Pages

میرے چاروں طرف افق ہے جو ایک پردہء سیمیں کی طرح فضائے بسیط میں پھیلا ہوا ہے،واقعات مستقبل کے افق سے نمودار ہو کر ماضی کے افق میں چلے جاتے ہیں،لیکن گم نہیں ہوتے،موقع محل،اسے واپس تحت الشعور سے شعور میں لے آتا ہے، شعور انسانی افق ہے،جس سے جھانک کر وہ مستقبل کےآئینہ ادراک میں دیکھتا ہے ۔
دوستو ! اُفق کے پار سب دیکھتے ہیں ۔ لیکن توجہ نہیں دیتے۔ آپ کی توجہ مبذول کروانے کے لئے "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ پوسٹ ہونے کے بعد یہ آپ کے ہوئے ، آپ انہیں کہیں بھی کاپی پیسٹ کر سکتے ہیں ، کسی اجازت کی ضرورت نہیں !( مہاجرزادہ)

ہفتہ، 30 اپریل، 2016

شیطان نامہ - قسط نمبر ۔12۔امارات حج

  امارات حج .

حضرت شاہ ولی الله محدث دہلوی:
یزید بن معاویہ نے امیر حج کی حیثیت سے تین مرتبہ حج کیا اور لوگوں کو حج کرایا .یعنی ہجری 51 ، 52 اور 53 میں.
(البدایه و النہایه جلد 8 صفہ 229)

مورخ اسلام علامہ ذہبی(دمشقی)  " تاریخ اسلام و طبقات المشا ہیر و الاعلام " میں لکھتے ہیں کہ امیر یزید نے ان تین سالوں میں 51 سے 53 ہجری میں امیر الحج کی حیثیت سے حج ادا کیے. (جلد 3 صفہ 91 )

شیعہ مورخ طبری نے بھی امیر یزید کے امیر الحج ہونے کا تذکرہ کیا ہے ، اور 51 ہجری کے حالات میں لکھا ہے کہ مذہبی اور سیاسی دونوں طرح سے منصب امارت حج ایک عظیم اور جلیل منصب تھا فتح مکہ ہجری 8 کے بعد رسول الله نے 9 ہجری کو یہ منصب حضرت ابو بکر کو سونپا تھا اور ہجری ١٠ میں ہجرت کے بعد آپ نے پہلا اور اپنی حیات طیبہ آخری حج ادا کیا جو حجتہ الوداع کہلاتا ہے اور اس میں رسول الله خود امیر حج تھے ، آپ کی وفات کے بعد خلفا راشدین نے بھی اس سنت کی پیروی کی یعنی کبھی خود امیر ہوتے کبھی نائبین کو بھجتے جو علم تقوے اور فن خطابت میں شان امتیاز رکھتے تھے راشدین میں سے حضرت ابو بکر صدیق ، حضرت عمر فاروق اور حضرت عثمان اپنے اپنے عہد خلافت میں تقریباً ہر سال حج کے لئے تشریف لے جاتے اور امیر حج کے فرائض ادا کرتے اور اطراف و اکناف سے جو مسلمان حج کرنے آتے وو ان کے خطبوں سے مستفید ہوتے،ضروریات ملیہ پر ہدایتیں ہوتیں اور نصحتیں ہوتیں ، پیر حاجیوں سے ملاقات کرتے اور ان کی شکایتیں رفح کرتے . حضرت علی نے چونکہ مدینہ کو چھوڑ کر کوفہ کو دار الخلافه بنا لیا تھا اس لئے ان ایام میں نہ کوئی حج ہوا اور نہ کبھی امیر کے فرائض ادا کیے گے اور نہ ان کی اولاد نے یہ کام کیا حضرت معاویہ نے دو مرتبہ امیر حج کے فرائض ادا کیے (البدایه جلد 8 صفہ 133 )
ابن حزم اندلسی مکمل نام ابو محمد علی بن احمد بن سعید بن حزم مؤرخ تھے اور ان کی تاریخ کی کتاب معروف ہے۔
پھر ان کے نائبین میں سے ان کے لائق فرزند امیر یزید تین سال متواتر امیر حج رہے.

ان تین سالوں میں سے آخری سال جب امیر حج کی حیثیت سے امیر یزید دمشق سے حجاز آے تو انہوں نے حضرت حسین کی بھتیجی حضرت عبدللہ بن جعفر الطیار کی بیٹی سیدہ ام محمّد سے نکاح کیا (صفحہ 62 جمہرہ الانساب ابن حزم)

.اس رشتہ کے حساب سے امیر یزید حضرت حسین کے بھتیجے داماد اور دوسرے رشتہ کے اعتبار سے بہنوئی ہوتے تھے.یعنی حضرت حسین کی پہلی بیوی سیدہ آمنہ والدہ علی اکبر بن الحسین حضرت معاویہ کی حقیقی بھانجی تھیں یعنی میمونہ بنت ابو سفیان کی بیٹی تھیں.(صفحہ 255
جمہرہ انساب اور طبری جلد 13 صفہ 19 )

ان سالہ بہنوئی اور خسر و داماد کے تعلقات حضرت حسین کے خروج سے پہلے بہت ہی خوشگوار تھے اور انس و محبت کے رہے،دیگر صحابہ و مجاہدین کی طرح حضرت حسین نے بھی جہاد قسطنطنیہ کے ایام میں جس کی مدت قوی اثار سے چار ماہ کی تھی اپنے امیر کی قیادت میں پنچ وقتہ نمازیں ادا کیں پھر ان تین سالوں کے دوران ان کی امارت حج میں مناسک حج ادا کیے ان کے خطبات سنے اور تمام حاجیوں کے ساتھ ان کے پیچھے نمازیں پڑیں . امیر یزید کے ولی عہد بننے سے پہلے اور ولی عہد بننے کے بعد بھی وہ ہر سال دمشق جاتے اور عزیزوں اور رشتہ داروں کی طرح ان کے ہاں قیام کرتے اور وظائف اور عطیات کی بیش بہا رقوم حاصل کرتے

عراقی سبائیوں نے حضرت حسن کی وفات کے بعد حضرت حسین کو ورغلانے کی کوشش کی تھی اہل کوفہ میں سے جعدہ بن ہبیرہ بن ابی وہب نے حضرت حسین کو خط لکھا تھا کہ " پس تم کو اگر اس امر ( خلافت ) کی خواہش ہے تو ہمارے پاس آ جاؤ ہم نے اپنی جانوں کو تمھارے ساتھ مرنے پر وقف کر رکھا ہے." اخبار الطوال صفہ 235 .

اس خط کے جواب میں حضرت حسین نے لکھ بھیجا کہ تم لوگ بد ظنی سے بچو اپنے اپنے گھروں میں بیٹھے رہو جب تک معاویہ زندہ ہیں کوئی حرکت نہ کرنا اور اگر اس کا وقت آ گیا اور میں زندہ رہا تو اپنی راے سے آگاہ کروں گا.
اخبار الطوال صفہ 235 .

  

٭٭٭واپس ۔شیطان نامہ  ۔ فہرست ٭٭٭




نوٹ 



٭٭٭واپس ۔شیطان نامہ  ۔ فہرست ٭٭٭

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

خیال رہے کہ "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ !

افق کے پار
دیکھنے والوں کو اگر میرا یہ مضمون پسند آئے تو دوستوں کو بھی بتائیے ۔ آپ اِسے کہیں بھی کاپی اور پیسٹ کر سکتے ہیں ۔ ۔ اگر آپ کو شوق ہے کہ زیادہ لوگ آپ کو پڑھیں تو اپنا بلاگ بنائیں ۔