" سر یہ اتھلیٹک ٹریک دیکھ رہے ہیں ، اِس کے دو چکر 6 منٹ میں لگا لیں ۔ تو آپ سلیکٹ "
ایس ایس جی کے نوجوان میجر نے کہا
ایس ایس جی کے نوجوان میجر نے کہا
15 دسمبر کی بات ہے ، بڑھیا نے بتایا ، کہ عروضہ کا پیرا ونگ کورس آیا ہے ، وہ اگلے ہفتے وہ ایبٹ آباد جائے گی ،
" اچھا " بوڑھے نے جواب دیا " کیا پروگرام ہے ، ہم بھی ایبٹ آباد چلیں ، عالی کی بھی چھٹیاں ہیں اُسے بھی ساتھ لے جاتے ہیں "
" مانی نے بتایا ، وہاں ٹھنڈ بہت ہو گئی ہے ، عالی کو ٹھنڈ لگی ہے ۔ بڑی مشکل سے اُسے دوائیوں سے ٹھیک کیا ہے " بڑھیا تشویش سے بولی ،" اور آپ کو بھی بہت ٹھنڈ لگتی ہے ، رہنے دیں "
شام کو بوڑھے کی کپتان بیٹی آئی ، اُس نے چم چم کو بتایا اور پھر ایبٹ آباد کا پروگرام بن گیا ۔
ہفتہ 19 دسمبر کو دو کاروں میں سردیوں کا مکمل مقابلہ کرنے اور ایبٹ آباد میں گالف کھیلنے کا سامان لوڈ کرنے کے بعد ، کنوائے تین بجے روانہ ہوا۔
بڑھیا نے ، ہر قِسم کی قَسم دے کر ، بوڑھے سے 60 کلومیٹر فی گھنٹہ سے زیادہ تیز نہ چلانے کا وعدہ لیا اور یوں یہ قافلہ رات دس بجے ، برفی کے گھر پہنچا ۔
برفی ، کو ملتے ہی ہم سب کی راستے کی تھکن اتر گئی ، چم چم اور برفی نے کھیلنا شروع کیا ، رات دیر گئے تک سوئے ۔ برفی کے بابا ، کیڈٹس کے ساتھ ایکسرسائز پر گئے ہوئے تھے ،
رات کو سونے کا مرحلہ آیا تو بوڑھے نے چھوٹے کمرے میں سونے کا عندیہ دیا ، بیٹی چلائی ۔
" پپا میں نیچے گدا بچھا کر سو جاؤں گی ، ایک پلنگ پر آپ اور دوسرے پر ماما اور عالی سوجائیں گی "
" نہیں بھئی میں ، سٹڈی میں سوؤں گا " بوڑھا بولا ۔
" سردی سے جم جائیں گے " بڑھیا بولی ۔
" چلو کوئی بات نہیں صبح ہنستا ہوا ملوں گا " بوڑھا بولا
بوڑھا اپنی خصوصی رضائی ، اور سرھانہ کار میں رکھ کر لایا تھا ، لہذا پریشانی کی کوئی بات نہیں تھی ، بوڑھا سٹڈی میں بچھے پلنگ پر سو گیا ، رات کو بوڑھے کی چوکیداری ، بیٹی اور بڑھیا کرتی رہیں ۔ کہ کہیں قلفی تو نہیں بن گیا !
بڑھاپے میں مرغے کی بانگ کے ساتھ ہی بوڑھوں کی آنکھ کھل جاتی ہے ، لہذا بوڑھا چھ بجے اُٹھ گیا، سٹڈی سے باہر نکلا تو بڑھیا ھیٹر جلائے ، صوفے پر بیٹھی اپنے گناہوں کے معافیاں مانگنے لگی ہوئی تھی۔
بوڑھے کو دیکھ کر بولی ۔
" بھئی آپ نے تو حیران کر دیا ، رات بھر خراٹے لیتے مزے سے سوتے رہے۔ اور میں پریشان رہی "
مزید معلومات دیں " آپ کا کمرہ بے حد ٹھنڈا تھا "
" ارے نہیں! کوئی ٹھنڈ نہیں تھی میں تو آرام سے سویا " بوڑھا بولا ۔
بہو کو صبح 11 بجے تک اُٹھنے کی عادت ہے ، کیوں کہ برفی رات کو اُسے خوب پریڈ کراتی ہے۔
ملازم کیوں کے رات دیر گئے، کھانا کھلا کر فارغ ہوتا ہے اور بوڑھے کا میجر بیٹا ، کیڈٹس کے ساتھ ایکسر سائز پر گیا ہوا ہے ، لہذا ملازم بھی آٹھ بجے آتا ہے ،
" مانی نے بتایا ، وہاں ٹھنڈ بہت ہو گئی ہے ، عالی کو ٹھنڈ لگی ہے ۔ بڑی مشکل سے اُسے دوائیوں سے ٹھیک کیا ہے " بڑھیا تشویش سے بولی ،" اور آپ کو بھی بہت ٹھنڈ لگتی ہے ، رہنے دیں "
شام کو بوڑھے کی کپتان بیٹی آئی ، اُس نے چم چم کو بتایا اور پھر ایبٹ آباد کا پروگرام بن گیا ۔
ہفتہ 19 دسمبر کو دو کاروں میں سردیوں کا مکمل مقابلہ کرنے اور ایبٹ آباد میں گالف کھیلنے کا سامان لوڈ کرنے کے بعد ، کنوائے تین بجے روانہ ہوا۔
بڑھیا نے ، ہر قِسم کی قَسم دے کر ، بوڑھے سے 60 کلومیٹر فی گھنٹہ سے زیادہ تیز نہ چلانے کا وعدہ لیا اور یوں یہ قافلہ رات دس بجے ، برفی کے گھر پہنچا ۔
برفی ، کو ملتے ہی ہم سب کی راستے کی تھکن اتر گئی ، چم چم اور برفی نے کھیلنا شروع کیا ، رات دیر گئے تک سوئے ۔ برفی کے بابا ، کیڈٹس کے ساتھ ایکسرسائز پر گئے ہوئے تھے ،
رات کو سونے کا مرحلہ آیا تو بوڑھے نے چھوٹے کمرے میں سونے کا عندیہ دیا ، بیٹی چلائی ۔
" پپا میں نیچے گدا بچھا کر سو جاؤں گی ، ایک پلنگ پر آپ اور دوسرے پر ماما اور عالی سوجائیں گی "
" نہیں بھئی میں ، سٹڈی میں سوؤں گا " بوڑھا بولا ۔
" سردی سے جم جائیں گے " بڑھیا بولی ۔
" چلو کوئی بات نہیں صبح ہنستا ہوا ملوں گا " بوڑھا بولا
بوڑھا اپنی خصوصی رضائی ، اور سرھانہ کار میں رکھ کر لایا تھا ، لہذا پریشانی کی کوئی بات نہیں تھی ، بوڑھا سٹڈی میں بچھے پلنگ پر سو گیا ، رات کو بوڑھے کی چوکیداری ، بیٹی اور بڑھیا کرتی رہیں ۔ کہ کہیں قلفی تو نہیں بن گیا !
بڑھاپے میں مرغے کی بانگ کے ساتھ ہی بوڑھوں کی آنکھ کھل جاتی ہے ، لہذا بوڑھا چھ بجے اُٹھ گیا، سٹڈی سے باہر نکلا تو بڑھیا ھیٹر جلائے ، صوفے پر بیٹھی اپنے گناہوں کے معافیاں مانگنے لگی ہوئی تھی۔
بوڑھے کو دیکھ کر بولی ۔
" بھئی آپ نے تو حیران کر دیا ، رات بھر خراٹے لیتے مزے سے سوتے رہے۔ اور میں پریشان رہی "
مزید معلومات دیں " آپ کا کمرہ بے حد ٹھنڈا تھا "
" ارے نہیں! کوئی ٹھنڈ نہیں تھی میں تو آرام سے سویا " بوڑھا بولا ۔
بہو کو صبح 11 بجے تک اُٹھنے کی عادت ہے ، کیوں کہ برفی رات کو اُسے خوب پریڈ کراتی ہے۔
ملازم کیوں کے رات دیر گئے، کھانا کھلا کر فارغ ہوتا ہے اور بوڑھے کا میجر بیٹا ، کیڈٹس کے ساتھ ایکسر سائز پر گیا ہوا ہے ، لہذا ملازم بھی آٹھ بجے آتا ہے ،
یہ معلومات حاصل کرنے کے بعد بڑھیا نے ، رات کو ، بہو سے کچن میں چائے کے سامان کی جگہ پوچھ لی تھی ، لہذا چائے بنائی ، دونوں نے بسکٹ کے ساتھ پی وہ اپنے کام میں اور بوڑھا اپنے کام میں مشغول ہو گیا ۔
بوڑھے اور اُس کی بیٹی نے گالف کھیلنے کا پروگرام بنایا 11 بجے ، چم چم ، بیٹی اور بوڑھا گالف گراونڈ پہنچے ، گارڈ نے بتایا کہ آج گالف گراونڈ بند ہے ، کوئی جنرل صاحب آیا ہے ، اُس کا کھانا یہاں پر ہوگا۔ چنانچہ ، بوڑھا ، بیٹی اور چم چم واپس ہوئے ۔
گھر آئے اور برفی کے ساتھ کھیلنے لگے ، برفی کی ناک بھی کھانسی اور نزلے سے غمناک ہوئی تھی۔
کپڑے پہنا کر بوڑھا ، چم چم اور برفی گھر کے نزدیک پارک گئے ۔ جب وہ دورڑتے ہوئے ، روئی کے گالے کی طرح لڑھکتی تو بوڑا خوب انجوائے کرتا ، اُس کے کپڑوں سے سوکھی گھاس جھاڑتا ، کوئی گھنٹہ یہ تفریح جاری رہی ۔ جب تینوں تھک گئے ، تو گھر واپس آگئے ۔
برفی ، چم چم اور بوڑھا سوگئے ، ساس اور بہو گپیں مارنے لگیں ، پھر دونوں سو گئیں ، برفی کوئی چار بجے اُٹھی ماما کے کمرے سے نکلی اور بوڑھے کا دروازہ پیٹنے لگی ،
بوڑھے کی آنکھ کھلی ، تو دورازہ دھڑ دھڑ کر رھا تھا اور برفی کے رونے کی آواز،
" دادا ، دادا "
کے ساتھ آ رہی تھی ، بوڑھے نے جلدی سے اُٹھ کر دروازہ کھولا اور برفی کو اُٹھا کر بستر پر لے آیا اور سینے پر بٹھا لیا
" دادا ، اُوئی ، دادا اُوئی " برفی اپنا ھاتھ دکھاتے ہوئے بولی ، بوڑھے نے پیار کرتے ہوئے سنّی پلاسٹ ھاتھ پر لگا دیا ، پلاسٹر لگاتے ہی ، برفی لپک کر نیچے اتری اور دورد بھری آواز میں ،
" اٗوئی ی ی ی ی ی "
کہتی ہوئی لاونج کی طرف دوڑی اور دادی کے کمرے کی طرف لپکی ، جہاں دادی ، بھوپی اور چم چم سو رہی تھیں ،
" اٗوئی ی ی ی ی ی "
کی آواز سنتے ہی دادی ، پھوپی اور چم چم یک دم اُٹھ بیٹھیں ، دادی نے برفی کو گود میں لیا ، برفی کی
" اٗوئی ی ی ی ی ی " جاری تھی۔
دادی نے پلاسٹر اتارا ، تو ھاتھ صاف ۔ دادی کی جان میں جان آئی ۔
برفی کو لے کر بوڑھے کے کمرے میں آئی ،
" یہ آپ نے اسے پلاسٹر کیوں لگایا ، میرا تو دل ھول گیا تھا " بڑھیا شکایت بھرے لہجے میں بولی ۔
" بیوی ، اگر اسے چوٹ لگتی تو ، یہ اُؤئی نہیں کہتی ، چلا کر روتی " ۔
برفی بوڑھے کے پاس آتی ، پلاسٹر لگواتی اور اُس کی
" اٗوئی ی ی ی ی ی " شروع ہوجاتی ،
دس بجے رات کو بڑھیا کو سردی لگ گئی۔
بڑھیا ، بوڑھے کے کمرے میں سُر سُر کرتے آگئی اور پائینتی بیٹھ گئی ، 12 بجے تک وہ بوڑھے سے باتیں کرتی رہی ، بوڑھا فیس بک پر کمنٹ بھی دے اور بُڑھیا کے سوالوں کا جواب بھی اور بڑھیا اپنے کمرے میں جانے کا نام نہ لے ۔
" سونا نہیں ہے ؟ " بوڑھے نے پوچھا ۔
" نہیں اُس کمرے میں بہت سردی ہے " بڑھیا بولی
" تو یہیں سوجاؤ " بوڑھے نے کہا
" آپ کہاں سوئیں گے ؟ بڑھیا بولی
" تم سو جاؤ ۔ میں دیکھوں گا " بوڑھے نے جواب دیا
" عروضہ کے کمرے میں ، پلنگ کے نیچے میڑیس ہے وہ لے آئیں " بڑھیا بولی
بوڑھا ، کرسی پر کمبل اوڑھ کر بیٹھ گیا اور بڑھیا ، بوڑھے کے لئے ، بدُو کا اونٹ ثابت ہوئی۔
رات بارہ بجے سے صبح چھ بجے تک بڑھیا ، نے بوڑھے سے جو نیند میں وعدے لئے ، وہ کوئی نئے نہیں بلکہ پرانے وعدوں کا رپیٹ ٹیلی کاسٹ تھا ۔
لگتا تو ایسا ہی تھا کہ بڑھیا نے پکا پکا ، اِس دنیا سے جانے کا ارادہ کر لیا ، بوڑھے نے سورۃ الملک لیپ ٹاپ پر لگائی اور ھیڈ فون بڑھیا کے کان میں لگا دیا ، اور خود فیس بُک اور دوسرے لکھائی کے کام میں مصروف ہو گیا ۔
پھر سورۃ مریم بڑھیا نے اونگھتے ھوئے سُنی ۔
سوموار کو صبح چھ بجے ، بوڑھے نے چائے بنائی بڑھیا کو پیش کی ، بڑھیا کے جسم میں گرمی آئی۔
بڑھیا نے واپس اسلام آباد جانے کا پکا پروگرام بنا لیا ۔ صبح جب بیٹی اُٹھی تو اُسے اپنا پروگرام بتایا ، بیٹی نے کہا ،
" میں ایک بجے آجاؤں گی، پھر چلے جانا "
ساڑھے سات بجے ، بیٹی ، پیرا کورس کرنے پی ٹی سکول چلی گئی ، چم چم اور برفی سوئے ہوئے تھے ۔ بڑھیا حسبِ معمول ، اپنے، بوڑھے اور بچوں کے گناہ بخشوانے میں مصروف ھو گئی
اور رات بھر کا جاگا ہوا ، بوڑھا سو گیا ،
دس بجے چم چم اُٹھی ، اور اُس نے برفی اور اُس کی ماما کو اُٹھا دیا ۔ اور گھر میں بھونچال آگیا ، دونوں بوڑھے کے کمرے میں آگئیں ۔
بوڑھا اُٹھ گیا ، بڑھیا کی طبیعت پوچھی ، بڑھیا نے واپس اسلام آباد جانے کا ارادہ ملتوی کر دیا ، کیوں کہ ملازم نے گیس کے ہیٹر میں لمبی پائپ لگا کر اُسے سٹڈی تک پہنچا دیا تھا ، بوڑھے نے ، بڑھیا ، بہو ، چم چم اور برفی کے ساتھ ناشہ کیا اور پھر اُن کے ساتھ بچہ بن گیا ۔
سوا ایک بجے ، عروضہ واپس آئی ، کھانا کھاتے ہوئے روداد بتانے لگی ،
" ماما ، آرمی آفیسر تو کم سے سویلئین لڑکے اور لڑکیاں کافی ہیں ، کوئی 70 کے قریب افراد ہیں "
کیا یہ آرمی کورس نہیں ہے " بوڑھے نے سوال کیا ۔
" نہیں پپا ، ہم تین فیمیل آفیسرز ہیں اور 6 میل آفیسر ، باقی سارے سویلئین ہیں ، میں حیران ہوں ، کہ ممی ڈیڈی ٹائپ لڑکیاں کیسے یہ ٹف کورس کریں لیں گی ؟ کیپٹن عروضہ بولی ۔
" اچھا " بوڑھے نے حیرت کا اظہار کیا، " وہ کیسے آگئیں "
" وہ اور لڑکے پے منٹ دے کر یہ کورس کر رہے ہیں " عروضہ بولی ۔
" ذرا ، فون پرمعلوم کرنا کہ ، اِس کورس کے کیا چارجز ہیں " بوڑھا بولا ۔
چارجز معلوم ہونے پر بوڑھا بولا ، " میں بھی یہ کورس کروں گا "
" پاگل ہو گئےہیں ؟ " بڑھیا تنک کر بولی " پیر خراب ہیں چلا نہیں جاتا ، بڑھاپے میں جوان بننے کا شوق چرایا ہے "۔
" پپا ، کیا ؟ " بیٹی چلائی ، " آپ کی صحت اجازت دیتی ہے ؟ "
" بات یہ ہے ، کہ اگر سویلئین لڑکیاں کر سکتی ہیں تو پھر میں بھی کر سکتاہوں " بوڑھا بولا
" بیوی ابھی تو میں جوان ہوں "
" انکل ، آپ آرام کریں" ڈاکٹر بہو بولی " میرے خیال میں اپ میڈیکلی فٹ نہیں "
" ؤاؤ ، آوا ، آئی ایم پراؤڈ آف یو " چم چم چلائی ۔
" عالی ، آئی ایم ناٹ پراؤڈ آف ھِم " عروضہ بولی " پپا ، آپ میرا مذاق اُڑوائیں گے ؟"
" بالکل نہیں ، مذاق نہیں اُڑے گا بلکہ تم فخر محسوس کرو گی کہ بوڑھے باپ میں ابھی بھی ہمت ہے، اور شائد ریکارڈ قئم ہو جائے " بوڑھا بولا
" کتنے بجے شام کو جاؤ گی ، میں بھی چلوں گا "
" پپا ، پلیز "،
" انکل پلیز "
" مت بچوں والی ضد کریں "
بیٹی ، بہو اور بڑھیا بولیں
۔
" عالی ، کیا میں پیرا شوٹ سے چھلانگ لگاؤں ؟ " بوڑھے نے چم چم سے پوچھا ۔
" یس آوا ، آئی ایم ود یو "
اور ھاتھ اٹھا کر بوڑھے سے ھائی فائی کیا ۔ یوں بوڑھے کو ایک مضبوط ، سہارا مل گیا ۔
شام کو بوڑھا ٹریک سوٹ اور جاگرز پہن کر ، بیٹی کے ساتھ ، گروانڈ میں پہنچ گیا ،
بوڑھے نے سر جھکایا اور دوڑ پڑا ۔ بوڑھا ابھی 200 میٹر دوڑا تھا اور ایک چکر کے 600 میٹر باقی تھے کہ بوڑھے کے دائیں پاؤں کے تلے میں ایک ٹیس اُٹھی ،
" پپا ، وہ میجر اعجاز ہیں پیرا ونگ کے اوسی اور انسٹرکٹر ۔ اُن سے ملتے ہیں "
ہم دونوں ، میجر اعجاز کے پاس پہنچے ، بیٹی نے تعارف کروایا ،
" سر میرے فادر ، یہ پیرا گلائیڈنگ کرنا چاھتے ہیں ؟ "
میجر اعجاز نے ، بوڑھے کے چہرے پر نظر ڈالی ،
" کیوں نہیں ، میم سب کو اجازت ہے "
میجر اعجاز نے ، بوڑھے کے چہرے پر نظر ڈالی ،
" کیوں نہیں ، میم سب کو اجازت ہے "
" ریٹائرڈ میجر ، عمر 63 سال ، یہ بتاؤ ، فیس کتنی ہے ؟ " بوڑھے نے پوچھا ۔
" سر آپ کے لئے 6،500 روپے ہے " میجر اعجاز نے مسکراتے ہوئے جواب دیا ۔
" پے منٹ کون لے گا ؟ " بوڑھے نے پوچھا
" سر آپ کے لئے 6،500 روپے ہے " میجر اعجاز نے مسکراتے ہوئے جواب دیا ۔
" پے منٹ کون لے گا ؟ " بوڑھے نے پوچھا
" سر پے منٹ لے لیں گے لیکن ، یہ اتھلیٹک ٹریک دیکھ رہے ہیں ، اِس کے دو چکر 6 منٹ میں لگا لیں ۔ تو آپ سلیکٹ " ایس ایس جی کے نوجوان میجر نے بغیر کسی رعایت کے کہا
بوڑھے نے سر جھکایا اور دوڑ پڑا ۔ بوڑھا ابھی 200 میٹر دوڑا تھا اور ایک چکر کے 600 میٹر باقی تھے کہ بوڑھے کے دائیں پاؤں کے تلے میں ایک ٹیس اُٹھی ،
" اوہ کھال پھٹ گئی اور پیر زخمی ہو گیا ۔ کیا میں دو چکر لگا سکوں گا ؟ "
62 سال ، تین ماہ اور چھ دن کے بوڑھے نے دوڑتے ہوئے سوچا ۔
" کیا میں دوڑ سے نکل جاؤں ؟"
" تالاب میں کودنے سے پہلے سوچنا تھا "
اور دوڑتے ہوئے بس یہی سوچ رہا تھا ۔
62 سال ، تین ماہ اور چھ دن کے بوڑھے نے دوڑتے ہوئے سوچا ۔
" کیا میں دوڑ سے نکل جاؤں ؟"
" تالاب میں کودنے سے پہلے سوچنا تھا "
اور دوڑتے ہوئے بس یہی سوچ رہا تھا ۔
" نہیں ، ایک چکر پورا کرنا ہے " بوڑھے نے ایک عزم سے سوچا ۔
" بچوں سے مذاق نہیں اُڑوانا ۔ دوڑ ، میجر دوڑ "
بوڑھا دوڑتے ہوئے ، ایک چکر کے خاتمے کے قریب تھا کہ آواز آئی ،
" واؤ پپا ، فاسٹ ، فاسٹر "
بوڑھے کی چھوٹی بیٹی چلائی ۔
" انکل بَک اَپ ، دوڑتے رہیں "
لڑکوں اور لڑکیوں ملی جلی آوازیں آرہی تھیں ۔ بوڑھا نے پہلا چکر مکمل کیا ۔
" ویل ڈن سر ، آپ نے تین منٹ میں پہلا چکر مکمل کیا " نوجوان ایس ایس جی، میجر اعجاز بولا ۔
" دوسرا چکر آپ کے لئے چار منٹ "
" بوڑھے صرف ایک چکر لگاتے ہیں اور جوان دو ! " بوڑھا بولا
" بچوں سے مذاق نہیں اُڑوانا ۔ دوڑ ، میجر دوڑ "
بوڑھا دوڑتے ہوئے ، ایک چکر کے خاتمے کے قریب تھا کہ آواز آئی ،
" واؤ پپا ، فاسٹ ، فاسٹر "
بوڑھے کی چھوٹی بیٹی چلائی ۔
" انکل بَک اَپ ، دوڑتے رہیں "
لڑکوں اور لڑکیوں ملی جلی آوازیں آرہی تھیں ۔ بوڑھا نے پہلا چکر مکمل کیا ۔
" ویل ڈن سر ، آپ نے تین منٹ میں پہلا چکر مکمل کیا " نوجوان ایس ایس جی، میجر اعجاز بولا ۔
" دوسرا چکر آپ کے لئے چار منٹ "
" بوڑھے صرف ایک چکر لگاتے ہیں اور جوان دو ! " بوڑھا بولا
" ھا ھا ھا ، سر آپ سلیکٹ ہو گئے ہیں ، مبارک ہو " میجر اعجاز بولا ، " سٹاف، سر کو پیرا شوٹ پہنا کر پریکٹس کروائیں ۔
بوڑھے نے پیرا شوٹ پہن کر تین دفعہ پریکٹس کی اور پیرا شوٹ دوڑ کر سنبھالنے کے قابل ہونے کے بعد ، کوالی فائی ہو گیا ۔
واپسی پر بیٹی نے پوچھا،
" پپا ، کل آئیں گے "
" جی ہاں ، کیوں نہیں ؟ " میں بولا ۔
گھر پہنچے ، بڑھیا سمجھ رہی تھی ، کہ بوڑھا ناکام آئے گا ۔ جب معلوم ہوا کہ بوڑھا پہلا ٹیسٹ پاس کر گیا ہے اور کل بھی جائے گا تو اُس کی پریشانی ، بڑھ گئی ۔
اگر پیراشوٹ نہ کھلا اور آپ نیچے گر گئے تو ؟ "
بڑھیا نے جذبات کا اظہار کیا ۔
" کوئی بات نہیں ، پھر لوگ چمچے سے اُٹھا کر لائیں گے "
"توبہ توبہ ، کبھی تو منہ سے اچھی بات نکالیں " بڑھیا بولی
" پردے کے پیچھے یعنی ان ڈائریکٹ سپیچ میں تم بھی تو اسی خواہش کا اظہا کیا ہے۔ کہ کاش پیرا شوٹ نہ کھلے یا کاش یہ نیچے گر جائے " بوڑھے نے یاد دلایا ۔
" پپا ، آج اتوار نہیں ، آپ کا پھر لڑائی کا ارادہ ہے " بیٹی نے یاد دلایا۔ " ماما کی شوگر بڑھ جائے گی "
" اچھا ، یہ نقلی سٹرپ کتنی شوگر بتا رہی ہیں " بوڑھے نے پوچھا ۔
" ایک سو بیس "
بڑھیا بولی ، " لیکن اسے تو تیس سو ھونا چاھئیے !
مگر آپ کو بڑھاپے میں ہڈیاں تڑوانے کا خیال کیوں آیا ؟ مجھے سے خود اپنا بوجھ نہیں اٹھایا جاتا ، آپ کی خدمت کیسے کروں گی ؟
ہم دونوں بوڑھے ہیں ، چھوڑیں جمپ ومپ کو، یہ نوجوانی کے شوق ہیں " بڑھیا ایک سانس میں روپہلی الفاظ پھیلاتی ہوئی بولی۔
" ابھی تو میں جوان ہوں ، ابھی تو میں جوان ہوں "
بوڑھا پرسوز ترنم سے گنگنا یا
" جواااااااا ن " برفی نے لِے میں ساتھ دیا ،
جو بھی الفاظ نیا ہوتا ہے وہ ضرور بولنے کی کوشش کرتی ہے ۔
دل میں سوچا ۔
صبح دیکھتے ہیں، 1999 کے بعد پہلی دفعہ میدانِ ایڈونچر میں کیا ہوتا ہے ؟
رات کو آٹھ بجے کھانا کھا کر بوڑھا ، میڑس بچھا کر سو گیا ۔
بوڑھے نے پیرا شوٹ پہن کر تین دفعہ پریکٹس کی اور پیرا شوٹ دوڑ کر سنبھالنے کے قابل ہونے کے بعد ، کوالی فائی ہو گیا ۔
واپسی پر بیٹی نے پوچھا،
" پپا ، کل آئیں گے "
" جی ہاں ، کیوں نہیں ؟ " میں بولا ۔
گھر پہنچے ، بڑھیا سمجھ رہی تھی ، کہ بوڑھا ناکام آئے گا ۔ جب معلوم ہوا کہ بوڑھا پہلا ٹیسٹ پاس کر گیا ہے اور کل بھی جائے گا تو اُس کی پریشانی ، بڑھ گئی ۔
اگر پیراشوٹ نہ کھلا اور آپ نیچے گر گئے تو ؟ "
بڑھیا نے جذبات کا اظہار کیا ۔
" کوئی بات نہیں ، پھر لوگ چمچے سے اُٹھا کر لائیں گے "
"توبہ توبہ ، کبھی تو منہ سے اچھی بات نکالیں " بڑھیا بولی
" پردے کے پیچھے یعنی ان ڈائریکٹ سپیچ میں تم بھی تو اسی خواہش کا اظہا کیا ہے۔ کہ کاش پیرا شوٹ نہ کھلے یا کاش یہ نیچے گر جائے " بوڑھے نے یاد دلایا ۔
" پپا ، آج اتوار نہیں ، آپ کا پھر لڑائی کا ارادہ ہے " بیٹی نے یاد دلایا۔ " ماما کی شوگر بڑھ جائے گی "
" ارے ، میرا شوگر ٹیسٹ کا میٹر کہاں ہے وہ لانا ، ذرا شوگر چیک کروں ۔ کتنی بڑھا دی ہے تمھارے پاگل باپ نے " بڑھیا نے آخری حربہ کے طور پربوڑھے کو روکنے کے لئے کوشش کرتے ہوئے شوگر چیک کی ۔
" یہ سٹرپ نقلی آگئیں ہیں " بڑھیا منمنائی " اچھا ، یہ نقلی سٹرپ کتنی شوگر بتا رہی ہیں " بوڑھے نے پوچھا ۔
" ایک سو بیس "
بڑھیا بولی ، " لیکن اسے تو تیس سو ھونا چاھئیے !
مگر آپ کو بڑھاپے میں ہڈیاں تڑوانے کا خیال کیوں آیا ؟ مجھے سے خود اپنا بوجھ نہیں اٹھایا جاتا ، آپ کی خدمت کیسے کروں گی ؟
ہم دونوں بوڑھے ہیں ، چھوڑیں جمپ ومپ کو، یہ نوجوانی کے شوق ہیں " بڑھیا ایک سانس میں روپہلی الفاظ پھیلاتی ہوئی بولی۔
" ابھی تو میں جوان ہوں ، ابھی تو میں جوان ہوں "
بوڑھا پرسوز ترنم سے گنگنا یا
" جواااااااا ن " برفی نے لِے میں ساتھ دیا ،
جو بھی الفاظ نیا ہوتا ہے وہ ضرور بولنے کی کوشش کرتی ہے ۔
دل میں سوچا ۔
صبح دیکھتے ہیں، 1999 کے بعد پہلی دفعہ میدانِ ایڈونچر میں کیا ہوتا ہے ؟
رات کو آٹھ بجے کھانا کھا کر بوڑھا ، میڑس بچھا کر سو گیا ۔
٭٭٭٭ فوجی بوڑھا نہیں ہوتا ٭٭٭٭٭
پہلا مضمون: برفی اور چم چم کا گھوڑا، کاٹھ کا نہیں فوجی گھوڑا
اگلا مضمون :۔ ابھی تک بوڑھا باہمت ہے !
٭٭٭٭٭٭
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں