Pages

میرے چاروں طرف افق ہے جو ایک پردہء سیمیں کی طرح فضائے بسیط میں پھیلا ہوا ہے،واقعات مستقبل کے افق سے نمودار ہو کر ماضی کے افق میں چلے جاتے ہیں،لیکن گم نہیں ہوتے،موقع محل،اسے واپس تحت الشعور سے شعور میں لے آتا ہے، شعور انسانی افق ہے،جس سے جھانک کر وہ مستقبل کےآئینہ ادراک میں دیکھتا ہے ۔
دوستو ! اُفق کے پار سب دیکھتے ہیں ۔ لیکن توجہ نہیں دیتے۔ آپ کی توجہ مبذول کروانے کے لئے "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ پوسٹ ہونے کے بعد یہ آپ کے ہوئے ، آپ انہیں کہیں بھی کاپی پیسٹ کر سکتے ہیں ، کسی اجازت کی ضرورت نہیں !( مہاجرزادہ)

اتوار، 23 مارچ، 2014

فوجی گاڑی کی ڈرائیوری اور ہم - 2


            ہر آرمی سکول میں، پہلے دن تربیت حاصل کرنے والوں کو افتتاحی خطاب دیا جاتا ہے، جس میں سکول میں دی جانے والی تربیت کے اغراض و مقاصد، فوج  اور کورس کرنے والے کے لئے  اس کی افادیت  اور دوران جنگ اس شعبہ ء فوج کی کارکردگی پر روشنی ڈالی جاتی ہے،  کمانڈنٹ  ہمیں آرمی سروس کور کی قائم ہونے کے بعد مختلف جنگوں میں ان کی خدمات کو حوالہ دے رہے تھے کہ اسے کیوں ”سرخ لین یارڈ“ سے نوازا گیا، کہ ہمیں 1971کی جنگ کا ایک وقعہ یاد آگیا، جو اِسی محکمے کے ایک آفیسر نے ہمیں سنایا تھا، ہوا یوں کہ جنگ کے دنوں میں جب راشن یونٹوں کو سپلائی ہوتا تو اس میں، گوشت کے بجائے زندہ بکرے دئے جاتے، اسی طرح سپلائی کی ایک پلاٹون دسمبر کی تاریک اور سرد رات میں، مختلف یونٹوں کو جانور تول کر دے رہی تھی کہ اچانک دشمن نے گولہ باری شروع  کردی، گولوں اور دھماکوں نے انسانوں اور جانور کو تتر بتر کر دیا، گولہ باری رکنے کے بعد، جانور ڈھونڈھ ڈھونڈھ کر اکٹھا کیا گیا دوبارہ تقسیم شروع ہوئی، ایک کے بعد دوسرا اور دوسرے کے بعد تیسرا جانور تولا جانے لگا، ایک جانور کو جب تولنے کے لئے پکڑا تو اس نے کوئی صدائے احتجاج بلند نہیں کی، جب اسے مشین پر لٹکایا گیا تو اس نے ایک غیر مانوس سی آواز نکالی، وزن کرنے والا گڑبڑا گیا، اس نے ٹارچ کی مدھم روشنی میں دیکھا، ایک مریل سا کتا، کانٹے سے لٹکا ہوا تھا۔
 
            افتتاحی خطاب کے بعد، معلوم ہوا کہ اب افتتاحی ٹیسٹ ہوگا، ارے ٹیسٹ کس بات کا، ابھی تو پڑھایا ہی کچھ نہیں تو ٹیسٹ کیوں؟  کیپٹن قیوم چنگیزی نے بتایا کہ، ہم یہ دیکھنا چاھتے ہیں کہ کورس پر آنے پر آپ کی  معلومات کتنی ہیں اور کورس کے بعد آپ کی معلومات میں کتنا اضافہ ہوا ہے،”سر یقینا سو فیصد اضافہ ہوگا۔لیکن کیا یہ زیادتی نہیں؟ کہ صفر معلومات والوں اور پہلے سے معلومات والوں کے درمیان مقابلہ کروایا جائے“  لیکن ہمارے احتجاج کے باوجود ہمارے ہاتھ میں پرچے تھما دئیے گئے، پرچے کا پہلے تنقیدانہ جائزہ لیا پھر پڑھنا شروع کیا، لیکن وہ پرچہ، نصاب سے تو کیا ہماری ذہنی و علمی صلاحیتوں سے بھی باہر تھا، لیکن کہتے ہیں کہ انسانی علم حواس خمسہ کا محتاج ہے، جن میں دو حواس، حس سامعہ اور حس باصرہ، انسان کو اس کی خواہشات کے بغیر علم اس کے دماغ میں انڈیلتی رہتی ہیں جو ذہن کے کسے گوشے میں جا کر سو جاتا ہے اور اس وقت تک سویا رہتا ہے کہ جب تک اسے جگایا نہ جائے۔ پرچے کو دو تین بار پڑھنے کے بعد، تحت الشعور میں غوطہ لگایا تاکہ وہاں موجود معلومات کا خزانہ ٹٹولہ جائے لیکن جواب ندارد، صفائی کے نمبر ممتحن نے رکھے نہیں کہ وہی حاصل کر لئے جاتے،
 پہلا سوال انجنوں کے بارے میں تھا،کہ کتنی اقسام کے ہوتے ہیں؟کیا انجنوں کی بھی اقسام ہوتی ہیں؟  ایسے موقع پر رئیس امروہی یاد آئے، انہوں نے کہا تھا کہ جب کوئی جواب نہ آتا ہو تو، آنکھیں بند کر کے کرسی کی پشت سے ٹیک لگا لو اور ذہن کی لگامیں اس گھوڑے کی طرح ڈھیلی چھوڑ دو، جو اڑیل ہو کر آگے بڑھنے کا نام نہ لیتا ہو، پھر اس کے بعد ذہن کا تماشا دیکھو اور اس کی رفتار۔ ہم نے ایسا ہی کیا، لیکن کیپٹن قیوم کی کرخت آواز نے چونکا دیا،”کلاس میں سونا منع ہے“۔  ”لیکن سر آنکھیں بند کرکے سوچنا منع نہیں“ ہم نے احتجاج کیا۔ ”بالکل ٹھیک، لیفٹنٹ،لیکن سوچتے وقت خراٹوں سے کلاس ڈسٹرب ہوتی ہے“  اور  ہم نے سوچا، کہ گویا ہم، کراچی میں رئیس امروہی کی کلاس میں پہنچ گئے تھے۔
 
            خیر اب آنکھیوں کھول کر سوچنا شروع کیا،  انجن کتنی قسم کے ہوتے ہیں،  اوہ یاد آیا، موٹر گاڑی اور ریل گاڑی ، موٹر گاڑی کا انجن پیٹرول سے چلتا ہے اور ریل گاڑی کا کالا انجن آگ سے چلتا ہے، اور ہرا انجن  ڈیزل سے چلتا ہے، گویا تین قسم کے انجن ہوگئے کافی ہیں لیکن ممتحن پر اپنی ابتدائی قابلیت کا سکہ جمانے کے لئے، جہاز کے انجن کے مطابق بھی لکھ دیا جو غالبا، نہایت اعلیٰ قسم کے تیل سے چلتا ہے۔ اگلا سوال تھا کہ گاڑیوں میں ٹائر کیوں لگائے جاتے ہیں؟  واہ بھئی ممتحن نے اتنا آسان سوال پوچھ کر ہمیں مشکل میں ڈال دیا، مشکل سوال تو ہر کسی کو مشکل لگتے ہیں لیکن آسان سوال اس سے بھی زیادہ مشکل ہوتا ہے، سکول آف آرٹلری میں اس قسم کے سوال ہم فوراً حل کر دیا کرتے تھے، لیکن جب نتیجہ نکلتا تو معلوم ہوتا کہ جواب وہ نہیں تھا جوہم نے سمجھا، بلکہ وہ تھا جو ممتحن کے پاس لکھا  ہوا  ، ڈی ایس نوٹس میں تھا، 
چوں کے دودھ کے جلے ہوئے تھے اس لئے، اس معمولی   سے معمولی سوال  کو خوب غور وخوص سے پڑھا، ذھن نے تسلی دی فکر کی بات نہیں وہی جواب ہے جو میں بتا رہا ہوں، دیکھو اگر ٹائر نہ ہوں تو گاڑی کیسے چلے، عقل نے سرزنش کی کہ نہیں، چلتا تو ٹینک بھی ہے اس کے ٹائر نہیں ہوتے۔ بیل گاڑی ٹائر سے محروم ہے لیکن چلتی ہے اور ریل گاڑی لوہے کے پہیوں کے ذریعے اپنی مسافت طے کرتی ہے، ذہن نے فوراً عقل کو مات دی، کہ اگر موٹرگاڑی میں ٹائر کی جگہ زنجیر لگادی جائے تو وہ ٹینک کہلائے، اگر لکڑی کے پہئیے لگا دئے جائیں تو بیل گاڑی یا تانگہ جیسی عوامی سوار ی کہلانے کی مستحق ہوجاتی ہے، لوہے کے پہیوں کی صورت میں ریل گاڑی بن جائے گی، یوں گاڑی مختلف پہیوں پر سفر کرتی اپنے ارتقائی مراحل طے کرنے کے بعد، موٹر گاڑی کہلانے کی مستحق ہوئی ہے۔ یعنی ٹائر صرف موٹر گاڑی کو  نقل و حرکت کے دوسرے وسائل سے ممتاز کرنے کے لئے لگائے جاتے ہیں۔ ان کے علاو ہ اور بھی سوال تھے، جن کے جوابات ہم نے اپنی فہم و فراست، عقل و دانش اور تجربے کی بنیاد پر دئیے۔ نتیجہ دیکھ کر ہم بس ایک آہ بھر کر یہی کہ سکے، ”سوال سارے غلط تھے جواب کیا دیتے
            تحریری امتحان کے بعد ہمیں،  ٹی بریک کرنے کے بعد تجرباتی امتحان  یعنی ڈرائیونگ  ٹیسٹ کے لئے جانا تھا آدھے گھنٹے کے بعد ہمیں ٹرک نما گاڑیوں میں بٹھا کر نامعلوم منزل کی طرف لے جایا گیا، منزل پر پہنچ کر اترے موسم ابر آلود تھا ہم سب ٹینٹ کے نیچے لگی بنچوں پر جا بیٹھے، کبھی ایک سے گاڑی چلانے کی تکنیک کے بارے میں پوچھتے کبھی دوسرے سے، ایک آفیسر مانند خضر  نے بلا معاوضہ ہماری مدد کرنے کے لئے تیار ہوگئے، ہاتھ کی حرکات اور منہ سے طرح طرح  کے صوتی تاثرات نکال کر ہمیں بتایا کہ کہ اس طرح کی آواز آئے تو کلچ دباتے ہوئے پہلے سے دوسرے گئیر میں جانا اور پھر اس طرح کی آوازآئے تو کلچ دباتے ہوئے تیسرا گئیر لگانا،  بریک کب دبانا اور ایکسیلیٹر کب،  اس پر ہمیں ایک مذاق بالغانہ یاد آگیا، جو ڈرائیونگ سیکھنے والے شیدائی کو اس کے دوست نے بتایا تھا کہ وہ روزانہ رات کو بستر پر لیٹ کر ڈرائیونگ کی پریکٹس کیسے کرے۔
            ہم سے پہلے چھ سینئیر آفیسر تھے، وہ باری باری ٹیسٹ سے فارغ ہونے کے بعد ہماری معلومت میں اضافہ کرتے۔ جب ہماری باری آئی تو ہم اپنا آموختہ اچھی طرح دہرا چکے تھے، بارش چھاجوں برس رہی تھی، ہم نے اللہ کا نام لے کر گاڑی کی طرف دوڑلگائی اور دروازہ کھول کر، ڈھائی ٹن چینی گاڑی”Jaifang“   میں جابیٹھے، سانسیں اعتدال پر لانے کے بعد اعتماد کا تاثر چہرے پر لاتے ہوئے، کیپٹن قیوم کی طرف دیکھا، انہوں نے نام پوچھا، یونٹ پوچھی اور کورس پوچھا،  ”گاڑی چلانا آتی ہے؟“  سوال کیا،  ”تھوڑی تھوڑی“ ہم نے جواب دیا، ”ٹھیک ہے کوشش کرو“  انہوں نے کہا۔ ہم نے دھندلائی ہوئی ونڈ سکرین سے سامنے راستے کو تلاش کرنے کی کوشش کی ہر طرف جل تھل تھا، بارش نے شیشے کو دھندلادیا تھا، راستہ تو نظر کم آرہاتھا لیکن اتنا اندازہ تھا کہ کھلا میدان ہے۔ اگنیشن میں سوئچ گھمایا  اسے آن کیا، سیلف پر پاؤں رکھ دبایا، گاڑی میں شدید تھرتھراہٹ پیدا ہوئی،دو تین جھٹکوں کے بعد وہ سٹارٹ ہو گئی،  ہم نے دل میں نعرہء تحسین بلند کیا، جی چاہتا تھا کہ گاڑی سے  باہر کود کر خوشی سے ناچنا شروع کر دیں۔ مگر موسم سرما کی بارش نے ہمارے برانگیختہ جذبا ت سرد کر دئیے، 
کانپتے ہاتھوں سے کلچ دبانے کے بعد پہلا گیئر لگایا، گئیر لگاتے ہیں  گاڑی نے ایک کرخت صدائے احتجاج بلند کی ، گھبرا کر ہم نے کلچ سے پیر ہٹایا گاڑی نے خرگوش کی طرح زقند لگائی اور خاموش ہو گئی، کنکھیوں سے کیپٹن قیوم کی طرف دیکھا وہ اپنی پیشانی سہلا رہے تھے۔ شرمندگی کے سمندر سے سر باہر نکالتے ہوئے سور ی سر کہا اور گاڑی کو دوبارہ سٹارٹ کرنے کی کوشش کی، تین  چار دفعہ کی کوشش کے بعد گاڑی میں جان پیدا ہوئی، سانس روک کر نہایت احتیاط سے گئیر لگایا کلچ  کو بڑے آرام سے چھوڑا، گاڑی نہایت آہستگی سے آگے بڑھی،  گاڑی کی آواز تبدیل ہونا شروع ہوئی، دوسرا گئیر تبدیل کیا،   گاڑی کسی بکری کے بچے کی طرح چھلانگیں لگاتی ہوئی آگے بڑھنے لگی، ہم میں مزید حوصلہ بلند ہوا، ہم نے سمجھائی ہوئی آوازوں کے مطابق گئیر بدلنے شروع کئے، ہر گئیر بدلنے پر ایک پر شور آواز آتی، گاڑی ناہموار میدان میں ہچکولے کھاتی کسی منہ زور گھوڑے کی طرح، آگے بڑھ رہی تھی، ہم نے سٹیئرنگ مضبوطی سے تھاما ہوا تھا کہ ذرا سی گرفت ڈھیلی ہوئی اور یہ جان چھڑا کر بھاگا، سر کو تقریبا ونڈ سکرین سے لگائے  ہوئے راستہ دیکھنے کی کوشش کر رہے تھے، کیوں کہ گاڑی کا وائپر اپنی رفتار سے چل رہا تھا اور بارش اپنی رفتار سے،  ہم نے انکھیوں کے جھروکوں سے استاد محترم پر نظر ڈالی وہ اپنی سیٹ پر ”وجد“  میں  بیٹھے تھے  یوں لگتا تھا کہ ہماری مہارت پر ان پر ”حال“ کی سی کیفیت طاری تھی اور وہ ڈوبتے آدمی کی طرح تنکے کی تلاش میں تھی  ابھی ہمارا جائزہ ختم نہیں ہوا تھا، کہ ناگہاں ایک جھٹکا لگا،
 شاید گاڑی نے خلا کا رخ کیا ہو، یوں لگتا تھا کہ ہم کشش ثقل سے آزاد ہو کر خلا کی وسعتوں میں جارہے ہیں، یک لخت ہمیں سر توڑ دھماکا محسوس ہوا شائد کوئی سیارہ ہماری راہ میں مزاحم ہوا تھا، جس سے ٹکرا کر ہماری بینائی میں خلل پڑ گیا تھا کیوں کہ آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا تھا، جب دوبارہ زمین پر نیوٹن کے قانون ثقل کے مطابق واپس آئے، آنکھوں پر آئی ہوئی ٹوپی ہٹائی، تو اپنے اندازے کی درستگی پر عش عش کر اٹھے، کیوں کہ ہم عین اسی جگہ اترے تھے، جہاں سے سفر شروع کیا تھا، گاڑی خاموش کھڑی تھے، ہمارے سر پر گومڑ، ہونٹوں پر کھسیانی مسکراہٹ، کیپٹن قیوم کی پیشانی پر پوری گولائی کا چاند چمک رہا تھا، جس کی روشنی میں ان کی خوفناک نظروں میں چنگیزیت دکھائی دے رہی تھی، شکر ہے کہ نہ وہاں کوئی جلاد تھا اور نہ ان کے ہاتھ میں خنجر،’’ویری سوری سر،  مجھے افسوس ہے“ جیسے الفاظ ہمارے لبوں سے نشر ہونے پر ان کے چہرے پر اخلاقی مسکراہٹ  نمودار ہوئی لیکن نظروں سے خوفناکیت غائب نہ ہوئی، ”واپس چلو“ انہوں نے خوشخبری سنائی،سہ بارہ گاڑی سٹارٹ کی گڑھے سے نکالی،  گاڑی کو واپس موڑا  دھندلائے  ہوئے شیشے کی اوٹ سے گوشہ عافیت، یعنی ٹینٹ کو دیکھا، اور قدم پھونک پھونک کر نہایت آرام سے  بغیر کسی غلطی کے واپس ہوئے، ٹینٹ کے پاس رکے، یا وحشت، یہ گاڑیاں بھی گھوڑے کی طرح ہوتی ہیں، اصطبل کی طرف جاتے ہوئے، نہایت پرسکون،گاڑی روکی، ہینڈ بریک لگائی، ”یہ جو واپسی پر تم نے گاڑی چلائی ہے آئیندہ ایسی چلانا، جاؤ دوسرے کو بھیجو“  اوہ ٹیسٹ ختم ہو گیا، کچھ ہم نے شکر ادا کیا کچھ کیپٹن قیوم نے اور سب سے زیادہ ، بے چاری ڈھائی ٹن چینی گاڑی”جے فونگ“  نے۔
            جب چھوٹے تھے اور سکول میں پڑھتے تھے تو ہوم ورک پیر تسمہ پا کی طرح چمٹا رہتا تھا،  اسے طرح اِس سکول میں بھی ہر نئے دن کے ساتھ ہوم ورک کی تعداد بڑھتی جارہی تھی اور اس پر ظلم یہ، کہ سکول کی طرف سے دئیے ہوئے سائکلو سٹائل نوٹس سے دھندلی اشکال نکال کر قرطاس ابیض پر منتقل کرنے کا کام بھی ملتا، مباد ہامرے کورس سے کوئی  چغتائی، کوئی صادقین  یا کوئی پکاسو نکل آئے، جس کی دریافت کا سہرا سکول آف اے ایس سی کے سر بندھے، مگر وائے افسوس کسی سپوت مصوری نے جنم نہیں لیا سوائے ہمارے، جو بہت پہلے جنم لے چکا تھا اور ہمارے قریبی دوستوں کے علاوہ، دوسرے بھی جانتے تھے، لہذا  یہ کام ہمیں تفویض ہوا کہ ہم سب کو اشکال ان کے ہوم ورک پر بناکر دیں گے اور وہ ہمارا ہوم ورک کریں گے،  لیکن کب تک، ہمارے ہوم ورک کی تحریر نے بھانڈا پھوڑ دیا اور یوں ہمیں اپنا ہوم ورک خود کرنا پڑا، لیکن بیگار سے جان بھی نہ چھوٹی کیوں کے سپرٹ ڈی کور، کی خوشنما رسیوں سے ہر فوجی بندھا ہوتا ہے۔
 
            ڈرائیونگ زور شور سے جاری تھی، وہ پہلی گاڑیاں جو ہمارے   دادا محترم کی پیدائش سے پہلے چینیوں نے بطور آزمائش ایجاد کی تھیں،نوے (90)ایسے کورسز کے علاوہ  جے سی اوز اور این سی اوز کے کورسز کے استعمال میں رہیں، مزید ستم یہ پتھر اور مٹی ڈھونے کی جانگسل مشقّت سے سرخرو ہونے کے بعد ہمارے کورس کے ہتھے چڑھیں،  بے زبان اپنے موجد کو کم اور ہمیں اپنی زبان میں زیادہ صلواتیں سناتیں، سڑک پر ہارن دینے کی ضرورت کبھی پیش نہ آئی، راہ چلتے شرفا کو اپنی عزت سے زیادہ جانوں کی پرواہ ہوتی، کیا معلوم سڑک پرچلنے کے بجائے اْن پر چڑھ دوڑے،  اور تو جی ٹی روڈ پر آوار بھینسوں کی طرح دندنانے والے، شہزادہ گلفام، پشاوری سبز پری، آوارہ پنچھی اور ملک الموت نامی ٹرک، ہماری گاڑی سے گزوں فاصلے پر گزرتے، ہماری گاڑی کے بریک کارکردگی کا اعلیٰ نمونہ تھے،  ہلکا اشارہ پاتے ہی، گاڑی کسی اڑیل ٹٹو کی مانند رک جاتی، پچھلے حصے  سے بنچوں کے گھسِٹنے اور پھر کیبن کے پچھلے حصوں سے ٹکرانے کا شور بلند ہوتا  جس کے بعد ڈرائیور کی شان میں ناقابلِ تحریر  اسمِ صفات کا غلغلہ بلند ہوتا اور بعد میں ڈرائیونگ پریکٹس کے بعد اترنے والا دوڑ کر اگلی گاڑی میں بیٹھ کر اپنے ساتھیوں کو جو اسے واجب القتل قرار دے چکے ہوتے،  قتل جیسے قبیح جرم سے بچاتا۔
            کلاس کاروائی بھی جاری تھی، اور انسٹرکشنل پریکٹس بھی زوروں پر تھیں،  مڈ ٹرم ٹیسٹ ہوا ، ہمارے غیر ملکی ساتھی بری طرح فیل ہوئے،  ہماری تھوڑی عربی کی شدھ بدھ کی وجہ سے ہمارے حصے میں  فلسطینی سٹوڈنٹ لیفٹنٹ فواد الباقی آئے انہوں نے انگلش کو انگریزی میں تبدیل کیا اور ہم نے عربی کو عجمی میں، ایک دن ویسے ہی ہم نے اسے کہا ،کہ وہ سوالوں کے جواب انگلش میں دینے کے بجائے عربی میں دے۔ اس کے جواب سن کر ہم حیران ہوگئے، اسے لکھنے کا کہا تو اس نے اتنی خوبصورت عربی لکھائی میں جواب لکھا، کہ بیان سے باہر وہ جواب ہم نے  کیپٹن مغنی، کو دیا اور انہیں بتایا کہ، لیفٹنٹ فواد کا ٹیسٹ انگلش کے بجائے عربی میں لیا جائے تو شائد وہ پاس ہوجائے،   چیف انسٹرکٹر لیفٹنٹ کرنل  حسن ،عربی کے ماہر تھے انہوں نے اْس کا پرچہ دیکھا، اور یوں فائینل امتحان میں  لیفٹنٹ فواد، ہم سے زیادہ نمبر لے کر کامیاب ہوئے۔
            دن گذرتے رہے  اور آخر ہم  ’’ مکینیکل ٹرانسپورٹ آفیسر“  کا امتحان جانگسل پاس کرکے واپس سوئے مقتل روانہ ہوتے ہوئے، اپنے ذہن میں یونٹ کی  ’’ مکینیکل ٹرانسپورٹ“ کو  جدید خطوط پر استوار کرنے کے مختلف، منصوبوں پر کو پروان چڑھاتے یونٹ پہنچے، دوسرے دن جب وردی پہن کر یونٹ پہنچے،  تاکہ یونٹ کی   ’”مکینیکل ٹرانسپورٹ آفیسر“ کی ذمہ داری سنبھالیں،  لیکن اْس کے بجائے ہمیں ٹل سے دور افتادہ مقام،  اِنذر گڑھ کے بلند وبالا پہاڑ پر آبزرور کے فرائض سنبھالنے کے لئے روانہ ہونے کا حکم ملا۔بقول شخصے،
مجنوں نظر آتی ہے لیلا نظر آتا ہے
 فوج میں ہر معاملہ الٹا نظر آتا ہے
 
اگلا مضمون :۔ جاری ہے ۔
 ٭٭٭٭٭ ٭٭٭٭٭

نوٹ: بوڑھے کی فوجی زندگی کے جوانی کے صرف پانچ سال کے چیدہ چیدہ واقعات آپ نے پڑھے۔ ریٹائمنٹ کے بعد کُلّی سویلیئن زندگی گذارنے کے بعد ، بوڑھے کا واسطہ پھر فوجیوں سے کیا پڑا ، ماضی پھر یاد آگیا ۔

 ٭٭٭٭  فوجی بوڑھا نہیں ہوتا   ٭٭٭٭٭

 


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

خیال رہے کہ "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ !

افق کے پار
دیکھنے والوں کو اگر میرا یہ مضمون پسند آئے تو دوستوں کو بھی بتائیے ۔ آپ اِسے کہیں بھی کاپی اور پیسٹ کر سکتے ہیں ۔ ۔ اگر آپ کو شوق ہے کہ زیادہ لوگ آپ کو پڑھیں تو اپنا بلاگ بنائیں ۔