ہوا یوں کہ چار جولائی کو سات بجے راولپنڈی
سے کوہاٹ بذریعہ ٹرین روانہ ہوئے ۔ ٹرین
میں یونٹ کے کئی جوان واپس چھٹی کاٹ کر یونٹ کی طرف جانے کے لئے بیٹھے تھے ، کوہاٹ
چار گھنٹے کے سفر کے بعد پہنچے ، تو معلوم ہو ا کہ فوجیوں کو لینے ریلوے
سٹیشن پر" ٹروپس بس(ٹرک)آیا ہوا ہے ۔
ہم بھی اس میں بیٹھ کر آفیسر میس آگئے
، رات کوہاٹ گذاریں گے اور صبح ٹرین سے
ٹل روانہ ہوں گے ۔ ان دنوں ٹل و پارا چنار گریژن کی SOP
تھی کہ ہر چھٹی سے آنے والا آفیسر ، کوہاٹ سے یونٹ لازمی فون کرے گا ، تاکہ اگر
کوہاٹ میں کوئی کام ہو تو اسے کرایا جائے ۔ رات کو ، یونٹ فون کیا ، حال
احوال پوچھنے کے بعد ایڈجوٹینٹ نے روح
فرسا خبر سنائی، کہ کل یعنی پانچ جولائی کو ، ایک جے سی او اور دو حوالداروں کے ساتھ "آبزرور کیڈر"
پر ٹل سے لنڈی کوتل کے لئے روانہ ہو رہے
ہیں اور لنڈی کوتل میں چار ہفتے کا کیڈر ہو رہا ہے جو چار جولائی کو شروع ہو
چکا ہے، اسے آپ نے بھی اٹینڈ کرنا ہے ، لہذا جو آپ کا سامان ہے ، بمع استری شدہ وردی ، وہ آپ کا بیٹ مین صبح لے کر آرہا ہے آپ وہیں رہیں ۔ فوجی کا سامان کیا ہوتا ہے ایک ٹین کا بکس جس
میں وردیاں اور سول کپڑے ، ایک بستر ، جوتے ، بالٹی لوٹا اور مگ ۔ اور ایک چھٹی
جانے کے لئے بیگ ، جو ہمارے پاس تھا ۔
چنانچہ اگلے دن، تین بٹا چار ٹن ڈاج ٹرک میں بیٹھ کرپانچ جنگجوؤں سمیت ، کئی افراد
ٹل، کوہاٹ صبح آٹھ بجے ، میس کی پارکنگ میں موجود تھے ، ہمارا بیٹ مین
وردی لے کر آیا، ہم نے وردی پہنی ، میس بل
ادا کیا اور ٹرک میں کوہاٹ ، درہ آدم خیل
، لنڈی کوتل وایا پشاور روانہ ہوئے، پشاور میں صدر میں داخل ہوتے ہی سٹیڈیم
کے پاس، ہم پانچ جنگجوؤں کے علاوہ سب اتر گئے کیوں کہ یہ چھٹی جانے والے
جنگجو تھے۔ 7ڈویژنل آرٹلری ہیڈ کوارٹر پہنچے۔ وہاں سے چھٹی سے واپس آنے والے،
جنگجوؤں کو لیا او ر مغرب کے وقت فیلڈ آرٹلری یونٹ، لنڈی کوتل چھاؤنی میں
پہنچے۔وہاں سے میس، کمرے میں ہم تین آفیسر تھے، جن میں دو کپتان اور ہم غریب سیکنڈ
لیفٹنٹ۔
صبح سات بجے، کلاس میں لے
جائے گئے بارہ بجے کلاس ختم۔ کپتانوں اور فل لفٹینوں کے جھرمٹ میں ہم بے
چارے، نیم لفٹین، پطرس بخاری مرحوم کا قول تھا، "خدا کتا بنادے،چھوٹا بھائی
نہ بنائے"، پطرس مرحوم اگر ہماری جگہ فوج میں ہوتے تو ضرور اس قول میں تبدیلی کرتے ، آرٹلری کورس کئے بغیر آبزرور کورس کرنا ایسا ہے،
جیسا کہ نہر یا سوئمنگ پول کے بغیر پانی کے ٹب میں تیراکی کے مقابلے کی تیاری
کرنا۔ کیوں کہ تمام لیکچر ہمارے سر سے گذرتا، انسٹرکٹر نے کیپٹن اعجاز کی ذمہ داری
لگادی کہ رات کو وہ ہمیں لازمی، آبزروز کی ڈیوٹیاں پڑھائے، جس سے ہمارے دماغ
کی کھڑکیاں آہستہ آہستہ کھلنا شروع ہوگئیں اور لیکچر ہمارے دماغ میں اترنے لگے،
لیکن ہمیں زیادہ تر فارورڈ آبزرویشن آفیسر کی ڈیوٹی دی جاتی، جس میں،آرٹلری آبزرور
کو ٹارگٹ دکھانے کے بعد، موجیں ہوتیں۔
شام کو فوجی آفیسروں کا گیم کھیلنا لازمی ہوتا ہے۔ اب یہ ذاتی
مہارت پر منحصر ہے کو وہ گیم کس مہارت سے کھیلتا ہے۔ مثلاً، یونٹ کا
سیکنڈ ان کمانڈ، دو دفعہ بچوں کا جہاز جہاز کھیلنے کے انداز میں ہاتھوں کو دائیں
بائیں، گھما کر انگلیاں چٹخائے گا، کمانڈنگ آفیسر، کمر پر ہاتھ رکھ کر
آنکھوں کو دائیں بائیں گھما کر گول چکر دے گا اور توند پر ہاتھ مار کر کہے گا،
”یار ٹو آئی سی، پیٹ اندر جانا شروع ہو گیاہے“۔ ٹو آئی سی بھمبیری (پھِر کی ) کی طرح گھومتے ہوئے جواب دے
گا، ”سر آپ کافی سمارٹ ہوتے جا رہے ہیں“ ۔ ”کمانڈنگ آفیسر خوش ہو کر کہیے گا، ” چل
ٹو آئی سی، چل کر برج کھیلتے ہیں“ لو جی گیم مکمل، یہ دونوں جاتے ہوئے، گراونڈ کی
ٹہل کرتے ہوئے دو سینئیر میجر صاحبان کو ساتھ لیں گے اور رات دیر تک، گیم ہوتی رہے
گی۔ باقی آفیسر ز اور جوان مختلف گیم کھیلتے ہیں مثلا، ہاکی، والی
بال، باسکٹ بال، سکواش اور ٹینس اگر کورٹ ہیں۔ آبزرور کیڈر میں کیوں کہ ہم بارہ
آفیسرز تھے اور کمانڈر آرٹلری کے حکم کے مطابق، ہم میں سے ہاکی کھیلنے
والوں کو ہاکی میں ڈال دیا، کیوں کہ اگلے مہینے، ہاکی کے مقابلے شروع ہونے تھے۔ دو
تین دن تک تو سارے آفیسر کھیلے، مگر مشقت طلب گیم ہونے کی وجہ سے سب، پیچھے ہٹ
گئے۔ ہم چونکہ ہاکی کے دلداہ تھے اور لیفٹ اِن کی پوزیشن پر کھیلتے
تھے تو ہمیں فائدہ یہ ہوا کی ہماری ہاکی کی خبر، ہماری ڈویژن آرٹلری کے
بریگیڈ میجر تک پہنچی، انہوں نے کمانڈنگ آفیسر کو فون کیا، کہ ہمیں وہ اپنی
ٹیم میں صبح شام پریکٹس کروائیں کیوں کہ کوہاٹ واپس آکر ہم نے نو ڈویژنل آرٹلری کی
ٹیم کے ساتھ کھیلنا ہے، یوں شوق کے مول ہماری مشقت میں اضافہ ہو گیا صبح ساڑھے چھ
بجے سے ساڑھے سات بجے ہاکی، ساڑھے آٹھ بجے کلاس، پھرکلاس میں تھکن کے مارے
سو جاگنا، پڑھنا انسٹرکٹر کی جھاڑ سننا، سزا کے طور پر کلاس کا چکر لگانا۔
ہم 7ڈویژنل آرٹلری آبزور کیڈر لنڈی کوتل، میں کامیابی حاصل کی
اور 30 جولائی بروز ہفتہ ہم شام ڈھائی ٹن ٹرک جس پر ترپال ڈالا تھا ہم
آٹھ آفیسر پشاور پہنچے، کوہاٹ جانے والے ہم تین آفیسر ڈیو آرٹلری میس میں رک گئے۔
نہادو کر کپڑے بدل کر، پشاور کے”کّھرپا“ چوک پہنچے۔ کیوں کہ ہم سولائزیشن
میں پورے چار ہفتے بعد آئے تھے،ہوٹل میں بیٹھ کر چپل کباب کھائے، آفیسر
بازار میں کھڑا ہوکر کوئی چیز نہیں کھا سکتا، گنڈیریاں چوسنا تو، قابل دست اندازی
ء سینئیراں ہے اور ہمارے ساتھ دو کپتان تھے جو ہمارے لنڈی کوتل میں روم میٹ
تھے، اُن کے اکسانے پر ہم نے پی اے ایف پشاور آڈیٹوریم میں فلم دیکھنے کے ساتھ گنڈیریاں
بھی چوسیں، کیوں کہ اس جرم میں وہ بھی شامل تھے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں