ہم نے تو ایک بات کی اٗس نے کمال کردیا
دھوتی کو اِس طرح پھاڑا کہ رومال کردیا
دھوتی کو اِس طرح پھاڑا کہ رومال کردیا
ایک پوسٹ نے ہمارے فیس بک کے ایک دیرینہ دوست نے کو اچانک ہڑبڑا کر بیدار کر دیا اور انہوں نے اِن بکس کیا ،
It
might be fun for some, but in the wake of the fact that in our cultural
ethos such overt expression is hardly approved, please reconsider its
posting. All of us have female family members on FB and it might be
embarrassing for them to see elders behaving below decency.
ہمارے
یہ دوست ، ہم سے یک سالہ بزرگ ہیں ، لہذا بزرگی اور محبت کا پاس رکھتے
ہوئے ہم نے فوراً سعادت مندی سے ، پوسٹ کو اپنے صفحے سے اَن شئیر کیا ۔
اور لکھا "
Thanks Sir,
Unshared.
مجھے یہی ڈر تھا کہ ہم ابھی اتنے کُھلے ذہن کے نہیں کہ مزاح کو سمجھ سکیں ، شکریہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہمارے
یہ دوست ، کیوں کہ ہم سے مخالف سیاسی رُجحان بھی رکھتے ہیں ، چنانچہ جب
فیس بُک کھولتے ، اُنہیں میری پوسٹ کے مزاح میں ڈوبے ہوئے نشتر دکھائی دیتے
، تو وہ فوراً جھاڑ پلا دیتے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جو انہوں نے ۔ 12 اگست 2015 ، کو پلائی ! جو خاور یوسف کی یہ پوسٹ شیئر کرنے پر تھی ۔
At
our age we need to avoid things which are below dignity. I am sorry I
observed you repeatedly doing this. Perhaps you have the ability to
absorb the abuses hurled in return. Can you quote something from Holy
Prophet's life in support of your this behavior?
مہاجر زادہ نے وضاحت پیش کی !
بھائی یہ پوسٹ میری نہیں ۔
میں نہیں بنائی ۔
صرف میں نے شیئر کی ہے ۔
کہ عمران خان جیسے پلے بوائے کا سر شرم سے نہیں جھکنا چاھئیے ۔
بلکہ فخر سے بلند ہونا چاھئیے ، کہ وہ بھی گو یہ کام تو نہیں اس سے کم سزا 100 کوڑوں کے کام میں ملوث رہا ہے ۔
مجھے حیرانی ہے کہ آپ جیسا بردبار، سلیم الفطرت فہم و ادراک کا مالک اِس جیسے قبیح الفطرت شخص کو پسند کرتا ہے ۔
تو کیا مجھے اس سے نفرت کرنے کا کوئی حق نہیں ؟ (مہاجرزادہ)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عمرانیوں
نے مجھے پیج پر اور ان بکس میں ہر طرح کی گالیاں دیں جو اُنہیں اُن کے
والدین نے سکھائیں تو ، میں نے مُفت پُور کے مُفتی کا سہارا لیا ،
مجھے
نہیں معلوم کہ اس میں عمران کو پسند یا ناپسند کرنا کہاں سے آ گیا؟
٭٭٭٭٭٭٭
پسند اور ناپسند ایک فطری جزبہ ہے اور نفرت ناپسندیدگی کی انتہائ صورت- آپ کو یقیناً یہ حق حاصل ہے - اس پوسٹ کے جواب میں آپ کی وال پر جو مغلظات لکھی گئیں تھیں میں نے اس کے حوالے سے بات کی تھی- ناپسندیدگی یا نفرت کے اظہار کی کوئی احسن صورت بھی ہو سکتی ہے مگر آپ جسے غلاظت سمجھتے ہیں ،اس پر پتھر پھینکنے کو ہی مناسب سمجھتے ہیں تو خاکسار کو کیا اعتراض ہو سکتا ہے- اڑنے والے چھینٹے اگر آپ کی طبع پر ناگوار نہیں گزرتے تو میں کون ہوتا ہوں اس پہ کچھ کہنے والا- سمع خراشی کے لئے معذرت خواہ ہوں- آئندہ ذحمت نہ دونگا- لنا اعمالنا و لکم اعمالکم- امید ہے کہ آپ مجھے اپنے عمومی خیالات سے مستفیض ہونےکے حق سے محروم نہیں کرینگے-
٭٭٭٭٭٭٭
پسند اور ناپسند ایک فطری جزبہ ہے اور نفرت ناپسندیدگی کی انتہائ صورت- آپ کو یقیناً یہ حق حاصل ہے - اس پوسٹ کے جواب میں آپ کی وال پر جو مغلظات لکھی گئیں تھیں میں نے اس کے حوالے سے بات کی تھی- ناپسندیدگی یا نفرت کے اظہار کی کوئی احسن صورت بھی ہو سکتی ہے مگر آپ جسے غلاظت سمجھتے ہیں ،اس پر پتھر پھینکنے کو ہی مناسب سمجھتے ہیں تو خاکسار کو کیا اعتراض ہو سکتا ہے- اڑنے والے چھینٹے اگر آپ کی طبع پر ناگوار نہیں گزرتے تو میں کون ہوتا ہوں اس پہ کچھ کہنے والا- سمع خراشی کے لئے معذرت خواہ ہوں- آئندہ ذحمت نہ دونگا- لنا اعمالنا و لکم اعمالکم- امید ہے کہ آپ مجھے اپنے عمومی خیالات سے مستفیض ہونےکے حق سے محروم نہیں کرینگے-
اردو ادب کا عمومی طالب علم ہوں اور اس کی
صنف مزاح سے بھی رغبت ہے- ایک بات طے ہے کہ لطیفے اور کثیفے میں فرق ہوتا ہے- پھر
کچھ باتیں بے تکلف دوستوں کی مجلس میں ہی روا ہیں اور عمومی مجلسوں میں ان کے بیان
سے اعرض کیا جاتا ہے- ہر معاشرے کے کچھ حدود و قیود ہیں سو ہمارے بھی ہیں- قابل
تحریر یا نہ ہونے کا ایک عمومی معیار یہ ہے کہ دیکھا جائے کہ افراد
خانہ کے ساتھ اسے مل کر دیکھا یا پڑھا جا سکتا ہے کہ نہیں اگر جواب مثبت ہے تو بسم
ا للہ وگرنہ نہ کرنا ہی بہتر سمجھا جائے ۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
جواباً مہاجر زادہ کو بھی اپنی سوچ اُن کے گوش گذار کرنا پڑی :۔
عمومی میعار اب تبدیل ہو چکے ہیں اور ہوتے رہیں گے ،
پیارے بھائی :
پہلے والد کو منڈوا دیکھنے پر گو شمالی ہوتی تھی ہم اپنی والدہ کے ساتھ ، باپ کی اجازت سے ، منتخب منڈوے (بائیسکوپ ) دیکھنے جاتے تھے ، جن کا نام اب "فلم" کر دیا گیا تھا ۔
جوانی میں گھر میں منڈوا چلانے والی مشین ( وی سی آر) میں گھر میں لے آیا ۔تو اُس وقت کی " اخلاقی" فلموں کی خاص وڈیو بناتا جن میں قابلِ گرفت گانے اور ڈائلاگ نکلوا کر اپنی کیسٹ بناتا اور پھر گھر مٰن سب دیکھتے اور لطف اندوز ہوتے ۔
اب ، سمارٹ ٹی وی پر روزانہ گھر میں بغیر فلٹر کے منڈوا دیکھا جاتا ہے ، اور تو اور جو لطیفے ،انٹر نیٹ کی فضاؤں میں وٹس ایپ اور فیس بُک پر چکر لگا رہے ہیں ، وہی میری بیوی ، بیٹیوں ، بھتیجیوں اور بھانجیوں کے پاس آتے ہیں-
پہلے والد کو منڈوا دیکھنے پر گو شمالی ہوتی تھی ہم اپنی والدہ کے ساتھ ، باپ کی اجازت سے ، منتخب منڈوے (بائیسکوپ ) دیکھنے جاتے تھے ، جن کا نام اب "فلم" کر دیا گیا تھا ۔
جوانی میں گھر میں منڈوا چلانے والی مشین ( وی سی آر) میں گھر میں لے آیا ۔تو اُس وقت کی " اخلاقی" فلموں کی خاص وڈیو بناتا جن میں قابلِ گرفت گانے اور ڈائلاگ نکلوا کر اپنی کیسٹ بناتا اور پھر گھر مٰن سب دیکھتے اور لطف اندوز ہوتے ۔
اب ، سمارٹ ٹی وی پر روزانہ گھر میں بغیر فلٹر کے منڈوا دیکھا جاتا ہے ، اور تو اور جو لطیفے ،انٹر نیٹ کی فضاؤں میں وٹس ایپ اور فیس بُک پر چکر لگا رہے ہیں ، وہی میری بیوی ، بیٹیوں ، بھتیجیوں اور بھانجیوں کے پاس آتے ہیں-
اچھے نیک دل انسان :
زمانہ آہستہ ، آہستہ اُس منافقت سے نکل رہا ہے ، جس میں ہم پاکستانی رہ رہے ہیں ۔ قومِ لوط کا فعل جاری رہے اور ہم بھی حج اور نمازوں کے نشان اپنے ساتھ چسپاں کئے رکھتے ہیں ، شاید آپ میرے پوسٹ پوری نہیں پڑھتے یا آپ کو جھنجھلاہٹ ہوتی ہوگی ،
لیکن یاد رہے ، قصور میں ہونے والے ظلم کاسدِ باب اپنے بچوں اور بچیوں کو سیکس ایجوکیشن دے کر ، آگاہ نہیں کیا کہ کس قسم کے قریبی عزیز و رشتہ دار یا اقارب یا اُن کے بچے ، آپ کے بچے کا جنسی استحصال بذریعہ تشدّد و لالچ کر سکتے ہیں آپ سوچ بھی نہیں سکتے ۔ہاں مختلف بیان بازیوں سے لوگ آپ کے زخموں پر پھا رکنے کی کوشش ضرور کریں گے ، لیکن پیٹھ پیچھے نفرت سے کہیں گے ،
زمانہ آہستہ ، آہستہ اُس منافقت سے نکل رہا ہے ، جس میں ہم پاکستانی رہ رہے ہیں ۔ قومِ لوط کا فعل جاری رہے اور ہم بھی حج اور نمازوں کے نشان اپنے ساتھ چسپاں کئے رکھتے ہیں ، شاید آپ میرے پوسٹ پوری نہیں پڑھتے یا آپ کو جھنجھلاہٹ ہوتی ہوگی ،
لیکن یاد رہے ، قصور میں ہونے والے ظلم کاسدِ باب اپنے بچوں اور بچیوں کو سیکس ایجوکیشن دے کر ، آگاہ نہیں کیا کہ کس قسم کے قریبی عزیز و رشتہ دار یا اقارب یا اُن کے بچے ، آپ کے بچے کا جنسی استحصال بذریعہ تشدّد و لالچ کر سکتے ہیں آپ سوچ بھی نہیں سکتے ۔ہاں مختلف بیان بازیوں سے لوگ آپ کے زخموں پر پھا رکنے کی کوشش ضرور کریں گے ، لیکن پیٹھ پیچھے نفرت سے کہیں گے ،
" بڑا مبلغ بنا پھرتا ہے اپنے بچے کو نہیں سنبھال سکا "
میری عادت ، ہر ایسی چیز جو مشکوک ہے ، "لا " کہنے کی فطرت ہے ۔ اور پھر سوچ بچار و غور و خوص کے بعد ۔ " الا" زبان پر
آتا ہے ۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں