Pages

میرے چاروں طرف افق ہے جو ایک پردہء سیمیں کی طرح فضائے بسیط میں پھیلا ہوا ہے،واقعات مستقبل کے افق سے نمودار ہو کر ماضی کے افق میں چلے جاتے ہیں،لیکن گم نہیں ہوتے،موقع محل،اسے واپس تحت الشعور سے شعور میں لے آتا ہے، شعور انسانی افق ہے،جس سے جھانک کر وہ مستقبل کےآئینہ ادراک میں دیکھتا ہے ۔
دوستو ! اُفق کے پار سب دیکھتے ہیں ۔ لیکن توجہ نہیں دیتے۔ آپ کی توجہ مبذول کروانے کے لئے "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ پوسٹ ہونے کے بعد یہ آپ کے ہوئے ، آپ انہیں کہیں بھی کاپی پیسٹ کر سکتے ہیں ، کسی اجازت کی ضرورت نہیں !( مہاجرزادہ)

جمعرات، 20 مارچ، 2014

گن پوزیشن آفیسر کا امتحان


   سکول آف آرٹلری میں ، ہماری قابلیت کو جانچنے کے لئے، مختلف طریقے استعمال کئے جاتے  کبھی امتحانی نقطہ (
Spot Test)تو کبھی امتحان خاص، اور عملی امتحان میں امتحان کم اور دوڑ بھاگ زیادہ ہوتی،  جسے ڈیپلائمنٹ   کہا جاتا تھا اور اب بھی یہی نام ہے ، ہمیں بھی  اس عملی سفر میں  جونئیر سے اعلیٰ عہدیدار  " گن پوزیشن آفیسر " کے لئے منتخب کیا اور یوں ہم ایک صبح ہاتھ میں نقشہ لئے ُ اپنے سے نچلے درجے کے نمائندگان و مددگاران کو احکامات دے رہے تھے،  جن میں سے تین ہم سے سنئیر تھے، اور آنکھوں ہی آنکھوں میں ہم کو اپنی شرارتانہ انتقامی منصوبوں کی ہوا پھینک رہے تھے ،جو نوشہرہ کی گرمی میں ہمیں مزید جھلسا رہی تھی، یہاں میں ایک اہم بات بتاتا چلوں، اپنی جملہ حرکات و سکنات کو خفیہ رکھنے کے لئے بچپن میں ُ ”ف“  کی بولی  کا ستعمال کرتے تھے ُ جس میں ہر لفظ میں   ”فے“  کا اضافہ کرتے  جو عام طور پر اکثر بچوں میں مقبول تھی، ”چے  یا  کاف“  بھی شامل کر لئے جاتے، لیکن ہم نے ایک اور خفیہ زبان ایجاد کی۔

      ”ھکو لب ناخ دما“ ہمارے اسسٹنٹ گن پوزیشن آفیسر،  ”میساؤ“ ہمارے  بیٹری حوالدار میجر  ، ”ازائین“ حوالدار ٹیکنیکل اسسٹنٹ ،   ”ناخ بیباہ“ اسسٹنٹ نمبر ون  ”ری ھاز “  اور  ”رھاکی ٹیفی سنئیر“ ہمارے  کمانڈ پوسٹ
TA ٹیکنیکل اسسٹنٹ  سٹاف  تھے۔  جی نہیں ، ایسی کوئی بات نہیں آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے،  نہ یہ مشترکہ کلاس تھی اور نہ ہمارے ساتھ غیر ملکی سٹوڈنٹ کورس کر رہے تھے، بلکہ  یہ ہماری خفیہ زبان  میں لکھے گئے نام ہیں، جسے،”الٹی بولی“ کہتے تھے ۔  ہم حیران تھے کہ چلو باقی سب تو  ہماری  قطارمیں بیٹھنے والے ”طارق بن زیاد“ تھے  لیکن   ”ری ھاز “ کیسے ہماری  ٹولی میں شمار ہو گیا۔ اْس بے چارے کو  میجر یوسف کس جرم ضعیفی کی سزا دے رہے ہیں۔  ہماری ٹولی  "بی- ٹولی "کہلاتی تھی ، جو کلاس کے سب سے آخیری لائن میں  بیٹھتی ، سگریٹوں  اور پائپ سے ،”بیٹری“   بلکہ  خصوصاً ”رجمنٹ“ سموک سکرین ٹارگٹ  بناتی،  میجر یوسف کو شدید غصہ آتا  لیکن مجبور کیوں کہ ان  اچھے دنوں کلاس میں  سگریٹ پینے کی اجازت تھی، کیوں کہ سگریٹ کا پرسکون کش دماغ کے بند گوشے کھولتا تھا ،   لیکن  حقے  کی اجازت  نہیں تھی  ورنہ، سر نیازی، میانوالی سے    "  ھبل ببل مارک 1 سے مارک 5 تک  "ضرور  درآمد کرواتے، جن میں سے ایک ”ھبل ببل  مارک 2“  ان کے کمرے میں موجود ہوتا تھا جس سے تمام یاران ِسگریٹ نوش مستفید ہوتے۔
ڈیپلائمنٹ آرڈرز کے بعد، ہمارا کانوائے  جس میں جی پی او کا ڈاج ٹرک ،  بی ایچ ایم  ”جیپ“ نے پہلے روانہ ہونا تھا اور  اے جی پی او  اور دو گنوں کے ساتھ بعد میں آنا تھا،  دریائے کابل کو کراس کر کے ہم ،  آخر کار اپنی مطلوبہ جگہ ُ پہنچ گئے۔  نقشے کے مطابق ہمار ی پو زیشن میں ایک ٹیلہ تھا  ،بلکہ ریت کا ”ٹبّہ“ کہیں ُ لیکن یہاں تو  ”چھوٹے بڑے ” ٹبوں“ کا ہجوم بے ترتیبانہ تھا ۔  جن سے گذرنے کے بعد  سڑک تو کیا سڑک پر گذرنے والے ٹرک بھی نظر نہیں آتے تھے۔ ہر طرف  ٹینس گیند کے سائز کی خربوزیاں بیلوں سے جڑی  ریت پر بھیلی بے قدری کا تماشا بنی ہوئی تھیں، کیوں کہ یہاں نہ آدم نہ آدم زاد، بس صرف ہم فوجی۔”آک“ کے پودے تھے، جن کے نیچے لیٹ کر ہی سائے سے لطف اندوز ہوا جاسکتا تھا۔ چونکہ سردیوں کا آغاز نہیں ہوا تھا اور دھوپ کاٹتی تھی۔ہم سوچتے تھے کہ ہمارے بعد آنے والا کورس جو سردار جی کی طرح  بادشاہ سلامت  کے لئے نایاب پھل ”تربوز“  لے کر مارچ یا اپریل میں آئے گا، بس اسی تصور سے ہم لطف اندوز ہوتے،

     ہماری کلاس تیس
YOsپر مشتمل تھی، جس کے دو گروپس بنائے جاتے،  اسے طرح  سائن پوسٹنگ بھی دی جاتی، جس کی ذمہ داری  بیٹری حوالدار میجر ،کی ہوتی،  ہمارا گروپ پہلے روانہ ہوا، اس کے گھنٹے بعد دوسرے گروپ نے  آنا تھا۔  ہم  گنزکے جھنڈے لگا کر  ایک ٹیلے پر کھڑے  ”سر حبیب خان“ اسسٹنٹ ون،   کو ایمنگ سرکل گھماتے دیکھ رہے تھے اور میجر یوسف تھوڑی دور کھڑے،  اس منظر سے لطف اندوز ہو رہے تھے،  ہم  دوڑتے ہوء ے آگے  بڑھے اور دبی زبان میں  ”سر حبیب“ کو بتا رہے تھے کہ انہوں نے کیا کرنا ہے، لیکن ایمنگ سرکل، کا ”بلبلہ“  ان کے قابو میں ہی نہیں آرہا تھا،  ہم نے   ”سر حبیب“ کو ایک طرف ہٹایا اور خود ”ببل“ کو سنٹر کرنے کے لئے ایمنگ سرکل کو چھیڑا تو  میجر یوسف نے آواز لگا،
”خالد! اسے چھوڑ دو تمھارا کام نہیں“۔ ہم بجلی کی تیزی سے پیچھے ہٹے، ”توپیں کیوں نہیں آئیں اب تک؟“ 

ہم ان دونوں کو وہیں چھوڑ کر کمانڈ پوسٹ کی طر ف دوڑے ،  وائر لیس سیٹ پر، اے جی پی او، احمد خان  بلوچ سے پوچھا، کہ وہ کہاں ہے؟
اس نے بتایا کہ وہ ، مطلوبہ مقامِ ملن  (
RV) پر پہنچ چکے ہیں بی ایچ ایم  ، وسیم الرحمان قریشی ، وہاں نہیں پہنچا، ہم نے کہا، کہ وہ  سائن پوسٹ کو دیکھتے ہوئے خود آجائیں، ویسے بھی دیر ہو رہی ہے۔ ہم کمانڈ پوسٹ میں فائرنگ چارٹ پر مصروف ہوگئے۔ ٹیکنیکل اسسٹنٹ  نمبر ٹو، سردار ا حمد یار جنگ نے بتایا کہ،میجر یوسف آرہے ہیں، ہم نے ٹیلے کی طرف دیکھا،”سر حبیب خان“  ایمنگ سرکل کو گھما رہے تھے، گویا ”ببل“ سنٹر کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں، میجر یوسف کمانڈ پوسٹ کی طرف آدھے راستے میں تھے وائرلیس پر، اے جی پی او احمد خان پیغام آیا ، کہ وہ  ” بی گروپ۔ کی پوزیشن میں پہنچ کر، کیپٹن افضل سے ڈانٹ کھانے کے بعدسڑک پر پہنچ کر  گن پوزیشن کی طرف آرہا ہے،

میجر یوسف ، کمانڈ پوسٹ پر پہنچے، تو گن گروپ پہنچ گیا اور دونوں گنز اپنی پوزیشن  پر کھڑی ہوگئیں،  ہم ایمنگ سرکل کی طرف دوڑے، جہاں جو کہانی ہوئی وہ بیان کردوں تو آپ بھی ہم سے تعزیت کرنے والوں میں شامل ہو جائیں گے، کیوں کہ جب ہم نے گنز کے ر یکارڈنگ  اینگل نکالے اور انہیں بیرنگ میں تبدیل کیاتو ہماری ہاتھوں کے طوطے اُڑ گئے،  وہ اینگلز لگانے کے بعد توپوں کا رخ، ”بلیو لینڈ“ کے بجائے ”فاکس لینڈ“ کی طرف ہوجاتا اور ۔۔۔۔۔۔  !

    ہم  نے،”سر حبیب خان“  کی طرف دیکھا اور پوچھا۔”سر آپ نے اسے نارتھ پر کیسے سیٹ کیا ہے؟“ 
ان  کا جواب سنتے ہی ہم، ”اے مظلوم  گن پوزیشن آفیسرکے خدا، آج معاف کردے“
کی دعا مانگتے ہوئے توپوں کی طرف دوڑے، دونوں توپوں کے پیچھے کھڑا ہو کر، باری باری دونوں کو ”لائن آف فائر“ پر کمپاس کی مدد سے ریکارڈ کروایا، اور ”ریکارڈ  آن گن ایمننگ “ کا آرڈر دے کر کمانڈ پوسٹ کی طرف دوڑے اور  کمانڈ پوسٹ کی طرف جاکر  نعرہ  مارا، 
” چیک ایمنگ سرکل، اینڈ ریکارڈ دی گنز“
اور کمانڈ پوسٹ میں آکر، بورڈ چیک کئے اور وائرلیس پر آبزرور کو چلا کر بتایا ۔
ُ”  بیٹری ریڈی ، آن بیٹری گرڈ   کی رپورٹ دی“ 
او ر کمانڈ پوسٹ کے سامنے آکر، میجر یوسف کو سلیوٹ مارا، ”سر بیٹری ریڈی آن بیٹری گرڈ  سر“
"ٹھیک ہے سب کو جمع کرو" میجر یوسف  نے حکم دیا ۔

  ہم نے  
بی ایچ ایم ،  وسیم الرحمان کو تعمیل کا حکم دیا، میجر یوسف نے سب سے، ان کی کارکردگی کے بارے میں پوچھا،  آخر میں ہماری کارکردگی پوچھنے کے بجائے ُ مسکراتے ہوئے اپنی چھڑی سے اپنے ٹخنوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا،
Kahlid, you have brain
" " اگر تم گنز کو ایمنگ سرکل سے ریکارڈ نہ کرواتے تو تم اور حبیب یہاں سے  نوشہرہ پیدل جاتے“

 ہم نے تشکر میں آسمان ی طرف دیکھا اور لیفٹنٹ اقبال کا دل میں شکریہ ادا کیا،  ہمارے ذہن میں ہمارے لیفٹنٹ سر اقبال کی ہدایت گونج رہی تھی جو نوشہرہ آنے سے پہلے ہمارے روم میٹ تھے۔اور اپنی داستان غمِ  بتاتے ہوئے نصیحت کی،
”نعیم، تم خوش قسمت ہوگے کہ اگر تمھیں آئی جی نے، عقلمند  اسسٹنٹ ون  دیا،  اور  پہلی ڈپلائیمنٹ میں اگر   اسسٹنٹ ون   ،  نارتھ پر ایمنگ سرکل سیٹ کرلے تو وہ  کورس میں کم از کم " بی پلس "گریڈنگ لے گا۔ ورنہ میں تم کو کمپاس سے گنز ریکارڈ کروانا پڑیں گی اور لازمی کروانا، ورنہ ۔۔۔۔۔۔۔۔  “  

واپسی پر بی ۔ ایچ -ایم ،  وسیم الرحمان  سے معلوم ہوا  کہ ”بی گروپ“ کے بی ۔ ایچ -ایم ، نے صبح اپنے ”بیٹ مین“ کو سائن پوسٹ لینے سٹور بھیجا تو وہ  ”اے گروپ“  کاسامان لے گیا، اور وسیم مجبوراً  ”بی گروپ“  کا سامان لانا پڑا، اس طرح  احمد خان  بلوچ کو کیپٹن افضل سے، محبت بھرا لیکچر سننا پڑا، ہماری کورٹ نے،  بی ۔ ایچ -ایم ،   وسیم الرحمان کو جرمانہ سنایا، جو اس نے ویک اینڈ پر پشاور میں ”چکن کارن سوپ“ کی شکل میں ادا کیا، جو  احمد، ہم او ر ” سر اِفتی “  نے قبول کیا۔ 

ہم چاروں       سر اِفتی ، احمد خان ، وسیم اور میں ، "  
پیدائشی انفنٹیرین"  تھے اور ہم بھی یہی لوگوں کو باور کرواتے تھے۔
ہمارا گروپ  اپنی مجموعی حرکات کی بنا پر،  ”طارق بن زیاد گروپ“ کہلاتا تھا، جو اپنی تمام کشتیاں جلا نے کی کوششوں  میں مگن تھے تاکہ کسی نہ کسی طرح،آرٹلری سے انفنٹری کی طرف دھکیل دیئے جائیں“  ہماری پوری کوشش ہوتی تھی کہ ہم اپنے اس کورس کی چائے میں اتنی چینی ڈالیں کہ بس میٹھی ہوجائے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

خیال رہے کہ "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ !

افق کے پار
دیکھنے والوں کو اگر میرا یہ مضمون پسند آئے تو دوستوں کو بھی بتائیے ۔ آپ اِسے کہیں بھی کاپی اور پیسٹ کر سکتے ہیں ۔ ۔ اگر آپ کو شوق ہے کہ زیادہ لوگ آپ کو پڑھیں تو اپنا بلاگ بنائیں ۔