انسان زمانے کی رفتار کے
ساتھ قدم ملا کر چل رہاہے بلکہ دوڑ رہا ہے، نئے راستے نئی منزلوں کی طرف لے
جاتے ہیں، تلاشِ روزگار اِسے جستجو کی ایسی دنیا سے گذارتی ہے، جہاں وہ ارد
گرد کے ماحول میں خود کو ضم کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ لیکن کبھی وہ محض ایک
حیرت زدہ تماشائی کی مانند خود کو دنیا کی سب سے انوکھی مخلوق سمجھتا ہے۔
ہم بھی احساسات،
تفکرات اور تخیّل کی دنیا سے باہر نکلے تو محسوس ہوا کہ ہم انفنٹری سکول کو کورس
مکمل کر چکے ہیں اور اب ماشاء اللہ کسی پلاٹون کو لے کر دشمن
کو لوہے کے چنے چبواسکتے ہیں، Raid اور Ambushمیں
ہم خود کو طاق سمجھنے لگے، Verbal
Orderکا یہ بند تو ہمارے دل کی آواز بن
گیا۔
”کمانڈر“ ۔۔ میں خود ! ّ“
پہلے سینئر کی نظر میں ہم خام مال تھے اب شائد خاص مال ہو
گئے تھے۔ خیالات کی لہروں میں ڈوبتے ابھرتے کوئیٹہ سے ”ٹل“ کی
طرف عازم سفر تھے، جہاں ہماری رجمنٹ ہمارا انتظار کر رہی تھی۔ کوہاٹ سے ٹل
تک کا سفر، ہماری زندگی کا یادگار سفر تھا۔ دل میں شدت سے خواہش جاگزیں
ہوئی، کہ کاش ہم کسی سکول کے طالبعلم ہوتے اور ہمیں امتحان میں ”میری زندگی
کا یادگار سفر“ پر مضمون لکھنے کو دیا جاتا، تو بیس میں سے بیس نہ سہی
پندرہ نمبر ضرور آتے-
ان دنو ں پیر ودھائی ، نیا
بس سٹینڈ بنا تھا ، وہاں سے نو بجے ،کوہاٹ کی بس لی ، جو وایا جنڈ کوہاٹ
چار گھنٹے میں پہنچی ، کوہاٹ بس اڈے پر ٹل کی بس کھڑی تھی ، بس میں بیٹھے عجیب سی
بدبو ، نتھنوں میں گھسی فرش پر دیکھا ، تو نسوار ہی نسوار ، دل متلی ہوا باہر آگئے
اگلی بس آئی ، تو معلوم ہوا اس میں بھی یہی حال ہے ، ٹرین کا معلوم کیا تو صبح ساڑھے
چھ بجے وقت تھا اور ہمیں رات بارہ بجے سے
پہلے ٹل پہنچنا تھا ، چار و ناچار ڈرائیور
کی پچھلی سیٹ پر سامان رکھا اور اتر گئے ، گھنٹے بعد بس ڈرائیور نے ہارن پر ہارن بجانا شروع کیا ، آخر میں ہم سوار ہوئے ۔
بس میں دیکھا کوئی انسان نہیں تھا سب پٹھان تھے ، کسی کا اوپر کا ہونٹ پھولا ہوا تھا ، کسی کا نیچے کا ، کچھ ، نسوار کی گولی بنا رہے تھے ، اور کچھ نسوار کی ڈبی میں سیلفی دیکھ کر مونچھیں ٹھیک کر رہے تھے ، ہمارے ساتھ بیٹھے ہوئے ، ایک پچاس سالہ پٹھان نے جیب سے ڈبی نکالی اور ہمیں پیشکش کی ، کہ یہ اعلیٰ قسم کی نسوار ہے ۔ لیکن ہم نے معذرت کی ، اس نے ڈبی کھولی نسوار نکالی ، گولی بنائی اور اپنے منہ کے چیمبر میں لوڈ کر لی ، تھوڑی دیر بعد دونوں ٹانگوں کو دائیں بائیں کیا اور اپنے پیروں کے درمیان بس کے فرش پر پچکاری مار دی ۔ہم نے تہیہ کر لیا ، کہ فوجی ٹرک ڈھائی ٹن کے پیچھے ، بیٹھ کر جائیں گے لیکن ، کوہاٹ سے ٹل یا ٹل سے کوہاٹ ، کبھی بس میں سفر نہیں کریں گے ۔
ہنگو پر بس آدھا گھنٹا رکی ، آدھی بس کے مسافر اترے ہم بھی ٹانگیں سیدھی کرنے ، بس سے اترے ، بس کے اوپر نظر پڑی تو چھت غالبا ً اس بس کا زنان خانہ تھا ، واپس گھوم گھام کر بس میں سوار ہوئے تو ، بس میں سفر نہ کرنے کے ارادے پر ، آدھی بس میں بھری ہوئی بکریوں اور ان کی لیلاؤں نے پکی مہر ثبت کر دی ، ہمارے ہاں تو بکریوں کو "انگیہ " پہنائی جاتی ہے ۔ سوچا اگر ہمیں اقتدار ملا ، تو راولپنڈی مال روڈ میں داخل ہونے والے تانگوں کی طرح پیچھے بوری بندھوانے کے بجائے ، بکریوں اور ان کی لیلاؤں کو " نیپی " پہنوانے کا قانون جاری کریں گے ، کیوں کہ بس میں پٹھانوں کے پسینے ، نسوار کی بو اور بکریوں کی مینگنیوں اور پیشاب نے ، ایک ایسی بو ُ کا مرکب بنایا ، جو پی ایم اے میں بٹالین میس کے پیچھے بہنے والے نالے کے اندر پائی جانے والی بدبو سے ہزار گنا طاقتور اور دماغ پھاڑ تھی ، ہم چونکہ کھڑکی کے پاس بیٹھے تھے ، اس میں سریئے لگے ہونے کی وجہ سے ، گردن باہر نہیں نکال سکتے تھے ، لہذا ناک باہر نکال کر خود کو ، اس بس کے سفر کا عادی ہونے سے بچاتے ہوئے شام سات بجے ، ٹل کینٹ کی بیرونی حدود میں داخل ہوئی اور کوہاٹ پِکٹ کا چکر کاٹ کر رُک گئی -
" چیک پوسٹ والا اترو " کنڈکٹر نے نعرہ لگایا " قلعہ جانے والا بیٹھا رہ "
ایم پی چیک پوسٹ پر اترے تو ٹل گیریژن ہمارے سامنے تھا، ہر طرف کیکر کی جھاڑیاں نظر آرہی تھی ، ایک شکستہ سڑک دائیں سے بائیں کے طرف جا رہی تھی ۔ گیٹ سے سامنے جانی والی سڑک قدرے بہتر تھی ۔گیٹ پر جاکر تعارف کروایا اور آفیسر میس کا محل وقوع پوچھا -
" سر یہ سڑک سیدھے چلے جائیں ، پہلے رائیٹ ٹرن پر سوگز دائیں طرف آفیسروں کی بیرک ہے ، وہاں آرٹلری والے رہتے ہیں ۔ ہمارا سامان اُٹھا کر ایک نوجوان ساتھ ہو لیا ۔ جو ہماری یونٹ کا تھا اور گارڈ دستے میں شامل تھا ۔
ہم آفیسروں کی بیرک کی طرف روانہ ہو گئے۔ لینڈ مارکس کی مدد سے آفیسرز میس پہنچے، تو ہماری گھگھی بند گئی، غور سے دیکھا مگر یقین نہیں آیا، کہ یہاں آفیسرزرہتے ہیں ، ہوسکتا ہے۔بَٹ مینوں کی ہو ، آفیسرز آگے رہتے ہوں ، بہرحال یہ ایک لمبی انگریزوں کے زمانے میں بنائی ہوئی چھ کمروں پر مشتمل بیرک تھی جس کا برآمدہ کسی وقت بھی زمیں بوس ہو سکتا تھا۔لیکن خضر راہ نے یقین دلایا کہ یہی آفیسر میس ہے، مت پوچھئیے ہماری کیا حالت ہوئی، میس میں آفیسرز، ندارد ابھی ہم حیرت زدہ کھڑے تھے کہ خضر راہ ہمارے بیٹ میں کو کہیں سے ڈھونڈھ لایا، اس کی پوری بتیسی شاید ہمارے بے کسی کا مذاق اڑا رہی تھی، وہ ہمیں لے کر ہمارے کمرے کی طرف بڑھا، معلوم ہوا کہ آفیسرز گیم کے لئے گئے ہوئے ہیں۔ پہلے کمرے میں 28میڈیم کے کیپٹن جعفری، دوسرے کمرے میں کیپٹن نور الامین ایڈجوٹنٹ تھے، تیسرے کمرے کیپٹن محمود اور لیفٹنٹ خالد، چوتھے کمرے میں لیفٹنٹ اقبال، ہمیں پانچواں کمرہ الاٹ ہوا اور چھٹا کمرہ، گیسٹ روم تھاجس میں باہر سے آنے والے آفیسر ٹہرتے تھے۔کمرے میں داخل ہوئے، صدیوں کی بارشوں نے چونے کی دیوار جو کسی زمانے میں سفید رہی ہوگی، پر تجریدی آرٹ کے نمونے بنائے ہوئے تھے، برسات میں غسل خانے میں جانے کی زحمت نہیں اٹھانا پڑتی تھی، بس صرف صابن اور تولیہ ساتھ رکھنا شرط تھی، ہماری چھت جو ہمیں صرف دھوپ سے بچاتی تھی، رات کو چوہوں کے کے کھیل کے میدان کا بھی کام دیتی تھی۔
بس میں دیکھا کوئی انسان نہیں تھا سب پٹھان تھے ، کسی کا اوپر کا ہونٹ پھولا ہوا تھا ، کسی کا نیچے کا ، کچھ ، نسوار کی گولی بنا رہے تھے ، اور کچھ نسوار کی ڈبی میں سیلفی دیکھ کر مونچھیں ٹھیک کر رہے تھے ، ہمارے ساتھ بیٹھے ہوئے ، ایک پچاس سالہ پٹھان نے جیب سے ڈبی نکالی اور ہمیں پیشکش کی ، کہ یہ اعلیٰ قسم کی نسوار ہے ۔ لیکن ہم نے معذرت کی ، اس نے ڈبی کھولی نسوار نکالی ، گولی بنائی اور اپنے منہ کے چیمبر میں لوڈ کر لی ، تھوڑی دیر بعد دونوں ٹانگوں کو دائیں بائیں کیا اور اپنے پیروں کے درمیان بس کے فرش پر پچکاری مار دی ۔ہم نے تہیہ کر لیا ، کہ فوجی ٹرک ڈھائی ٹن کے پیچھے ، بیٹھ کر جائیں گے لیکن ، کوہاٹ سے ٹل یا ٹل سے کوہاٹ ، کبھی بس میں سفر نہیں کریں گے ۔
ہنگو پر بس آدھا گھنٹا رکی ، آدھی بس کے مسافر اترے ہم بھی ٹانگیں سیدھی کرنے ، بس سے اترے ، بس کے اوپر نظر پڑی تو چھت غالبا ً اس بس کا زنان خانہ تھا ، واپس گھوم گھام کر بس میں سوار ہوئے تو ، بس میں سفر نہ کرنے کے ارادے پر ، آدھی بس میں بھری ہوئی بکریوں اور ان کی لیلاؤں نے پکی مہر ثبت کر دی ، ہمارے ہاں تو بکریوں کو "انگیہ " پہنائی جاتی ہے ۔ سوچا اگر ہمیں اقتدار ملا ، تو راولپنڈی مال روڈ میں داخل ہونے والے تانگوں کی طرح پیچھے بوری بندھوانے کے بجائے ، بکریوں اور ان کی لیلاؤں کو " نیپی " پہنوانے کا قانون جاری کریں گے ، کیوں کہ بس میں پٹھانوں کے پسینے ، نسوار کی بو اور بکریوں کی مینگنیوں اور پیشاب نے ، ایک ایسی بو ُ کا مرکب بنایا ، جو پی ایم اے میں بٹالین میس کے پیچھے بہنے والے نالے کے اندر پائی جانے والی بدبو سے ہزار گنا طاقتور اور دماغ پھاڑ تھی ، ہم چونکہ کھڑکی کے پاس بیٹھے تھے ، اس میں سریئے لگے ہونے کی وجہ سے ، گردن باہر نہیں نکال سکتے تھے ، لہذا ناک باہر نکال کر خود کو ، اس بس کے سفر کا عادی ہونے سے بچاتے ہوئے شام سات بجے ، ٹل کینٹ کی بیرونی حدود میں داخل ہوئی اور کوہاٹ پِکٹ کا چکر کاٹ کر رُک گئی -
" چیک پوسٹ والا اترو " کنڈکٹر نے نعرہ لگایا " قلعہ جانے والا بیٹھا رہ "
ایم پی چیک پوسٹ پر اترے تو ٹل گیریژن ہمارے سامنے تھا، ہر طرف کیکر کی جھاڑیاں نظر آرہی تھی ، ایک شکستہ سڑک دائیں سے بائیں کے طرف جا رہی تھی ۔ گیٹ سے سامنے جانی والی سڑک قدرے بہتر تھی ۔گیٹ پر جاکر تعارف کروایا اور آفیسر میس کا محل وقوع پوچھا -
" سر یہ سڑک سیدھے چلے جائیں ، پہلے رائیٹ ٹرن پر سوگز دائیں طرف آفیسروں کی بیرک ہے ، وہاں آرٹلری والے رہتے ہیں ۔ ہمارا سامان اُٹھا کر ایک نوجوان ساتھ ہو لیا ۔ جو ہماری یونٹ کا تھا اور گارڈ دستے میں شامل تھا ۔
ہم آفیسروں کی بیرک کی طرف روانہ ہو گئے۔ لینڈ مارکس کی مدد سے آفیسرز میس پہنچے، تو ہماری گھگھی بند گئی، غور سے دیکھا مگر یقین نہیں آیا، کہ یہاں آفیسرزرہتے ہیں ، ہوسکتا ہے۔بَٹ مینوں کی ہو ، آفیسرز آگے رہتے ہوں ، بہرحال یہ ایک لمبی انگریزوں کے زمانے میں بنائی ہوئی چھ کمروں پر مشتمل بیرک تھی جس کا برآمدہ کسی وقت بھی زمیں بوس ہو سکتا تھا۔لیکن خضر راہ نے یقین دلایا کہ یہی آفیسر میس ہے، مت پوچھئیے ہماری کیا حالت ہوئی، میس میں آفیسرز، ندارد ابھی ہم حیرت زدہ کھڑے تھے کہ خضر راہ ہمارے بیٹ میں کو کہیں سے ڈھونڈھ لایا، اس کی پوری بتیسی شاید ہمارے بے کسی کا مذاق اڑا رہی تھی، وہ ہمیں لے کر ہمارے کمرے کی طرف بڑھا، معلوم ہوا کہ آفیسرز گیم کے لئے گئے ہوئے ہیں۔ پہلے کمرے میں 28میڈیم کے کیپٹن جعفری، دوسرے کمرے میں کیپٹن نور الامین ایڈجوٹنٹ تھے، تیسرے کمرے کیپٹن محمود اور لیفٹنٹ خالد، چوتھے کمرے میں لیفٹنٹ اقبال، ہمیں پانچواں کمرہ الاٹ ہوا اور چھٹا کمرہ، گیسٹ روم تھاجس میں باہر سے آنے والے آفیسر ٹہرتے تھے۔کمرے میں داخل ہوئے، صدیوں کی بارشوں نے چونے کی دیوار جو کسی زمانے میں سفید رہی ہوگی، پر تجریدی آرٹ کے نمونے بنائے ہوئے تھے، برسات میں غسل خانے میں جانے کی زحمت نہیں اٹھانا پڑتی تھی، بس صرف صابن اور تولیہ ساتھ رکھنا شرط تھی، ہماری چھت جو ہمیں صرف دھوپ سے بچاتی تھی، رات کو چوہوں کے کے کھیل کے میدان کا بھی کام دیتی تھی۔
سینئیر آفیسرز سے
ملاقات ہوئی، تو پتہ چلا کہ ہم بھی سینئیر ہوگئے ہیں، گویا ”ملٹری سیکریٹری
برانچ“ کو ہماری آنے والے دنوں کی بے چارگی پر ترس آگیا انہوں نے ہمیں
”سر“ کہنے کے لئے ایک جونئیر، سیکنڈ لیفٹننٹ غلام شبیر منہاس کو بھیج دیا،
مگر اِس سچوئیشن نے ہمیں عجیب کشمکش میں مبتلاء کر دیا، جب ہمارا جونئیر ہم
سے سوال پوچھنے سے پہلے، ”سر“ جیسا خوش کن لفظ استعمال کرتا تو مارے
فخر کے ہمارا سینہ چار انچ زیادہ پھول جاتا، مگر کسی سینئر کے سوال پر یہ پھولا
ہوا سینہ یک دم پچک جاتا یوں ہم اپنی کمزور اور ناتواں پسلیوں کو زبردستی ورزش
کرواتے اور رات کو اِن کی صدائے احتجاج سنتے۔ اکثر پڑھا اور سنا ہے کہ شعراء
کو جب غصہ آتا تو اسمان کو لتاڑتے ہیں اور جب رونا آتا ہے تو آسمان سے گلے شکوے
شروع ہوجاتے ہیں، مگر ہم کبھی شعرا ء کے اِس فعل سے متفق نہیں ہوئے، ورنہ
اردوء ادب کی اس دنیا کو ایک شاعر کے پیدا ہونے کا بھرپور صدمہ اٹھانا پڑتا۔
یونٹ کے آفس میں
ہمارا داخلہ سختی سے بند تھا، ہم جوانوں کی گنری ون کی کلاس میں ہم
پیچھے بیٹھتے اور ان کی چلنے والی کلاس سے ہم بھی مستفید ہوتے، “حوالدار جنگی” کبھی کبھی
فیلڈ گن پر ہمیں گن کے حصوں پرزوں کے بارے میں مفید معلومات مہیا کرتا، تو
مکینیکل ٹرانسپورٹ جے سی او، ہمیں فوجی گاڑیوں کے بارے میں جانکاری مہیا
کرتا، کوارٹر ما سٹر سٹور میں ہمارا دن، اس چیز کو سمجھنے میں گذرتا
کہ ایک جوان کو فوج میں کیا کیا اشیاء مہیا کی جاتی ہیں اور یونٹ میں کیا
کیا اشیاء امن کے زمانے کے لئے ہوتی ہیں اور کیا کیا جنگ کے زمانے کے
لئے،
ہماری ڈائری ان سب معلومات سے بھرتی جا رہی تھی، گویا یونٹ کی
پوری، ”ٹی، او اینڈ ای“ ہماری جیب میں ہوتی، جونئیر ہونے
کی وجہ سے، ہفتے میں تین دفعہ ڈیوٹی آفیسر بھی بنتے، یوں سمجھیں کہ سر کڑھائی میں
تھا اور وہ بھی اُبلتی ہوئی، شبیر تو انفنٹری سکول کی طرف موجیں اُڑانے
روانہ ہو گیا، اور ہم ظلم و جبر کی چکی میں پسنے لگے۔
آخر کمانڈنگ آفیسر کو رحم
آگیا، انہوں نے از راہ ترحم پوچھ لیا، کہ چھٹی وغیرہ جانے کا موڈ تو نہیں،
ہم نے ہاں میں سرہلادیا، چار جون کو ایک ماہ کی چھٹی لے کر گھر کی طرف روانہ ہوئے،
جو پانچ جولائی کی شام کو ختم ہونا تھی ، لیکن ہم نے تہیہ کیا تھا ، کہ آئیندہ کوہاٹ سے ٹل بس سے نہیں جائیں گے ، لہذا
ہمیں تین تاریخ کی شام تک لازمی کوہاٹ پہنچنا ہے ، اور یہ ہماری زندگی کا اصول بن
گیا ، کہ ہنگامی چھٹی سے ایک دن پہلے ، اور مہینے کی چھٹی سے دو دن پہلے ، یونٹ میں پہنچ جائیں ، ٹل سے میرپورخاص کا سفر
ڈھائی دن میں کٹا، وہاں پہنچے تو معلوم ہوا کہ والدہ ماجدہ نے، بچے کے نوکری
پر لگتے ہی اس کی شادی کا پروگرام بنا لیا ہے، بڑی مشکل سے منگنی پر جان یہ
کہہ کر چھوٹی کہ فوج میں کمانڈنگ آفیسر کی اجازت کے بغیر داڑھی نہیں رکھ سکتے،
آپ نابالغ سیکنڈ لفٹین سے شادی جیسا گناہ کبیرہ کروا رہی ہیں، وہ پریشان ہو
گئیں کہ ساڑھے تیئس سال کا بڈھا گھوڑا، نابالغ کیسے ہو، بڑی مشکل سے اماں کو
سمجھایا کہ فوج میں شادی کے لئے بلوغت کی عمر 26 سال ہے، اگر کمانڈنگ آفیسر کی
اجازت کے بغیر سہرا باندھ لیا تو جنرل بننا دور کی بات سیکنڈ لفٹینی میں، اپنی
خطاء کی وجہ سے ریٹائر ہونا پڑے گا-
تیس جون 1977 ہماری ہونے
والی بیوی کا یادگار دن بنا،دو جولائی کو ہم اپنی منگیتر کو دیکھے بغیر ٹرین
میں بیٹھے اور پانچ جولائی کو، کوہاٹ سے واپس پشاور کے لئے روانہ ہوئے ، یہ دن ہماری تو نہیں پاکستانی، البتہ پاکستان
کی فوجی تاریخ کا یاد گار دن بنا، کیوں کہ اس دن پاکستان کے لوگوں نے
تیسری بار ، ”میرے عزیز ہم وطنو “ سنا ۔
کہیں نقارے بجے اور کہیں ماتم ہوا۔
کہیں نقارے بجے اور کہیں ماتم ہوا۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں