برطانوی مسلح افواج کے سربراہ فیلڈ مارشل برنارڈ منٹگمری نے ریٹائرمنٹ کے بعد برطانوی وزیر اعظم سے ملاقات میں درخواست کی:۔
میں اب بوڑھا ہو چکا ہوں، ریٹائرمنٹ کے بعد سوائے پنشن کے کوئی ذریعہ آمدنی نہیں۔ کرائے کے مکان میں رہتا ہوں، بار بار مکان کی تبدیلی میرے لئے بہت تکلیف دہ ہے۔ گزارش ہے مجھے ایک مکان اور تھوڑی سی زرعی زمین الاٹ کر دیں تاکہ میں زندگی کے باقی ایام پرسکون طریقے سے گزار سکوں۔
وزیراعظم نے تحمل سے ساری بات سنی اور پھر جواب دیا:۔
مسٹر
منٹگمری، یقینا آپ ہمارے قومی ہیرو ہیں۔ عالمی جنگ میں آپ نے تاج برطانیہ
کے لئے شاندار خدمات دی ہیں جس کی ساری قوم معترف ہے لیکن جنرل صاحب، آپ کو
اس قومی خدمت ہر ماہ معقول معاوضہ دیا جاتا رہا ہے۔ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ
حکومت نے کسی مہینے آپ کو تنخواہ ادا نہ کی ہو یا پھر کبھی آپ کی تنخواہ
لیٹ ہو گئی ہو۔ اب جبکہ آپ ریٹائرڈ ہو چکے ہیں اور ریاست کے لئے کوئی خدمت
سرانجام نہیں دے رہے اس کے باوجود برطانوی حکومت اپنے عوام کے ٹیکسوں کی
رقم سے آپ کو ہر ماہ معقول پنشن دے رہی ہے۔
مسٹر منٹگمری، بطور وزیر
اعظم میں عوام کے حقوق کا محافظ ہوں اور ملکی آئين کے مطابق عوام کے
ٹیکسوں کے پیسے کو اپنے لئے یا کسی دوسرے کے لئے خرچ کرنے کا مجھے کوئی حق
حاصل نہیں ہے۔ میں آپ سے معذرت خواہ ہوں۔
لیکن جو تحفے آپ نے توشہ خانہ سے لئے ، اُنہیں بیچ کر گذارہ کرو !۔
منٹگمری سابق آرمی چیف
تھا، فیلڈ مارشل بھی تھا۔ برطانوی حکومت کو کئی جنگیں جیت کر دے چکا تھا۔
بقول شخصے منٹگمری جاگتا تھا تو قوم سکون سے سوتی تھی۔
اس نے سکون سے کہا ۔ جناب وزیر اعظم، آپ کے مشورے کا شکریہ ۔ وہ میری یادوں کا حصہ ہیں میں یادوں کو کیسے بیچ سکتا ہوں ؟
اس نے وزیر اعظم کا شکریہ ادا کیا، ساتھ بیٹھ کر کافی پی اور ان سے ہاتھ ملا کر اپنے کرائے کے مکان کی طرف چلا گیا۔
وہ رات کے اندھیرے میں کسی سے ملنے نہیں گیا ، یہ بتانے کہ میری حالت دیکھو اور کرائے کا مکان اور ایک فوجی کی خدمات ۔
منقول۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں