بوڑھا دن بھر کی آوارہ گردی کے بعد تھکا ھارا گھر آیا ۔
تو بڑھیا نے پوچھا گیا کیا کھائیں گے ۔
جوب دیا ، کیا کھلانا ہے ؟
تو کسی ہوٹل کے بیرے کی مانند ملازم نے جواب دیا ۔
رائیتہ ہے ، آلو روٹی بوٹی ہے ، ساگ ہے ، قیمہ مٹر ہیں ، نہاری ہے ، دال ہے ، چکن بھی ہے ، اور حلیم بھی ۔
حلیم ؟ یہ کب بنایا ؟ بوڑھے نے بڑھیا کی طرف دیکھا ۔
کل مانی (برفی کا بابا ) واپس جا رہا تھا ، تو دوپہر کو بنایا تھا ، آپ شام کو کھانا باہر کھا کر آئے ، تو پڑا ہے ۔
یہ نہ سمجھیں کہ یہ تمام کھانے بڑھیا نے آج ہی بنائے ہیں !
یہ ہچھلے ہفتے بلکہ لڈو کے بابا کے بنائے ہوئے کھانے ہیں ، جن کو زیادہ پکا کر الگ فریز کر لیا گیا ہے ۔
ھوں ، تو حلیم لے آؤ !
تھوڑا ہے آپ کو پورا نہیں پڑے گا ۔ بڑھیا بولی
تو جناب بوڑھے نے حلیم کو دال میں ملایا ،
بڑھیا چلائی یہ کیا کر رہے ہیں ، حلیم کو خراب کر دیا
بوڑھے نے بڑھیا کے شور پر بالکل دھیان نہیں دیا ، دال میں چمچ سے حلیم کو مکس کیا ، اُس میں ایک عدد گرم گرم توے کی روٹی ٹکڑے کر کے ڈالی اور یہ ڈش بن گئی ۔
بوڑھے نے تصویر کھینچی ۔
اور ایک چمچ کھایا اور بڑھیا کو کہا ،
" ذرا کھا کر دیکھو ، میری ڈش !"
بڑھیا نے تین چمچ چکھے ،
" واہ یہ تو اچھا ذائقہ ہوگیا ۔"
پھر بوڑھے نے سرکہ میں ڈلی ہوئی سبز میٹھی مرچوں کا چھڑکاؤ کیا اور مزے لے کر کھایا ۔
بوڑھے نے یہ ڈش سوال کے طور پر فیس بک کے دوستوں کے سامنے رکھ دی ۔
اِس ڈش کا کیا نام ھے ؟
نام تو بوڑھے کو بھی نہیں معلوم تھا ۔
خیر دوستوں کے کئی نام بتائے ۔
راجھستان میں ایک جگہ ہے ڈھوکلہ ، وہاں شاید کوئی اکلوتی بیوی کا شوہر رہا ہوگا ، بوڑھے کی طرح ، اُس کی بڑھیا بھی ، اپنے شوہر کو ایسے ہی کھانے کھلاتی تھی ۔
بوڑھے نے پوچھا ہوگا ،
" ھے بسورے کی اماں ، تہار اَج کی بنائے ہو ؟ "تو بڑھیا نے اُس کے سامنے یہ ڈش لا کر رکھ دی ۔
جس میں دن کے اُبلے چاول ، رات کی روٹی کے ٹکڑوں کو بچی ہوئی دال ، زیرے کا تڑکا لگا ہوا ، پودینے کے پتوں کے چھڑکاؤ کے ساتھ پیش کر دی ۔
بوڑھے کو کھانے میں بہت مزا آیا ، تین چار دن بعد دوبارہ فرمائش کی ، بڑھیا بھول چکی تھی کہ کیا پکایا تھا ؟
بڑھیا کہے نام تو بتاؤ کیا پکایا تھا ؟
بوڑھا نام وام کیا جانتا بس بضد ، کہ " وہ بنا !"
اب بڑھیا کو خاک سمجھ آئے کیا بنا ؟
تو بھائی عبدالقدیر نے ڈھوکلا ، گجرات ، راجستان میں رہنے والے بوڑھے کی مدد کی اور اُس ڈش کو نام دیا ، " دال ڈھوکلی "
تو یہاں کے بوڑھے کو اوپر والی ڈش کا نام یاد آگیا ۔
بڑھیا چلائی یہ کیا کر رہے ہیں ، حلیم کو خراب کر دیا
بوڑھے نے بڑھیا کے شور پر بالکل دھیان نہیں دیا ، دال میں چمچ سے حلیم کو مکس کیا ، اُس میں ایک عدد گرم گرم توے کی روٹی ٹکڑے کر کے ڈالی اور یہ ڈش بن گئی ۔
بوڑھے نے تصویر کھینچی ۔
اور ایک چمچ کھایا اور بڑھیا کو کہا ،
" ذرا کھا کر دیکھو ، میری ڈش !"
بڑھیا نے تین چمچ چکھے ،
" واہ یہ تو اچھا ذائقہ ہوگیا ۔"
پھر بوڑھے نے سرکہ میں ڈلی ہوئی سبز میٹھی مرچوں کا چھڑکاؤ کیا اور مزے لے کر کھایا ۔
بوڑھے نے یہ ڈش سوال کے طور پر فیس بک کے دوستوں کے سامنے رکھ دی ۔
اِس ڈش کا کیا نام ھے ؟
نام تو بوڑھے کو بھی نہیں معلوم تھا ۔
خیر دوستوں کے کئی نام بتائے ۔
راجھستان میں ایک جگہ ہے ڈھوکلہ ، وہاں شاید کوئی اکلوتی بیوی کا شوہر رہا ہوگا ، بوڑھے کی طرح ، اُس کی بڑھیا بھی ، اپنے شوہر کو ایسے ہی کھانے کھلاتی تھی ۔
بوڑھے نے پوچھا ہوگا ،
" ھے بسورے کی اماں ، تہار اَج کی بنائے ہو ؟ "تو بڑھیا نے اُس کے سامنے یہ ڈش لا کر رکھ دی ۔
جس میں دن کے اُبلے چاول ، رات کی روٹی کے ٹکڑوں کو بچی ہوئی دال ، زیرے کا تڑکا لگا ہوا ، پودینے کے پتوں کے چھڑکاؤ کے ساتھ پیش کر دی ۔
بوڑھے کو کھانے میں بہت مزا آیا ، تین چار دن بعد دوبارہ فرمائش کی ، بڑھیا بھول چکی تھی کہ کیا پکایا تھا ؟
بڑھیا کہے نام تو بتاؤ کیا پکایا تھا ؟
بوڑھا نام وام کیا جانتا بس بضد ، کہ " وہ بنا !"
اب بڑھیا کو خاک سمجھ آئے کیا بنا ؟
تو بھائی عبدالقدیر نے ڈھوکلا ، گجرات ، راجستان میں رہنے والے بوڑھے کی مدد کی اور اُس ڈش کو نام دیا ، " دال ڈھوکلی "
تو یہاں کے بوڑھے کو اوپر والی ڈش کا نام یاد آگیا ۔
کیا ؟ ؟ ؟ ؟
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں