Pages

میرے چاروں طرف افق ہے جو ایک پردہء سیمیں کی طرح فضائے بسیط میں پھیلا ہوا ہے،واقعات مستقبل کے افق سے نمودار ہو کر ماضی کے افق میں چلے جاتے ہیں،لیکن گم نہیں ہوتے،موقع محل،اسے واپس تحت الشعور سے شعور میں لے آتا ہے، شعور انسانی افق ہے،جس سے جھانک کر وہ مستقبل کےآئینہ ادراک میں دیکھتا ہے ۔
دوستو ! اُفق کے پار سب دیکھتے ہیں ۔ لیکن توجہ نہیں دیتے۔ آپ کی توجہ مبذول کروانے کے لئے "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ پوسٹ ہونے کے بعد یہ آپ کے ہوئے ، آپ انہیں کہیں بھی کاپی پیسٹ کر سکتے ہیں ، کسی اجازت کی ضرورت نہیں !( مہاجرزادہ)

جمعرات، 20 مارچ، 2014

نیم لفٹین پر بھاری ذمہ داری

دن گذرتے جا رہے، اور کشمیر کی جنت جہاں گیارہ بجے سورج نکل کر چار بجے غروب ہوجاتا تھا ہم اپنی نو مولود کمیشن سروس کو پال رہے تھے اور اپنا قطب نما ، برائے فوجی زندگی ٹھیک کررہے تھے،  ایک ہفتہ یونٹ ہیڈکوارٹر میں گذارنے کے دوران،  پارٹ ون آرڈرز، رجمنٹ ہسٹری ،ٹی او اینڈ ای، کامطالعہ،  مختلف سٹوروں ، کواٹرگارڈ، یونٹ ایم ٹی، پیک ٹروپ (خچروں اور گھوڑوں پر مشتمل دستہ)  اور یونٹ آفیسرز  فیلڈ میس  کا مطالعہ کرنے کے بعد،  پہلی تاریخ کو ہمیں تنخواہ لینے مظفرآباد روانہ کیا، وہاں نیشنل بنک سے جوانوں کی تنخوا لی، حبیب بنک میں اکاونٹ کھولا، واپسی پر ہر بس، ہر سول جیپ ، ٹٹو نما گھوڑے پر گھاس کے اوپر بیٹھا ہوا ، مجہول سا آدمی ، ہمیں  انگریزی فلموں کے پاکستانی کردا ر جیسا لگتا ، پہاڑ کے کسی کونے کھدرے ، یا سڑک کے کنارے لگے ہوئے چند درختوں کی آڑ سے ہمیں ، یک دم ،ڈاکوؤں کے دھاوے کا خطردرپیش تھا ، ہم اپنی نائن ایم ایم سٹین گن کو لئے بالکل تیاری کی حالت میں بیٹھے تھے، ساڑھے چھ لاکھ کی رقم معمولی نہیں ہوتی۔
فوج میں اگر کوارٹر گارڈ کے سیف میں سو روپے کی رقم رکھی جائے تو اس پر ایک لاٹھی بردار جوان کی ڈیوٹی لگائی جاتی ہے  اور اگر ایک سو روپے اور ایک پیسہ رقم ہو تو ، ایک این سی او ، اور تین جوانوں کی گارڈ جس کا مخفف ، ایک تین کی گارڈ ہے ۔ (اگر آئیندہ ایک تین ، یا دو چھ کی گارڈ آئے  تو سمجھ جائیے گا کہ کیا مفہوم ہے )  ،  یہاں تو  مبلغ ساڑھے چھ لاکھ روپے نقد سکہ رائج الوقت ، اس نیم لفٹین کی ذمہ داری میں تھا ۔ جو ڈبل استر کے صندوق میں چار تالوں کے ساتھ ، بھینس باندھنے کو موٹی زنجیر کے ساتھ مزید تالوں سے ، ڈھائی ٹن مرسڈیز بنز ٹرک کے پچھلے حصے میں ، چھٹی سے آئے ہوئے جوانوں کے سامان اور دیگر کوارٹر ماسٹر سٹور کے نیچے دبا تھا ، تاکہ ڈاکوؤں کو کم از کم اس سامان کو اتارنے اور صندوق کو نکالنے میں دوتین گھنٹے لگیں -

 اللہ اللہ کر کے خیریت سے مغرب کے وقت  یونٹ پہنچے، سارا سامان اتارا گیا ، کوارٹر گارڈ میں رقم  کا بکس رکھوایا گیا ۔ صبح ہوئی، جوانوں میں تنخواہ تقسیم کی،  آخر میں باقی رقم گنی تو معلوم ہوا کہ تیس سو روپے کم ہیں، کچھ سمجھ نہ آیا رقم کیسے کم ہوگئی، پوری احتیاط سے تقسیم کی تھی،  تھوڑی دیر بعد، کیپٹن  شبیر اعوان (وٹنری آفیسر) آئے، انہوں نے پوچھا، تنخواہ تقسیم ہوگئی،  میں نے جواب دیا جی سر،  لیکن اکاونٹ کلرک بولا، سر تین سو روپے کم ہوگئے ہیں،  کیپٹن  شبیر اعوان(بعد میں بریگیڈئر  ) نے جھڑکیاں دینا شروع کر دیں، کورٹ مارشل سے ڈرایا  یا رقم پوری کرنے کا کہا۔ ہم نے رقم پوری کرنے کی حامی بھری،  کیپٹن  شبیر اعوان  نے فوراً اپنی جیب سے رقم نکال کر دی اور ہم سے میس کے نام تین سو روپے کی چٹ لکھوانے کر بعد، نصیحت کی آئیند ہ تنخواہ تقسیم کرتے ہوئے اگر باتھ روم جانا پڑے تو رقم کے بکس کی چابی اپنے ساتھ لے کر جانا۔  ورنہ بڑا جرمانہ پڑے گا، تب عقدہ کھلا کہ یہ جرمانہ نہیں بلکہ ہمارے لئے ایک بہت بڑا سبق تھا جو   کیپٹن  شبیر اعوان  نے ہمیں سکھایا  اور جواب میں ہم سے بھنے ہوئے چکن کی دعوت باقی آفیسرز کو کروائی۔ وہاں ہمیں دو آفیسروں کا غائیبانہ تعارف بھی کروایا گیا۔ جن میں سے ایک، کیپٹن محمود اور دوسرا کیپٹن سعید تھے ۔ کیپٹن محمود چھٹی سے واپس آئے تھے اور رومیو بیٹری میں   شاہ کوٹ  جانا تھا ، کیپٹن سعید ، کیوبک بیٹری سے آئے تھے اور چھٹی جا رہے تھے ۔  
            اگلے دن ہم کیوبک بیٹری کی طرف روانہ  ہوئے جو 7229 والے پہاڑ پر تھی، وہاں میجر نصیر (بعد میں کرنل)سے ملاقات ہوئی، انہوں نے بیٹری کے جنگ کے رول کے  بارے میں بتایا، وہاں  سے دو دن بعد، جوانوں کے ساتھ (ٹیٹوال) پل کے پاس اترا، لیفٹنٹ خالد پرویز ( بعد میں فل کرنل) جیپ میں انتظار کر رہے ۔ جو چھٹی سے واپس آئے تھے اور انہوں نے شاہ کوٹ ، رومیو بیٹری میں جانا تھا ، ان کے ساتھ جوڑا پہنچے ، جوڑا گاؤں کے ساتھ والے پہاڑ پر، پاپا بیٹری میں پہنچے،  وہاں  میجر عبدالغفور  اور کیپٹن طارق ارشد  ( بعد میں بریگیڈئر )سے ملاقات ہوئی،لیفٹنٹ خالد ، دوپہر کا کھانا کھا کر ، ہم دونوں رومیو بیٹری کی طرف روانہ ہوگئے ۔

میجر ارسل نواز  اور کپٹن محمود وہاں تھے ،  میجر ارسل نواز  کی بتائی ہوئی کچھ باتیں میں نے زندگی بھر اپنے پلے باندھے رکھیں، ان میں سے ایک اہم بات، کہ فوج جس مد میں جو رقم دیتی ہے اسے اسی مد کی خریداری کے لئے خرچ کرو عمر بھر آرام سے رہو گے،  آؤٹ فٹ الاونس سے صرف یونیفارم کی چیزیں خریدو، بچ جاتا ہے تو بالکل خرچ نہ کرنا۔  اور کینٹین سے کبھی ادھار مت لینا۔اُن کی اِس نصیحت نے مجھے کینٹین کا کبھی مقروض نہیں کیا۔
            چار دن بعد واپس جوڑا ، پاپا بیٹری میں آیا۔ میجر ارسل نواز کے ساتھ گذارا ہوا وقت، میری یونٹ کی زندگی کا بہترین وقت تھا۔ یو ں لگتا تھا کہ وہ، بیٹری کمانڈر نہیں بلکہ بڑے بھائی کا صحیح کردار ادا کر رہے ہیں۔ انہوں نے مجھے، ہاوٹزر  (گن) کے متعلق پوری معلومات دیں، اوپی کارڈ بنانا، جو ہم نے پی ایم اے میں سیکھا تھا اسے بہترین طریقے سے سمجھایا،  بیٹری میں موجود، تمام ایکیوپمنٹ، کے بارے میں ڈائری بنانا اور اسے ہر وقت اپنے ساتھ رکھنا سکھایا۔ جو،میری باقی فوجی زندگی میں بے حد مددگار ثابت ہوا۔ 
جوڑا میں تاش کی بازیاں لگتیں، تیسرے دن پیغام ملا کہ۔ نیم لفٹین واپس رجمنٹ ہیڈکوارٹر پہنچے،اس نے، مظفرآباد  ڈویژنل آرٹلری  رپورٹ کرنی ہے وہاں سے، اتھلیٹکس کے  انیس سال سے کم، کھلاڑیوں کی ٹیم لے کر آرٹلری سنٹر اٹک جانا ہے۔ چنانچہ، یونٹ روانہ ہوئے، وہاں دوپہر کاکھانا کھا کر مظفر آباد کے لئے اپنی یونٹ کے چار جوانوں کے ساتھ روانہ ہوئے۔ مغرب کے بعد ڈیو آرٹلری میس پہنچے۔ وہاں معلوم ہوا کہ میجر رائے نے مجھ سے میرے متعلق جو معلومات لیں تھیں، ان کے مطابق انہوں نے مجھے اتھلیٹکس ٹیم کا کیپٹن اور کوچ بنایا ہے، ٹیم کو لے کر صبح میں راولپنڈی اوجھڑی کیمپ جانا ہے اور وہاں  94لائیٹ اینٹی ایرکرافٹ آرٹلری  یونٹ میں، ڈویژنل آرٹلری کی کھلاڑیوں کو ٹریننگ دوں گا۔

دوسری صبح، ہم وادی ء  جنت نظیر سے، ڈھائی ٹن ٹرک میں بیٹھ کر روالپنڈی کی طرف روانہ ہوئے۔ جہاں ایک مہینہ کا اتھلیٹکس کیمپ لگنا تھا۔  اوجڑی کیمپ، جا کر معلوم ہوا کہ وہاں، ہمارا ۔ پلاٹون میٹ، عابد 94لائیٹ اینٹی ایرکرافٹ آرٹلری  یونٹ میں اور جاوید انور سگنل کی یونٹ آئی ایس ایس یو میں تھا، میں عابد کے ساتھ ٹہرا، عابد نے بعد میں ایوی ایشن جائن کر لی اور کرنل ریٹائر ہو ا۔ شام کو ہم تینوں موٹرسائیکلوں پر سٹلائیٹ ٹاؤن کی کمرشل مارکیٹ آوارہ گردی کے لئے نکل جاتے،  ہماری آوارہ گردی کا اختتام، چاندنی چوک پر موجود چائینیز سے چکن کارن سوپ کے بعد ختم ہوتا، کمروں میں واپس آتے کھانا کھاتے اور سو جاتے، کیوں کہ ان دنوں  ٹی وی نہیں ہوتا تھا اور نزدیکی سنیما ہاؤس شبستان سنیما تھا۔  اور غریب لفٹین کی جیب  پیٹرول پر زیادہ خرچے کی اجازت نہ دیتی تھی۔جبکہ پیٹرول 2.50روپے فی گیلن ہوتا تھا۔

 
 ہمیں 27دسمبر  1976 کو  پیغام ملا کہ ہمیں یکم جنوری 1977کوپیرا ٹریننگ ونگ پشاور باقی ماندہ پیرا کورس کے لئے 
 رپورٹ کرنی ہے۔ مومنٹ آرڈر ہمیں راولپنڈی میں مل جائے گا، یوں ہم اتھلیٹکس ٹیم کے ساتھ، اٹک نہ جاسکے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

خیال رہے کہ "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ !

افق کے پار
دیکھنے والوں کو اگر میرا یہ مضمون پسند آئے تو دوستوں کو بھی بتائیے ۔ آپ اِسے کہیں بھی کاپی اور پیسٹ کر سکتے ہیں ۔ ۔ اگر آپ کو شوق ہے کہ زیادہ لوگ آپ کو پڑھیں تو اپنا بلاگ بنائیں ۔