Pages

میرے چاروں طرف افق ہے جو ایک پردہء سیمیں کی طرح فضائے بسیط میں پھیلا ہوا ہے،واقعات مستقبل کے افق سے نمودار ہو کر ماضی کے افق میں چلے جاتے ہیں،لیکن گم نہیں ہوتے،موقع محل،اسے واپس تحت الشعور سے شعور میں لے آتا ہے، شعور انسانی افق ہے،جس سے جھانک کر وہ مستقبل کےآئینہ ادراک میں دیکھتا ہے ۔
دوستو ! اُفق کے پار سب دیکھتے ہیں ۔ لیکن توجہ نہیں دیتے۔ آپ کی توجہ مبذول کروانے کے لئے "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ پوسٹ ہونے کے بعد یہ آپ کے ہوئے ، آپ انہیں کہیں بھی کاپی پیسٹ کر سکتے ہیں ، کسی اجازت کی ضرورت نہیں !( مہاجرزادہ)

ہفتہ، 16 اپریل، 2016

حلیم کھوکلی !

بوڑھا دن بھر کی آوارہ گردی کے بعد تھکا ھارا گھر آیا ۔
تو بڑھیا نے پوچھا گیا کیا کھائیں گے ۔
جوب دیا ، کیا کھلانا ہے ؟
تو کسی ہوٹل کے بیرے کی مانند ملازم نے جواب دیا ۔
رائیتہ ہے ، آلو روٹی بوٹی ہے ، ساگ ہے ، قیمہ مٹر ہیں ، نہاری ہے ، دال ہے ، چکن بھی ہے ، اور حلیم بھی ۔
حلیم ؟ یہ کب بنایا ؟ بوڑھے نے بڑھیا کی طرف دیکھا ۔
کل مانی (برفی کا بابا ) واپس جا رہا تھا ، تو دوپہر کو بنایا تھا ، آپ شام کو کھانا باہر کھا کر آئے ، تو پڑا ہے ۔
یہ نہ سمجھیں کہ یہ تمام کھانے بڑھیا نے آج ہی بنائے ہیں !
یہ ہچھلے ہفتے بلکہ لڈو کے بابا کے بنائے ہوئے کھانے ہیں ، جن کو زیادہ پکا کر الگ فریز کر لیا گیا ہے ۔
ھوں ، تو حلیم لے آؤ !
تھوڑا ہے آپ کو پورا نہیں پڑے گا ۔ بڑھیا بولی
کوئی بات نہیں لے آؤ ۔ بوڑھے نے جواب دیا ۔
اور ھاں دال بھی لے آؤ ۔ کیوں کہ بوڑھے کو بہت بھوک لگی تھی ، دوپہر کا کھانا جو نہیں کھایا تھا ۔
تو جناب بوڑھے کے سامنے حلیم 8 چمچ اور بوڑھے کی پسندیدہ دال کا پیالہ ،
تو جناب بوڑھے نے حلیم کو دال میں ملایا ،
بڑھیا چلائی یہ کیا کر رہے ہیں ، حلیم کو خراب کر دیا
بوڑھے نے بڑھیا کے شور پر بالکل دھیان نہیں دیا ، دال میں چمچ سے حلیم کو مکس کیا ، اُس میں ایک عدد گرم گرم توے کی روٹی ٹکڑے کر کے ڈالی اور یہ ڈش بن گئی ۔
بوڑھے نے تصویر کھینچی ۔
اور ایک چمچ کھایا اور بڑھیا کو کہا ،
" ذرا کھا کر دیکھو ، میری ڈش !"
بڑھیا نے تین چمچ چکھے ،
" واہ یہ تو اچھا ذائقہ ہوگیا ۔"
پھر بوڑھے نے سرکہ میں ڈلی ہوئی سبز میٹھی مرچوں کا چھڑکاؤ کیا اور مزے لے کر کھایا ۔

بوڑھے نے یہ ڈش سوال کے طور پر فیس بک کے دوستوں کے سامنے رکھ دی ۔

اِس ڈش کا کیا نام ھے ؟
نام تو بوڑھے کو بھی نہیں معلوم تھا ۔
خیر دوستوں کے کئی نام بتائے ۔
راجھستان میں ایک جگہ ہے ڈھوکلہ ، وہاں شاید کوئی اکلوتی بیوی کا شوہر رہا ہوگا ، بوڑھے کی طرح ، اُس کی بڑھیا بھی ، اپنے شوہر کو ایسے ہی کھانے کھلاتی تھی ۔
بوڑھے نے پوچھا ہوگا ،
" ھے بسورے کی اماں ، تہار اَج کی بنائے ہو ؟ "
تو بڑھیا نے اُس کے سامنے یہ ڈش لا کر رکھ دی ۔

جس میں دن کے اُبلے چاول ، رات کی روٹی کے ٹکڑوں کو بچی ہوئی دال ، زیرے کا تڑکا لگا ہوا ، پودینے کے پتوں کے چھڑکاؤ کے ساتھ پیش کر دی ۔
بوڑھے کو کھانے میں بہت مزا آیا ، تین چار دن بعد دوبارہ فرمائش کی ، بڑھیا بھول چکی تھی کہ کیا پکایا تھا ؟
بڑھیا کہے نام تو بتاؤ کیا پکایا تھا ؟
بوڑھا نام وام کیا جانتا بس بضد ، کہ  " وہ بنا !"
اب بڑھیا کو خاک سمجھ آئے کیا بنا ؟

تو بھائی عبدالقدیر نے
ڈھوکلا ، گجرات ، راجستان میں رہنے والے  بوڑھے کی مدد کی اور اُس ڈش کو نام دیا ، " دال ڈھوکلی "
تو یہاں کے بوڑھے کو اوپر والی ڈش کا نام یاد آگیا ۔

کیا ؟ ؟ ؟ ؟

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

خیال رہے کہ "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ !

افق کے پار
دیکھنے والوں کو اگر میرا یہ مضمون پسند آئے تو دوستوں کو بھی بتائیے ۔ آپ اِسے کہیں بھی کاپی اور پیسٹ کر سکتے ہیں ۔ ۔ اگر آپ کو شوق ہے کہ زیادہ لوگ آپ کو پڑھیں تو اپنا بلاگ بنائیں ۔