جب ہمارا دوسرا ہفتہ شروع ہوا تو شوکت پاریکھ، نے آکر
بتایا، کہ میجر امیر سلطان، کہہ رہے تھے
کہ میں فری فال ڈائیور ایک خوبصورت آئل پینٹنگ، اپنے آفس کے لئے بنوانا چاھتا ہوں،
تو میں (شوکت پاریکھ) نے بتایا، کہ سر، نعیم
بھی پینٹگ کرتا ہے۔ اُس سے بنوا لیں،
چنانچہ کل وہ تمھیں آفس میں بلوائیں گے، تو میرا بھی کہہ دینا کہ میں بھی پینٹنگ
کر لیتا ہوں، تاکہ، میں بھی مشقت سے بچوں۔
کیڈٹس کی زبان میں اسے ”ڈاجنگ“ کہتے ہیں۔ گویا
شوکت پاریکھ نے ، صحرا میں کنواں
تلاش کر لیا تھا، چنانچہ جاوید انور، شوکت
پاریکھ اور میں، تینوں نے مل کر، پیرا سکول کے لئے پینٹگز بنانی شروع کر دیں،
شوکت کو ہم نے کینوس، پینٹگ کے لئے تیار کروانا
اور پینٹنگ کے فریم بنانا سکھایا، میں اور جاوید انور پینٹگز میں مشغول ہوگئے، ہمارے لئے گرم گرم پکوڑے اور چائے بن کر آتی تو
ہم سب کام چھوڑ چھاڑ کر، گل چھرے اُڑانے میں مشغول ہوجاتے،
ہاں تو ذکر ہو رہا تھا، ماہر ”جمپاکو“ کا
وہ ہماری مصّوری کی مشغولیت کی وجہ سے ہم سے پہلے ٹاور پر گئے۔ اتفاقاً ہم پانی پینے باہر نکلے، تو وہ ٹاور کے گیٹ پر کھڑے تھے، حالت یہ کہ
ٹانگیں خوف سے لرز رہی تھیں، چھلانگ لگانے کے لئے، TAP ملی، وہ کھڑے رہے
سٹاف نے پوچھا، ”صاحب، کھڑے کیوں ہیں“
سٹاف نے پوچھا، ”صاحب، کھڑے کیوں ہیں“
وہ کھڑے رہے سٹاف نے پوچھا، ”صاحب، کھڑے کیوں ہیں
تو بولے ”سٹاف ذرا اچھی ٹیپ دیں
پھر دوسری، جنٹل ٹیپ بذریعہ ہیل ملی، انہوں نے دایاں پاؤ ں باہر نکالا اور ریزرو پیرا شوٹ کو کسی نومولود بچے کی طرح کود میں پکڑے ہوئے سلو موشن میں چھلانگ لگائی، جس کے نتیجے، میں دونوں ٹانگیں ایک دوسرے سے نوے درجے کے زوایئے سے زیادہ کھل گئیں، یہ نہ سمجھئے کہ ہم بہت بڑے '' رستم '' ہیں، بس اپنے خیالات کی ہوا نہیں لگنے دیتے ۔
ہم بھی ٹاور پر گئے آواز لگی ”فور جمپر رائٹ ڈور“ ۔ کیوں کہ ہم سب سے آگے تھے، ”فور جمپر رائٹ ڈور“ کہتے ہوئے ٹاور گیٹ کی طرف بڑھے، چھلانگ لگانیے کی پوزیشن لی، نیچے نظر ڈالی، تو ساری شوخی غائب ہو گئی، یوں لگتا تھا کہ، ہمیں بتائے بغیر ٹاور سو فٹ اونچا کردیا گیا ہے، اونچائی سے نیچے کھڑے ہوئے آدمی کا سر اور بس بوٹ نظر آتے تھے اور اس کے گرد پختہ کنکریٹ کا فرش۔ خوف کی لہریں بجلی کی رفتار سے، سر سے پیر تک اور پیر سے سر تک جاتیں، مارے خوف کے گھگھی بند گئی،
جب سٹاف بولا ، " نعیم۔صاحب نمبر " تو اپنا نمبر بتانے کے بجائے سامنے کھڑے ہوئے ساتھی کا نمبر پکار بیٹھے،
”نعیم صاحب، ہیلمٹ اتاریں اور اپنا نمبر پڑھیں“۔ یہ سنا تو اپنا نمبر یاد
آگیا،
” ٹو ایٹ“ ہم زور سے بولے ۔
آواز آئی، ” ٹو ایٹ، ریڈی ٹو جمپ“۔
” ٹو ایٹ، ریڈی سر“ ۔ہم نے تھوک نگلتے جواب دیا ۔
کولہوں پر ایک چپت پڑی ” جمپ“
ہمیں سٹاف نے پورا یقین دلایا گیا تھا،”نعیم صاحب، پیرا شوٹ کے ایک ہارنیس سے اگر جیپ لٹکا دی جائے تو پھر بھی وہ نہیں ٹوٹے گا، اور اس کے چاروں ہارنیس جس سے پیرا جمپر لٹکتا ہے۔ ایک ٹرک کو اٹھا کر امریکہ جاسکتا ہے“۔
گو کہ ہمیں اس بات پر یقین کامل نہیں تھا، بالکل اس، بنیئے کی طرح جس نے اپنے دس سالہ بچے کو دیوار پر کھڑا کر کے کہا۔”اے جوبیر چھلانگ لگا“ ۔
”باپو، گر جاؤں گا“ بچہ ڈرتے ہوئے بولا،
باپ نے تسلی دی،”ابے میں ہوں نا، کاہے کا ڈر“
اور بچے نے چھلانگ لگائی پیر تڑوا بیٹھا۔
باپ بولا، ”پہیلا اور آخری سبق،زندگی میں کبھی باپ پر بھی بھروسہ نہ کرنا“۔
اور ہم نے اپنی زندگی کی پہلی تاریخی جمپ سطح سمندر سے بے اندازہ بلند ٹاور سے کلمہ پڑتے ہوئے لگا دی، ایک زور دار جھٹکا لگا، ہمارا سر بجائے ٹھوڑی کو سینے پر لگانے کے، پیچھے کی طرف نکل گیا، ٹھوڑی کا رخ آسمان کی طرف ہو گیا، شائد ملائکہ نے سمجھا ہوگا کہ بندہ ءبشر، غیبی امداد کا طلبگار ہے، بس ہم نیچے کی طرف جا رہے تھے، کسی شہاب ثاقب کی طرح زمین سے ٹکرانے، ہمیں احساس ہو کہ زمیں پر گر کر دھماکہ کرنے سے پہلے بتائے ہوئے اصولوں کے مطابق گنتی گن لی جائے، تاکہ معلوم ہو، کہ کشش ثقل زیادہ ہے یا ہماری ٹاور کے مدار سے نکل کے زمیں کے مرکز میں داخل ہونے کی،
چنانچہ ہم نے فورا، ون تھاؤزنڈ، ٹو تھاؤزنڈ، تھری تھاؤزنڈ ابھی ادا ہونے کے مراحل میں تھا کہ ہمارے پاؤں کسی سخت چیز سے ٹکرائے، تو معلوم ہوا کہ ہم، ٹیلے پر کھڑے ہیں۔
” ٹو ایٹ“ ہم زور سے بولے ۔
آواز آئی، ” ٹو ایٹ، ریڈی ٹو جمپ“۔
” ٹو ایٹ، ریڈی سر“ ۔ہم نے تھوک نگلتے جواب دیا ۔
کولہوں پر ایک چپت پڑی ” جمپ“
ہمیں سٹاف نے پورا یقین دلایا گیا تھا،”نعیم صاحب، پیرا شوٹ کے ایک ہارنیس سے اگر جیپ لٹکا دی جائے تو پھر بھی وہ نہیں ٹوٹے گا، اور اس کے چاروں ہارنیس جس سے پیرا جمپر لٹکتا ہے۔ ایک ٹرک کو اٹھا کر امریکہ جاسکتا ہے“۔
گو کہ ہمیں اس بات پر یقین کامل نہیں تھا، بالکل اس، بنیئے کی طرح جس نے اپنے دس سالہ بچے کو دیوار پر کھڑا کر کے کہا۔”اے جوبیر چھلانگ لگا“ ۔
”باپو، گر جاؤں گا“ بچہ ڈرتے ہوئے بولا،
باپ نے تسلی دی،”ابے میں ہوں نا، کاہے کا ڈر“
اور بچے نے چھلانگ لگائی پیر تڑوا بیٹھا۔
باپ بولا، ”پہیلا اور آخری سبق،زندگی میں کبھی باپ پر بھی بھروسہ نہ کرنا“۔
اور ہم نے اپنی زندگی کی پہلی تاریخی جمپ سطح سمندر سے بے اندازہ بلند ٹاور سے کلمہ پڑتے ہوئے لگا دی، ایک زور دار جھٹکا لگا، ہمارا سر بجائے ٹھوڑی کو سینے پر لگانے کے، پیچھے کی طرف نکل گیا، ٹھوڑی کا رخ آسمان کی طرف ہو گیا، شائد ملائکہ نے سمجھا ہوگا کہ بندہ ءبشر، غیبی امداد کا طلبگار ہے، بس ہم نیچے کی طرف جا رہے تھے، کسی شہاب ثاقب کی طرح زمین سے ٹکرانے، ہمیں احساس ہو کہ زمیں پر گر کر دھماکہ کرنے سے پہلے بتائے ہوئے اصولوں کے مطابق گنتی گن لی جائے، تاکہ معلوم ہو، کہ کشش ثقل زیادہ ہے یا ہماری ٹاور کے مدار سے نکل کے زمیں کے مرکز میں داخل ہونے کی،
چنانچہ ہم نے فورا، ون تھاؤزنڈ، ٹو تھاؤزنڈ، تھری تھاؤزنڈ ابھی ادا ہونے کے مراحل میں تھا کہ ہمارے پاؤں کسی سخت چیز سے ٹکرائے، تو معلوم ہوا کہ ہم، ٹیلے پر کھڑے ہیں۔
کل آٹھ جمپوں میں سے
چھ کامیاب جمپ لگا کر ہم نے ٹاور کلئیر کر لیا، ٹاور کلئیر ہونے کے بعد انتظار کی گھڑیاں طویل
ہونے لگیں۔ تیسرے دن، ہم پشاور ایر پورٹ
پر پہنچے اور ایپرن پر بیٹھ گئے، ہر منٹ
بعد، نگاہیں آسمان پر ایر فورس کے جہاز "
سی ون تھری زیرو" ہرکولیس کو
تلاش کرتیں،کبھی خبر ملتی کی جہاز آرہاہے اور کبھی نہیں کا مژدہ سنایا جاتا،
AIR BORNE
کے نعروں میں وہ گونج نہیں ہوتی، جو پہلے سنائی دیتی تھی، چار بجے تک بیٹھنے کے بعد واپس بیرکوں میں آگئے، دعائیں مانگنی شروع کردیں کہ کل جہاز آجائے ہماری دعائیں رنگ لائیں شام کو جہاز آنے کی خوشخبری ملی، دوسرے دن صبح گاڑیوں میں بیٹھ کر ائرپورٹ پہنچے، دل میں خوشی کے لڈو پھوٹ رہے تھے۔ گروپس بنائے گئے،
سٹاف نے پوچھا، ”سٹک لیڈر کے لئے کون والنٹیئر ہے"۔ ہم نے فوراً ہاتھ اٹھایا۔ جہاز میں سوار ہوئے، AIR BORNE
AIR BORNE
کے نعروں میں وہ گونج نہیں ہوتی، جو پہلے سنائی دیتی تھی، چار بجے تک بیٹھنے کے بعد واپس بیرکوں میں آگئے، دعائیں مانگنی شروع کردیں کہ کل جہاز آجائے ہماری دعائیں رنگ لائیں شام کو جہاز آنے کی خوشخبری ملی، دوسرے دن صبح گاڑیوں میں بیٹھ کر ائرپورٹ پہنچے، دل میں خوشی کے لڈو پھوٹ رہے تھے۔ گروپس بنائے گئے،
سٹاف نے پوچھا، ”سٹک لیڈر کے لئے کون والنٹیئر ہے"۔ ہم نے فوراً ہاتھ اٹھایا۔ جہاز میں سوار ہوئے، AIR BORNE
کے نعروں نے جسم میں تھر تھراہٹ پیدا کرنا شروع کر دی،
جہازٹیکسی کر کے رن وے پر آیا۔اور جب دوڑنا شروع
ہوا، تو جہاز میں نعرے لگنے لگے ،
AIR BORNE AIR BORNE AIR BORNE AIR BORNE AIR BORNE
جہاز نے
جمپنگ گراونڈ کا چکر لگایا، واپس مڑا،
آواز آئی، ”جمپر ریڈی“۔ پھر آواز آئی، ” سٹینڈ اپ اینڈ ہک اپ“۔ ہم کھڑے ہوئے، کیبل میں پیرا شوٹ
کا ہک پھنسایا، تو لوڈ ماسٹر نے دونوں
دروازے کھولے، ایک ہزار تیس سو فیٹ پر دورازے کھلتے ہی اچھل کود کرنے والا دل خاموش ہو کر نامعلوم خوف سے ایک کونے میں دبک کر بیٹھ گیا، جسے کوئی شرارتی بچہ، شرارتیں کرتا
ہوا پٹائی کے خوف سے اچانک خاموش ہوجائے، وقت آہستہ آہستہ کم ہو رہا تھا۔ لب بند
آنکھیں سوالیہ نشان سامنے دیکھ رہی تھیں اور دماغ پڑھائے اور سکھلائے ہوئے سبق کو
دھراتے ہوئے آنے والے لمحات کے بارے میں سوچ رہے تھے۔ اچانک ایک لرزیدہ آواز انجنوں
کے شور میں سنائی دی، What are YOU ?
جس کی باز گشت میں مکھیوں کی بھنبھناہٹ گونجیAIR BORNE
، جمپ ماسٹر، دونوں دوازوں میں کھڑے ہوگئے، ”سٹک ایڈوانس ، لیڈر ان دی ڈور“ پوری سٹک، آگے بڑھی، ہم دروازے میں پوزیشن لے کر کھڑے ہوگئے۔ جمپ ماسٹر نے پیچھے سے ہمارے ہارنس پکڑے ہوئے تھے، پائلٹ کے حکم کا انتظار تھا،
کیا خوبصورت نظارہ تھا، دور پی اے ایف بڈا بیر کی خوبصورت قطار در قطار عمارتیں نظر آرہی تھیں۔ جہاز کی لینڈنگ گراونڈ کی طرف راہنمائی کے لئے، نیچے غلط سمت میں پھینکے گئے دھوئیں کے گولے کی وجہ سے پائلٹ نے جہاز کو دوبارہ پوزیشن میں لانے کے لئے موڑا، پورا پشاور شہر نظر آنے لگا، نیچے سڑکوں پر چلتی گاڑیاں، رکشے یہاں تک کہ انسان بھی نظر آرہے تھے کیوں کہ جہاز زمیں سے چودہ سو فٹ کی بلندی پر ہوا میں تیر رہا تھا، جہاز پوزیشن میں آیا، ہمیں الرٹ کرایا گیا، جونہی جہاز لینڈنگ زون میں پہنچا، جمپ ماسٹر کے حکم پر میں نے چھلانگ لگائی اور اس کے بعد باری باری سب نے چھلانگ لگائی، پیرا شوٹ کو کھلتے دیکھنے کے لئے میں نے تھوڑی سینے سے سے لگانے کے بجائے، گردن اٹھا کر سامنے کی طرف دیکھا، Jumping Rope سبز رنگ کا پیرا شوٹ،
سے جدا ہو کر، جہاز کے جیٹ کی ہوا سے، آہستہ آہستہ کھلتا ہوا سر کی طرف جا رہا تھا، پھر اس بڑی سے چھتری نے ہمیں سنبھال لیا، اور ہم چونتیس فٹ فی سیکنڈ کے حساب سے زمیں پر اترنے لگے، گردن گھمائی، جہاز کے پیٹ سے چھتریاں نکلتی دکھائی دیں ہمارے پیچھے اور بائیں طرف سبز چھتریوں کی ایک لائین نظر آرہی تھی، اور فضا میں، ”ایر بورن“ کے نعرے گونج رہے تھے،
ہمارے پیچھے وقار، عثمان اور جاوید انور نے جمپ لگائی تھی ہم ایک دوسرے کو پکار پکار، ہدایتیں دے رہے تھے کیوں کہ زمین قریب آرہی تھی اور ہمارے پیرا شوٹ، زمین پر نالے کی طرف بڑھ رہے تھے۔ ساری خوشی کافور ہو گئی، ہر پڑھائی آزمائی ،پیرا شوٹ کا رخ تبدیل کرنے والی رسیاں کھینچیں ، شائد اس کا رخ تبدیل ہوجائے، مگر غالباً وہ ہمیں غوطہ لگوانے کا پورا تہیّہ کئے ہوئے تھا، ”جل تو جلا تو، آئی بلا کو ٹال تو “ کاورد کرتے ہوئے ہم چھپاک سے نالے میں گرے، ابھی اٹھنے کی کوشش کر رہے تھے کہ پیرا شوٹ نے ہمیں نالے سے باہر کھینچ لیا، ہم نے قلابازیاں کھانے سے خود کوبچایا، اور پیر ا شوٹ کے ساتھ دوڑنے لگے، دوڑتے ہوئے، جیب سے کھینچا جانے والا سبق یاد آیا، فوراً کندھے پر ہاتھ لے جا کر، پیر اشوٹ سے خود کو آزاد کیا۔پیرا شوٹ کو تہہ کیا کمر سے لٹکے ہوئے بیگ میں ڈالا اور گاڑیوں کے پاس آکر زمین پر بیٹھ گئے۔ سب آنے والے اپنے اپنے، خیالات بتا رہے تھے۔
کے شور میں سنائی دی، What are YOU ?
جس کی باز گشت میں مکھیوں کی بھنبھناہٹ گونجیAIR BORNE
، جمپ ماسٹر، دونوں دوازوں میں کھڑے ہوگئے، ”سٹک ایڈوانس ، لیڈر ان دی ڈور“ پوری سٹک، آگے بڑھی، ہم دروازے میں پوزیشن لے کر کھڑے ہوگئے۔ جمپ ماسٹر نے پیچھے سے ہمارے ہارنس پکڑے ہوئے تھے، پائلٹ کے حکم کا انتظار تھا،
کیا خوبصورت نظارہ تھا، دور پی اے ایف بڈا بیر کی خوبصورت قطار در قطار عمارتیں نظر آرہی تھیں۔ جہاز کی لینڈنگ گراونڈ کی طرف راہنمائی کے لئے، نیچے غلط سمت میں پھینکے گئے دھوئیں کے گولے کی وجہ سے پائلٹ نے جہاز کو دوبارہ پوزیشن میں لانے کے لئے موڑا، پورا پشاور شہر نظر آنے لگا، نیچے سڑکوں پر چلتی گاڑیاں، رکشے یہاں تک کہ انسان بھی نظر آرہے تھے کیوں کہ جہاز زمیں سے چودہ سو فٹ کی بلندی پر ہوا میں تیر رہا تھا، جہاز پوزیشن میں آیا، ہمیں الرٹ کرایا گیا، جونہی جہاز لینڈنگ زون میں پہنچا، جمپ ماسٹر کے حکم پر میں نے چھلانگ لگائی اور اس کے بعد باری باری سب نے چھلانگ لگائی، پیرا شوٹ کو کھلتے دیکھنے کے لئے میں نے تھوڑی سینے سے سے لگانے کے بجائے، گردن اٹھا کر سامنے کی طرف دیکھا، Jumping Rope سبز رنگ کا پیرا شوٹ،
سے جدا ہو کر، جہاز کے جیٹ کی ہوا سے، آہستہ آہستہ کھلتا ہوا سر کی طرف جا رہا تھا، پھر اس بڑی سے چھتری نے ہمیں سنبھال لیا، اور ہم چونتیس فٹ فی سیکنڈ کے حساب سے زمیں پر اترنے لگے، گردن گھمائی، جہاز کے پیٹ سے چھتریاں نکلتی دکھائی دیں ہمارے پیچھے اور بائیں طرف سبز چھتریوں کی ایک لائین نظر آرہی تھی، اور فضا میں، ”ایر بورن“ کے نعرے گونج رہے تھے،
ہمارے پیچھے وقار، عثمان اور جاوید انور نے جمپ لگائی تھی ہم ایک دوسرے کو پکار پکار، ہدایتیں دے رہے تھے کیوں کہ زمین قریب آرہی تھی اور ہمارے پیرا شوٹ، زمین پر نالے کی طرف بڑھ رہے تھے۔ ساری خوشی کافور ہو گئی، ہر پڑھائی آزمائی ،پیرا شوٹ کا رخ تبدیل کرنے والی رسیاں کھینچیں ، شائد اس کا رخ تبدیل ہوجائے، مگر غالباً وہ ہمیں غوطہ لگوانے کا پورا تہیّہ کئے ہوئے تھا، ”جل تو جلا تو، آئی بلا کو ٹال تو “ کاورد کرتے ہوئے ہم چھپاک سے نالے میں گرے، ابھی اٹھنے کی کوشش کر رہے تھے کہ پیرا شوٹ نے ہمیں نالے سے باہر کھینچ لیا، ہم نے قلابازیاں کھانے سے خود کوبچایا، اور پیر ا شوٹ کے ساتھ دوڑنے لگے، دوڑتے ہوئے، جیب سے کھینچا جانے والا سبق یاد آیا، فوراً کندھے پر ہاتھ لے جا کر، پیر اشوٹ سے خود کو آزاد کیا۔پیرا شوٹ کو تہہ کیا کمر سے لٹکے ہوئے بیگ میں ڈالا اور گاڑیوں کے پاس آکر زمین پر بیٹھ گئے۔ سب آنے والے اپنے اپنے، خیالات بتا رہے تھے۔
دوسرے دن پھر، جہاز میں بیٹھے، اس دفعہ، سٹک لیڈر نہیں بنا یا گیا
چنانچہ مجمع عام کے ساتھ مل کر جمپ لگائی،
اس دفعہ، بڑے سکون کے ساتھ پیرا شوٹ نے تعاون کیا کیوں کہ آج ہوا نہیں تھی۔
ہم مزے لیتے ہوئے بڑے آرام کے ساتھ اترے،
پیرا شوٹ لپیٹا اور گاڑیوں کی طرف آگئے۔
شام کو معلوم ہوا کہ، جہاز میں جس کیبل کے ساتھ، جمپر۔ پیرا شوٹ کو ہک ان
کر کے جہاز سے زندگی کا رشتہ جوڑتے ہیں وہ ٹوٹ گئی ہے۔ ع
جس شاخ
پہ نشیمن کی بنیاد رکھی ۔ وہی شاخ تقدیر نے توڑ ڈالی
جمپر جمپ لگا رہے تھے لہذا، کیبل اپنے ایک کلو وزنی سپورٹ کے ساتھ ُاکھڑ ی اور ایر فورس کے لوڈ
ماسٹر مقبول، کے سر سے ٹکرا کر اسے عازم فردوس
کردیا، جب تک جمپ ماسٹر نے جمپرز کو روکنے
کی کوشش کی چھ جمپر نکل چکے تھے، ان کے پیرا
شوٹ کیبل سپورٹ ہک میں پھنس کر ، جہاز سے جدا ہونے میں کامیاب ہو گئے تھے، ایئر فورس کا جہاز ہر کولیس واپس چلا گیا اور ساتھ ہی ہمارا پیرا بھی لے گیا ، تین جمپ جو باقی رہ گئے تھے اگر ہم لگا لیتے تو پر ہم بھی دائیں سینہ کچھ زیادہ نکال کر اکیڈمی کی سڑکوں پر چلتے ۔
قسمت کی خوبی دیکھئے ٹوٹی کہاں کمند ۔ دو چار ہاتھ جب کہ لب بام رہ گیا۔
شوٹ کیبل سپورٹ ہک میں پھنس کر ، جہاز سے جدا ہونے میں کامیاب ہو گئے تھے، ایئر فورس کا جہاز ہر کولیس واپس چلا گیا اور ساتھ ہی ہمارا پیرا بھی لے گیا ، تین جمپ جو باقی رہ گئے تھے اگر ہم لگا لیتے تو پر ہم بھی دائیں سینہ کچھ زیادہ نکال کر اکیڈمی کی سڑکوں پر چلتے ۔
قسمت کی خوبی دیکھئے ٹوٹی کہاں کمند ۔ دو چار ہاتھ جب کہ لب بام رہ گیا۔
واپس کاکول لوٹے، دوسرے کیڈٹس
کے سینوں پر ”پیرا ونگ“ سجا دیکھ کر ہمیں غشی کے دورے پڑتے، جن کورس میٹس نے پیرا
کورس پر چھٹیوں کو ترجیح دی تھی وہ ہمارا کھلے عام ببانگ دہل مذاق اڑاتے اور
طنزیہ سوال کرتے،”تمھارے پاس اس بات کی کیا نشانی ہے کہ تم پیرا کرنے گئے
تھے یا پشاور کا چکر لگانے یا تم سکریننگ میں ہی نکال دئیے گئے ہو گے۔ ہمیں مرعوب
کرنے کے لئے کہتے ہو ، ہم پیرا ونگ لینے گئے تھے ، آہ ! اور Terror بغیر T کے بننے کی کوشش مت کرو ، پیرا ونگ لینا آسان کام ہے ۔
ایسا طنز، دشمن بھی کسی انسان سے نہ کرے جو ہمارے دوست ہم سے کرتے، یہ سب پطرس کے دوستوں کی حدیں، پھلانگنے والے دوست ہیں۔ ان دوستوں کی موجودگی میں انسان دشمن کیسے پال سکتا ہے؟
کبھی غور کیا آپ نے ؟
لے دے کے ہم وہاں سے تسموں کی ایک جوڑی لائے، کہ چلو بھاگتے چور کی لنگوٹی سہی، مگر وہ بھی ٹرم کمانڈر نے پہننے سے منع کردیا۔ اب آپ ہی بتائیں۔ کہ، ع۔ کس کس سنائیں ہم اس دکھ کا افسانہ۔
ایسا طنز، دشمن بھی کسی انسان سے نہ کرے جو ہمارے دوست ہم سے کرتے، یہ سب پطرس کے دوستوں کی حدیں، پھلانگنے والے دوست ہیں۔ ان دوستوں کی موجودگی میں انسان دشمن کیسے پال سکتا ہے؟
کبھی غور کیا آپ نے ؟
لے دے کے ہم وہاں سے تسموں کی ایک جوڑی لائے، کہ چلو بھاگتے چور کی لنگوٹی سہی، مگر وہ بھی ٹرم کمانڈر نے پہننے سے منع کردیا۔ اب آپ ہی بتائیں۔ کہ، ع۔ کس کس سنائیں ہم اس دکھ کا افسانہ۔
چھٹیاں ضائع کیں۔ نظام
انہضام کا کباڑا کروایا، کہنیاں اور گھٹنے چلوالے۔ تشریف پر کرہ ارض کی ضربیں
برداشت کیں، کیا کیا پاپڑ نہیں بیلے؟ مگر اس کے باوجود بھی داد رسی محفل ِ یار میں
نہ ہوئی، اب صبر کر کے یہی کہتے ہیں:
ع، یہ نہ تھی ہماری قسمت۔۔۔۔۔۔ ۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں