Pages

میرے چاروں طرف افق ہے جو ایک پردہء سیمیں کی طرح فضائے بسیط میں پھیلا ہوا ہے،واقعات مستقبل کے افق سے نمودار ہو کر ماضی کے افق میں چلے جاتے ہیں،لیکن گم نہیں ہوتے،موقع محل،اسے واپس تحت الشعور سے شعور میں لے آتا ہے، شعور انسانی افق ہے،جس سے جھانک کر وہ مستقبل کےآئینہ ادراک میں دیکھتا ہے ۔
دوستو ! اُفق کے پار سب دیکھتے ہیں ۔ لیکن توجہ نہیں دیتے۔ آپ کی توجہ مبذول کروانے کے لئے "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ پوسٹ ہونے کے بعد یہ آپ کے ہوئے ، آپ انہیں کہیں بھی کاپی پیسٹ کر سکتے ہیں ، کسی اجازت کی ضرورت نہیں !( مہاجرزادہ)

جمعرات، 19 اکتوبر، 2017

ختمِ نبوت اور غلام احمدیت !



 قیامِ پاکستان کے بعد 1952ء کو کوئٹہ کے ایک اجلاس میں مرزا محمود نے اعلان کیا: 
’’ہم 1952ء کے اندر اندر بلوچستان کو احمدی صوبہ بنادیں گے۔‘‘ 
اس کا یہ اعلان مسلمانان پاکستان کے اوپر بجلی بن کر گرا تو علماء نے اس بات کی اشد ضرورت محسوس کی کہ اس فتنہ کامقابلہ کرنے کے لیے ایک مستقل جماعت ہونی چاہیے۔ قادیانی جماعت کی حمایت میں برطانیہ، روس، اسرائیل، فرانس، امریکا سب کررہے تھے۔
  ان حالات کو دیکھتے ہوئے امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ نے تمام علمائے کرام کوجمع فرمایا۔ باضابطہ ’’مجلس تحفظ ختم نبوت‘‘ کا قیام عمل میں لایا گیا جس کا مقصد عقیدہ ختم نبوت کی ترویج اور فتنۂ قادیانیت کی سرکوبی اور مسلمانوںکو اس فتنے کی سازشوں سے بچانا تھا، چنانچہ مجلس کے لیے کرائے پر دفتر لیا گیا۔ پُرزور انداز میں کام شروع ہوگیا۔ پورے ملک میں قادیانیوں کا تعاقب کیا گیا۔ مسلمانان اُمت کو اس فتنے کے عقائد و عزائم سے مطلع کیا جانے لگا۔
اس سلسلے میںپورے ملک میں تحریکیں چلائی گئیں۔ تحریک ختم نبوت 1953ء سے فراغت ہوتے ہی مجلس تحفظ ختم نبوت کا دستور مرتب کرکے باضابطہ انتخاب کرایا گیا جس کے نتیجہ میں 13 دسمبر 1954ء کو حضرت امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ مجلس تحفظ ختم نبوت کے امیر اوّل مقرر کردیے گئے۔
ان کے بعد خطیب پاکستان مولانا قاضی احسان احمد شجاع آبادیؒ 9 مارچ 1963ء کو امیر مقرر ہوئے۔
 ان کے بعدمجاہد ملت مولانا محمد علی جالندھریؒ 23 نومبر 1966ت کو امیر مقرر ہوئے۔ 
ان کے بعد مناظر اسلام مولانا لال حسین اخترؒ 21 اپریل 1971ء کو امیر مقرر ہوئے۔
 ان کے بعدفاتح قادیان حضرت مولانا محمد حیاتؒ 11 جون 1973ء کو امیر مقرر ہوئے۔ 
ان کے بعدشیخ الاسلام مولانا سید محمد یوسف بنوریؒ 9 اپریل 1974ء کو امیر مقرر ہوئے۔ 
ان کے بعد خواجہ خواجگاں حضرت مولانا خواجہ خان محمد 7 اکتوبر 1977ء کو امیر مقرر ہوئے۔
 ان کے بعد مولانا عبدالمجید لدھیانویؒ 15 ؍ اکتوبر 2010ء کو امیر مقرر ہوئے۔
 ان کے بعد (موجودہ امیر) شیخ الحدیث حضرت مولانا ڈاکٹر عبدالرزاق اسکندر صاحب امیر مقرر ہوئے۔
1974ء کو تحریک ختم نبوت چلائی گئی جس کی وجہ سے پاکستان کی منتخب اسمبلی نے اُمت مسلمہ کا دیرینہ مطالبہ تسلیم کرکے قادیانیوں کے کفریہ عقائد کی وجہ سے 7 ستمبر 1974ء کو قادیانیوں کو غیرمسلم قرار دیا ۔ اس فیصلے کی وجہ سے اکثر اسلامی ممالک نے مرزائیت کے کفر کے فیصلے پر پاکستان کومبارک باد دی۔ اکثر اسلامی ممالک نے قادیانیوں کو غیرمسلم قرار دے دیا۔
حکومت نے مسلم کالونی چناب نگر میں کافی رقبہ مختص کرکے اس میں مساجد، ڈاکخانہ اور اسکول بنائے۔ مجلس تحفظ ختم نبوت کو 9 کنال اراضی برائے تعمیر مسجد اور مدرسہ الا ٹ کی گئی۔ مجلس تحفظ ختم نبوت نے ریلوے اسٹیشن پر مسجد محمدیہ تعمیر کی۔ اسی سال قادیانیوں کے لیے علیحدہ اقلیت کے ووٹ فارم طبع ہوئے۔ جداگانہ طریقہ انتخاب رائج کیا گیا۔
 مرزائیوں کے سالانہ اجتماع جو قیام پاکستان 1947ء سے 1983ء تک ہر سال ہوتا تھا، پر ہمیشہ کے لیے بند کرادیا گیا۔ حضرت خواجہ خان محمدؒ کی زیر قیادت تیسری مرتبہ تحریک ختم نبوت چلی۔ جس کے نتیجے میں صدرِ پاکستان جنرل محمد ضیاء الحق نے 26اپریل 1984ء کو   آرڈیننس 20  جاری کرکے مرزائیوں اور  قادیانیوں کو مسلمان کہلوانے، اذان دینے، اپنی عبادت گاہ کو مسجد کہنے اور شعائر اسلامی کے استعمال سے روک دیا۔ تبلیغی اور ارتدادی سر گرمیں پر پابندی لگادی۔
یکم مئی 1984ء کو مرزائیوں کا سربراہ مرزا طاہر  پاکستان سے  برطانیہ چلا گیا   اور مرزائیت  کی تبلیغ جاری رکھی ۔








 قادیانیوں کے مطابق اِس وقت ،ایک کروڑ 67 لاکھ  لوگ اپنا مذہب چھوڑ کر قادیانی ہوئے ۔
پاکستان میں اِس وقت 40 لاکھ قادیانی آباد ہیں ۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭











کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

خیال رہے کہ "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ !

افق کے پار
دیکھنے والوں کو اگر میرا یہ مضمون پسند آئے تو دوستوں کو بھی بتائیے ۔ آپ اِسے کہیں بھی کاپی اور پیسٹ کر سکتے ہیں ۔ ۔ اگر آپ کو شوق ہے کہ زیادہ لوگ آپ کو پڑھیں تو اپنا بلاگ بنائیں ۔