Pages

میرے چاروں طرف افق ہے جو ایک پردہء سیمیں کی طرح فضائے بسیط میں پھیلا ہوا ہے،واقعات مستقبل کے افق سے نمودار ہو کر ماضی کے افق میں چلے جاتے ہیں،لیکن گم نہیں ہوتے،موقع محل،اسے واپس تحت الشعور سے شعور میں لے آتا ہے، شعور انسانی افق ہے،جس سے جھانک کر وہ مستقبل کےآئینہ ادراک میں دیکھتا ہے ۔
دوستو ! اُفق کے پار سب دیکھتے ہیں ۔ لیکن توجہ نہیں دیتے۔ آپ کی توجہ مبذول کروانے کے لئے "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ پوسٹ ہونے کے بعد یہ آپ کے ہوئے ، آپ انہیں کہیں بھی کاپی پیسٹ کر سکتے ہیں ، کسی اجازت کی ضرورت نہیں !( مہاجرزادہ)

پیر، 28 دسمبر، 2015

جوان ، بوڑھا اور پیرا گلائیڈنگ

" سر یہ اتھلیٹک ٹریک دیکھ رہے ہیں ، اِس کے دو چکر 6 منٹ میں لگا لیں ۔ تو آپ سلیکٹ "
ایس ایس جی کے نوجوان میجر نے کہا 
15 دسمبر کی بات ہے ، بڑھیا نے بتایا ، کہ عروضہ کا پیرا ونگ کورس آیا ہے ، وہ اگلے ہفتے وہ ایبٹ آباد جائے گی  ، 
" اچھا " بوڑھے نے جواب دیا " کیا پروگرام ہے ، ہم بھی ایبٹ آباد چلیں ، عالی کی بھی چھٹیاں ہیں اُسے بھی ساتھ لے جاتے ہیں "
" مانی نے بتایا ، وہاں ٹھنڈ بہت ہو گئی ہے ، عالی کو ٹھنڈ لگی ہے ۔ بڑی مشکل سے اُسے دوائیوں سے ٹھیک کیا ہے " بڑھیا تشویش سے بولی ،" اور آپ کو بھی بہت ٹھنڈ لگتی ہے ، رہنے دیں "
شام کو بوڑھے کی کپتان بیٹی آئی ، اُس نے چم چم کو بتایا اور پھر ایبٹ آباد کا پروگرام بن گیا ۔ 


ہفتہ 19 دسمبر کو دو کاروں میں سردیوں کا مکمل مقابلہ کرنے اور ایبٹ آباد میں گالف کھیلنے کا سامان لوڈ کرنے کے بعد ، کنوائے تین بجے روانہ ہوا۔

 بڑھیا نے ، ہر قِسم کی قَسم دے کر ، بوڑھے سے 60 کلومیٹر فی گھنٹہ سے زیادہ تیز نہ چلانے کا وعدہ لیا اور یوں یہ قافلہ رات دس بجے ، برفی کے گھر پہنچا ۔
 برفی ، کو ملتے ہی ہم سب کی راستے کی تھکن اتر گئی ، چم چم اور برفی نے کھیلنا شروع کیا ، رات دیر گئے تک سوئے ۔ برفی کے بابا ، کیڈٹس کے ساتھ ایکسرسائز پر گئے ہوئے تھے ،
رات کو سونے کا مرحلہ آیا تو بوڑھے نے چھوٹے کمرے میں سونے کا عندیہ دیا ، بیٹی چلائی ۔
" پپا میں نیچے گدا بچھا کر سو جاؤں گی ، ایک پلنگ پر آپ اور دوسرے پر ماما اور عالی سوجائیں گی "
" نہیں بھئی میں ، سٹڈی میں سوؤں گا " بوڑھا بولا ۔
" سردی سے جم جائیں گے " بڑھیا بولی ۔
" چلو کوئی بات نہیں صبح ہنستا ہوا ملوں گا " بوڑھا بولا 


بوڑھا اپنی خصوصی رضائی ، اور سرھانہ کار میں رکھ کر لایا تھا ، لہذا پریشانی کی کوئی بات نہیں تھی ، بوڑھا سٹڈی میں بچھے پلنگ پر سو گیا ، رات کو بوڑھے کی چوکیداری ، بیٹی اور بڑھیا کرتی رہیں ۔ کہ کہیں قلفی تو نہیں بن گیا !


بڑھاپے میں مرغے کی بانگ کے ساتھ ہی بوڑھوں کی آنکھ کھل جاتی ہے ، لہذا بوڑھا چھ بجے اُٹھ گیا، سٹڈی سے باہر نکلا تو بڑھیا ھیٹر جلائے ، صوفے پر بیٹھی اپنے گناہوں کے معافیاں مانگنے لگی ہوئی تھی۔
بوڑھے کو دیکھ کر بولی ۔
" بھئی آپ نے تو حیران کر دیا ، رات بھر خراٹے لیتے مزے سے سوتے رہے۔ اور میں پریشان رہی " 

مزید معلومات دیں " آپ کا کمرہ بے حد ٹھنڈا تھا "
" ارے نہیں! کوئی ٹھنڈ نہیں تھی میں تو آرام سے سویا " بوڑھا بولا ۔ 


بہو کو صبح 11 بجے تک اُٹھنے کی عادت ہے ،  کیوں کہ برفی رات کو اُسے خوب پریڈ کراتی ہے۔

ملازم کیوں کے رات دیر گئے، کھانا کھلا کر فارغ ہوتا ہے اور بوڑھے کا میجر بیٹا ، کیڈٹس کے ساتھ ایکسر سائز پر گیا ہوا ہے ، لہذا ملازم  بھی آٹھ بجے آتا ہے ، 

 یہ معلومات حاصل کرنے کے بعد بڑھیا نے ، رات کو ، بہو سے کچن میں چائے کے سامان کی جگہ پوچھ لی تھی ، لہذا چائے بنائی ، دونوں نے بسکٹ کے ساتھ پی وہ اپنے کام میں اور بوڑھا اپنے کام میں مشغول ہو گیا ۔

بوڑھے اور اُس کی بیٹی نے گالف کھیلنے کا پروگرام بنایا 11 بجے ، چم چم ، بیٹی اور بوڑھا گالف گراونڈ پہنچے ، گارڈ نے بتایا کہ آج گالف گراونڈ بند ہے ، کوئی جنرل صاحب آیا ہے ، اُس کا کھانا یہاں پر ہوگا۔ چنانچہ ، بوڑھا ، بیٹی اور چم چم واپس ہوئے ۔

گھر آئے اور برفی کے ساتھ کھیلنے لگے ، برفی کی ناک بھی کھانسی اور نزلے سے غمناک ہوئی تھی۔

 کپڑے پہنا کر بوڑھا ، چم چم اور برفی گھر کے نزدیک پارک گئے ۔ جب وہ دورڑتے ہوئے ، روئی کے گالے کی طرح لڑھکتی تو بوڑا خوب انجوائے کرتا ، اُس کے کپڑوں سے سوکھی گھاس جھاڑتا ، کوئی گھنٹہ یہ تفریح جاری رہی ۔ جب تینوں تھک گئے ، تو گھر واپس آگئے ۔
برفی ، چم چم اور بوڑھا سوگئے ، ساس اور بہو گپیں مارنے لگیں ، پھر دونوں سو گئیں ، برفی کوئی چار بجے اُٹھی ماما کے کمرے سے نکلی اور بوڑھے کا دروازہ پیٹنے لگی ،
بوڑھے کی آنکھ کھلی ، تو دورازہ دھڑ دھڑ کر رھا تھا اور برفی کے رونے کی آواز،
" دادا ، دادا "
کے ساتھ آ رہی تھی ، بوڑھے نے جلدی سے اُٹھ کر دروازہ کھولا اور برفی کو اُٹھا کر بستر پر لے آیا اور سینے پر بٹھا لیا 
" دادا ، اُوئی ، دادا اُوئی "
برفی اپنا ھاتھ دکھاتے ہوئے بولی ، بوڑھے نے پیار کرتے ہوئے سنّی پلاسٹ ھاتھ پر لگا دیا ، پلاسٹر لگاتے ہی ، برفی لپک کر نیچے اتری اور دورد بھری آواز میں ،
" اٗوئی ی ی ی ی ی "
کہتی ہوئی لاونج کی طرف دوڑی اور دادی کے کمرے کی طرف لپکی ، جہاں دادی ، بھوپی اور چم چم سو رہی تھیں ،
" اٗوئی ی ی ی ی ی "
کی آواز سنتے ہی دادی ، پھوپی اور چم چم یک دم اُٹھ بیٹھیں ، دادی نے برفی کو گود میں لیا ، برفی کی
" اٗوئی ی ی ی ی ی " جاری تھی۔

دادی نے پلاسٹر اتارا ، تو ھاتھ صاف ۔ دادی کی جان میں جان آئی ۔
برفی کو لے کر بوڑھے کے کمرے میں آئی  ،
" یہ آپ نے اسے پلاسٹر  کیوں لگایا ، میرا تو دل ھول گیا تھا " بڑھیا شکایت بھرے لہجے میں بولی ۔
" بیوی ، اگر اسے چوٹ لگتی تو ، یہ اُؤئی نہیں کہتی ، چلا کر روتی " ۔
برفی بوڑھے کے پاس آتی ، پلاسٹر لگواتی اور اُس کی
" اٗوئی ی ی ی ی ی " شروع ہوجاتی ،


  دس بجے رات کو بڑھیا کو سردی لگ گئی۔

 بڑھیا ، بوڑھے کے کمرے میں سُر سُر کرتے آگئی اور پائینتی بیٹھ گئی ، 12 بجے تک وہ بوڑھے سے باتیں کرتی رہی ، بوڑھا فیس بک پر کمنٹ بھی دے اور بُڑھیا  کے سوالوں کا جواب بھی اور بڑھیا اپنے کمرے میں جانے کا نام نہ لے ۔
" سونا نہیں ہے ؟ " بوڑھے نے پوچھا ۔
" نہیں اُس کمرے میں بہت سردی ہے " بڑھیا بولی
" تو یہیں سوجاؤ " بوڑھے نے کہا
" آپ کہاں سوئیں گے ؟ بڑھیا بولی
" تم سو جاؤ ۔ میں دیکھوں گا " بوڑھے نے جواب دیا
" عروضہ کے کمرے میں ، پلنگ کے نیچے میڑیس ہے وہ لے آئیں " بڑھیا بولی
بوڑھا ، کرسی پر کمبل اوڑھ کر بیٹھ گیا اور بڑھیا ، بوڑھے کے لئے ، بدُو کا اونٹ ثابت ہوئی۔

 رات بارہ بجے سے صبح چھ بجے تک بڑھیا ، نے بوڑھے سے جو نیند میں وعدے لئے ، وہ کوئی نئے نہیں بلکہ پرانے وعدوں کا رپیٹ ٹیلی کاسٹ تھا ۔
لگتا تو ایسا ہی تھا کہ بڑھیا نے پکا پکا ، اِس دنیا سے جانے کا ارادہ کر لیا ، بوڑھے نے سورۃ الملک لیپ ٹاپ پر لگائی اور ھیڈ فون بڑھیا کے کان میں لگا دیا ،   اور خود فیس بُک اور دوسرے لکھائی کے کام میں مصروف ہو گیا ۔
پھر سورۃ مریم بڑھیا نے اونگھتے ھوئے سُنی ۔

سوموار کو صبح چھ بجے ، بوڑھے نے چائے بنائی بڑھیا کو پیش کی ، بڑھیا کے جسم میں گرمی آئی۔
بڑھیا نے واپس اسلام آباد جانے کا پکا پروگرام بنا لیا ۔ صبح جب بیٹی اُٹھی تو اُسے اپنا پروگرام بتایا ، بیٹی نے کہا ،
" میں ایک بجے آجاؤں گی، پھر چلے جانا "

 ساڑھے سات بجے ، بیٹی ، پیرا کورس کرنے پی ٹی سکول چلی گئی ، چم چم اور برفی سوئے ہوئے تھے ۔ بڑھیا حسبِ  معمول ، اپنے، بوڑھے اور بچوں کے گناہ بخشوانے میں مصروف ھو گئی 

اور رات بھر کا جاگا ہوا ، بوڑھا سو گیا ،

دس بجے چم چم اُٹھی ، اور اُس نے برفی اور اُس کی ماما کو اُٹھا دیا ۔ اور گھر میں بھونچال آگیا ، دونوں بوڑھے کے کمرے میں آگئیں ۔
بوڑھا اُٹھ گیا ، بڑھیا کی طبیعت پوچھی ، بڑھیا نے واپس اسلام آباد جانے کا ارادہ ملتوی کر دیا ، کیوں کہ ملازم نے گیس کے ہیٹر میں لمبی پائپ لگا کر اُسے سٹڈی تک پہنچا دیا تھا ، بوڑھے نے ، بڑھیا ، بہو ، چم چم  اور برفی کے ساتھ ناشہ  کیا اور پھر اُن کے ساتھ بچہ بن گیا ۔ 


سوا ایک بجے ، عروضہ واپس آئی ، کھانا کھاتے ہوئے روداد بتانے لگی ،
" ماما ، آرمی آفیسر تو کم سے سویلئین لڑکے اور لڑکیاں کافی ہیں ، کوئی 70 کے قریب افراد ہیں "
کیا یہ آرمی کورس نہیں ہے " بوڑھے نے سوال کیا ۔
" نہیں پپا ، ہم  تین فیمیل آفیسرز ہیں اور 6 میل آفیسر ، باقی سارے سویلئین ہیں ، میں حیران ہوں ، کہ ممی ڈیڈی ٹائپ لڑکیاں کیسے یہ ٹف کورس کریں لیں گی ؟  کیپٹن عروضہ بولی ۔
" اچھا " بوڑھے نے حیرت کا اظہار کیا، " وہ کیسے آگئیں "
" وہ اور لڑکے پے منٹ دے کر یہ کورس کر رہے ہیں " عروضہ بولی ۔
" ذرا  ، فون پرمعلوم کرنا کہ ، اِس کورس کے کیا چارجز ہیں " بوڑھا بولا ۔
چارجز معلوم ہونے پر بوڑھا بولا ، " میں بھی یہ کورس کروں گا "
" پاگل ہو گئےہیں ؟ "
بڑھیا تنک کر بولی " پیر خراب ہیں چلا نہیں جاتا ، بڑھاپے میں جوان بننے کا شوق چرایا ہے "۔
" پپا ، کیا ؟  " بیٹی چلائی ، " آپ کی صحت اجازت دیتی ہے ؟ "
" بات یہ ہے ، کہ اگر سویلئین لڑکیاں کر سکتی ہیں تو پھر میں بھی کر سکتاہوں " بوڑھا بولا
" بیوی ابھی تو میں جوان ہوں "


" انکل ، آپ آرام کریں" ڈاکٹر بہو بولی " میرے خیال میں اپ میڈیکلی فٹ نہیں " 


" ؤاؤ ، آوا ، آئی ایم پراؤڈ آف یو " چم چم چلائی ۔
" عالی ، آئی ایم ناٹ پراؤڈ آف ھِم " عروضہ بولی " پپا ، آپ میرا مذاق اُڑوائیں گے ؟"

" بالکل نہیں ، مذاق نہیں اُڑے گا بلکہ تم فخر محسوس کرو گی کہ بوڑھے باپ میں ابھی بھی ہمت ہے، اور شائد ریکارڈ قئم ہو جائے "  بوڑھا بولا
" کتنے بجے شام کو جاؤ گی ، میں بھی چلوں گا "
" پپا ، پلیز "،
" انکل پلیز "
" مت بچوں والی ضد کریں "
بیٹی ، بہو اور بڑھیا بولیں 

۔
" عالی ، کیا میں پیرا شوٹ سے چھلانگ لگاؤں ؟ " بوڑھے نے چم چم سے پوچھا ۔


" یس آوا ، آئی ایم ود یو " 


اور ھاتھ اٹھا کر بوڑھے سے ھائی فائی کیا ۔ یوں بوڑھے کو ایک مضبوط ، سہارا مل گیا ۔
شام کو بوڑھا ٹریک سوٹ اور جاگرز پہن کر ، بیٹی کے ساتھ ، گروانڈ میں پہنچ گیا ،
" پپا  ، وہ میجر اعجاز ہیں پیرا ونگ کے اوسی اور انسٹرکٹر ۔ اُن سے ملتے ہیں "
ہم دونوں ، میجر اعجاز کے پاس پہنچے ، بیٹی نے تعارف کروایا ،
" سر میرے فادر ، یہ پیرا گلائیڈنگ کرنا چاھتے ہیں ؟ "
میجر اعجاز نے ، بوڑھے کے چہرے پر نظر ڈالی ،
" کیوں نہیں ، میم سب کو اجازت ہے "
" ریٹائرڈ میجر ، عمر 63 سال ، یہ بتاؤ ، فیس کتنی ہے ؟ " بوڑھے نے پوچھا ۔
" سر آپ کے لئے 6،500 روپے ہے " میجر اعجاز نے مسکراتے ہوئے جواب دیا ۔
" پے منٹ کون لے گا ؟ " بوڑھے نے پوچھا
" سر پے منٹ لے لیں گے لیکن ،  یہ اتھلیٹک ٹریک دیکھ رہے ہیں ، اِس کے دو چکر 6 منٹ میں لگا لیں ۔ تو آپ سلیکٹ " ایس ایس جی کے نوجوان میجر نے بغیر کسی رعایت کے کہا

بوڑھے نے سر جھکایا اور دوڑ پڑا ۔ بوڑھا ابھی 200 میٹر دوڑا تھا اور ایک چکر کے 600 میٹر باقی تھے کہ بوڑھے کے دائیں پاؤں کے تلے میں ایک ٹیس اُٹھی ،
" اوہ کھال پھٹ گئی اور پیر زخمی ہو گیا ۔ کیا میں دو چکر لگا سکوں گا ؟ "
  62 سال ، تین ماہ اور چھ دن کے بوڑھے نے دوڑتے ہوئے سوچا ۔
" کیا میں دوڑ سے نکل جاؤں ؟"
" تالاب میں کودنے سے پہلے سوچنا تھا "

اور دوڑتے ہوئے بس یہی سوچ رہا تھا ۔ 
" نہیں ، ایک چکر پورا کرنا ہے " بوڑھے نے ایک عزم سے سوچا ۔
" بچوں سے مذاق نہیں اُڑوانا ۔ دوڑ ، میجر دوڑ "
بوڑھا دوڑتے ہوئے ، ایک چکر کے خاتمے کے قریب تھا کہ آواز آئی ،
" واؤ پپا ، فاسٹ ، فاسٹر "
بوڑھے کی چھوٹی بیٹی چلائی ۔
" انکل بَک اَپ ، دوڑتے رہیں "
لڑکوں اور لڑکیوں ملی جلی آوازیں آرہی تھیں ۔ بوڑھا نے پہلا چکر مکمل کیا ۔
" ویل ڈن سر ، آپ نے تین منٹ میں پہلا چکر مکمل کیا " نوجوان ایس ایس جی، میجر اعجاز بولا ۔
" دوسرا چکر آپ کے لئے چار منٹ "
" بوڑھے صرف ایک چکر لگاتے ہیں اور جوان دو ! " بوڑھا بولا
" ھا ھا ھا ، سر آپ سلیکٹ ہو گئے ہیں ، مبارک ہو " میجر اعجاز بولا ، " سٹاف، سر کو پیرا شوٹ پہنا کر پریکٹس کروائیں ۔
بوڑھے نے پیرا شوٹ پہن کر تین دفعہ پریکٹس کی اور پیرا شوٹ دوڑ کر سنبھالنے کے قابل ہونے کے بعد ، کوالی فائی ہو گیا ۔
واپسی پر بیٹی نے پوچھا،
" پپا ، کل آئیں گے "
" جی ہاں ، کیوں نہیں ؟ " میں بولا ۔

گھر پہنچے ، بڑھیا سمجھ رہی تھی ، کہ بوڑھا ناکام آئے گا ۔ جب  معلوم ہوا کہ بوڑھا پہلا ٹیسٹ پاس کر گیا ہے اور کل بھی جائے گا تو اُس کی پریشانی ، بڑھ گئی ۔
اگر پیراشوٹ نہ کھلا اور آپ نیچے گر گئے تو ؟ "
بڑھیا نے جذبات کا اظہار کیا ۔


" کوئی بات نہیں ، پھر لوگ چمچے سے اُٹھا کر لائیں گے "
"توبہ توبہ ،  کبھی تو منہ سے اچھی بات نکالیں " بڑھیا بولی 

 " پردے کے پیچھے یعنی ان ڈائریکٹ سپیچ میں تم بھی تو اسی خواہش کا اظہا کیا ہے۔   کہ کاش پیرا شوٹ نہ کھلے یا کاش یہ نیچے گر جائے " بوڑھے نے یاد دلایا ۔

" پپا ، آج اتوار نہیں ، آپ کا پھر لڑائی کا ارادہ ہے " بیٹی نے یاد دلایا۔ " ماما کی شوگر بڑھ جائے گی "

" ارے ، میرا شوگر ٹیسٹ کا میٹر کہاں ہے وہ لانا ، ذرا شوگر چیک کروں ۔ کتنی بڑھا دی ہے تمھارے پاگل باپ نے " بڑھیا نے آخری حربہ کے طور پربوڑھے کو روکنے کے لئے کوشش کرتے ہوئے شوگر چیک کی ۔
" یہ سٹرپ نقلی آگئیں ہیں " بڑھیا منمنائی
" اچھا ، یہ نقلی سٹرپ کتنی شوگر بتا رہی ہیں " بوڑھے نے پوچھا ۔
" ایک سو بیس "
بڑھیا بولی ، " لیکن اسے تو تیس سو ھونا چاھئیے !
مگر آپ کو بڑھاپے میں ہڈیاں تڑوانے کا خیال کیوں آیا ؟ مجھے سے خود اپنا بوجھ نہیں اٹھایا جاتا ، آپ کی خدمت کیسے کروں گی ؟
ہم دونوں بوڑھے ہیں ، چھوڑیں جمپ ومپ کو، یہ نوجوانی کے شوق ہیں " بڑھیا ایک سانس میں روپہلی الفاظ پھیلاتی ہوئی بولی۔


 " ابھی تو میں جوان ہوں ، ابھی تو میں جوان ہوں "
 بوڑھا پرسوز ترنم سے گنگنا یا

" جواااااااا ن " برفی نے لِے میں ساتھ دیا ،
جو بھی الفاظ نیا ہوتا ہے وہ ضرور بولنے کی کوشش کرتی ہے ۔
دل میں سوچا ۔
صبح دیکھتے ہیں، 1999 کے بعد پہلی دفعہ میدانِ ایڈونچر میں کیا ہوتا ہے ؟

رات کو آٹھ بجے کھانا کھا کر بوڑھا ، میڑس بچھا کر  سو گیا ۔ 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

خیال رہے کہ "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ !

افق کے پار
دیکھنے والوں کو اگر میرا یہ مضمون پسند آئے تو دوستوں کو بھی بتائیے ۔ آپ اِسے کہیں بھی کاپی اور پیسٹ کر سکتے ہیں ۔ ۔ اگر آپ کو شوق ہے کہ زیادہ لوگ آپ کو پڑھیں تو اپنا بلاگ بنائیں ۔