۔ یعنی کہ ان کا پیدا ہونا نا ہونا برابر تھا۔
ان میں سے زیادہ تر کو ساؤتھ والے  دلدلی اور بنجر علاقوں میں دھکیل دیا گیا۔

اس زمانہ کے ایرانی مذاہب اور ہندوستان کے مذاہب میں بڑی قربت نظر آتی ہے۔ اوستا اور وید میں بہت ساری چیزیں مشترک ہیں۔ دونوں میں ایک ہی قسم کی کثرت پرستی پائی جاتی ہے۔ دونوں جگہ آگ کی پرستش ہے اور قربانی کے وقت ہندوستان میں سوما (ایک قسم کی شراب) اور ایران میں ہاوما استعمال ہوتی تھی۔ اوستا اور وید میں بیان کیے ہوئے دیوتا متھرا اور دیگرے تقریباْ مشترک ہیں۔
دونوں میں متھرا کی قربانی مقدس مانی جاتی ہے۔

برہمنوں کی اجاراداری اچھوتوں اور دلتوں سے غیر انسانی سلوک کے خلاف 600 قبل مسیح میں ہندوستان میں گوتم بدھ پیدا ہوئے اور ان کی تعلیمات دور دور تک پھیل گئیں۔ موجودہ ہندو مذہب ان دونوں مذہبوں کے بگڑے ہوئے مجموعہ کا نام ہے۔ جسے ساتھ لے کر آریہ یعنی ہندوؤں کے آباء و اجداد ہندوستان میں داخل ہوئے تھے۔

اسلام اور زرتشت

635ء میں عربوں نے یزدگرد سوم کو شکست دے کر ایران پر قبضہ کر لیا اور پورے ملک پر اسلام چھا گیا۔
 کیونکہ ایرانی پہلے ہی اپنی دوہزار سالہ تہذیب کے تفاخر کا شکار تھے۔ اس لیے وہاں کے عوام مجبور ہو کر اسلام میں داخل ہوئے۔
ضروت اسلام رائج اور تعلیمی تربیت کی تھی۔لیکن اسلامی حکومت کے اندرونی انتشار کی وجہ سے یہ ہو نہ سکا۔
یہ پڑھے لکھے منظم لوگ تھے۔ تو نئے نئے مسلمان بننے والے پارسیوں نے اپنے تحریف شدہ عقائد دین اسلام میں ملانا شروع کر دیے۔

جنت اور جہنم کے واقعات،
الصلاۃ کو نماز بنا دیا گیا ۔۔۔
صوم "روزہ" یعنی بھوکا رہنا
پل صراط کا عقیدہ۔
عذاب قبر اور یومِ الحساب  کا منظر نامہ
فرشتے اور جنات کی اشکال
واقعہ معراج کی تمثیل۔
 "شق صدر"
شیطان کا خیالی خاکہ
صلاۃ  " نماز"  
"مرتد کی سزا موت"
قیامت کے قریب ایک آنے والا مسیحا۔
ابن کٽیر نے تفسیر ابن کٽیر میں سورہ بقرہ/ 62 کی تفسیر میں
مجوسیوں کی پانچ وقت کی نماز اور تیس روزوں کا زکر کیا ہے۔

اگرچہ آج اس کے ماننے والوں کی تعداد بہت ہی کم ہے یعنی پوری دنیا میں ایک لاکھ تیس ہزار سے بھی کم زرتشتی ہیں۔

بسنده می کنیم
اندیشه های او، هنایش و کارایی ( : تاثیر ) بسزایی در ریخت و آرایه ( : شکل ) گیری ( نیکو ) آهنگ های اندیشه ای، گفتاری و کرداری و پنگاشتن ( : ترسیم ) مرزهای خوبی و بدی و « پایه گزاری » بنیان های فرزانگی ( : فلسفه ) باختر (غرب)


خیال کیا جاتا ہے کہ ابراہیمی مزاہب کی بنیاد عقیدہ زرتشت سے ہی لے کر  رکھی گئی ہے۔

پارسیوں کی مقدس کتابوں میں دساتیر اور آوستا شامل ہیں۔
دساتیر کومزید دو حصّوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ خُرد (چھوٹا) دساتیر اور کلاں (برا) دساتیر۔
آوستا کو بھی مزید دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ خُرد (چھوٹا) آوستا اور کلاں (بڑا) آوستا جسے زند یا ماہا زند بھی کہا جاتا ہے۔
پارسیوں کے مذہبی صحیفے دو زبانوں میں پائے جاتے ہیں۔ پہلوی (پہلوی دستاویز موجودہ فارسی دستاویز سے مشابہت رکھتی ہے) اور ژندی۔ ان دو زبانوں کے علاوہ، کچھ مذہبی مواد ایسی تحریری شکل میں پایا جاتا ہے، جسے پڑها نہیں جا سکتا۔ کچھ زرتشتی دساتیر کو زیادہ مستند سمجھتے ہیں جبکہ دوسرے آوستا کو زیادہ مستند سمجھتے ہیں۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

بت پرستوں کے لئے -یزدانی اور اہرمانی پیغامات

۔



کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

خیال رہے کہ "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ !

افق کے پار
دیکھنے والوں کو اگر میرا یہ مضمون پسند آئے تو دوستوں کو بھی بتائیے ۔ آپ اِسے کہیں بھی کاپی اور پیسٹ کر سکتے ہیں ۔ ۔ اگر آپ کو شوق ہے کہ زیادہ لوگ آپ کو پڑھیں تو اپنا بلاگ بنائیں ۔