.. یہ اس معاشرے کا چلن ہے .. مرد بد کردار ہو تو آنکھیں بند کر لی جاتی ہیں کہ مرد تو ایسے ہی ہوتے ہیں
عورت وہی کچھ کرے تو بد کردار اور فحاشہ کہلاتی ہے
مرد طلاق یافتہ ہو جائے تو تمام رشتہ دار اپنی اپنی بیٹیوں کے رشتے لے کر حاضر ...
اور عورت خلع لے لے تو تمام رشتہ دار اپنی انگلیاں عورت کی طرف اٹھانے کے لئے حاضر..
اور تو اور وہ شناسا بهی ڈھونڈ لینے کی جستجو کرتے ہیں تمام عزیزان مہربان کہ جس کے لئے عورت نے خلع لی .. ورنہ بھلا کوئی عورت اپنا بسا بسایا گھر بلاوجہ تو برباد نہیں کرے گی نا .. چاہے بے چاری وہاں سے گالیاں جوتیاں کھاتی ہی نکلی ہو ..
بیوی مر جائے تو مرد مظلوم بے چارہ تنہا بچے کیسے پالے گا . باہر کام کرے گا یا گھر دیکھے گا روٹی پانی کی تنگی ہو گی نا .. مرد کی ضروریات کی ایک طویل فہرست ہے جو بے چارے کو چند ماہ بهی اکیلا نہیں رہنے دیتی ....
اور عورت بیوہ ہو جائے تو ماں کی قربانیوں اور عظمت کے گن گا کر ضروریات کا گلا اور آواز گھونٹ دی جاتی ہے .. روٹی کے لقمے تک کی محتاج ہو جائے فاقوں کی نوبت آ جائے لیکن دوسری شادی کا نام نہیں لیا جائے گا .. کیونکہ پھر بچے کون سنبھالے گا..
. مزیدار بات یہ ہے کہ جو مرد دوسری شادی اپنے بچوں کی پرورش کے نام پر کرتا ہے وہ بهی غیر شادی شدہ دوشیزہ چاہتا ہے اور اگر کسی بیوہ یا طلاق یافتہ سے شادی کر بهی لے تو اس عورت کی پہلی اولاد کو قبولنے کے لئے شاذ ہی کوئی مرد اپنا دل بڑا کر پاتا ہے ..
......یہ دوہرے معیار اس برصغیر کی ستی کی رسم کے عین مطابق ہیں بس بظاہر عورت جلائی نہیں جاتی لیکن بیوگی کا کفن اوڑھا کر زندہ درگور ضرور کر دی جاتی ہے ..
بیوہ کے سر کو جلد از جلد ڈھانپنے کے اسلامی حکم کو مقدس غلاف میں بند کر کے طاقچے کی زینت بنا دیا گیا ہے تاکہ سند رہے اور بوقت مباحثہ کام آئے..
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں