Pages

میرے چاروں طرف افق ہے جو ایک پردہء سیمیں کی طرح فضائے بسیط میں پھیلا ہوا ہے،واقعات مستقبل کے افق سے نمودار ہو کر ماضی کے افق میں چلے جاتے ہیں،لیکن گم نہیں ہوتے،موقع محل،اسے واپس تحت الشعور سے شعور میں لے آتا ہے، شعور انسانی افق ہے،جس سے جھانک کر وہ مستقبل کےآئینہ ادراک میں دیکھتا ہے ۔
دوستو ! اُفق کے پار سب دیکھتے ہیں ۔ لیکن توجہ نہیں دیتے۔ آپ کی توجہ مبذول کروانے کے لئے "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ پوسٹ ہونے کے بعد یہ آپ کے ہوئے ، آپ انہیں کہیں بھی کاپی پیسٹ کر سکتے ہیں ، کسی اجازت کی ضرورت نہیں !( مہاجرزادہ)

پیر، 25 اپریل، 2016

شیطان نامہ - ابتداءِ فساد

کبھی کبھی میرے دل میں خیال آتا ہے ۔
کہ تیری ذریّت !
کاش !
یہ فساد نہ پھیلاتی ۔
شیطانی چاپلوسی کا شاعرانہ وار 
12 April 2012
 
دہقاں تو مر بھی گیا اب کس کو جگاؤں
اُگتا ہی نہیں خوشہ گندم کہ جلاؤں
شاہین کا ہے گنبد شاہی پے بسیرا
کنشک فرد مایہ کو اب کس سے لڑاؤں
اقبال کے اس دیش کا کیا حال سناؤں 
ہر داڑھی میں تنکا ہے ہر اک آنکھ میں شہتیر
مومن کی نگاہوں سے بدلتی نہیں تقدیر
توحید کی تلوار سے خالی ہیں نیامیں
کٹتی نہیں اب ذوق یقیں سے کوئی زنجیر
اقبال کے اس دیش کا کیا حال سناؤں
تھامے ہوئے  اب ہم بھی ہیں فولاد کی تلوار
ٹوٹی ہے مگر فقر کی شمشیر جگر وار
قران بھی وہی ہے وہی یٰسین وہی طہٰ
لیکن کوئی خالد ہے نہ ہے حیدر قرار
اقبال کے اس دیش کا کیا حال سناؤں
شاہین کا جہاں آج ممولے کا جہاں ہے
ملتی ہوئی ملا سے مجاہد کی اذاں ہے
مانا کے ستاروں سے بھی آگے جہاں اور
شاہین میں مگر طاقت پرواز کہاں ہے.
اقبال کے اس دیش کا کیا حال سناؤں
حق گوئی بیباکی سے شرماتا ہے مومن
مکاری ، روباہی پہ اتر آتا ہے مومن
جس رزق سے پرواز میں کوتاہی کا ڈر ہو
وہ رزق بڑھے شوق سے اب کھاتا ہے مومن
اقبال کے اس دیش کا کیا حال سناؤں
مر مر کی سلوں سے کوئی بیزار نہیں ہے
رہنے کو حرم میں کوئی تیار نہیں ہے
کہنے کو تو ہر شخص مسلمان ہے لیکن
بے داغ کسی شخص کا کردار نہیں ہے
اقبال کے اس دیش کا کیا حال سناؤں
محمودوں کی صف آج ایازوں سے پرے ہے
سلطانی جمہور سے جمہور ڈرے ہے
تھامے ہوے دامان جو بھی ہے خودی کا
مر مر کے جیے ہے کبھی جی جی کے مرے ہے
اقبال کے اس دیش کا کیا حال سناؤں
دیکھو تو ذرا محلوں کے پردے کو اٹھا کر
شمشیر و سنان رکھے ہیں طاقوں میں سجا کر
آتے ہیں نذر مسند شاہی بہ طبلچی
تقدیر امم بیٹھی ہے طاؤس پہ آ کر
اقبال کے اس دیش کا کیا حال سناؤں؟
کردار کا گفتار کا اعمال کا مومن
قائل نہیں اس قسم کے جنجال کا مومن
فرقوں میں بٹا پھرتا ہے قوال ہے مومن
ڈھونڈھے سے بھی ملتا نہیں اقبال کا مومن
اقبال کے اس دیش کا کیا حال سناؤں ؟
قارئین ، شیطان کے اِن شیطانی اشعار  پر سر نہ وجد میں گھمائیں ۔ پہلے فرموداتِ مفتی سے ایک فرمود ۔

٭٭٭واپس ۔شیطان نامہ  ۔ فہرست ٭٭٭


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

خیال رہے کہ "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ !

افق کے پار
دیکھنے والوں کو اگر میرا یہ مضمون پسند آئے تو دوستوں کو بھی بتائیے ۔ آپ اِسے کہیں بھی کاپی اور پیسٹ کر سکتے ہیں ۔ ۔ اگر آپ کو شوق ہے کہ زیادہ لوگ آپ کو پڑھیں تو اپنا بلاگ بنائیں ۔