ہم نے ہائے ہائے کی
آڑ میں ہنسی ضبط کرتے ہوئے کہا، ”یار یہ کمبخت ہیں ان کا کوئی بھروسہ نہیں۔ معلوم
نہیں یہ ہمیں چھوڑ کر کہاں چلے گئے ہیں“۔
دس
منٹ تک ہم چپ چاپ لیٹے رہے، میں نے ارشاد قمر
کو کہا میرے ہاتھ کھولو، اس نے میرے ہاتھ اور پاؤ ںکھولے، ہم دونوں پھر بیٹھ گئے، ارشاد قمر نے کچھ کہنا چاہا، میں نے ہونٹوں پر انگلی رکھ
کر چپ ہونے کا اشارہ کیا، اور بنکر کے دروازے پر جا کے باہر جھانکا، اس وقت غالباً
کوئی گیدڑ، بنکر کی طرف آنے کی کوشش کر رہا تھا اس کے بھاگنے سے کھڑ کھڑ ہوئی ئے میں
دبے پاؤں واپس آیا اور ارشاد قمر کے کان میں
بولا،
”باہر
کوئی پہرہ دے رہا ہے، میں یہاں سے دیکھتا ہوں“
بنکر کے پچھلے حصے سے
باہر نکل کر دیکھا ، پھر ارشاد قمر کو
باہر آنے کا اشارہ کیا، ہم دونوں چپ چاپ چلتے، وہاں سے نکلے، یہ ہمارے پلان کا
دوسرا حصہ تھا جس میں فرار کی تمام تکنیک استعمال کیں، خوف اور سسپنس (صرف ارشاد
قمر) کے لئے نے کہانی میں جان ڈال دی، کوئی
پتہ کھڑکتا تو ہم زمین سے چھپکلی کی مانند چپک جاتے، جب نالا پار کرنے لگتے تو One Leg on the Ground کا طریقہ اپناتے،
قارئین
اس سے یہ نہ
سمجھیں کہ ہم ایک ٹانگ پر اچھلتے ہوئے سو یا دوسو گز چوڑے نالے کو عبور
کرنے کے
ماہر ہیں، اسکامطلب ہے کہ پہلے قمر نالہ کراس کرتا اور پھر ہم ، بہرحال
اسی طرح کے نشیب و فراز سے گذرتے ہوئے، ہم ایک ایسے نالے میں
پہنچے جہاں سیمنٹ کے بڑے بڑے بلاک، ٹینکوں کو روکنے کے لئے انگریزوں نے
رکھے تھے۔ یہاں
ہم نے خوشی کا مظاہر ہ کرتے ہوئے سیکنڈ لیفٹنٹ
ارشاد قمر کو بتایا کہ یہ پاکستان اور
افغانستان کے درمیان بین الاقوامی سرحد ہے، یہ سننا تھا کہ ارشاد قمر، فوراً زمین
پر بیٹھ گیا،
”کیا
کر رہے ہو؟“ ہم نے ڈرتے ڈرتے پوچھا،
سر، اللہ کا شکر ادا کر رہا ہوں“۔ ہماری کچھ ہمت بندھی ورنہ ہم تو سمجھے تھے کہ شاید کوئی پتھر اٹھا کر ہمارے سر پر مارنے والا ہے۔
بین الاقوامی
سرحد پار کرتے ہی ارشاد قمر کا اعتماد
بحال ہوگیا، کیوں کہ اب ہم اپنے علاقے میں آگئے تھے۔ میں نے سوچا، کہ جب آدمی، کے
اوسان بحال ہوجائیں تو اس کی تجزیاتی صلاحیتیں دو اور دو چار کرنے کی کوششوں میں
لگ جاتی ہیں، اور وہ حقیقتوں کو پرکھتے ہوئے
اور ان کا حالات سے موازنہ کرنے کے بعد حتمی نتیجے پر پہنچ جاتا ہے۔ لہذا
ہم نے اپنی غم زدہ آواز میں کہا،
” ارشاد، ہم قبائلیوں سے تو بچ آئے، لیکن ایک اور بڑی مصیبت
ہمارا انتظار کر رہی ہے۔ جس سے مفر ممکن نہیں“
”سر
وہ کیا؟“ ارشاد قمر نے یک دم پوچھا۔
ہم
نے سپنس پیدا کرتے ہوئے کہا، ”کورٹ مارشل، اب ہم دونوں کا کورٹ مارشل ہوگا، کیوں
کہ ہم نے ''سرکاری گاڑی'' چھوڑ کر بہت بڑا قومی نقصان
کیا ہے۔ اس کے علاوہ یہ بھی یاد رہے، کہ گاڑی میں ہمارے ساتھ ایک ڈرائیور اور تین
جوان بھی تھے، جن کے متعلق ہمیں نہیں معلوم کہ وہ
بچ کر بھاگ گئے یا قبائلیوں کی قید میں ہیں“۔
ارشاد قمر نے جواب دیا، ”یار ہو سکتا ہے، وہ بھی ہماری طرح ان کے قابو نہ چڑھے ہوں ''
ارشاد قمر نے جواب دیا، ”یار ہو سکتا ہے، وہ بھی ہماری طرح ان کے قابو نہ چڑھے ہوں ''
ہم
”یار“ کے تخاطب پر چونکے۔، سینئر کو یار
کہنا، سانپ کے بل پر پیر رکھنے کے مترادف ہے،
ہمارے اور ارشاد قمر کے درمیان، لیفٹنٹ شبیر تھا، لہذا ہم تو بہت ہی سینئیر ہوئے۔ لیکن
چونکہ ہم اس وقت ایک کشتی کے سوار تھے، چپ رہے۔
کیوں کہ ارشاد قمر حالات و واقعات کا تجزیہ کرتے ہوئے اپنی تمام کشتیوں
کے جل جانے پر یقین کر بیٹھا تھا، وہ یقیناً دل میں سوچ رہا ہوگا، اب جب کہ دونوں
کا جرم ایک ہے، دونوں کو سزا ہوگی، تو پھر ”سر“ جیسا ثقیل لفظ استعمال کر کے زبان
کو کیوں زحمت دی جائے۔
چنانچہ ارشاد قمر مزید گویا ہوا،
”یار دیکھو“ اور اپنی قسمت کو کوستا ہوا بولا، ”انسان کی قسمت بھی کتنی بے وفا ہے،
کل تک میں خوش تھا کہ اب ایک نئی زندگی کا آغاز ہو رہا ہے۔ لیکن کیا خبر کہ کمند
کہاں جاکر ٹوٹے گی '' ۔
میں نے تسلی دی، ’’
انسان کی قسمت ، کے ہاتھوں مجبور ہے ،کیاکیا جا سکتا ہے؟ ''
ارشاد قمر نے اپنی
بات آگے جاری رکھتے ہوئے بتایا، ”ہمارے گاؤں میں ایک پائلٹ تھا جو بے چارہ پاس آؤٹ ہونے سے پہلے ہی شہید ہو گیا
اور ایک میں ہوں جو جو یونٹ پہنچتے ہی
قسمت کے بے رحم جال میں جکڑا گیا''
ہم
نے اُس کی ڈھارس بندھائی،” بھائی ، تمھارے
گاؤں میں پھر بھی دو آفیسرز تھے، مجھے دیکھو
پورے ضلع کا اکلوتا فوجی آفیسر ہوں، کیوں
کہ سندھ سے بہت کم لوگ فوج میں آتے ہیں۔ ''
اس
طرح دکھ سکھ کرتے، ہم کوئی تین چار میل
کا چکر کاٹ کر ہم ٹل قلعے میں پہنچے ، کبھی میں اسے کوہاٹ ٹل روڈ ، کراس کرواتا، کبھی انگریزوں کے
زمانے میں بنائی ہوئی لینڈنگ سٹرپ اور فیلڈ ہسپتال کا چکر اس طرح لگواتا، کہ ٹل کے
شمال میں اونچی پہاڑی پر موجود کوہاٹ پکٹ یا
دور جنوب مغرب میں ٹل شہر کی روشنیاں کم
نظر آئیں، بلکہ ایک دفعہ اسے، پوسٹ کی روشنیاں نظر آئیں تو مجھ سے پوچھا،
”یار، یہ وہی پوسٹ نہیں جو ہم نے قلعے سے نکلتے ہوئے، پہاڑی پر دیکھی تھی، ہم اس کے پاس جاکر انہیں بتاتے ہیں کہ ہم پاکستانی آفیسر ہیں''
”یار، یہ وہی پوسٹ نہیں جو ہم نے قلعے سے نکلتے ہوئے، پہاڑی پر دیکھی تھی، ہم اس کے پاس جاکر انہیں بتاتے ہیں کہ ہم پاکستانی آفیسر ہیں''
میں
نے تجاہل عارفانہ اختیار کرتے ہوئے کہا، ”ایسی کئی پوسٹیں، سکاؤٹس اور ملیشیاء نے
باڈر کے ساتھ بنائی ہیں اور افغانیوں نے بھی ڈیورنڈ لائن کے ساتھ بنائی ہیں۔ ہمارے پاس نقشہ نہیں، اب کیسے معلوم ہو کہ یہ
ہماری پوسٹ ہے یا افغانی پوسٹ ہے“۔
قلعے کے گیٹ سے پچاس گز پہلے میں نے ارشاد قمر، کو کہا کہ وہ یہیں بیٹھے، مجھے پاس ورڈ نہیں معلوم ایسا نہ ہو کہ، سنتری
ہم پر فائر کھول دے۔ میں آہستہ آہستہ،
چلتا ہوا، قلعے کے گیٹ پر پہنچا، گیٹ سے آپ یہ نہ سمجھیں کہ یہ لوہے کا بنا ہوا،
کوئی بہت بڑا گیٹ ہے، ٹل چھاونی کے ہر گیٹ،
بشمول ٹل قلعہ کے اصلی تین گیٹوں سمیت سب قلعہ کے گیٹ کہلاتے تھے، یہ لمبے سے، لکڑی کے ڈنڈے سے رکاوٹ بنا کر گیٹ
بنایا ہے۔ گیٹ پر ہمارا سنتری کھڑا تھا،
اس کو اپنا بتایا، وہاں ہمارا ایک نائیک ٹی
اے اقبال،بھی بیٹھا تھا جو اس ڈرامے کا ایک کردار تھا، وہ فوراً دوڑ کر ارشاد قمر، کی طرف گیا اسے، سہارا دے کر گیٹ کے
پاس بنے ہوئے کمرے میں لایا، ارشاد قمر
سے زیادہ اور مجھ سے کم ہمدردی ظاہر کی، اور باتوں باتوں میں اُس کے کان سے گذارا،
کہ چار مہینے پہلے انفنٹری کے تین آفیسرز
کو پکڑا تھا، ایک کو تو مار دیا باقی دو
کو قیدیوں کے بدلے میں دو مہینے بعد کرم ملیشیا ء نے چھڑوایا تھا، آپ دونوں تو خوش
قسمت ہیں، کہ فرار ہو کر آگئے،
ارشاد قمر، نے ہماری
تعریف کرتے ہوئے کہا، ” نہیں لیفٹنٹ نعیم کی بہادری تھی کہ اِنہیں فرار کی ترکیب
سوجھی اور پھر ہم دوڑتے رہے''
ہم نے کسر نفسی سے
کام لیتے ہوئے کہا، ”نہیں یار اقبال، سیکنڈ لیفٹنٹ ارشاد قمر،
نیک آدمی ہیں اِنہوں نے اُن سے نماز پڑھنے کی اجازت مانگی اور اللہ سے مدد کی گڑ گڑا کر دعائیں مانگیں۔
تو اللہ نے مدد کی“۔
نائیک
اقبال نے، ٹکڑا لگایا،”جی سر، دل سے مانگی ہوئی دعائیں تو تقدیر کا راستہ بھی تبدیل
کر دیتی ہیں“ باتوں کے دوران پوسٹ پر رکھے پہلے سے پکوڑے اور تازہ چائے پیش کی گئی،
اتنے میں جیپ آگئی ، تازہ دم ہو کر ہم میس پہنچے۔
کمرے کے باہر کھڑے ہوئے سنتری نے سلیوٹ مارا اور کہا،
” سر ایجوٹینٹ، صاحب کہہ رہے ہیں کہ کمرے میں
جانے سے پہلے اُن سے مل لیں“
"میں
نے گھڑی دیکھی، ”رات کے ایک بجے وہ جاگ رہے ہیں
یہ
کہتے ہوئے ہم، ارشاد کولئے ایڈجو ٹنٹ کے کمرے کی طرف مڑ گئے ، دروازہ کھٹکھٹایا
اجاز ت ملنے پر دونوں اندر داخل ہوئے، ایک بستر پر کیپٹن محمود اور دوسرے بستر پر
میجر ظہور ملال لیٹے ہوئے تھے، کیپٹن محمود نے دونوں سے ہاتھ ملایا اور ٹھیٹھ پنجابی میں بولے،
"یار، تم دونوں نے بہت
پریشان کیا، میں نے اطلاع دی تھی کہ پروگرام کینسل ہو گیا ہے، پاڑا چنار آنے کی ضرورت نہیں
ہم سب واپس ٹل آرہے ہیں۔ یہاں پہنچ کر پتا چلا کہ تم دونوں پہلے ہی کرم پوسٹ سے نکل چکے تھے، پھر پارا چنار فون کیا تو
معلوم ہوا کہ تم لوگ وہاں بھی نہیں پہنچے، کیا بات ہے تم دونوں اتنے پریشان کیوں ہو؟''
میں بستر پر لیٹ کر ہائے، ہائے کرنے لگا،
ارشاد قمر، نے ساری کہانی بیان کر
دی، کیپٹن محمود نے دلاسہ دیا، اور کہا کہ
ہم اپنے کمروں میں چلے جائیں، وہ سکاؤٹ کو
فون کر کے اس کی اطلاع دیں گے اور کل فیلڈ
کورٹ کے سامنے ہمیں اپنے بیان لکھوانے ہوں گے۔
میجر ظہور ملال نے ہم سے ہمدردری کرتے ہوئے کہا، ”یار
محمود یہ ان دونوں پر ظلم ہے، ان دونوں کے پاس اگر رائفلز ہوتیں تو یہ دشمن کو
لمبا لٹا دیتے، بھئی ان بچوں کو بچانا ہے۔ میں ان کا فیلڈ کورٹ
میں ڈیفنس کروں گا ''
'' ارشاد
قمر بولا،”جی سر! آپ نے صحیح کہا، اگر ہمارے پاس ہتھیار ہوتے تو ہم کبھی مجبور نہ
ہوتے
میجر
ظہور ملال بولے، ”بس بیٹا فکر مت کرو، میں
دیکھتا ہوں تم دونوں کو کیسے سزا ہوتی ہے ۔اچھا اب اپنے کمرے میں جاؤ اور آرام سے
سو جاؤ
ہم دونوں سلیوٹ مار کر اپنے کمرے میں آگئے، ارشاد قمر کرسی پر بیٹھ گیا میں نے کپڑے تبدیل کرنے کے لئے، قمیص اور بنیان اتاری، تو ارشاد قمر، نے میری پیٹھ پر لال نشان دیکھ کر کہا،
”سر
انہوں نے آپ کو بہت مارا ہے۔ یہاں کوئی ہسپتا ل نہیں وہاں چلتے ہیں“
میں نے کہا ”ہسپتال
تو کوہاٹ میں ہے، جو دکھ اور پریشانی ذہن میں ہے اس کے سامنے یہ زخم معمولی ہیں،
ہمیں
بہت زور کی بھوک لگی تھی، دونوں کا کھانا بیٹ مین نے ٹفن کیریر میں لا کر رکھ دیا
تھا میں نے وہ نکالا، ارشاد قمر، نے کھانا کھانے سے انکار کر دیا بڑی مشکلوں سے
اُسے کھانا کھلایا، جو اُس نے یقیناً زہر مار کیا ہوگا، کھانا کھا کر اپنے اپنے
پلنگوں پر لیٹ گئے، میں نے بیٹ مین کو کہہ کر اپنے کمرے کے باہر تالا لگوا لیا تھا، کہیں رات کو پریشانی میں
ارشاد قمر، باہر نہ نکل جائے اور اُس کی ملاقات، راہدار ی میں پھرتے ہوئے کسی
قبائلی سے نہ ہوجائے، ان دنوں ہماری یونٹ میں گن پوزیشن آفیسر، کیڈر چل
رہا تھا، بنوں اور کوہاٹ سے تمام لیفٹیننٹ اور کپتان 28میڈیم، 288مارٹر بیٹری،
70 فیلڈسے آئے تھے ، آفیسر کمانڈنگ مارٹر
بیٹری، میجر ظہور ملال بھی، سٹوڈنٹ کو پڑھانے آئے تھے، میجر حسن عقیل پڑھا کر
جاچکے تھے۔ لہذا اس پلان کے سارے کردار آفیسر تھے ۔ صرف چند جگہوں پر جہاں ناگزیر تھا ، نائیک اور حوالدار رکھے تھے ۔
ہمیں ابھی لیٹے ہوئے دس منٹ ہی ہوئے ہوں گے کہ ارشاد قمر، کی آواز آئی،
”سر،
یہاں سے راولپنڈی فون ہو سکتا ہے؟“
کہاں کرو گے؟“ ہم نے پوچھا۔
”سر
چیف کوکرنا ہے“ اتنا سننا تھا کہ ہم ہڑ بڑا کر اٹھ بیٹھے، دل میں سوچا، کہیں یہ چیف
کا قریبی عزیز تو نہیں؟
ہم نے پوچھا،”کیا وہ
تمھارے رشتہ دار ہیں؟ ''
ارشاد قمر، نے جواب دیا، ”نہیں سر، میں انہیں بتانا چاہتا ہوں کہ اس میں ہم دونوں کا کوئی قصور نہیں ہے اگر ہمیں ہتھیار دیئے جاتے تو ہم اتنی آسانی سے قبائلیوں کے ہاتھ نہ آتے ''
میں
نے جو اباً کہا،”کر تو سکتے ہیں لیکن ایکسچینج یہاں سے بہت دور ہے اور ہمیں کمرے
سے نکلنے کی اجازت نہیں، ویسے بھی میجر ظہور ملال
نے ہماری مدد کرنے کا کہا ہے، اچھا چلو سو جاؤ صبح دیکھیں گے ''
بے چارہ ارشاد قمر، شاید یہ سمجھ رہا تھا، کہ کمیشن ملتے ہی وہ ہر مصیبت کے لئے، چیف آف آرمی سٹاف سے ذاتی مدد لے سکتا ہے۔ اپنے اپنے پلنگوں پر لیٹے نہ جانے کب نیند کی آغوش میں پہنچ گئے۔
صبح پانچ بجے آنکھ کھلی، تو دیکھا،
قمر میاں، مصلّے پر بیٹھے گڑگڑا کر آنسوؤں کے ساتھ دعائیں مانگ رہے ہیں، دعا مانگ
کر، مجھ سے پوچھا،
”سر،
کمرہ باہر سے بند کیوں ہے“
میرا
خدشہ صحیح ثابت ہوا باہر قدموں کی چاپ سن کر، اس نے ضرور باہر نکلنے کی کوشش کی
ہوگی، میں نے جواب دیا،
''رات کو میں نے آپ کو بتایا تو تھا کہ ہمیں کمرے سے باہر نکلنے کی اجات نہیں۔ گارڈ نے ایڈجو ٹنٹ کے حکم پر باہر تالا لگا دیا تھا، کہ کہیں ہم ڈر کر بھاگ نہ جائیں، میں اگر رات کو آپ کو بتاتا تو تمھیں مزید دکھ ہوتا ''
یہ کہہ کر میں نے فیلڈ ٹیلیفون گھمایا، ایجوٹینٹ سے بات کی انہوں نے کہا ۔'' ارشاد قمر، کو سات بجے یونٹ میں بھیج دو''
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں