Pages

میرے چاروں طرف افق ہے جو ایک پردہء سیمیں کی طرح فضائے بسیط میں پھیلا ہوا ہے،واقعات مستقبل کے افق سے نمودار ہو کر ماضی کے افق میں چلے جاتے ہیں،لیکن گم نہیں ہوتے،موقع محل،اسے واپس تحت الشعور سے شعور میں لے آتا ہے، شعور انسانی افق ہے،جس سے جھانک کر وہ مستقبل کےآئینہ ادراک میں دیکھتا ہے ۔
دوستو ! اُفق کے پار سب دیکھتے ہیں ۔ لیکن توجہ نہیں دیتے۔ آپ کی توجہ مبذول کروانے کے لئے "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ پوسٹ ہونے کے بعد یہ آپ کے ہوئے ، آپ انہیں کہیں بھی کاپی پیسٹ کر سکتے ہیں ، کسی اجازت کی ضرورت نہیں !( مہاجرزادہ)

جمعرات، 20 مارچ، 2014

نیم لفٹین کو کپتان کا سلام

 

  کیپٹن بشیر ، کی یونٹ سے جیپ آگئی ، انہوں نے  کیپٹن سعادت اور کیپٹن جادیدکو خدا حافظ کہا  ، کیپٹن سعادت نے مجھے انہیں جیپ تک چھوڑنے کا کہا ۔ وہ خدا  حافظ کہہ کر چلے گئے ،  آر ایچ ایم ، غلام حسین شاہ  نے بتایا کہ ایجوٹینٹ صاحب کہہ رہے ہیں  کہ لفٹین صاحب کو یونٹ کا چکر لگوا لو ، ہم نے پوری یونٹ کا چکر لگایا ، لڈو اور چائے کی چٹوں کی تقسیم ، ہر آفس ،ہر سٹور ، لنگر ، باربر شاپ ، ٹیلرنگ شاپ ،  گھوڑوں کے رکھوالوں ، خچروں کے رکھوالوں ، گدھا گاڑی والے ۔ رائیڈنگ  سکول ، ایم آئی روم ، مسجد ،  آفیسر میس  اور کوک ہاوس، مالی ، خاک روب انچارج ،   یہاں تک کہ کینٹین  کینٹریکٹر عباسی   نے بھی ہم سے چٹ لی اور لفٹین بننے پر مبارکباد دی ، 

مغرب سے پہلے، اپنی مٹی کی بنی کوٹھڑی میں لیٹے تھے کہ بیٹ میں نے آکر کہا ”سر کیپٹن، ملک سلام کہہ رہے ہیں“، 
ہم نے جواباً کہا ”وعلیکم السلام“،
 اور دل میں خوش ہوئے، کہ اچھا رواج ہے، جونئیر کو سلام بھجوانے کا، شاید تھوڑی دیر بعد باقی آفیسروں کی طرف سے بھی سلام آئے۔ مگر کوئی سلام آیا نہ خط۔ 
مغرب کے گھنٹہ بعد  تیار ہو کر فیلڈ میس پہنچے وہاں، کیپٹن سعادت اور کیپٹن ملک بیٹھے تھے،
کیپٹن ملک نے پوچھا، ”میں نے آپ کو بلایا تھا، آپ نہیں آئے کوئی مصروفیت تھی؟“۔
”سر، مجھے کسی نے نہیں بتا یا“  میں نے حیرانگی سے جواب دیا۔
انہوں نے پوچھا  ”آپ کے بیٹ مین نے آپ کو میرا سلام نہیں دیا؟“ ۔
  ”سر آپ کا شکریہ آپ نے سلام، بھیجا، جواباً  میں نے وعلیکم السلام بھجوایا تھا“۔
وہ زور سے ہنسے، ”ابے رنگروٹ، سلام کا مقصد، سلام کہنے والا بلا رہا ہے، تم پر ایک چکن جرمانہ پڑ گیا، میس حوالدار کو چٹ لکھ  کر دو“۔
اس کے بعد جرمانوں کی  چٹوں کا سلسلہ شروع ہوگیا، پی ایم اے سے، ملنے والے آؤٹ فِٹ الاونس کی قلیل مقدار جو، فوٹو گرافر، کینٹین، فروٹ شاپ اور کیفے ٹیریا سے  بچ گئی تھی وہ، یونٹ میں دی جانے والی چٹوں کے انبار میں دبنے کے بعد اگلے مہینے کی اگلی تنخوا ہ  مبلغ ساڑھے پانچ سو روپے، کا کافی حصہ بھی اپنے ساتھ ملا لیا۔
  صوبیدار میجر شریف صاحب، رجمنٹ حوالدار میجر  غلام حسین شاہ  اور ہیڈ کلرک  صوبیدار اشرف صاحب  ، ہمارے استاد  بنے اور یونٹ کے متعلق کئی مفید معلومات فراہم کیں۔جو ہماری فوجی زندگی میں نہایت فائدہ مند ہوئیں ۔اب جب میں ماضی میں جھانکتا ہوں ، تو وہ دن یاد گار دن تھے ،

" نہ فکر نہ فاقہ ، تعلیم بالغان سے ناطہ " پڑھنے سے بھاگ کر فوج میں آئے ۔ 
اب پڑھتے بھی ہیں اور بھاگتے بھی ۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

خیال رہے کہ "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ !

افق کے پار
دیکھنے والوں کو اگر میرا یہ مضمون پسند آئے تو دوستوں کو بھی بتائیے ۔ آپ اِسے کہیں بھی کاپی اور پیسٹ کر سکتے ہیں ۔ ۔ اگر آپ کو شوق ہے کہ زیادہ لوگ آپ کو پڑھیں تو اپنا بلاگ بنائیں ۔