Pages

میرے چاروں طرف افق ہے جو ایک پردہء سیمیں کی طرح فضائے بسیط میں پھیلا ہوا ہے،واقعات مستقبل کے افق سے نمودار ہو کر ماضی کے افق میں چلے جاتے ہیں،لیکن گم نہیں ہوتے،موقع محل،اسے واپس تحت الشعور سے شعور میں لے آتا ہے، شعور انسانی افق ہے،جس سے جھانک کر وہ مستقبل کےآئینہ ادراک میں دیکھتا ہے ۔
دوستو ! اُفق کے پار سب دیکھتے ہیں ۔ لیکن توجہ نہیں دیتے۔ آپ کی توجہ مبذول کروانے کے لئے "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ پوسٹ ہونے کے بعد یہ آپ کے ہوئے ، آپ انہیں کہیں بھی کاپی پیسٹ کر سکتے ہیں ، کسی اجازت کی ضرورت نہیں !( مہاجرزادہ)

جمعرات، 20 مارچ، 2014

سیکنڈ لفٹین کا توپ چلانے میں ماہر ہونا



 

    دو مہینے گذرنے کے بعد ہمارا انٹرویو ہوا، جس میں میجر یوسف نے ہماری رات بھر پڑھنے کی کوششوں کو سراہا،  ہم سمجھے کہ شاید وہ طنز کر رہے ہیں انہیں معلوم ہوگیا ہے کہ ہم رات کو لائیٹ جلا کر سوتے ہیں، لیکن ہم تو دروازہ بند کرکے سوتے تھے اور کھڑکیوں پر بھی کاغذ لگا کر باہر سے جھانکنے کے مواقع بند کر دئے تھے،  لیکن انہوں نے، مزید سراہتے ہوئے کہا،
”تمھارے میتھ میں بہت اچھے نمبر آئے ہیں کوشش کرو کہ باقی سجیکٹ میں اتنے ہی نمبر لینے کی کوشش کرو“۔
ہم نے اثبات میں سر ہلا دیا، بعد میں معلوم ہوا کہ پورے سیکش میں ہمارے رات بھر پڑھنے کی دھومیں مچی ہوئی ہیں،اور ہمارے محنت کی تعریفیں ہوتی ہیں، جن سے آخر تنگ کر ہمارے گروپ کے سربراہ ”سر اِفتی“ نے میس میں، دوپہر کے کھانے پر میں میز پر پوچھا،
”برادر، مہابلی کیا سن رہے ہیں، تم نے گروپ کو یتیم کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے“۔ 
”حضور، کا قبال بلند ہو، ناچیز ایسی قبیح حرکت کیسے کر سکتا ہے؟“    ہم نے جواب دیا ۔

ہمیں معلوم تھا کہ رات کو ہمارے کمرے میں جلنے والی لائیٹ کی رپورٹ اوپر پہنچائی جاتی ہے، کہ رات کو لائیٹ کتنے بجے آف ہوئی، جس کی وجہ یہ تھی کہ ہمیں اندھیرے میں سونے کی عادت نہیں تھی، کمرے میں اکیلے تھے لہذا، رات کو لائیٹ بند کرے کا حکم کون دیتا۔ سردیاں بڑھ گئی تھیں، آخر ایک ترکیب سمجھ میں آئی ، پلنگ کے نیچے چار اینٹیں لگوا کر اونچا کروایا اور اس کے نیچے ہیٹر ہیٹر رکھ دیا، کیا گرم پستر ہوتا تھا، کہ بتا نہیں سکتے، رات میس سے آنے کے بعد خوب مزے سے صبح تک سوتے اور یا ر لوگ سمجھے کہ ہم نے مجبوراً دشمنوں کے سامنے ہتھیار ڈال دئیے ہیں۔ مہابلی کو ہمارے اقبال بیان پر یقین آگیا، ہم چار کے ٹولے میں باقی تینوں نے بھی اسی، کارِ حسنہ پر عمل کرنے کا فیصلہ کیا۔اور یوں ہمارے کورس کے باقی لوگ، ہمارا راز جانے بغیر راتوں کو جاگنے اور کلاس میں سونے لگے۔

    ہمارے لئے سب سے مزے کی کلاس، کلاس روم میں فائرنگ چارٹ پر ٹارگٹ پلاٹنگ ہوتی تھی، ایک دفعہ کلاس میں کمانڈپوسٹ ڈرل ہو رہی تھی، ہم نے پروٹیکٹر اٹھایا،  تو جلترنگ کی آواز آئی ساری کلاس نے چونک کر ہماری طرف دیکھا، جس میں حیرانگی کم اور ترحم زیادہ تھا،  ہم نے زمین پر نگاہ ڈالی تو معلوم ہوا کہ رومر نے آرٹلری بورڈ سے فرار کی کوشش کی ہے، رومر کو فرش سے اٹھایا، حکم ملا،
”خالد صاحب! ایکشن“
اور جناب حکم حاکم مرگ مفاجات کے تحت ہم ایکشن میں آگئے، اور چارانچ ضرب چار انچ  کے نامعقول رومر کو  دونوں ہاتھوں میں  سر سے اوپر اٹھا یا  پانچ کلاس روم کی طویل اور عریض عمارت کا چکر کاٹنے کے لئے روانہ ہوگئے اور سوچ رہے تھے کہ اگر غلطی سے آرٹلری بورڈ گر جاتا تو؟
   
    وقت گذر رہا تھا، سکول آف آرٹلری ہمیں مکمل گنر بنانے کی کوشش ناکام میں لگا ہوا تھا، گنری پڑھتے پڑھتے ہمارے دماغ کی چولیں ہل گئیں، امتحان دیتے وقت پرچے کے سوالات ہمارے ذہن کو تکلیف دینے کے بجائے فائرنگ ٹیبل کے خالی صفحوں سے پرچہ جوابات پر منتقل ہوتے، ویسے آرٹلری فائر کے سلسلے میں جتنی بھی چیزیں انگریزوں نے ایجاد کیں ہیں ان میں سے سٹوڈنٹس کے لئے سب سے بہترین فائرنگ ٹیبل ہے، اس کے خالی صفحات میں معلومات کا خزانہ چھپا ہوا ہوتا ہے، یہ جتنے ہاتھوں سے گذرتا ہے سب کی انمٹ تحریری کے نقشوش اس پر موجود ہوتے ہیں،
اللہ جھوٹ نہ بلوائے اور  دروغ بر گردن راوی، ایک" فائرنگ ٹیبل "جو اپنے عمر رفتہ گذار کر داخل دفتر ہوچکا تھا، اس پر آرٹلری سکول کے پتھر کے زمانے کے ایک شاگرد کے ہاتھ سے لکھی ہوئی قیمتی معلومات موجود تھیں، ہر قسم کے درد کا علاج چاہے وہ 
Predicted Fireسے پیدا ہوا ہو یا DRGکے غلط استعمال سے نکلا ہو یا DOPکی بے دھیانی میں تشخیص کے مطابق مقدار سے کم تحلیل کرنے پر پیش آیا ہو۔    یہ ہر کورس کے لئے امرت دھارا ہے ۔   اکثر ہم سوچتے اگر پرچہ میں مفصل جوابات دینے کے بجائے ہمیں مختصر سوالات لکھنے کو کہا جاتا تو تاریخ سوالات میں ایسے سوالات کا ارتقاء ہوتا جیسا کہ ہمارے ساتھ ممتحن نے کیا، آخر وہ بھی فوجی ہی تھے ہماری طرح کہ ان کے سوالات کے جواب دینے میں نہ صرف ہماری بلکہ فائرنگ ٹیبل کی گراریاں بھی فیل ہو گئیں۔

    یوں تو پاکستام ملٹری اکیڈمی سے صدر پاکستان کمیشن لے کر پاس آوٹ ہم بطور آفیسر ہی ہوئے تھے  اور فوج نے ہمیں بطور کمیشنڈ آفیسر  قبول کیا تھا، لیکن سکول آف آرٹلری میں، ایک عدد نومولود میس ویٹر نے ہماری  تقریباً  ایک سالہ آفیسری کو لات مار دی، ہوا یوں کہ جب ہم میس میں پہلی دفعہ داخل ہوئے تو ایک نہایت سجی سجائی، پالش کی ہوئی میز کو دیکھ کر اس کی طرف بڑھے نہایت آہستگی سے کرسی پیچھے ہٹائی اور بیٹھنے کے لئے قدم تھوڑا سا بڑھایا اور بڑے آرام سے بیٹھ گئے، ابھی پلیٹوں کو سیدھا کرنے کر کوشش میں ہاتھ بڑھایا تھا کہ ایک ویٹر جلدی سے ہماری  طرف بڑھا اور گردن جھکا کر تقریباً ہمارے کان میں گھستا ہوا بولا،
”سر آپ اُس میز پر چلے جائیں وہ وائی اوز کے لئے ہے“
۔  پوچھا،”کیوں، یہاں بیٹھنے میں کیا حرج ہے ّ“۔
اس ے ہمارے سر پر بم پھوڑتے ہوئے کہا، ”سر! یہ آفیسروں کے لئے ہے“۔ 
ہم نے اس گستاخ پر ایک نگاہ تمسخرانہ ڈالی اور پھر اپنے کندھے کی طرف دیکھا جہاں ایک عدد اکلوتا پھول اپنی پوری آب و تاب سے چمک رہا تھا، جو اس نوجوان ویٹر کو غالباً کمزوری ء چشم کے باعث نظر نہیں آرہا تھا۔ ہم نے اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پوچھا،
 " یہ نظر آرہا ہے ، نوجوان "
وہ بولا ،”سر! لیکن آپ وائی اوز  (ینگ آفیسر)  ہیں“۔
بس یہاں ہماری اخلاقی قدریں مارے آڑے آئیں اور ہم  نے  ”اولڈ آفیسروں“ کی میز خالی کردی، معلوم نہیں یہ آفیسر اتنا جلدی  اولڈ کیوں ہوجاتے ہیں؟
    آخر خدا خدا کر کے ہمارا وقت کچھوے کی طرح چلتا ہو ا پورا ہوا، اور ہم کورس کے خاتمے پر ایک باعلم گن پوزیشن آفیسر بن چکے تھے۔ 


 



کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

خیال رہے کہ "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ !

افق کے پار
دیکھنے والوں کو اگر میرا یہ مضمون پسند آئے تو دوستوں کو بھی بتائیے ۔ آپ اِسے کہیں بھی کاپی اور پیسٹ کر سکتے ہیں ۔ ۔ اگر آپ کو شوق ہے کہ زیادہ لوگ آپ کو پڑھیں تو اپنا بلاگ بنائیں ۔