اللہ نے انسان میں ایک خوبی یہ دی ہے کہ جو بات اُس کی مرضی کے مطابق ہو اُسے بیان کرنے میں فصیح الذُبان بن جاتا ہے اور جو چیز اُس کی مرضی کے مطابق نہ ہو اُس کی ہجو میں اپنی فصیح البیانی کی انتہا کر دیتا ہے ۔
اِس میں ہر وہ فرد آتا ہے جو اپنے تیئں خود کو پارساء اور دوسرے انسانوں سے علم میں افضل سمجھتا ہے ۔ یہ بات اللہ کے علم میں ہے کیوں کہ وہ انسانی اچھائیوں اور برائیوں کا خالق ہے۔ اور یہی بات بذریعہ روح القدّس محمدرسول اللہ و خاتم النبیئن ، کو انسانوں کے لئے الکتاب میں درج کروادی ۔ جو حقیقی واقعات انسانی زندگی سے متعلق وجود میں آئے اُنہیں قصص سے موسوم کیا اور جن قصص میں انسانوں نے اپنی فصیح البیانی کی ملاوٹ کی اُنہیں اساطیر سے موسوم کیا۔ اساطیر کو قصص میں شامل کرنے کے لئے ، چرب زُبان مقررین نے اِسے تاریخ کی ہی کسی قد آور شخصیات سے مروی کرنے کی بنیاد ڈالی تاکہ انسانوں کے فہم و ذکاء پر آباء و اجداد کے اقوال سے منحرف ہونے کی بیڑیاں ڈال دی جائیں ۔اور اِن بیڑیوں کو انسانی زنجیر کی ایسی لڑی میں پرودیا کی جن میں سے کسی ایک کو توڑ آزاد ہونے کے لئے جلاوطنی کی شرط، خواہ یہ مذہبی ہو یا قبائلی یا سماجی عائد کردی ۔
لیکن مزے کی بات کہ یہ شرط صرف فردِ واحد کے لئے تھی ۔ اِن انسانی بیڑیوں کو ہر اُس مذہبی عالم نے توڑا جِس نے فہم و فکر کو استعمال کیا ، اور دوسرے پر اپنے فہم و فکر سے تابڑتوڑ حملے کئے ۔
مگر اُس کے پاس جب الفاظ کا ذخیرہ ختم ہوجاتا ہے- تو وہ الفاظ ادا ہوتے ہیں جو کسی طور پر قابلِ قبول نہیں ہوتے ۔ زندیق ، مرتد ، منکر حدیث و روایات ، مردود ۔وغیرہ اور دُکھ کی بات یہ کہ یہ سب الفاظ ، مسندِ رسالت و حاکمیت پر بیٹھ کر ادا کئے جاتے ہیں ۔
جبکہ قصص ہمارے پاس الکتاب سے اور اساطیر ہمارے پاس ادبی و مذہبی رسالوں کے علاوہ درسی کُتب سے پہنچائے جاتےہیں ۔
مذہبی تاریخ اور مذہبی دور یا زمانے کے واقعات دو طرح سے ہم تک پہنچے ہیں۔
٭- جن کے سامنے یہ واقعات ہوئے ۔جس کے وہ گواہ ہوتے ہیں ۔
٭- جن کے سامنے یہ واقعات ہوئے ۔اُنہوں نے دوسرے لوگوں کو ہو بہو سنائے یا اُس میں اپنے الفاظ ستائش (دلچسپی یا تجسس ) یا ہجو ( بزدلی یا کم ہمتی) کا اضافہ کیا ۔
اور یہ سلسلہ۔ یکے بعد دیگرے ایک دوسرے سے سن کر چلتا رہا ، یہاں تک کہ یہ قلمبند ہونا شروع ہو گئے ۔
لیکن اگر کسی مبازرت یا جنگ کے واقعات تھے تو اِن میں الفاظ ستائش یا ہجو کا کثرت سے اضافہ کیا گیا ۔
اگر ہم مذہبی تاریخ سے لیں تو ہمارے سامنےدو اہم واقعات ہیں- پہلا خلافت کی ابتداء کی چپقلش ۔ علی ابنِ ابوطالب کا دعویٰ ءِ خلافت۔ تلواروں کا نکلنا اورعلی ابنِ ابوطالب کا کوفہ جانا۔ اور خلافت کا مدینہ میں عمر بن الخطاب اور عثمان ابنِ عفّان کے محبانِ علی کے ہاتھوں قتل تک چلنااورعلی ابنِ ابوطالب کا بصرہ میں حکومت قائم کرنا ، وہیں محبانِ علی کے ہاتھوں قتل ہونا اور دفن ہونا ۔
دوسرا واقعہ کربلا کاہے ، جس میں دو اسلامی فوجیں اقتدار کے لئے آمنے سامنے تھیں اور دونوں اسلامی خلافت کے داعی تھے ۔
٭۔ یزید بن معاویہ بن ابو سفیان۔ حاکمِ وقت- ( لشکر و خطیبان و وقائع نگار )
٭- حسین ابنِ علی بن ابو طالب - مخالف حکومتِ وقت۔ ( لشکر و خطیبان و وقائع نگار )
اب دونوں لشکروں کے خطیبوں ، وقائع نگاروں سے اساطیر ہم تک پہنچے ۔ دونوں لشکروں کے اپنے اپنے طرفداریں یعنی دو جماعتوں کے لکھاریوں کے لکھے پر سختی سے ڈٹے ہوئے ہیں اور دو مذہبی فرقے بن چکے ہیں ، ایک سنّی (یعنی رسول اللہ کی سنت پر چلنے والے )اور دوسرا شیعہ (یعنی رسول اللہ کی اُس سنت پر چلنے والے جس کی وضاحت علی ابن الخطاب نے کی )
اب جو تاریخ دان تھے، وہ مسلم ( سنی و شیعہ) اور غیر مسلم دونوں ہوسکتے ہیں۔
وصالِ محمدﷺ کے بعد کے تمام افعال ، اعمال و واقعات کا تعلق احادیث سے نہیں ہوسکتا ۔
یاد رکھیں ۔ رحمت للعالمین سے پہلے سب الغیب ہے ، جو رب العالمین اور اُن کے درمیان ہے ۔ ہم صرف ۔
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ سے مِنَ الْجِنَّةِ وَ النَّاسِ تک عربی کے الفاظ ۔میں جو تلاوت کی ہیں ہمارا اُن پر بحیثیت
الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ کےایمان ہے ۔ باقی سب رحمت للعالمین کر کذب و افتراءہے ۔ شکریہ
٭٭٭واپس ۔شیطان نامہ ۔ فہرست ٭٭٭
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں