Pages

میرے چاروں طرف افق ہے جو ایک پردہء سیمیں کی طرح فضائے بسیط میں پھیلا ہوا ہے،واقعات مستقبل کے افق سے نمودار ہو کر ماضی کے افق میں چلے جاتے ہیں،لیکن گم نہیں ہوتے،موقع محل،اسے واپس تحت الشعور سے شعور میں لے آتا ہے، شعور انسانی افق ہے،جس سے جھانک کر وہ مستقبل کےآئینہ ادراک میں دیکھتا ہے ۔
دوستو ! اُفق کے پار سب دیکھتے ہیں ۔ لیکن توجہ نہیں دیتے۔ آپ کی توجہ مبذول کروانے کے لئے "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ پوسٹ ہونے کے بعد یہ آپ کے ہوئے ، آپ انہیں کہیں بھی کاپی پیسٹ کر سکتے ہیں ، کسی اجازت کی ضرورت نہیں !( مہاجرزادہ)

پیر، 14 دسمبر، 2015

کورس میٹس (Coursemates)-ارشد طارق بریگیڈئر (ر),

فوجی افسروں کے مقدس مقامات میں سب سے اہم اور بنیادی مقام پاکستان ملٹری اکیڈمی (پی ایم اے) کاکول کا ہی ہے۔ اسے اگر پاکستانی فوج کی کوکھ کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا جو ہر سال جانفروش اور جانباز نوجوان افسروں کو جنم دیتی ہے۔ اسی لئے اس ادارے کی عزت و تکریم ماں جیسی ہے اور ہم سب اس کا ماں جیسا ہی احترام کرتے ہیں۔

اس میں پاکستان کے چاروں کونوں سے ہر نسل، ہر رنگ اور ہر مذہب کے ہونہار اور باہمت نوجوان آتے ہیں۔ غیر فوجی قارئین کیلئے عرض کرتا چلوں کہ پی ایم اے میں داخلہ کورسز کے حساب سے ہوتا ہے۔ مثلاً میرا کورس 37 پی ایم اے ہے۔ (ان دنوں تو شائید 137 چل رہا ہو) اور ایک کورس میں جتنے بھی نوجوان شامل ہوں اُن سب کو کورس میٹ کہتے ہیں۔ (مجھے 'کورس میٹ' کا اردو میں متبادل نہیں ملا۔ 'کلاس میٹ' کو تو 'ہم جماعت' کہہ لیتے ہیں لیکن 'ہم کورس' سے بات بنتی نہیں اور رُوم میٹ کو کیا کہیں گے؟)
ایک کورس کے نوجوانوں کو کُہنہ مشق اور خونخوار قسم کے اساتذہ زبردست رگڑا وگڑا دے دلا کر اور خوب پالش والش کر کے نکھار دیتے ہیں۔ پی ایم اے میں قیام کے دوران جو سب سے اہم تبدیلی آتی ہے وہ یہ ہے کہ کورس میٹس آپس میں بھائی چارے کے لازوال رشتے میں منسلک ہو جاتے ہیں جو ساری عمر قائم رہتا ہے۔

پی ایم اے میں آپ کے کورس کے کچھ پردھان آپ کو ایک نام عنائت کر دیتے ہیں جو آپ کا اَٹوٹ اَنگ بن جاتا ہے اور ساری زندگی آپ سے چپکا رہتا ہے۔ لیکن کچھ اس اعزاز سے بچ بھی جاتے ہیں۔ آپ میجر ہوں، کرنیل یا ایک، دو، تین یا چار ستاروں والے جرنیل ہوں یہ آپ کا پیچھا نہیں چھوڑے گا۔ ہاں بعد از مرگ یہ نام ہٹ جاتا ہے کیونکہ آج تک میں نے کسی کی قبر کے کتبہ پر پی ایم اے نام کندہ نہیں دیکھا۔ اس نام کا آپ کے اصلی نام کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ ہاں آپ کی عادات و اطوار، آپ کی جسمانی ساخت اور آپ کے مزاج کا اس سے گہرا تعلق ہو تا۔ چند ایک نام جو سارے میرے کورس سے نہیں بلکہ کچھ دائیں بائیں سے مستعار بھی لئے ہیں، مثال کے طور پہ پیش کرتا ہوں جس سے آپ کو ان کی ساخت کا اندازہ ہو جائے گا۔ مثلاً
بیلچہ، باجی، ابّا جی، کھروڑہ، کھمبا، گینڈا، طوطا، کِھچُو، کھڑکا، مُچھ، چُنّا، ریہڑہ، گھوڑا، پنجہ، لسوڑا۔ دراز قد کو چھوٹو اور پست قد کو لمبُو وغیرہ۔
خوبصورتی یہ ہے کہ جن کے نام ہوتے ہیں انہیں بھی پتہ ہوتا ہے لیکن وہ بالکل احتجاج نہیں کرتے اور نہ ہی بُرا مناتے ہیں کیونکہ اگر برا منائیں گے تو اُن کی مشہوری کورس کے علاوہ پھر پوری فوج میں ہو جاتی ہے اسلئے وہ چُپ رہنے میں ہی اپنی بھلائی سمجھتے ہیں۔ یہ تو کچھ پارلیمانی نام تھے جن کا میں نے ذکر کیا۔ اس کے علاوہ کچھ غیر پارلیمانی نام بھی ہوتے ہیں جن کا ذکر یہاں مناسب نہیں اور نہ ہی تہذیب اس کی اجازت دیتی ہے۔

کورس میٹ کو اگر آپ لنگوٹیا یار بھی کہہ لیں تو کوئی مذائقہ نہیں۔ میں نے الطارق (ہماری رہائشی بلڈنگ) کی راہداریوں میں انہیں لنگوٹ میں تو نہیں لیکن انڈر ویئر، جانگیہ، نِکر وغیرہ میں مٹر گشت کرتے ہوئے اکثر دیکھا ہے۔ آپ کو بازار میں یا کسی محفل میں لاکھ دشمن مل جائے خیر ہے مگر کوئی کورس میٹ نہ ملے کیونکہ وہ آپ کے مرتبے کی پرواہ کئے بغیر سرِعام آپ کی عزت تار تار کر کے آپ کے ہاتھ میں پکڑا سکتا ہے۔

منکر نکیر شائد آپ کی کسی کوتاہی کو ناقابلِ تعزیر سمجھ کر درگزر کر دیں لیکن کورس میٹ کبھی یہ رعائت نہیں دیتے۔ آپ نے ذرا باہر کو جاتی ہوئی گیند کو چھوا تو آپ کا کیچ یقیناً سلِپ میں پکڑا جائے گا۔ کھیلنے والے کو یہ غم نہیں ہوتا کہ اُس کا کیچ کیوں پکڑا گیا بلکہ وہ اپنے آپ کو کوستا ہے کہ اُس سے ایسی حماقت کیوں سر زد ہوئی۔
فیس بُک میں میرے کئی کورس میٹ ہیں جن کو غلطی سے میں اپنے دوستوں کی فہرست میں شامل کر بیٹھا ہوں۔ آپ نے اکثر اُن کے انتہائی تلخ ریمارکس بھی دیکھے ہونگے لیکن اپنی جان کی امان کی خاطر میں ان کا بُرا منانے کا تصّور بھی نہیں کر سکتا۔ ہاں اپنے ساتھیوں کو ایک مشورہ دے سکتا ہوں کہ ان کو کبھی بھول کر بھی شامل نہ کریں۔ اگر ایک دفعہ شامل کر لیا تو پھر نکالنا آپ کے بس کی بات نہیں۔ پھر کمبل کی مرضی ہے آپ کو چھوڑے یا نہ چھوڑے۔

کورس میٹ بھی اللہ کی نعمتوں میں سے ایک انتہائی نایاب نعمت ہے جو صرف قسمت والوں کو ہی نصیب ہوتی ہے۔ کپتانی تک کوئی نہ کوئی آپس میں رشتہ داری بھی ہو ہی جاتی ہے۔ کہیں کوئی ہم زلف بن گیا اور کوئی سالہ بہنوئی۔ ذرا بزرگی آئی تو سمدھی بھی بنتے جاتے ہیں۔ اور ان دنوں تو سنا ہے کہ رشتہء ازدواج کا چانس بھی پیدا ہو گیا ہے۔

آپ کا کوئی بہن بھائی نہیں، آپ اکلوتے ہی ہیں، کوئی بات نہیں۔ آپ کو ماں باپ نے عاق کردیا، کوئی بات نہیں، بھائی لفٹ نہیں کرواتے یا بیوی نے طلاق دے دی ہے، کوئی بات نہیں، بچوں نے گھر سے دھکے دے کر نکال دیا، پھر بھی کوئی بات نہیں، ہم ہیں نا کورس میٹس، ہر مرض کی اکسیر دوا، فکر کی کوئی بات نہیں۔

تمام تر تربیت کے باوجود بنیادی طور پر ہم سب انسان ہی تو ہوتے ہیں( امید ہے آپ کو اس بیان میں کوئی شک نہیں ہو گا) اس لئے بُنیادی انسانی خصلتوں سے فرار ممکن نہیں۔ ہم میں بھی ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی لگن اور جستجو ہوتی ہے، کچھ چھوٹی موٹی رقابتیں بھی ہو جاتی ہیں اور شائد کچھ حسد بھی کی جاتی ہو اور کچھ ٹانگیں بھی کھینچی جاتی ہوں۔ لیکن ایک حد سے آگے نہیں۔ ہمارے جسم بے شک جُدا جُدا ہوں لیکن ہمارے دل ایک ساتھ ہی دھڑکتے ہیں۔ کسی کی ذرا سی تکلیف اور پریشانی پر ہم بے چین ہو جاتے ہیں اور سب کچھ بھول بھلا کے اکٹھے ہو جاتے ہیں اور کوئی نہ کوئی حل نکال ہی لیتے ہے۔ اور یہ سلسلہ اس زندگی کے بعد بھی جاری رہتا ہے اور کورس میٹ اپنے مرحوم ساتھیوں کے اہلِ خانہ کو بھی کبھی فراموش نہیں کرتے اور ہر وقت ہر قسم کی مدد کیلئے حاضر ہوتے ہیں۔

یہ سال ہماری افسری کا پچاسواں سال ہے جو انشاءاللہ 30 مارچ 2016 کو پورا ہو رہا ہے۔ جِسے گورے لوگ عُرفِ عام میں گولڈن جوبلی بھی کہتے ہیں۔ اس نصف صدی میں ہم سب نے زندگی کی دشوار گزار راہوں پہ کئی نشیب و فراز دیکھے ہیں لیکن ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے، ایک دوسرے کی خوشیوں اور غموں کو بانٹتے ہوئے اپنے سفر پہ گامزن رہے۔ کچھ ساتھی تو 1971 کے بعد ہم سے جدا ہوگئے۔ کچھ جنگ کی نظر ہو گئے اور کچھ بنگلہ دیش کی۔ باقیوں میں سے بھی وقفوں وقفوں سے کچھ اللہ میاں کو پیارے ہوتے گئے، کچھ کی بیگمات ہمیشہ کیلئے جدا ہو گئیں اور کچھ کے بچے اُن سے بچھڑ گئے۔ یہی زندگی ہے اور جس طرح کی بھی ہے ہم نے گزارنی تو ہے۔ بہتر ہے مثبت انداز میں گزاریں۔ ہم اب سب ستّر کے پیٹے میں ہیں۔ یوں لگتا ہے جیسے بورڈنگ کارڈ لیکر روانگی کے لاؤنج میں بیٹھے اپنی اپنی پرواز کا انتظار کر رہے ہیں۔ پتہ نہیں کب کس کی باری آجائے۔ تب تک پوتوں اور نواسوں سے کھیل کر دل بہلا رہے ہیں۔

میری صدقِ دل سے دعا ہے کہ اللہ ربّ العزّت میرے تمام کورس میٹوں کو جو اس جہانِ فانی سے رخصت ہو چُکے ہیں اُن کی مغفرت فرمائے اور اُنہیں جنت الفِردوس میں اعلیٰ مقام عطا کرے اور جو ابھی تک رخصت نہیں ہوئے اُن کی زندگیوں میں آسانیاں پیدا کربے اور اُنہیں اور اُن کے اہل و عیال کو اپنی رحمتوں کے سائے میں رکھے اور اُن کو زندگی میں بے شمار کامیابیوں اور کامرانیوں سے ہمکنار کرے۔ آمین

(بریگیڈئر محمد
ارشد طارق ۔ ریٹائرڈ )

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
بریگیڈئر محمد ارشد طارق,  آج کل امریکہ میں ہیں,  وہاں فراغت میں اپنی یادیں جمع کر رہے ہیں اور واپسی پر صاحبِ کتاب ہوں گے.  انشاء اللہ

 
   دیگر مضامین ۔

٭ ۔  اپنا سامان مختصر رکھئیے












کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

خیال رہے کہ "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ !

افق کے پار
دیکھنے والوں کو اگر میرا یہ مضمون پسند آئے تو دوستوں کو بھی بتائیے ۔ آپ اِسے کہیں بھی کاپی اور پیسٹ کر سکتے ہیں ۔ ۔ اگر آپ کو شوق ہے کہ زیادہ لوگ آپ کو پڑھیں تو اپنا بلاگ بنائیں ۔