بڑے بوڑھے کہا کرتے تھے کہ انسان اپنی قسمت خود بناتا ہے۔ بچپن میں والدین
نے بھی یہی نصیحت کی تھی جو ہمارے دل کے
پتّھر پر انمٹ لکیر بن چکی تھی۔ لیکن حالات کے تھپیڑوں نے اتنا رگیدا، کہ اعتماد کا
شیشہ نہ صرف چکنا چور ہوا بلکہ، اس کے چورن
نے قسمت کی لکیر پر جم کر اس پر پلستر کردیا، تدبیر کو تقدیر نے چاروں شانے، پچھاڑنے کے بعد ہمیں حضرت غالب
سے پوری طرح متفق ہونے پر رضامند کر دیا۔ کہ
ع،
یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصال یار
ہوتا۔
یہ زمانہ ازمنہ وسطہ
کی تو نہیں، ماضی ہائے قریب کی داستان ہے، جب ہم نے اکیڈمی میں ڈرتے ڈرتے قدم رکھا
تو اپنے چاروں طرف عجب سماں تھا، کہیں مسجود ملائک، کہیں معبود شجر، مگر جس چیز نے ہمیں سب سے زیادہ مرعوب کیا، وہ
کالے کپڑے، نیلے اور سفید دھاگوں کا مجموعہ تھا۔ ہم حیران تھے کہ جنٹل مین کیڈٹ یہ
فالتو بوجھ اپنے سینے پر کیوں اٹھائے پھرتے ہیں۔ مگر جب اس کے متعلق مفصلاً معلوم
ہوا تو یہ نازک بوجھ ہمیں بھی اپنے سینے پر آٹھانے کا شوق چرایا۔ ہر وقت خیالوں میں
دھاگوں کا مجموعہ جسے پیرا ونگ کہتے ہیں اُڑتا رہتا۔ فرسٹ ٹرم گذری تو سیکنڈ ٹرم آئی۔ امیدواروں میں ہم بھی جاکھڑے
ہوئے مگر قسمت کو منظور نہ تھا، دوڑتے ہوئے خود کو قابو نہ رکھ سکے اور ہمارا دائیاں
ہاتھ کھڑکی میں لگا اور شیشہ توڑتے ہوئے اندر گھسنے کی کوشش کی مگر، ہاتھ واپس کھینچنے
پر، کلائی چھ ٹانکے سی ایم ایچ سے لگوانے پڑے ۔ یوں خواب ادھورا رہا، تھرڈ ٹرم کے
خاتمے پر ایک بار پھر قسمت آزمائی اور ہم یارانِ دید و وصل میں شامل کر لئے
گئے۔ دن گنے جانے لگے، راتیں طویل اود دن
شیطان کی آنت کی طرح لمبے ہو رہے تھے۔ مگر ہماری طلب کی شدت نے جو آگ بھڑکائی تھی اس کے شعلوں کی
حدت ٹھنڈا ہونے کے بجائے بڑھتی جارہی تھی۔
آخر کار وہ دن بھی قریب آپہنچا۔ جب ہمیں حاتم طائی کی طرح حُسن بانو کےسوالوں کے جوابات کی تلاش میں ماژندران جانا پڑا۔ عجیب کیفیت تھی۔ تمام امیدواران خوش نظر
آرہے تھے۔ دل کی دھڑکن وقت کی چاپ سے بار بار آگے نکل رہی تھی، بسوں میں سوار ہوئے
اور بسیں اپنے جلو میں مشتاقانِ دید کو لئے منزلِ محبوب کی جانب رواں ہوئیں۔ بسوں
کی رفتار ہمارے جذبہ شوق کو بھڑکا رہی تھی۔ جی چاہتا تھا کہ اڑ کرکوئے یار پہنچ
جائیں، مگر مجبور تھے، اف یہ مجبوری اور ہم۔ خدا خدا کر کے منزل آئی اور ہم پشاور
میں پیرا ٹرینگ ونگ کے سامنے، جا کر بسوں سے چھلانگ مار کر اترے، مبادا کہیں،
پلاٹون کمانڈرز بسوں کو واپس کاکول کی طرف مڑنے کا نہ کہہ دیں۔ سامان اٹھا کر
رہائش گاہ پہنچے، ہائے یہ ناقدری ء عاشقاں۔ کہ رہنے کو صحیح جگہ بھی نہ ملی کوئے یار
میں۔ آخر دل کو یہ کہہ کر تسلی دی کہ مجنوں کو بھی لیلیٰ کے باپ نے اصطبل میں ٹہریایا
تھا۔ یہاں تو لیلیٰ کے ساتھ اس کے بھائی بھی تھے۔ جس سے ہمارا تعارف بعد میں ہوا۔
دوسرے دن، جب نہا دھو کر پیراسکول گئے تو مختلف قسم کے بورڈ ہمارا مذاق
چڑا رہے تھے، مثلاً ایک بورڈ پر لکھا تھا، GET TEN،
جس کا مطلب تھا، کہ فورا! مانند برق خود کو حالتِ نصف سجدہ میں گرا دیں۔ اور اپنے
بازوؤں کو طاقتور اور پھیپڑوں کو مضبوط بنانے کے لئے آہ و فغاں کرنا ضروری ہے ورنہ نالہء بلبل کی صورت میں یہ GET TEN، انڈے
اور بچے دینا شروع کر دیں۔
ایک بورڈ پر تحریر تھا، دوڑو ،۔۔۔۔ ورنہ ۔۔۔۔۔
اس کا مطلب تھا فوراً دوڑنا شروع کر دیں، ورنہ ،آپ خود سمجھدار ہیں۔
ایک پر لکھا تھا، رک جاؤ، ۔۔۔ ورنہ ۔۔۔
آپ خود سوچئے کہ ہم بے چارے کس بورڈ کا کہنا مانیں۔ کاکول میں سلیکشن ٹیسٹ دینے کے بعد ، یہاں فائینل سلیکشن ٹیسٹ کا غلغلہ سنا،
جو ناکام رہے انہیں رخت سفر باندھنے کا حکم ملا۔ انہوں نے حسرت سے کہا۔ ع
در پہ رہنے کو کہا
اور کہہ کہ کیسا پھر گیا ۔ جتنے عرصہ میں میرا لپٹا ہوا بستر کھلا۔
پہلا دن گذار کر جب واپس بارکوں میں
آئے تو عجیب حالت تھی، قدم رکھتے کہیں تو پڑتا کہیں، ڈانگری
پسینے میں شرابور اور سر پر عقل چوس (ہیلمٹ) جس پر جلی حروف میں 28لکھا تھا، اتارنے کی اجازت نہ
تھی، لوگ مڑ مڑ کردیکھتے گویا ہم ابھی کسی پنجرے
سے نکل کر آرہے ہیں۔ بلکہ ایک خاتون نے اپنے شرارتی بچے کو کہا، ”وہ دیکھو
فوجی“ دوسرے بچے نے آواز لگائی، ”امی فوجی“۔
ہمیں اپنے وہ دن یاد آگئے جب گلی میں ڈگڈگی کی آواز سن کر ہم نعرہ لگاتے، ”امی
بندر آیا ہے“ ۔
دوسری صبح اٹھنے کی کوشش کی تو لگتا تھا کہ جسم، تختے سے باندھا ہوا ہے۔
ہائے ہائے کر کے اٹھے، دیکھا تو سب ہی اسی
آہ سحرگاہی میں مبتلاء ہیں، پلٹون میٹ
سرفراز نے اطلاع دی، کہ کمبائینڈ الیون ٹائپ واش رومز میں صرف دو، یورپئین
کموڈ ہیں، وہاں لائن لگ رہی ہے، جلدی
جاؤ۔ جاکر دیکھا تو خدا جھوٹ نہ بلوائے ڈیڑھ
سو جنٹل میں کیڈٹس میں سے کم از کم چالیس ایک طرف اور چالیس دوسری طرف، لائن بنا
کر کھڑے ہیں، ایشئین کموڈ والے بقایا آٹھ
واش روم، کسی مفلس کی بچھائی ہوئی
چادر کی طرح خالی پڑے ہیں۔ ہم بغیر سوچے،
خالی واش روم کی طرف بڑھے۔
ایک آواز آئی ”بھائی کو جانے دو۔ابھی واپس آئے گا“۔
ہم
نے ایک کان میں گھستے ہوئے طنز کو دوسرے کان سے نکلنے دیا، اور واش روم میں داخل ہو
کر دورازہ بند کر لیا۔ تھوڑی دیر بعد، فارغ ہو کر باہر نکلے۔
تو ایک دوست نے حیرانی سے پوچھا، ”تمھارے
گھٹنے مڑ گئے“۔
ہم نے فاتحانہ انداز میں جواب دیا، ”اگر سکول میں، دیوار کے
ساتھ کرسی بن کر سزا کاٹی ہوتی تو ابھی لائن کا منہ نہ دیکھنا ہوتا“۔ کچھ کو تو
بات سمجھ نہ آئی جن کو سمجھ آئی وہ لائن سے نکل کر خالی واش رومز کی طرف دوڑے۔
تین دن بعد تو ہمارا انجر
پنجر ڈھیلا ہو گیا چلتے وقت گھٹنے اور ٹخنے کھڑکنے لگتے اور ہم اس دن کو کوسے جب ہمیں پیرا سکول آنے کی
سوجھی تھی۔ کچھ رہی سہی کسر وہاں کے عملے
نے نکال دی ۔ ہمارے خیال میں ہمارا، ”پی۔ایل۔ایف“
صحیح بنتا تھا (یہ کوئی ڈگری نہیں پیرا
لینڈنگ فال کامخفف ہے) مگر سٹاف
کہتا، کہ دوسرا اور تیسرا پوائینٹ آف کنٹیکٹ مِس کر دیا ہے۔ ویسے بلامبالغہ چوتھا
”پوائینٹ آف کنٹیکٹ“ ہمیں بھی لگتا محسوس
ہوتا تھا اور اس شدت سے کہ دماغ بھی ہل جاتا،
لیکن آہستہ آہستہ، چاروں پوائینٹ کے درست لگنے کی وجہ سے، ہمارے سر کے درد
کی شدت میں کمی آنے لگی۔ کبھی آپ نے زندہ
بکروں کو لٹکا دیکھا ہے، نہیں نہ، ایسا منظر آپ کو صرف پیرا سکول میں Suspended Harness کے طویلے میں، دکھائی دیا
جاسکتا ہے، اگر آپ اس کے اندر گّھسنے کی
ہمت کر لیں تو۔
عمر کا بیشتر حصہ، شہروں میں گذرا اور اکثر گاڑیوں کو خراب ہو جانے پر دوسری گاڑی
سے کھینچا جانا دیکھا تھا لیکن انسان کو کھینچے جانا، بلکہ خود کھینچے جانا ہماری
زندگی کا پہلا اور تلخ تجربہ تھا، سٹاف کو
بڑا کہا کہ یہ غیر انسانی سزا ہے، کیا اسے ختم نہی کیا جا سکتا، توسٹاف نخوت سے
کہتا، ”صاحب، اگر جہاز سے گرتے ہی اللہ تعالیٰ نے پنکھا چلا دیا، تو پھر پیراشوٹ،
اس طرح کھینچے گا۔ جیسے عوامی میل ڈبوں کو کھینچتی ہے“۔ جیپ کے پیچھے،
باندھ کے جب ہمیں جیپ نے کھیچنا شرو ع کیا تو جیپ
عوامی میل تو نہیں طوفان میل نظر
آئی، یوں محسوس ہوتا تھا کی شاید ہم فلم ”ڈان آف اسلام“ کا کو ئی کردار ہیں یا چودہ سو سال پہلے، کسی ابوجہل کے قابو میں
آگئے ہیں، جب ہمیں اس کھنچاؤ سے آزادی ملی تو ہمیں خود پر فراعنہ مصر کے زمانے کی
کسی ممی کا گمان ہوا جو کسی اہرام سے کھدائی میں برآمد ہوئی ہو۔
جھولا ہر بچے کی کمزوری ہوتی ہے، اور بچپن میں ہماری بھی تھی، یقیناً آپکی بھی ہو گی، جھولا جھولنے کا شوق یوں
سمجھئے کہ گھٹی میں ملتا ہے، Swing Harness دیکھا تو خوشی کے مارے،
دانت نظر آنے لگے، یہ بھی جھولے سے ملتی جلتی چیز ہوتی ہے بس فرق اتنا ہوتا ہے کہ
اس پر انسان کو اچھی طرح باندھ کر لٹکایا جاتا ہے، مختلف امتحانوں سے کوالی فائی
کرتے کرتے ہم بھی، سوئینگ ہارنیس پر پہنچے، بانس کی بنی ہوئی سیڑھی پر چڑھتے ہوئے،
ڈائس پر پہنچے، پیراشوٹ ہارنیس میں
پھنسائے گئے، جب ہمیں پنڈولم کی طرح جھلایا گیا، تو ہمیں ، ”جھولا جھلائیں سکھیاں
جھول“ کی مدھر لے یاد آگئی، ابھی ایک جھولا لیا تھا، کہ آواز آئی، Prepare
to Land
اور اس کے ساتھ ہی ہمیں نیوٹن کے قانون کششِ ثقل کا
عملی تجربہ ہوا، کیوں کہ ہمارا چوتھا پوائینٹ
آف کنٹیکٹ، بگ بینگ کے متماثل دھماکے کی
آواز نکالتا ہوا کرہ ارض سے ٹکرایا اور آنکھوں کے سامنے وہ ستارے بھی ناچنے لگے جو
ابھی تک ہئیت دانوں نے دریافت نہیں کئے ہیں۔ اوسان بحال ہوئے اوپر دیکھا تو سٹاف
بانچھیں چیرے ہمیں دیکھ رہا تھا،
بولا ”نعیم صاحب، پیرا ونگ لینا اتنا آسان نہیں۔
دوبا رہ اوپر“ ۔
”ہم سمجھے تھے کہ دس گیارہ
پینگیں لینے کے بعد ہم زمین کا رخ کریں گے“ ہم نے سیڑھیاں چڑھتے جواب دیا۔
” صاحب،
آپ کا پیرا شوٹ، کھلتے ہی پھٹ گیا تھا“۔
سٹاف نے جواب دیا۔
وہ کیڈٹ ہی کیا جو سٹاف سے ٹریننگ کے دوران، پنگا
نہ لے، اور وہ سٹاف ہی کیا جو پنگے کا جواب موقع محل کی
مناسبت سے نہ دے، لہذا ہم پوری تیاری
سے ہارنیس پہن کر کھڑے ہوئے،
اور سٹاف سے
کہا، ”سٹاف ِ اس دفعہ کہیں یہ نہ سمجھ لینا کہ ہم نے پیرا شوٹ پہنے بغیر جہاز سے
چھلانگ لگا دی ہے“۔
سٹاف ہنس کر بولا، ”نعیم
صاحب! آپ کو چمچوں سے کون زمین سے اٹھائے گا، ہمارے پاس اتنا وقت نہیں ہوتا“۔
سارے مراحل طے کرنے کے بعد، جب ٹاور پر پہنچے۔ نیچے سے اک نگاہ
تحقیر ڈالی، کہ چونتیس فٹ کیا اونچائی ہے یار
لوگ خوامخواہ ، رائی کا پہاڑ بنا کر ڈراتے ہیں۔
ہم سب
ٹاور کے سامنے بنے ہوئی سیڑھیوں پر بیٹھ گئے، ہمیں دکھایا جانا تھا کہ ٹاور سے کیسے
چھلانگ لگائی جاتی ہے، پہلے جمپر نے چھلانگ لگائی، ایسی تو ہم بھی لگا سکتے ہیں۔
دوسرے نے اناڑی پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے چھلانگ لگائی ، بتایا گیا کہ شروع میں سب ایسی
چھلانگ لگاتے ہیں، تیسرا جمپر دروازے میں بیٹھ گیا، رونے اور چلانے لگا، کہ پہلے
مہینے کی چھٹی منظور کرو پھر جمپ لگاؤں گا، اس کے بعد اس نے کیبل میں لگا ہو اہک
اتارا، ہارنس کھولے اور نیچے پھینک دیئے،
ہارنیس نیچے گرے تو اس نے شور مچاتے ہوئے چھلانگ لگا دی، ہم سب خوف زدہ ہو
کر کھڑے ہو گئے، لیکن وہ تاروں پر جھولتا
ٹیلے کی طرف جارہا تھا۔
اس کے بعد کیڈٹس کو، کیڈٹ
نمبر کے مطابق ترتیب وار ، تیار کیا گیا،
اور ٹاور پر سے، جمپنگ سیشن شروع ہو گیا۔ ہمارے ایک پلاٹون میٹ، جو ہمارے ساتھ تھے اور جن کانمبر ہمارے کافی بعد تھا، ہر ناکام امیدوار
کو بتاتے کہ اس کی کیا غلطی تھی، کبھی کہتے یوں کرو اور کبھی کہتے یوں کرو، دیکھو
اس کو گھٹنے نہیں ملا سکتا، اتنی مشکل بات
تو نہیں۔ یہ سن سن کر ہمارے کان پک گئے
اور ہم اٹھ کر اپنے سٹوڈیو چلے آئے۔
ارے ہاں ہم آپ کو یہ بتانا تو بھول ہی گئے، کہ آفیسر کمانڈنگ پیرا ونگ، میجر امیر سلطان، نے کسی سے ایک فری فال ڈائیور کی پینٹنگ بنوائی جو بلیک اینڈ وائیٹ ،آؤٹ لائین کی صورت میں تھی، وہ انہوں نے، ہمارے کورس کے شروع ہوتے ہی اپنے لیکچر کے دوران، سائڈ پر رکھی تھی۔لیکچر ختم ہونے کے بعد ہم اس پینٹنگ کے نزدیک جاکر اُسے دیکھ رہے تھے، آفیسر کمانڈنگ نے ہمارا اشتیاق دیکھ کر پوچھا، ”کیسی ہے؟‘‘ ہم نے جواب دیا، ” اچھی ہے مگر سکیچ کے بجائے پینٹگ ہوتی تو خوبصوت ہوتی“۔ آفیسر کمانڈنگ نے کوئی جواب نہیں دیا، ہمیں میجر امیر سلطان (کرنل امام) ، کے پاس کھڑا دیکھ کر شوکت پاریکھ بھی نزدیک آگیا، اور نمبر بنانے کے لئے بولا، ”سر کیا بہترین پینٹنگ ہے“۔
ارے ہاں ہم آپ کو یہ بتانا تو بھول ہی گئے، کہ آفیسر کمانڈنگ پیرا ونگ، میجر امیر سلطان، نے کسی سے ایک فری فال ڈائیور کی پینٹنگ بنوائی جو بلیک اینڈ وائیٹ ،آؤٹ لائین کی صورت میں تھی، وہ انہوں نے، ہمارے کورس کے شروع ہوتے ہی اپنے لیکچر کے دوران، سائڈ پر رکھی تھی۔لیکچر ختم ہونے کے بعد ہم اس پینٹنگ کے نزدیک جاکر اُسے دیکھ رہے تھے، آفیسر کمانڈنگ نے ہمارا اشتیاق دیکھ کر پوچھا، ”کیسی ہے؟‘‘ ہم نے جواب دیا، ” اچھی ہے مگر سکیچ کے بجائے پینٹگ ہوتی تو خوبصوت ہوتی“۔ آفیسر کمانڈنگ نے کوئی جواب نہیں دیا، ہمیں میجر امیر سلطان (کرنل امام) ، کے پاس کھڑا دیکھ کر شوکت پاریکھ بھی نزدیک آگیا، اور نمبر بنانے کے لئے بولا، ”سر کیا بہترین پینٹنگ ہے“۔
میجر امیر سلطان، نے شوکت پاریکھ کا شکریہ ادا کیا، ہم آگے بڑھ
گئے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں