Pages

میرے چاروں طرف افق ہے جو ایک پردہء سیمیں کی طرح فضائے بسیط میں پھیلا ہوا ہے،واقعات مستقبل کے افق سے نمودار ہو کر ماضی کے افق میں چلے جاتے ہیں،لیکن گم نہیں ہوتے،موقع محل،اسے واپس تحت الشعور سے شعور میں لے آتا ہے، شعور انسانی افق ہے،جس سے جھانک کر وہ مستقبل کےآئینہ ادراک میں دیکھتا ہے ۔
دوستو ! اُفق کے پار سب دیکھتے ہیں ۔ لیکن توجہ نہیں دیتے۔ آپ کی توجہ مبذول کروانے کے لئے "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ پوسٹ ہونے کے بعد یہ آپ کے ہوئے ، آپ انہیں کہیں بھی کاپی پیسٹ کر سکتے ہیں ، کسی اجازت کی ضرورت نہیں !( مہاجرزادہ)

پیر، 14 دسمبر، 2015

میں ہوں بے وطن مسافر





مری داستان حسرت وہ سنا سنا کر روئے

مرے آزمانے والے مجھے آزما کے روئے

کوئی  ایسا  اہل  دل  ھو  کہ  فسانہ  محبت

میں اسے سنا کے روؤں وہ مجھے سنا کے روئے

مری  آرزو  کی  دنیا  دل  ناتواں  کی  حسرت
جسے

کھو کے شادماں تھے اسے آج پا کے روئے

تری  بے  وفائیوں  پر  تری  کج  ادائیوں  پر
کبھی سر

جھکا کے روئے کبھی منہ چھپا کے روئے

جو سنائی انجمن  میں  شب  غم کی  آپ  بیتی

کئی رو کے مسکرائے کئی مسکرا کے روئے

  میں ہوں بے وطن مسافر میرا نام بے کسی ہے

میرا کوئی نہیں جہاں میں جو گلے لگا کے روئے
 کہیں سیف راستے میں وہ ملے تو اُس سے کہنا 

میں اداس ہوں اکیلا ، میرے پاس آکے روئے



(سیف الدین سیف)
 ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

خیال رہے کہ "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ !

افق کے پار
دیکھنے والوں کو اگر میرا یہ مضمون پسند آئے تو دوستوں کو بھی بتائیے ۔ آپ اِسے کہیں بھی کاپی اور پیسٹ کر سکتے ہیں ۔ ۔ اگر آپ کو شوق ہے کہ زیادہ لوگ آپ کو پڑھیں تو اپنا بلاگ بنائیں ۔