Pages

میرے چاروں طرف افق ہے جو ایک پردہء سیمیں کی طرح فضائے بسیط میں پھیلا ہوا ہے،واقعات مستقبل کے افق سے نمودار ہو کر ماضی کے افق میں چلے جاتے ہیں،لیکن گم نہیں ہوتے،موقع محل،اسے واپس تحت الشعور سے شعور میں لے آتا ہے، شعور انسانی افق ہے،جس سے جھانک کر وہ مستقبل کےآئینہ ادراک میں دیکھتا ہے ۔
دوستو ! اُفق کے پار سب دیکھتے ہیں ۔ لیکن توجہ نہیں دیتے۔ آپ کی توجہ مبذول کروانے کے لئے "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ پوسٹ ہونے کے بعد یہ آپ کے ہوئے ، آپ انہیں کہیں بھی کاپی پیسٹ کر سکتے ہیں ، کسی اجازت کی ضرورت نہیں !( مہاجرزادہ)

اتوار، 5 جولائی، 2015

نمّو کی پہلی اُڑان

" آوا ، مجھے وہ سٹوری سنائیں ، جب آپ نے اُڑنے کی کوشش کی تھی" ۔ چم چم نے صبح سمر کیمپ جاتے ہوئے گھر کی سیڑھیوں پر کوسٹر کے انتظا ر میں بوڑھے کے ساتھ بیٹھے ہوئے کہا ۔
" میرا خیال ہے کہ آپ ، سمر کیمپ سے واپس آ جاؤ پھر میں رات کو سٹوری ٹائم میں سناؤں گا " بوڑھا بولا -
چم چم کو معلوم تھا کہ بوڑھے نانا کو منانے کا سب سے بہترین طریقہ کیا ہے ؟ 
چنانچہ اُس نے بوڑھےکو ڈرل پپّی دی ، تو بوڑھا مان گیا ۔
 غالباً یہ 1959کا ذکر ہے۔ نمّو اُن دنو ں ایبٹ آباد میں رہتا تھا اور پکّی کلاس میں پڑھتا ۔ اُس کا بستہ ، ایک خوبصورت ، قریسئہ سے بنائی ہوئی ایک ، رنگ برنگے دھاگوں کا ایک تھیلی نما بیگ تھا ۔ جو اُس کی امّی نے بنا کر دیا تھا ۔ جو وہ گلے میں لٹکایا کرتا تھا ، جس میں ، الف ب اور پ کی کتاب، گاچی کا ٹکڑا ، کالی سیاہی کی دوات او ر نڑ (کانے ) کا قلم ، کچے سکّے کی پینسل ، اور ہاتھ میں بہترین گاچی لگی ہوئی تختی ، جس کے ایک طرف ، اردو لکھنے کے لئے لائنیں اور دوسری طرف گنتی لکھنے کے لئے چوکور خانے ، یہ چوکور خانے اُس کے ابّا نے یونٹ کے کارپینٹر سے آری کی ہلکی خراش سے بنوائے تھے -
"آوا سکول میں۔ نمو لنچ میں کیا کھاتا  ؟ " چم چم نے سوال کیا ۔
" نمو کی امی  ، اُنہیں اچار پراٹھا دیتیں ، کبھی   روٹی چینی اور گھی کا اگلو بنا کردیتیں اور کبھی  بھنی ہوئی نرم مزیدار چھلّی  " بوڑھے نے بتایا 

" کوئی پیسے نہیں دیتیں "- چم چم اُن دونوں بچوں کو پیسے نہیں دیئے جاتے تھے " بوڑھے نے بتایا ۔
" کیوں ؟" چم چم نے پوچھا۔
" وہ اِس لئے مائی سوئیٹ ہارٹ کہ بچے کوئی اِن ھائیجینک چیزیں لے کر نہ کھائیں " بوڑھے نے بتایا ۔
"تو بالکل پیسے نہیں ملتے عید پر بھی نہیں " چم چم نے حیرانی سے پوچھا ۔
" نہیں ملتے تھے ، مگر عید پر اور وہ بھی   ، ایک آنہ " بوڑھا بولا ۔

"  آنہ کیا ہوتا ہے ؟" 
" ایک آنے میں اُس وقت چار پیسے ہوا کرتے تھے اور بہت چیزیں ملا کر تی تھی ۔ لیکن نمو کی امی ، سب بچوں کو ایک ایک پیسہ دیتیں تاکہ سب خرچ نہ کردیں "  بوڑھابولا- 
" آوا، نمو  ایک پیسے کا کیا لیتا" چم چم نے پوچھا ۔
" لاچا "
" لاچا ۔ آوا وہ کیا ہوتاہے ؟"
چم چم نے پوچھا ۔
 " مائی سوئیٹ ہارٹ ، لاچا بہت ہی مزیدار  اور میٹھا رنگ برنگا ہوتا " بوڑھے نے لاچے کا ذائقہ میں میں محسوس کرتے ہوئے کہا  ۔"  ایک بوڑھا بابا آتا ، اُس کے پاس ایک  موٹے سے ڈنڈے پر  گھنٹیاں لگی ہوتیں ، اور لاچا لپٹا ہوتا ۔ وہ ڈنڈا زور سے زمین پر مارتا ، بو بچے دوڑ کر لاچا لینے جاتے ، لڑکیاں گڑیاں بنواتیں اور لڑکے ، حقہ   یا کوئی اور چیز ۔ پھر چوس چوس کر کھاتے "

  نمّو کی امی ، اُسے، اُس کی آپا اور چھوٹے بھائی کو روزانہ رات کو ، سٹوری ٹائم میں کہانیاں سنایا کرتی تھیں ، کبھی جن بھوتوں کی ، کبھی عمرو عیار ،شیر شاہ کا انصاف ، انصاف پسند قاضی ، کبھی الف لیلا ہزا ر داستان ، الف لیلا چالیس چور، کبھی بادشاہوں کے قصے ،اقوالِ رومی ، کبھی اسلامی کہانیا ں ۔ بوڑھے نے اپنی یادوں کو ٹٹولتے ہوئے چم چم کو بتایا ۔ 
" اتنی سٹوری ، آوا آپ مجھے سب سنائیں گے " چم چم بولی
 " اوکے " بوڑھا بولا ۔
 کیوں کہ اُسے معلوم تھا کہ کہانیاں ،گو تفریح کا ذریعہ سمجھی جاتیں ہیں ، لیکن اُن کے پڑھنےاور سننے سے بچوں کے ذہن میں الفاظ کا انمول خزانہ جمع ہوتا رہتا ہے۔
ہاں تو اُن دنو ں ، نمّو پانچ سال کا تھا، آپا سات سال کی،چھوٹا بھائی چار سال اور ننھی منی بہن رانی سات مہینے کی تھی۔ 
نمّو ”پکی“ جماعت میں اور آپا دوسری جماعت میں تھی۔ سکول کا نام "گورنمنٹ برکی پرائمری سکول" تھا۔ جو نمّو کے گھر سے سو گز کے فاصلے پر تھا۔ 
نمّو کی آپا بچپن سے بہت ذھین اور پڑھائی میں تیز تھی۔ 
جب اقبال خالو نائب صوبیدار بن کر پروموشن پر،گلزار خالہ کے ساتھ نوشہرہ سے پوسٹ ہو کر ایبٹ آباد آئے ، تو اُنہیں 16 نمبر گھر ملا اورنمّو 17 نمبر گھر میں رہتا تھا ۔ نمّو بہت خوش کہ اُس کی چہیتی خالہ آگئی تھی ۔ 

نمّوکی امّی نے گلزار خالہ دعوت کی ،پلاؤ اور زردہ بنایا اور مرغا پکایا ، پہلے گھر میں پالے ہوئے دیسی مرغے ، پر اتار کر ، کھال سمیت پکائے جاتے تھے ، جو صرف مہمانوں کے لئے پکتے ، یا جب کبھی ، مرغیوں پر بیماری کا شبہ ہوا فوراً ذبح کر لی جاتی، مرغیاں بہت کم مرا کرتی تھیں ، زیادہ تر وہ بلیوں یا کتوں کے ہتھے چڑھتیں-نمّو کے مرغےبڑے شاندار اور لڑاکا ہوا کرتے تھے - 
مرغی کے پروں سے عموماً چڑی بنائی جاتی ، وہ ایسے کہ مکئی کےسٹے میں دو ، تین یا چا ر برابر کے پر لگا کر آپا یا امی کھلونا بناکر دیتیں جسے اوپر پھینکیں تو آرام سے گھومتا ہوا نیچے آتا تھا۔نمّو کو یہ کھیل کھیلتے ہوئے اُس کے ذہن میں خیال آیا کہ اگر میں یہ پر باندھ لوں تو کیا میں بھی پری کی طرح اڑ سکوں گا۔
 " آپا مجھے اگر آپ یہ پر لگا دو تو کیا میں اُڑ سکوں گا " نمّو نے آپا سے پوچھا ،
نمّو، ہر چیز آپا سے پوچھا کرتا تھا کیوں کہ وہ بڑی تھی اور ذہین بھی ، نمّو کو گنتی بھی پڑھاتی ، یہ اور بات وہ اپنے ، " کاچرے ماسٹر" کی طرح پڑھاتی اور نمّو کو مارتی اور پھر دونوں میں لڑائی ہوجاتی ۔ نمّو گلزار خالہ کے ہاں بھاگ جاتا ۔
اِس بھاگ دوڑ میں نمّو ، تیز دوڑ نے کا ماہر ہو گیا ۔ اور آپّا کو بہت پیچھے چھوڑ دیتا ۔ جب تک وہ گلزار خالہ کے ہاں پہنچتی ، گلزا ر خالہ مظلوم نمّو کی مدد دل و جان سے کرتی ہوئی اُسے مرغیوں کے ٹوکرے کے نیچے بٹھا دیتیں-
آپا دو کمروں کے پورے گھر کو تلاش کرتی ، چارپائیوں کے نیچے دیکھتی ، مگر ناکام ہو کر مایوس روتی ہوئی لوٹ جاتی ۔
جب وہ چلی جاتی تو گلزار خالہ نمّو کو آواز دیتیں ، " وے لالہ بار " او ر لالہ باہر آجاتا ۔ 
جب تک گلزار خالہ ، نہیں آئیں تھیں ، تو آپا ، نمّو کی پٹائی کرتی ۔
 "ہاں بالکل اڑ سکتے ہو" آپا نے کہا-
 آپا نے ، امی کو اُن کی امی کی طرف سے ملی ہوئی سنگر کی سلائی مشین سے دھاگہ نکالا اور نمّو کی قمیض کے دونوں کندھوں پر، مرغی کے بازوؤں کے چار بڑے پر لگا دیئے۔
 " بازو ہلانا " آپانے حکم دیا ۔
نمّو نے دونوں بازو ہلائے ، آپا نے کچھ سوچا اور دو دو پر دونوں طرف لگا دئے ۔
 یعنی کل چھ پر دائیں بازو پر اور چھ پر بائیں بازو پر ، تاکہ اُڑنے میں آسانی ہو ! 
اب کہاں سے اُڑا جائے؟ 
نمّونے چھ انچ اُونچے ، برآمدے سے  کندھے ہلاتے چھلانگ لگائی ۔
" آپا پر ہلے تھے " نمو  ےپوچھا
ہاں ، ہاں ، لالہ پر ہلے تھے " آپا چلائی ۔ 

مگر نمو کو مزا نہیں آیا ۔ وہ تو ایسا اُڑنا چاھتا تھا جیسے پرندے اُڑتے تھے ، کہ جونہی آپا اُسے مارنے لگے وہ چڑیوں کی طرح اُڑ جائے ۔
 ایک دفعہ پانی کے بڑے سے تالاب میں ، مقابلے ہوئے تو اُس کے ابّا اُسے اور آپا کو ساتھ لے گئے ، جہاں بہت اونچی جگہ سے لوگ اُڑتے ہوئے ، قلابازیاں لگاتے ہوئے آتے اور مچھلی کی طرح پانی میں گھس جاتے۔ 
نمّو نے سوچا کیا کیا جائے ؟۔

 نمّو گھر کے نزیک بہنے والے پختہ برساتی نالا جو دو فٹ چوڑا اور اتنا ہی گہرا تھا، نمّو سکول جاتے ہوئے، پُل کے بجائے اُسے چھلانگ لگا کر اسے پار کر کے جاتا، آپا پّل سے جاتی ۔ 
چنانچہ نمّو نے نالے کے اوپر سے چھلانگ لگا کر اڑنے کا فیصلہ کیا گیا۔آپا نے یہ طے کیا  کہ  پہلے  نمّو اُڑے گا اور پھر آپا ، نمّو کو معلوم تھا کہ وہ جیت جائے گا ۔
دونوں بہن بھائی نے نالے کے ایک طرف اینٹوں سے ایک فٹ اونچا تھڑا بنایا۔ تاکہ نمّو دور سے پوری قوت سے دوڑتے ہوئے آئے او ر اونچا اُڑے ۔
 نمّو کو امید تھی کہ اگر وہ کامیاب ہو گیا تو وہ اُڑتا ہوا سکول بھی جایا کرے گا  ۔
 اب وہ کتنا پیچھے سے دوڑے ، تاکہ پر خوب زور زور سے ہلیں اور وہ آسانی سے اُڑ سکے، پہلے تو اُس نے دوڑ کرر یہرسل کی ، آپانے بتایا ، کہ پر خوب ہل ر ہے ہیں ۔
 جب نمّو کو یقین ہو گیا کہ اب وہ آسانی سے اُڑ سکے گا تو ، وہ اپنے گھر اور گلزار خالہ کے دروازے کی لائن میں ، اینٹوں کے تھڑے کی سیدھ میں کھڑا ہوا۔
 آپا نے اے ایم سی سنٹر میں ہونے والی اتھلیٹک کی ریسوں کے سٹارٹر کی طرح ، سٹک بلند کی وہ نالے کے نزدیک کھڑی تھی ۔
 نمّو نے اپنی پہلی اُڑان کےلئے تیاری کی اُس نے سو میڑ ریس دوڑنے والے کی طرح پوزیشن لی -
 چہرہ اٹھایا اور آپا کی طرف دیکھا ۔ " آن یور مارک ، ریڈی ، گیٹ ، سیٹ ، ٹھاہ " آپا چلائی او رسٹک نیچے کی جو بندوق چلنے کا پہلے سے طے شدہ اشارہ تھا ۔
 نمّو ، اچھلتا ہوا دوڑا ، تھڑا نزدیک آتا جارہا تھا -
نمّو نے تھڑے پر پاؤں رکھا فضا میں بلند ہونے کی کوشش کی ، اُس کے بعد نمّو کو یاد نہیں کیوں کہ وہ فضائے بسیط میں کھو چکا تھا ۔ 
ہوش آیا تو وہ ہسپتال میں تھا ،ناک ، چہرے ، کہنیوں ، گھٹنوں اور پنڈلیاں میں سخت درد ہو رہا تھا -
اُس کا سر امّی گود میں تھا ، گلزار ، خالہ او ر آپا پھسک پھسک رو رہی تھیں ۔ 
نمّو نے آپا کی طرف منہ کیا او ر سرگوشی میں پوچھا ، " آپا کیا میں اُڑا تھا ؟ 
" آپا نے سر گوشی میں جواب دیا ،" ہاں تھوڑا ، اُڑے تھے لیکن ایک پر ٹوٹنے کی وجہ سے شاید زیادہ نہیں اُڑے"
 کورٹ آف انکوائری کے ذریعے معلوم  کرنے کی کوشش کی گئی کہ وہ کیا وجوہات تھیں کہ نمو کی اُڑنے کی پہلی کوشش ناکام ہوئی -
 ہوا  یہ کہ، نمّو نے جب اپنی پہلی اُڑان کے لئے تھڑے پر پیر رکھا تو تھڑے کی ایک اینٹ پھسل جانے سے نمّو نالی میں جاگرا اور بے ہوش ہو گیا ۔ 
چہرہ ، کہنیاں اور گھٹنے خون سے لال ہوگئے ۔
 آپا نے وہیں بیٹھ کر زور زور سے رونا شروع کیا ۔
نمّو کی امی اور پڑوسن گلزار خالہ دوڑتی ہوئی آئیں اور انہیں ہسپتال لے جایا گیا۔
گلزار خالہ کو جب معلوم ہوا کہ یہ نجمی کی شرارت تھی تو انہوں اُس کی خوب دھنائی کی۔ 
گلزار خالہ  کی کوئی اولاد نہیں تھی ،  وہ نمّو کو گود میں اُٹھا کر اپنے گھر لے جاتیں  ۔ بلکہ 1957 کی بات ہے کہ نمو کی امی بہت بیمار ہوگئیں تو  4 سالہ نمو کو گلزار خالہ  اور اقبال چچا لے کر اپنے آبائی گاؤں دو ماہ کی چھٹی پر ساتھ لے کر چؤا سیدن شاہ لے کر گئے ، جس کی دھندلی یادیں ، نمؤّ کو ابھی تک یادہیں ۔ ایک لائن میں بنے ہوئے 4 کچے کمرے سامنے ایک بہت بڑا سا صحن جس میں بکریاں ، بھینسیں ، مرغیاں ، کبوتر  اور انسان سب رہتے ، کونے میں تندور  مردوں کی بیٹھک   اور گھر کے پیچھے پہاڑی جس پر چڑھ کر دوسری طرف جھنڈوں سے لدا ہوا ایک مزار تھا ، جہاں وہ دوسرے بچوں ، اُن کی ماؤں اور گلزار خالہ کے ساتھ   ہر جمعرات دیئے جلانے جاتا ۔ دیگر بچوں کی طرح نیاز میں ملنے والی نقدیاں کھاتا اور واپسی پر چڑھائی کی وجہ سے گلزار خالہ  یا اُن کی ایک رشتہ دار کی گود میں سوار ہوکر گھر آتا ، پہاڑی چڑھنے کے بعد وہ اتار دیتیں اور نموّ فراٹے بھرتا  گھر پہنچتا  جہاں بکری کا بچہ اُس کے کھیل کا ساتھی تھا  ۔   ( مزید پڑھنے کے لئے جائیں ، نمّو کی گلزار خالہ اور ساجدہ چچی ۔)
اس دن کے بعد محلے والے بچے نمّو کو”نعیم پری“ کے نام سے چھیڑتے۔ اور ان پر ایک گانا بھی بنا لیا تھا۔
 ” نعیم پری آنا۔ پر لگا کر اُڑجانا۔ نالے میں گرجانا۔ شور نہ مچانا۔ نعیم پری آنا “
" آوا ، آپ اتنےسٹیوپڈ تھے ؟ چم چم اُداس ہو کربولی ،
" مرغے کے پر لگا کر کون اُڑ سکتا ہے " 
" آہ مائی سوئیٹ ھارٹ "
 بوڑھے نے چم چم کو دلاسا دیتے ہوئے کہا ، " ہر مؤجد ہمیشہ سٹیوپڈ ہی سمجھا جاتا ہے ۔ اگر رائٹ بردرا ن ، پہلے یہ کوشش نہ کر چکے ہوتے تو، تو عالی آپ کے آوا کا نام ، تاریخ میں امر ہو چکا ہوتا " بوڑھا تاسف سے بولا 
  بوڑھا ، چم چم کو وہ تاریخی نالہ دکھاتے ہوئے ، جہاں سے نمّو نے اپنی زندگی کی پہلی روح فزاء مگر جاں گسل پرواز کی ۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
  تو اچھے بچو یہ تھی بوڑھے کی پرواز کی پہلی کہانی -یعنی  - نمّو کی پہلی اُڑان
باقی کہانیاں  پڑھنے کے لئے :

 ٭ - نمّو نے دوسری اُڑان
 ٭ - نمّو کی تیسری اُڑان
 ٭ - نمو کی چوتھی اُڑان 
٭ - نمّو کی پانچویں اور چھٹی اُڑان 
٭ - نمّو کی ساتویں اُڑان 
٭ - نمّو کی آٹھویں اُڑان 
 ٭- پیرا گلائیڈنگ کیا ہے ؟ 
٭٭٭٭٭

2 تبصرے:

  1. ہاہاہاہاہاہاہ ۔۔ بہت ہی اعلیٰ ۔۔ مزے کی کہانی ۔۔۔ مجھے لگ رہا تھا میں بھی چم چم بٹیا کے ساتھ بیٹھا کہانی سن رہا ہوں

    جواب دیںحذف کریں

خیال رہے کہ "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ !

افق کے پار
دیکھنے والوں کو اگر میرا یہ مضمون پسند آئے تو دوستوں کو بھی بتائیے ۔ آپ اِسے کہیں بھی کاپی اور پیسٹ کر سکتے ہیں ۔ ۔ اگر آپ کو شوق ہے کہ زیادہ لوگ آپ کو پڑھیں تو اپنا بلاگ بنائیں ۔