1973 کی بات ، جب وزیراعظم نے پاسپورٹ بنوانے کے لئے ، حکومت کی طرف سے لگائی گئی بندش ختم کر دیں اور پاکستانیوں نے دھڑا دھڑ پاسپورٹ بنوانے شروع کر دئے ، عام فیس 300 روپے تھی اور ارجنٹ 500 روپے ، چنانچہ نمو نے بھی پیسے جمع کر کے پاسپورٹ بنوانے کی درخواست دے دی ۔
نمّو اُن دنوں کراچی ہوتا تھا ،اب کھلی فضاؤں میں اُڑنے کا دل چاہنے لگا ۔
جنوری کی بات ہے ، تین ماہ بعد کی تاریخ ملی ۔ رسید ملتے ہی خواب بننا شروع ہو گئے ۔
محمد شاہد ، کا پاسپورٹ بن چکا تھا ، لائلپور کا رہنے والا ، یہ مشورہ اُسی نے دیا تھا کہ میں پاسپورٹ بنواؤں اور دونوں سعودی عرب جاتے ہیں وہاں اچھی تنخواہ پر ملازمت مل جائے گی ، میں نے اُسے " جرمنی" کا بتایا جہاں کوئیٹہ کے پہت سے پاکستانی ہیں ، جن میں تین تو میرے کلاس فیلو ہیں جو 1970 ، میں گئے ہیں اور اچھی جاب کر رہے ہیں ، بلکہ دو نے وہاں جرمنی سیکھی اور اب وہاں کی یونیورسٹی میں مُفت پڑھ رہے ہیں ۔
شاہد کا پاسپورٹ ، فروری میں مل گیا ۔ تو اُس نے تمام تٖفصیلات سے بھی آگاہ کرنا ضروری سمجھا ۔
اپریل میں مجھے پاسپورٹ مل گیا ، میری خوشی کا عالم کیا بتاؤں گویا ہفت اقلیم کا خزانہ میرے ہاتھ آگیا ۔ اپریل 1973 کا پہلا ہفتہ تھا ۔ کراچی سے میرپور خاص کے لئے روانہ ہوا ، رات 11 بجے مہران سے گھر پہنچا ، امی ابا اور بہن بھائی سو رہے تھے ، دروازہ کھٹکھٹانے پر امّی اُٹھیں دروازہ کھولا ، ابّا بھی اُٹھ گئے ، آہستہ آہستہ باقی بہن بھائی بھی جاگ گئے ، امّی نے کھانا نکال کر دیا ،
چھوٹے بھائی نے پوچھا ،" پاسپورٹ مل گیا ؟"
میں نے اُس کی طرف گھور کر دیکھا ،
" ھاں " آہستہ سے جواب دیا
" امی نعیم ، ملک سے باہر جا رہا ہے " اُس نے بھانڈا پھوڑا ،
جب کہ میرے اور اُس کے درمیان طے پایا تھا کہ ، کہ وہ یہ کسی کو بھی نہیں بتائے گا کہ میں باہر جانے کے لئے پاسپورٹ بنوا رہا ہوں ۔
" کیوں ؟" امی نے پوچھا " یہاں نوکری اچھی نہیں "
" امی ، وہاں زیادہ تنخواہ ملتی ہے " میں نے جواب دیا " لقمان کا بڑا بھائی مسقط میں ہے اور خوب پیسے بھجواتا ہے "
لقمان ، میرا دوست تھا جو ہمارے گھر سے چوتھی گلی میں رہتا تھا ۔ امّی اُن کو جانتی تھیں ۔ 1979 میں اُنہیں میرا سالا بننے کا شرف حاصل ہوا ۔ یعنی بڑھیا کے بڑے بھائی ہیں ۔
" نہیں بیٹا پاکستان میں ہی نوکری کرنا اچھا ہے ، ہمارے سامنے تو ہو دو تین مہینے بعد ملاقات ہو جاتی ہے ، بس ہمارے لئے یہی کافی ہے ، اللہ رزق یہاں بھی بڑھا دے گا " امّی نے جواب دیا
امّی یہ کہہ کر جاکر سو گئی ، اور مجھے پریشانی میں مبتلاء کر گئیں ، سب مائیں اپنے بچوں کوملک سے باہر بھجوانا چاہتی ہیں اور ایک میری ماں ہے وہ میرے ملک سے باہر جانے پر خوش نہیں ۔
امّی، اباّ اور دونوں بہنیں اور دونوں چھوٹے بھائی سانمے والے صحن میں سوتے تھے ، چھوٹا بھائی پچھلے صحن میں سوتا تھا ، میں بھی پچھلے صحن میں چلا گیا جہاں اُس نے چارپائی بچھا کر بستر لگا دیا تھا ۔
" نعیم ، اب کیا ہوگا ؟" اُس نے چارپائی پر لیٹے ہوئے مجھ سے پوچھا ۔" امی تو راضی نہیں "
" دیکھتے ہیں ۔ بعد میں شائد مان جائیں " میں بولا " ابھی تو باہر نہیں جارہا ہوں "
ہم دونوں اپنے قصے سناتے سناتے سو گئے ،
دوسرے دن اتوار تھا ، میرا پروگرام ، سوموار کی صبح مہران سے کراچی جانے کا ارادہ تھا ، سوموار کو 2 بجے کے بعد کی ڈیوٹی تھی ، مہران ٹرین 11 بجے دوپہر کراچی پہنچ جاتی تھی۔
دوپہر کا کھانا کھانے کے لئے 12 بجے دوستوں سے مل کر گھر آیا ، سب نے بیٹھ کر کھانا کھایا ،
" نمّو ، تم نے پاسپورٹ نہیں دکھایا ، کیسا ہوتا ہے ؟ " امّی نے پوچھا ۔
نمّو اُن دنوں کراچی ہوتا تھا ،اب کھلی فضاؤں میں اُڑنے کا دل چاہنے لگا ۔
جنوری کی بات ہے ، تین ماہ بعد کی تاریخ ملی ۔ رسید ملتے ہی خواب بننا شروع ہو گئے ۔
محمد شاہد ، کا پاسپورٹ بن چکا تھا ، لائلپور کا رہنے والا ، یہ مشورہ اُسی نے دیا تھا کہ میں پاسپورٹ بنواؤں اور دونوں سعودی عرب جاتے ہیں وہاں اچھی تنخواہ پر ملازمت مل جائے گی ، میں نے اُسے " جرمنی" کا بتایا جہاں کوئیٹہ کے پہت سے پاکستانی ہیں ، جن میں تین تو میرے کلاس فیلو ہیں جو 1970 ، میں گئے ہیں اور اچھی جاب کر رہے ہیں ، بلکہ دو نے وہاں جرمنی سیکھی اور اب وہاں کی یونیورسٹی میں مُفت پڑھ رہے ہیں ۔
شاہد کا پاسپورٹ ، فروری میں مل گیا ۔ تو اُس نے تمام تٖفصیلات سے بھی آگاہ کرنا ضروری سمجھا ۔
اپریل میں مجھے پاسپورٹ مل گیا ، میری خوشی کا عالم کیا بتاؤں گویا ہفت اقلیم کا خزانہ میرے ہاتھ آگیا ۔ اپریل 1973 کا پہلا ہفتہ تھا ۔ کراچی سے میرپور خاص کے لئے روانہ ہوا ، رات 11 بجے مہران سے گھر پہنچا ، امی ابا اور بہن بھائی سو رہے تھے ، دروازہ کھٹکھٹانے پر امّی اُٹھیں دروازہ کھولا ، ابّا بھی اُٹھ گئے ، آہستہ آہستہ باقی بہن بھائی بھی جاگ گئے ، امّی نے کھانا نکال کر دیا ،
چھوٹے بھائی نے پوچھا ،" پاسپورٹ مل گیا ؟"
میں نے اُس کی طرف گھور کر دیکھا ،
" ھاں " آہستہ سے جواب دیا
" امی نعیم ، ملک سے باہر جا رہا ہے " اُس نے بھانڈا پھوڑا ،
جب کہ میرے اور اُس کے درمیان طے پایا تھا کہ ، کہ وہ یہ کسی کو بھی نہیں بتائے گا کہ میں باہر جانے کے لئے پاسپورٹ بنوا رہا ہوں ۔
" کیوں ؟" امی نے پوچھا " یہاں نوکری اچھی نہیں "
" امی ، وہاں زیادہ تنخواہ ملتی ہے " میں نے جواب دیا " لقمان کا بڑا بھائی مسقط میں ہے اور خوب پیسے بھجواتا ہے "
لقمان ، میرا دوست تھا جو ہمارے گھر سے چوتھی گلی میں رہتا تھا ۔ امّی اُن کو جانتی تھیں ۔ 1979 میں اُنہیں میرا سالا بننے کا شرف حاصل ہوا ۔ یعنی بڑھیا کے بڑے بھائی ہیں ۔
" نہیں بیٹا پاکستان میں ہی نوکری کرنا اچھا ہے ، ہمارے سامنے تو ہو دو تین مہینے بعد ملاقات ہو جاتی ہے ، بس ہمارے لئے یہی کافی ہے ، اللہ رزق یہاں بھی بڑھا دے گا " امّی نے جواب دیا
امّی یہ کہہ کر جاکر سو گئی ، اور مجھے پریشانی میں مبتلاء کر گئیں ، سب مائیں اپنے بچوں کوملک سے باہر بھجوانا چاہتی ہیں اور ایک میری ماں ہے وہ میرے ملک سے باہر جانے پر خوش نہیں ۔
امّی، اباّ اور دونوں بہنیں اور دونوں چھوٹے بھائی سانمے والے صحن میں سوتے تھے ، چھوٹا بھائی پچھلے صحن میں سوتا تھا ، میں بھی پچھلے صحن میں چلا گیا جہاں اُس نے چارپائی بچھا کر بستر لگا دیا تھا ۔
" نعیم ، اب کیا ہوگا ؟" اُس نے چارپائی پر لیٹے ہوئے مجھ سے پوچھا ۔" امی تو راضی نہیں "
" دیکھتے ہیں ۔ بعد میں شائد مان جائیں " میں بولا " ابھی تو باہر نہیں جارہا ہوں "
ہم دونوں اپنے قصے سناتے سناتے سو گئے ،
دوسرے دن اتوار تھا ، میرا پروگرام ، سوموار کی صبح مہران سے کراچی جانے کا ارادہ تھا ، سوموار کو 2 بجے کے بعد کی ڈیوٹی تھی ، مہران ٹرین 11 بجے دوپہر کراچی پہنچ جاتی تھی۔
دوپہر کا کھانا کھانے کے لئے 12 بجے دوستوں سے مل کر گھر آیا ، سب نے بیٹھ کر کھانا کھایا ،
" نمّو ، تم نے پاسپورٹ نہیں دکھایا ، کیسا ہوتا ہے ؟ " امّی نے پوچھا ۔
" ابھی دکھاتا ہوں " کہہ کر اُٹھا ، دل میں سوچا شائد امّی راضی ہوجائیں ، خوشی خوشی کمرے میں گیا اور بیگ سے پاسپورٹ نکال کر لایا اور بیٹھتے ہوئے امّی کے ہاتھ میں دیا ، لیکن اُن کے ہاتھ سے چھوٹی بہن نے اُچک لیا ۔
پانچوں پاسپورٹ کو دیکھ رہے تھے ،
"بھائی ، تصویر اچھی ہے ، کب بنوائی " سعیدہ نے پوچھا ،
" جنوری میں پاسپورٹ کے لئے بنوائی تھی " میں نے جواب دیا ۔
" بھائی اب یہ لے کر ملک کے باہر جا سکتے ہو ؟" بہن نے دوبارہ پوچھا ۔
" نہیں اِس پر ویزہ لگے گا اور پھر نعیم باہر جائے گا " مجھ سے چھوٹا بھائی بولا ۔
" ارے ، مجھے بھی تو دکھاؤ " امّی بولیں ،
تو چھوٹی بہن نے پاسپورٹ امؔی کے ہاتھ میں دے دیا ، امّی نے تصویر دیکھی تعریف کی ۔
" نمّو یہ بتا کہ صرف اِس کو دکھا کر ملک سے باہر جاتے ہیں " امّی نے پوچھا
" جی امّی " میں نے جواب دیا !
اور اگر یہ گم ہوجائے ، یا کوئی بیگ چوری کر لے " امّی نے پوچھا
" امّی ۔ پولیس میں رپورٹ کروانی پڑے گی اور شائد پاسپورٹ جلدی نہ ملے " میں نے جواب دیا ۔
" بھائی میرا پاسپورٹ کب بنے گا ؟" چھوٹے بھائی نے پوچھا ۔
" تم میٹرک تو کر لو اُس کے بعد ایپلائی کرنا مل جائے گا" میں اُس کی طرف دیکھتے ہوئے بولا ۔
ابھی میں نے جملہ ختم ہی کیا تھا ، کہ کاغذ پھٹنے کی آواز آئی ،
امّی نے بغیر کسی تردد کے ، بڑے آرام سے میرا پاسپورٹ پھاڑا ، میں دم بخود ، امّی نے پھٹا ہوا پاسپورٹ میرے ہاتھ میں دیتے ہوئے کہا ،
" اگر پاکستان سے باہر گئے تو دودھ نہیں بخشوں گی "
میری آنکھوں میں آنسو آگئے ، میں نے سحردہ شخص کی طرح پاسپورٹ پکڑا ، مشینی انداز میں کھڑا ہوا ، کمرے میں گیا۔ پھٹے ہوئے پاسپورٹ کو ہاتھ میں لئے بیگ اُٹھا کر پچھلے دروازے سے باہر نکل گیا ۔
پیدل چلتا ہوا ، گھر سے ڈیڑھ کلو میٹر دور ریلوے سٹیشن پر پہنچ گیا ، ٹرین نے شام پانچ بجے جانا تھا ، شیڈ کے نیچے بنچ پر لیٹ گیا تھوڑی دیر بعد سلیم آزاد اور چھوٹا بھائی پہنچ گئے ۔
" بھائی گھر چلو "وہ بولا
" اب گھر کبھی نہیں جاؤں گا " میں نے غصے میں کہا
پھر اکتوبر میں مجبوراً چھوٹی عید پر گھر آنا پڑا ، کیوں کہ غصہ اتر گیا تھا ، امّی ۔ ابا اور بھائی بہنوں کی یاد آتی تھی ۔
پانچوں پاسپورٹ کو دیکھ رہے تھے ،
"بھائی ، تصویر اچھی ہے ، کب بنوائی " سعیدہ نے پوچھا ،
" جنوری میں پاسپورٹ کے لئے بنوائی تھی " میں نے جواب دیا ۔
" بھائی اب یہ لے کر ملک کے باہر جا سکتے ہو ؟" بہن نے دوبارہ پوچھا ۔
" نہیں اِس پر ویزہ لگے گا اور پھر نعیم باہر جائے گا " مجھ سے چھوٹا بھائی بولا ۔
" ارے ، مجھے بھی تو دکھاؤ " امّی بولیں ،
تو چھوٹی بہن نے پاسپورٹ امؔی کے ہاتھ میں دے دیا ، امّی نے تصویر دیکھی تعریف کی ۔
" نمّو یہ بتا کہ صرف اِس کو دکھا کر ملک سے باہر جاتے ہیں " امّی نے پوچھا
" جی امّی " میں نے جواب دیا !
اور اگر یہ گم ہوجائے ، یا کوئی بیگ چوری کر لے " امّی نے پوچھا
" امّی ۔ پولیس میں رپورٹ کروانی پڑے گی اور شائد پاسپورٹ جلدی نہ ملے " میں نے جواب دیا ۔
" بھائی میرا پاسپورٹ کب بنے گا ؟" چھوٹے بھائی نے پوچھا ۔
" تم میٹرک تو کر لو اُس کے بعد ایپلائی کرنا مل جائے گا" میں اُس کی طرف دیکھتے ہوئے بولا ۔
ابھی میں نے جملہ ختم ہی کیا تھا ، کہ کاغذ پھٹنے کی آواز آئی ،
امّی نے بغیر کسی تردد کے ، بڑے آرام سے میرا پاسپورٹ پھاڑا ، میں دم بخود ، امّی نے پھٹا ہوا پاسپورٹ میرے ہاتھ میں دیتے ہوئے کہا ،
" اگر پاکستان سے باہر گئے تو دودھ نہیں بخشوں گی "
میری آنکھوں میں آنسو آگئے ، میں نے سحردہ شخص کی طرح پاسپورٹ پکڑا ، مشینی انداز میں کھڑا ہوا ، کمرے میں گیا۔ پھٹے ہوئے پاسپورٹ کو ہاتھ میں لئے بیگ اُٹھا کر پچھلے دروازے سے باہر نکل گیا ۔
پیدل چلتا ہوا ، گھر سے ڈیڑھ کلو میٹر دور ریلوے سٹیشن پر پہنچ گیا ، ٹرین نے شام پانچ بجے جانا تھا ، شیڈ کے نیچے بنچ پر لیٹ گیا تھوڑی دیر بعد سلیم آزاد اور چھوٹا بھائی پہنچ گئے ۔
" بھائی گھر چلو "وہ بولا
" اب گھر کبھی نہیں جاؤں گا " میں نے غصے میں کہا
پھر اکتوبر میں مجبوراً چھوٹی عید پر گھر آنا پڑا ، کیوں کہ غصہ اتر گیا تھا ، امّی ۔ ابا اور بھائی بہنوں کی یاد آتی تھی ۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں