Pages

میرے چاروں طرف افق ہے جو ایک پردہء سیمیں کی طرح فضائے بسیط میں پھیلا ہوا ہے،واقعات مستقبل کے افق سے نمودار ہو کر ماضی کے افق میں چلے جاتے ہیں،لیکن گم نہیں ہوتے،موقع محل،اسے واپس تحت الشعور سے شعور میں لے آتا ہے، شعور انسانی افق ہے،جس سے جھانک کر وہ مستقبل کےآئینہ ادراک میں دیکھتا ہے ۔
دوستو ! اُفق کے پار سب دیکھتے ہیں ۔ لیکن توجہ نہیں دیتے۔ آپ کی توجہ مبذول کروانے کے لئے "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ پوسٹ ہونے کے بعد یہ آپ کے ہوئے ، آپ انہیں کہیں بھی کاپی پیسٹ کر سکتے ہیں ، کسی اجازت کی ضرورت نہیں !( مہاجرزادہ)

اتوار، 2 مارچ، 2014

شیرہ کس نے لگایا ؟


پیارے دوستو یہ ایک کہانی ہے جسے پرانے زمانے کے کسی استاد نے، اپنے شاگردوں کو پند و نصیحت کے انبار سے ڈھونڈ کر نکالا اور سنایا کرتے تھے ۔ کیوں کہ ان دنو ں بھی جھوٹ سنا کر راہ راست پر لانے والے لوگ موجود تھے۔ جیسے  اب بھی ہیں اور ہمیشہ رہیں گےاور میں بھی اس جھوٹ کو آگے پھیلا رہا ہوں۔ کیوں کہ سنی سنائی بات کو آگے پھیلانا  تو جھوٹ ہی ہوتا ہے نا  ؟

چنانچہ کہا جاتا ہے
:
کہ ایک نہایت، باریش بزرگ  بازار میں جا رہے تھے کہ ایک نوجوان نے اُس کی قدم بوسی چاہی تو بزرگ نے ہاتھ سے منع کیا اور کہا کہ،
”میں شیطان بزرگ ہوں سوچ لو“۔
 
نوجوان حیرانگی سے بولا،
”آپ تو نہایت سادہ، معصوم اور پاکیزہ ہستی نظر آتے ہیں۔ تو لوگ آپ کو برا بھلا کیوں کہتے ہیں؟
شیطان نے کہا،
”برائیاں، جھگڑا اور فساد لوگ کرتے ہیں اور برا بھلا مجھے کہتے ہیں۔ گناہ کبیرہ خود کرتے ہیں اور منسوب مجھ سے کرتے ہیں
نوجوان بولا،
”یہ کیسے ممکن ہے جناب، خود گناہ کرنے والا شخص، الزام دوسرے کو کیسے دے سکتا ہے؟
شیطان نے کہا،
”آؤ، میں تمھیں دکھاتا ہوں

اور دوستو، وہ   شیطان بزرگ  جو صرف اس نوجوان کونظر آرہا تھا اسے لے کر ایک حلوائی کی دکان پر گیا اور اسے کہا کہ یہاں کھڑے ہوکر دیکھتے رہو اور بولنا نہیں اور کسی عمل میں حصہ نہیں لینا۔نوجوان نے کہا ٹھیک ہے۔وہ  شیطان بزرگ  آگے بڑا اور جلیبی کے تھال سے انگلی پر قطرہ بھر شیرہ لگایا اور حلوائی کے عین سر کے اوپر دیوار پر چپکا دیا۔

تھوڑی دیر میں ایک مکھی اس پر آکر بیٹھ گئی اور شیرہ چوسنے لگی، چھت میں ایک چھپکلی، چھپی بیٹھی تھی، اس نے نکل کر مکھی کو دبوچ لیا۔ حلوائی کی بلی ایک تخت پر بیٹھی اونگھ رہی تھی اور کبھی کبھی حلوائی کو دیکھتی کہ شاید ہو کوئی چیز کھانے کو دے دے۔ اس نے حلوائی کے سے پر چھپکلی کو دیکھا تو،تو اُس کو پکڑنے کے لئے چھلانگ ماری۔
اُس وقت، ایک گاہک حلوائی کی دکان سے برفی تلوا رہا اس کے کتے نے بی بلی کو جو آزادانہ چھلانگیں مارتے دیکھا تو اس نے، مٹھائی کے تھالوں سے گذرتے ہوئے چھلانگ ماری اور حلوائی کے کڑچھے سے مضروب ہو کر دودھ کے تھال میں جا گرا۔

اس سے آگے کی داستان، وہی ہے جو عموما ً ہوتی ہے۔جب ظاہر
۱ً  شرفا کے پگڑ اچھلتے ہیں، گھونسے،مکوں،لاتوں اور تھپڑوں کا آزادانہ استعمال ہوتا ہے۔ چنانچہ خوب سیر حاصل تفریح کے بعد۔ سب نے شیطان کو اس ہنگامے کا، قصور وار ٹہرایا۔

  شیطان بزرگ، نے نوجوان کی طرف فخریہ دیکھا اور کہا:
”بتاؤ اصل مجرم کون ہے؟ “
میری طرح ،  شکل سے گاؤدی اور چغد نظر آنے والا نوجوان بولا، 

”جناب جس نے شیرہ لگایا تھا
تو دوستو! ذرا سوچو کہ شیرہ کس نے لگایا؟ 

آپس میں جھگڑا، گالم گلوچ اور فسادی فضا پیدا کرنے سے پہلے،اسے تلاش کریں اور اُسے مزید شیرہ لگانے سے روکیں۔


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

خیال رہے کہ "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ !

افق کے پار
دیکھنے والوں کو اگر میرا یہ مضمون پسند آئے تو دوستوں کو بھی بتائیے ۔ آپ اِسے کہیں بھی کاپی اور پیسٹ کر سکتے ہیں ۔ ۔ اگر آپ کو شوق ہے کہ زیادہ لوگ آپ کو پڑھیں تو اپنا بلاگ بنائیں ۔