Pages

میرے چاروں طرف افق ہے جو ایک پردہء سیمیں کی طرح فضائے بسیط میں پھیلا ہوا ہے،واقعات مستقبل کے افق سے نمودار ہو کر ماضی کے افق میں چلے جاتے ہیں،لیکن گم نہیں ہوتے،موقع محل،اسے واپس تحت الشعور سے شعور میں لے آتا ہے، شعور انسانی افق ہے،جس سے جھانک کر وہ مستقبل کےآئینہ ادراک میں دیکھتا ہے ۔
دوستو ! اُفق کے پار سب دیکھتے ہیں ۔ لیکن توجہ نہیں دیتے۔ آپ کی توجہ مبذول کروانے کے لئے "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ پوسٹ ہونے کے بعد یہ آپ کے ہوئے ، آپ انہیں کہیں بھی کاپی پیسٹ کر سکتے ہیں ، کسی اجازت کی ضرورت نہیں !( مہاجرزادہ)

جمعرات، 20 مارچ، 2014

نیم لفٹین عازمِ جنتِ روئے زمیں

             چھٹیاں گذار کر راولپنڈی آپہنچے، وہاں سے پرانے زمانے کی بس میں بیٹھ کر مری کی طرف عازم سفر ہوئے۔ وہاں سے دوسری بس میں، اقبال کی جنت کی طرف پدھارنا تھا، جو روئے زمیں پرصرف ہمارے پاس ہے۔  جس کے بارے میں کتابوں میں پڑھا  تھا، کہ ہرے بھرے کھیت، جھیلیں جن میں تیرتی ہوئی کشتیاں،  پھلوں سے بھرے باغات، زعفران سے بھری  وادیاں، اور نجانے کیا کیا۔  عصر کے بعد، مری پہنچے اور اپنے سامان کے ساتھ اتر گئے۔
            ہم 26 اکتوبر 1976،  مغرب سے پہلے، اپنے سامان کے ساتھ، مری میں سنی بنک کے پاس کھڑے تھے، بس کا انتظار کر رہے تھے کہ ایک فوجی  ڈھائی ٹن ٹرک آتی دکھائی دی، رکنے کا اشارہ کیا، گاڑی رکی، ایک وردی پہنے شخص  چھلانگ مار کر نیچے اترا، دیکھا تو میرا پلاٹون میٹ، سرفراز( بعد میں فل کرنل)  جو انجنئیر میں پوسٹ ہوا اس کی بٹالین، مظفرآباد میں تھی، دونوں گرم جوشی سے بغلگیر  ہوئے ،
  "یہاں کیوں کھڑے ہو ؟" سرفراز نے پوچھا
"مظفر آبا دجانا ہے وہاں سے پھر نیلم ویلی یونٹ میں  " میں نے جواب دیا
" زبرد ست میں بھی وہیں جارہا ہوں، لیکن میں مظفر آباد دے گڑھی دوپٹہ جاؤں گا " سرفراز نے جواب دیا "
ٹرک میں سامان رکھا، پیچھے  جھٹی سے آنے والے جے سی اوز اور جوان بیٹھے تھے ، میں سرفراز کے ساتھ  بیٹھ  گیا ،  مری سے مظفر آباد کا سفر شروع ہوا ، راستے میں  سرفراز کو  کشمیر کے بارے میں جو کچھ معلوم تھا مجھے بتا دیا۔ کوہالہ کے بعد ہم دونوں کو اونگھ آنے لگی، آنکھ لگی تو خواب میں زعفرانی آنچل، کاسنی  و سبز  لباس لہرانے لگے۔  جن میں کشمیری سیبوں کو شرمانے کی حد تک سرخ گال، کبھی، سامنے کبھی اوجھل، جو زعفرانی کھیتوں کھڑی لالہ کا پھول،وہ دوشیزہ، ہمیں دیکھ کر ہاتھ میں باندھے رومال کو لہرانے والی تھی کہ  اچانک گاڑی کو جھٹکا لگا،  ہم طلسماتی خوابوں کی چادر پھاڑ کر، حقیقی دنیا میں آگئے تھوڑی دیر بعد بعد پھر اونگھ ہمیں حسین وادیوں  میں لے جاتی، بے ھنگم سڑک ہمیں واپس کھینچ لیتی، اسی آنکھ مچولی میں مظفر آباد پہنچے پوری وادی میں روشنیاں نظر آرہی تھیں  ایسے لگتا تھا کہ سیاہ چادر میں روپہلی تاروں سے بنائے ہوئے تارے چمک رہے ہیں،
گاڑی نے آرٹلری میس میں اتارا،  سرفراز۔لے مل کر واپس ہوا،  میس کے کمرے میں رات کے سناٹے کو چیرتی ہوئی پانی کی کِل کِل، ہوا کی سائیں سائیں، اکتوبر کی خنک ہوا، ہمارے خواب میں  دریائے نیلم اور جہلم کا سنگم پر کلکاریاں مارنا، معصوم ہسنی کی کھنک کا احساس، "یہ  وادیاں یہ پربتوں کی شہزادیا ں "کا سر ہمیں رات بھر گدگداتا رہا،  صبح آنکھ کھلی باہر جھانکا، کہر نے ہر شئے کو چھپایا ہوا تھا۔ گھنٹے بعدکہر ختم ہوئی، کھڑکی کے باہر نظر ڈالی، حیرانگی سے باہر نکلے، ایسا لگتا تھا، الف لیلیٰ داستان کا دیو صبح ہوتے ہی، مظفر آباد کو لپیٹ کر لے گیا،  ہر کھڑی اور پڑی چیز پر چونا لگا ہوا تھا، دیواروں پر لال گیرو، چٹیل میدان، گنتی کے چند درخت ،  کشمیر کا صدر مقام، اقبال کی جنت خیالوں سے نکل کر تحت الثریٰ میں جاگری، کتابوں کے الفاظ ہماری آنکھوں کے سامنے رمبا سمبا، ناچنے لگے۔ یا خدا اتنا مبالغہ؟  سوچا باہر نکل کر دیکھتے ہیں شائد ”فردوس“ کہیں چھپی ہو۔ اگلا دن مظفر آباد گذارنا تھا،  میجر لطیف رائے  جی ٹو آئی سی بی(بعد میں کرنل)، نے نیم لفٹین کو کشمیر بازار گھومنے کے لئے جیپ دے دی، شہر گئے  افسوس ہوا کیوں گئے۔  بہرحال دوپہر کو  میجر رائے کے ساتھ کھانا کھایا، انہوں نے یونٹ فون کیا، معلوم ہوا کہ جیپ  آئی ہے، صبح اس پر بیٹھ کر، یونٹ چلے جانا، رات، کیپٹن پاشا، کیپٹن شمس ، میجر رائے اور ہم نے مل کر تاش کی گیم لگائی،
صبح سو کر اٹھا، میس ویٹر نے وردی استری کروادی تھی،  وردی پہنی دائیں بائیں گردن گھما کر اپنے اکلوتے پھول دیکھے اور باہر نکلا، دور ایک جیپ نما چیز کھڑی تھی، جس کا نام "گاز جیپ " معلوم ہوا ، جیپ  کے اردگرد فوجی جوان کھڑے تھے، ایک جوان نے سامان اٹھا کر جیپ میں رکھا۔ قریب گئے، فوجیوں نے سلیوٹ کیا، جواب دیا۔ ایک نائیک نے آگے بڑھ کر کہا، سر یہ جیپ آپ کو لینے آئی ہے، تشریف رکھیں، جیپ میں بیٹھنے کے لئے آگے بڑھا ایک جوان دروازہ روک کر کھڑا ہو گیا،  ہم اس کی اس گستاخی پر کچھ کہنے والے تھے کہ ،
اس نے دانت نکال کر کہا، ”سر چٹ“۔
   ”لاحول ولا، کس بات کی چٹ؟“ 
ہم حیرانگی سے بولے،"کیا یہ گاڑی ہمارے لئے نہیں آئی ہے؟“ ۔
”سر آپ کے لئے آئی ہے، آپ فوجی گاڑی میں پہلی دفعہ بیٹھ رہے ہیں۔ اس لئے مٹھائی کے لئے چٹ  چاہئیے“۔جوان نے معلومات دیں ۔
”ارے بھائی ہماری تو زندگی ہی گاڑی میں گذری ہے۔ یہ ہمارا پہلا سفر نہیں ہے“۔ ہم نے جواب دیا۔
”جواب ملا، سر آپ سرکاری گاڑی میں پہلی دفعہ بیٹھ رہے ہیں، اس لئے“۔
”عجیب چغد آدمی ہو“ ہم بھنا کر بولے ”کاکول میں کیا پرائیویٹ گاڑیاں چلتی تھیں“۔
ڈرائیور بولا ”نہیں سر آپ یونٹ کی گاڑی میں پہلی دفعہ بیٹھ رہے ہیں، اس لئے“
   ” او ہو“ ہم نے او ہو کو لمبا کھینچے ہوئے کہا، ”لاؤ چٹ“
  ہم نے پانچ چائے اور پانچ لڈوؤں کی چٹ لکھ کر دے دی،  ان دنوں ایک آنے کی چائے، دو آنے کی دودھ پتی اور چار آنے کا لڈو ملتا تھا،  ڈیڑھ سو روپے،مہینہ عیاشی سے کھانا کھانے پر میس بل آتا تھا،  یہ گُر، ہمیں رات کو میجر لطیف  رائے نے سمجھایا تھا، کہ رقم کی چٹ نہ لکھنا، یونٹ کی کینٹین پر لڈو اور چائے دستیاب ہوتی ہے۔  اگر رقم کی چٹ لکھی تو لٹ جاؤ گے۔

 
 
 
 
 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

خیال رہے کہ "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ !

افق کے پار
دیکھنے والوں کو اگر میرا یہ مضمون پسند آئے تو دوستوں کو بھی بتائیے ۔ آپ اِسے کہیں بھی کاپی اور پیسٹ کر سکتے ہیں ۔ ۔ اگر آپ کو شوق ہے کہ زیادہ لوگ آپ کو پڑھیں تو اپنا بلاگ بنائیں ۔