Pages

میرے چاروں طرف افق ہے جو ایک پردہء سیمیں کی طرح فضائے بسیط میں پھیلا ہوا ہے،واقعات مستقبل کے افق سے نمودار ہو کر ماضی کے افق میں چلے جاتے ہیں،لیکن گم نہیں ہوتے،موقع محل،اسے واپس تحت الشعور سے شعور میں لے آتا ہے، شعور انسانی افق ہے،جس سے جھانک کر وہ مستقبل کےآئینہ ادراک میں دیکھتا ہے ۔
دوستو ! اُفق کے پار سب دیکھتے ہیں ۔ لیکن توجہ نہیں دیتے۔ آپ کی توجہ مبذول کروانے کے لئے "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ پوسٹ ہونے کے بعد یہ آپ کے ہوئے ، آپ انہیں کہیں بھی کاپی پیسٹ کر سکتے ہیں ، کسی اجازت کی ضرورت نہیں !( مہاجرزادہ)

ہفتہ، 14 اکتوبر، 2017

جمہوریت کے تقاضے


کل کی   ڈی جی آئی ایس پی آر،   کی پریس کانفرنس جو  وزارتِ دفاع  کے ماتحت ادارہ ، جائینٹ چیفس آف کمیٹی  کے انٹر سروسز  اینڈ پبلک   تعلقات  کے متظم  (ڈائریکٹر جنرل)   بیان باز   نے چیف آف آرمی سٹاف کے ، بلاڈی سویلئین کے ایک سمینار(  جس میں اُس کے جانے کی ضرورت نہیں تھی اور نہ ہی ہونا چاھئیے ) میں دیا ، کی صفائی پیش کرتے ہوئے، بالا بیان دیا ! 
جمہوریت کو خطرہ جمہوریت کے تقاضے پورا نہ کرنے سے ہے ۔
پریس کانفرنس کو میں نے پورا سنا ، اِس بیان بازی نے ، جسے کا چرچا خاموشی بہترین جواب ہے ، کے الٹ کے طور پر برپا کیا گیا- جسے عمران خان نیازی کے چاہنے والوں نے مارشل لاءِ کی زیر تبسّم نوید سمجھا  ، جو میرے نزدیک بالکل، عمران کے خلاف  اُسی کمیشن لاء  کی طرح ہے  جو الیکشن کمیشن میں اُس کے خلاف، اُسی کے ماتحت کی طرف سے  چل رہا ہے ۔مگر کیا کیا جائے کہ ، کمیشن لاء   کے پاس بندوق نہیں ،  طاقت کا ستعمال جو عمران خان اور طاہر القادری کے حامیوں نے 2014 میں   اور بعد میں کیا ، اُس کا خطرہ مجھے ، بالا بیان میں  نظرآیا ۔
جمہوریت کے تقاضے کو ن پورا نہیں کر رہا ؟ 
یہ سب سے اہم سوال تھا جس کا جواب میرے دماغ میں یہ فلیش ہوا۔
    جو تقاضہ عمران خان کر رہا ہے ؟
اگر میں وزیر اعظم بنا  تو جمہوریت کے بیل کے ساتھ میں یہ حشر کروں گا ! 
وڈیو دیکھیں :
لیکن  فوج کی نظر میں یہ جمہوری تقاضہ نہیں !
اور نہ ہی جمہوری تقاضہ  قومی اسمبلی، وزیر اعظم ہاؤس یا  پاکستان ٹی وی پر 2014 میں تھا۔
اور یہ بھی جمہوری تقاضا نہیں تھاکہ ، عمران خان اسلام آباد کو پختون خواہ کے دہشت پسندوں  گھیراؤ کے  بند کرنے کی شر پسند انہ کاروائی کرے ۔ 
اور یہ   جمہوری تقاضا نہیں ہو سکتاکہ ،   عدالتِ عالیہ کے عالی جج  کی طرف سے عمران خان کو  کہا جائے ، ہمارے پاس آؤ تاکہ ہم انصاف دیں !
میری رائے میں جو غلط بھی ہو سکتی ہے ، کہ مجھے فوج کو اللہ حافظ کہے   اٹھارہ سال ہو چکے ہیں ،  فوج ایک 10 سالہ طویل جمہوری راستے کی پرخار وادیوں سے گذر رہی ہے ، جس کے پیچھے  جمہور کی  دہشت گردی  ، امن  کے دستانے  اور نقاب پہنے کھڑی ہے ،
این اے 120 کا انتخاب فوج کی نظر میں جمہوری تقاضا ہے نہ کہ ملک میں انارکی کی آگ کو ہوا دینا ، لیکن کیا کیا جائے ، فوجی آفیسروں کے گھروں میں ، بھیڑ کی کھال پہنے بھیڑیئے کی پسند پائی جاتی ہے کیوں کہ  پیسوں سے خریدے جانے والے میڈیا کی ابلیسی قوت ، جسے شیطانی پروپیگنڈہ کہتے ہیں۔ اُس سے متاثر ہونا اانسانی فطری عمل ہے ۔اِس عمل کا وسیع تناظر میں موازنہ کسی سنیما گھر میں بیٹھے ہوئے ناظرین سے کیا جاسکتا ہے ۔




یہ بھی پڑھیں :






کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

خیال رہے کہ "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ !

افق کے پار
دیکھنے والوں کو اگر میرا یہ مضمون پسند آئے تو دوستوں کو بھی بتائیے ۔ آپ اِسے کہیں بھی کاپی اور پیسٹ کر سکتے ہیں ۔ ۔ اگر آپ کو شوق ہے کہ زیادہ لوگ آپ کو پڑھیں تو اپنا بلاگ بنائیں ۔