Pages

میرے چاروں طرف افق ہے جو ایک پردہء سیمیں کی طرح فضائے بسیط میں پھیلا ہوا ہے،واقعات مستقبل کے افق سے نمودار ہو کر ماضی کے افق میں چلے جاتے ہیں،لیکن گم نہیں ہوتے،موقع محل،اسے واپس تحت الشعور سے شعور میں لے آتا ہے، شعور انسانی افق ہے،جس سے جھانک کر وہ مستقبل کےآئینہ ادراک میں دیکھتا ہے ۔
دوستو ! اُفق کے پار سب دیکھتے ہیں ۔ لیکن توجہ نہیں دیتے۔ آپ کی توجہ مبذول کروانے کے لئے "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ پوسٹ ہونے کے بعد یہ آپ کے ہوئے ، آپ انہیں کہیں بھی کاپی پیسٹ کر سکتے ہیں ، کسی اجازت کی ضرورت نہیں !( مہاجرزادہ)

اتوار، 23 مارچ، 2014

فوجی گاڑی کی ڈرائیوری اور ہم - 1


فوجی زندگی، کورسز، گرمائی اور سرمائی ٹرینگ کیمپس، ہر قسم کے مقابلے (سوائے پیاز چھیلنے کے)، صحرا نوردی  اور اختر شماری کا مجموعہ ہے، مختلف قسم کے  امتحانات اور کیڈر نیم لفٹین سے لے کر پختہ کپتان بننے تک ہمرکاب رہتے ہیں۔ کالج سے فراغت پانے کے بعد جب پی۔ایم۔اے کا رخ کیا تو ہم صرف اس بات پر خوش تھے کہ چلو کتابوں کے گٹھڑ اور امتحانات سے نجات ملی، اب بس پریڈ ہوگی اور سلیوٹ، ہم ہاتھ میں ڈیڑھ فٹ لمبی چھڑی گھماتے ہوئے پھرا کریں گے۔ لیکن یہ ہماری پہلی اور آخری بھول تھی، کاکول سے نکلے تو ہم اپنی عسکری زندگی کے بحر بیکراں میں طفل مکتب تھے۔

ابھی  یونٹ پہنچ کر ہم اپنی دوسالہ”کاکولی“ تعلیمی زندگی کا بوجھ، اتار نہ پائے تھے کہ ہمیں تربیتی صحرا کے گردباد میں پھینک دیا گیا۔ ہم اپنی نومولود فوجی زندگی کے تین کورس، اور کئی کیڈر بھگتا چکے تھے جن میں مشین گن کیڈر، 12.7ملی میٹر  اینٹی ائیر کرافٹ مشین گن کیڈر، آبزرور کیڈر، جی پی او کیڈر وغیرہ  وغیرہ  اور یہ نہیں کہ یہ صرف ایک دفعہ کرکے جان چھوٹ سکتی ہے اگلے سال ان کیڈروں کے نام تبدیل ہوجاتے ہیں اور انہیں نئے پھنسنے والوں کے لئے تو کیڈر ہی کہا جاتا ہے اور پرانے گھائل  فوجیوں کے لئے یہ ریفریشر کیڈر میں تبدیل ہوجاتا ہے اور اس پر ستم یہ کہ آپ پڑھتے بھی ہیں اور پڑھاتے بھی ہیں۔
 
            کشمیر میں  12.7ملی میٹر  اینٹی ائیر کرافٹ مشین گن کیڈر، کرنے کے بعد ٹل میں جب ہمیں طلباء کا ٹوٹل پورا کرنے کے لئے ریفریشر کیڈر میں ڈالا گیا۔ تو ہماری ہماری بیٹری کے  ”ایس جے سی او“ سے ایک بات پر بحث ہوئی تو صوبیدار صاحب نے کہا، ”سر میرا فوج میں تیس سال کا تجربہ ہے“ ۔ جس پر ہم نے ترکی بہ ترکی جواب دیا،  ”صاحب! آپ کا تیس سال کا نہیں، بلکہ ایک سال کا تجربہ تیس مرتبہ ہے“ کیوں کہ ہم کیڈر سے واپس آرہے تھے اور ٹل کی گرمی نے، پارے کو تھرمامیٹر سے باہر نکال دیا تھا۔ 
            کیڈر ختم کئے ابھی ہفتہ ہی ہوا تھا، کہ اْڑتی خبر سنی کہ یونٹ کو ایک عدد  ’’ مکینیکل ٹرانسپورٹ آفیسر“ کورس الاٹ ہوا ہے،  اس کورس کے قرعہ کے لئے، لیفٹنٹ شبیر احمد منہاس اور  ہمارا نام  ڈالا گیا اور یوں یہ کورس ہمیں الاٹ ہوگیا،  لہذا ہمیں مکینیکل ٹرانسپورٹ آفیسر کے اعلیٰ تعلیمی کورس پر جانے کے لئے تیاری اور کوچ کا حکم حاکم ملا۔
            دم لیا تھا نہ قیامت نے ہنوز“  اور یوں جنوری 79 کے پہلے  ہفتے  کے دوسرے دن، صبح نو بجے ہم نوشہرہ بس سٹینڈ پر، بس سے اپنا سامان ” محمد عاشق بیدل“  سے اتروا رہے تھے۔ وجہ تسمیہ یہ تھی، کہ ٹل کینٹ سے ہم ”ٹروپ بس“ میں روانہ ہوئے، جس میں ہم اکیلے آفیسر اور باقی سارے چھٹی پر جانے والے جوان تھے، کور س پر جانے والوں اور چھٹی پر جانے والوں کے درمیان سب سے بڑا فرق، اصول آرشمیدس کی رو سے،  سکوت اور حرکت کا ہوتا ہے،  لہذا ہم صبح چھ بجے ٹل سے کوہاٹ کے لئے روانہ ہوئے اور نامعقول ڈرائیور نے بھی غالباً چھٹی جانا تھا،چنانچہ ٹھیک ساڑھے سات بجے ہم کوہاٹ میں داخل ہوکر پانچ منٹ بعد، کوہاٹ پشاور کی ویگن میں بیٹھ چکے تھے۔ جس نے پونے گھنٹے میں درہ آدم خیل میں ریسٹ کئے بغیر پشاور پہنچا دیا۔
            نوشہرہ سے ہماری بہت پرانی واقفیت ہے اتنی، کہ ہم نے اپنی کچی اور پکی ایبٹ آباد میں پڑھنے کے بعد اپنے اصلی تعلیمی کیرئیر کا آغاز، گورنمنٹ پرائمری سکول نمبر 2 سے کیا تھا،  والد محترم میڈیکل کور میں تھے اور صوبیدار میجر ریٹائرڈ ہوئے تھے، لہذا، کئی فوجی کینٹونمنٹ کی اْن کے ساتھ خاک چھانی،  یوں نوشہرہ  ہم نے اپناہوش سنبھالنے کے بعد تین دفعہ والد صاحب اور باقی بہن بھائیوں کے ہمراہ اور  بذات خود یہ پانچویں دفعہ تھا، گویا آٹھ مختلف ادوار میں ہمیں نوشہرہ  آنے کا شرف حاصل ہوا،یہاں کی سڑکیں ہمارے ناتوں جسم کا بوجھ کئی دفعہ اٹھا چکی تھیں، یہیں ہم نے اجتماعی تربیت اور میدانی فائرنگ کے دوران راتوں کو لیٹ کراختر شماری بھی کی،  ان پچیس سالوں میں، نوشہرہ وہیں کا وہیں رہا، کچھ بھی نہیں بدلا، سامنے وہی تانگہ کھڑا تھا،جو ہم نے ماضی بہت بعید مطلق میں نوشہرہ کی سڑکوں پر دیکھا تھا، ہمیں لے جانے کے لئے سٹینڈ پر کھڑا تھا، موسم سرماعروج پر تھا ، یہاں گرمیوں میں سخت گرمی اور سردیوں میں سخت سردی پڑتی ہے۔ ہم نے  ” محمد عاشق بیدل“  سے اپنا سامان ٹانگے میں رکھوایا  اور آفیسر میس کی طرف روانہ ہواگئے، شاید ہم سب سے پہلے آگئے تھے، میس میں ہو کا عالم تھا،  بہرحال میس حوالدار، ہاتھ میں فائل پکڑے نمودار ہوئے اور انہوں نے لسٹ میں سب سے پہلا ہمارا نام ٹک کیا اور پوچھا کہ،”سر دوپہر کا کھانا تناول فرمائیں گے“ ، ”ہم نے کہا،”یقیناً، لیکن کیا کھانا کمرے میں منگوایا جاسکتا ہے؟“  جواب ملا،”سر سٹوڈنٹ کو کمروں میں کھانا کھانے کی اجازت نہیں ہے“۔
            تانگے میں بیٹھ کر، گائیڈ کے ساتھ ہم اپنی اس رہائش گاہ کی طرف روانہ ہوگئے، جس میں ہم نے اگلے  دس ہفتے گذارنا تھے،  جب اپنی قیام گاہ کے علاقے میں پہنچے تو خود کو نوشہرہ کے ایک دور افتادہ کونے پر پایا، نجانے ہمیں نوشہرہ کے ایک کونے پر ٹہرانے میں کیا مصلحت تھی، گائیڈ ہمیں وہاں کھڑا رہنے کا کہہ کر غائب ہو گیا، آدھے گھنٹے بعد جب ہم تقریباً ناامید ہوچکے تھے تو اْس کی شکل نمودار ہوئی، اْس سے اِس انتظار کا سبب پوچھا، تو معلوم ہوا کہ وہ، ہماری رہائش گاہ کے انچارج کو بلانے گیا ہوا تھا، پندرہ بیس منٹ بعد انچارج صاحب اپنی فائلوں کے پلندے کے ساتھ، اپنی ڈھیلی پتلون کو بار بار اوپر کھینچتے ہوئے نمودار ہوئے،انگریز نے گیلس اسی لئے ایجاد کئے تھے، کہ عزت سادات کو موقع بہ محل بچایا جاسکے، گھڑی دیکھی دس بجنے میں پانچ منٹ تھے،  تانگے والے نے شور مچانا شروع کر دیا تھا،اسے زیادہ پیسوں کا لالچ دیا، تو کہیں جاکر اْس کی نالہ و شیون ختم ہوئی، انچارج  نے قریب آکر ہمیں سلیوٹ نہیں مارا بلکہ ہم پر دے مارا،
”سر! آپ بہت سویرے آگئے،“ اس نے اپنی فائل کھولتے ہوئے اپنی رائے دی
اور پوچھا، ”سرآپ کا اسم شریف؟“۔اسے اسم شریف بتایا،
”سر آپ توپخانے کے ہیں“  اس کا بھی جواب دیا،
”سر آپ کا پاکستان آرمی نمبر“ وہ بھی بتایا،
جب اسے پورا یقین ہو گیا کہ ہم ہی وہی توپخانے کے ہونہار آفیسر ہیں جس کی میزبانی کا شرف اسے حاصل ہو رہا ہے،
”سر ویلکم ٹو سکول آف آرمی سروس کور“ ہم نے شکریہ ادا کیا،
اس نے چابیوں کے گچھے سے ایک ایک چابی باری باری تالے پر آزمانے کی کوشش شروع کی جس تالے کے بارے میں ہمیں پورا یقین تھا کہ اسے اگر ہم اپنے کمزورہاتھوں سے کھنچیں تو وہ شکست مان کر لٹک جائے گا، وہ تو خدا کا شکر کہ آٹھویں چابی کے بعدمزید چابیاں آزمانے کی بای نہیں آئی اور تالہ کھل گیا، ورنہ ہمارے صبر کا پیمانہ تقریباً لبریز ہو چکا تھا، شائد ہم سے کوئی گستاخی سرزد ہوجاتی، دروازہ کھولنے کے بعد وہ ایک طرف ہو کر کھڑا ہوگیا،اور ہمیں اندر جانے کا اشارہ کیا، پاکستان کے وقت کے مطابق ٹھیک دس بجے ہم کمرے میں ایسے داخل ہوئے جیسے، محمود غزنوی سومنات کے مندر میں داخل ہوا تھا، جب آنکھیں دیکھنے کے قابل ہوئیں  تو مارے حیرت کے ہمارا منہ کھل گیا، یقین نہ آیا کہ اس کمرے میں ہم نے اپنی زندگی کی ساٹھ راتیں گذارنا تھیں، اس سے بہتر تو ”ٹل“ کا وہ کمرہ تھا، جہاں موسم کی ہر بارش دیواروں پر تجریدی آرٹ کے نمونے بکھیر جاتی، لیکن یہاں تو کمرے کی زبوں حالی اور بوسیدگی پکار پکار کرزبان، خاموش سے گویا تھی کہ،”دیکھو مجھے تو دیدہء عبرت نگاہ ہو“۔ ہمارے پیشرو نے اس کمرے  کی دیواروں پر سٹکر، پوسٹ اور اخبار لگا کر دیوار کے اکھڑے ہوئے پلاسٹر کو چھپانے کی ناکام کوشش کی تھی۔

            سردیوں کا مہینہ تھا، ہواخوری کے لئے باہر جانے یا کمرے کی کھڑکیاں کھولنے کی ضرورت نہ تھی، کمرے کا سرسری معائنہ کرنے کے بعدباہر نکلے، بیٹ مین تانگے سے سامان اتار چکا تھا اور ہمارے اگلے حکم کے انتظار میں کھڑا تھا، ہم نے اسے سامان کمرے میں لے جانے کا کہا۔ اس نے ہم سے کمرے اور کمرے میں رکھی ہوئی نوادرات و سامان متروکہ کی رسید پر دستخط کروائے جس کے مطابق، ایک بلب، جھلنگا سا پلنگ، ڈریسنگ ٹیبل اورایک عدد کرسی بمع تپائی،ہماری ملکیت میں دینے کے بعد سلام کرتا ہوا چلا گیا، تانگے والے کی طرف متوجہ ہوئے اس سے کرائے کی بابت پوچھا، جتنا کرایہ اس نے طلب کیا اس میں ہم پانچ دفعہ پشاور جا اور آسکتے تھے۔ صاحب لوگ سودا نہیں کرتے، کیوں کہ انگریزوں کا اصول یہی تھا اور صاحب لوگ گنڈیری بھی نہیں کھا سکتے، کیوں کہ یہ پھل ہے اور نہ فروٹ،  یہ راز ہمیں ”چاچاغلام نبی“ میس ہیڈ ویٹر،سکول آف آرٹلری نے بتایا تھا۔ پھل ثابت کھایا جاتا ہے اور فروٹ کاٹ کر، بہرحال تانگے والا اپنا منہ مانگا کرایہ لے کر بجائے ہماری فیاضی پر کورنش بجالاتا یا فرشی سلام کرتا، ایک شانِ بے نیازی سے تانگہ ٹخٹخاتا اپنی راہ چل پڑا اور ہم بوجھل قدموں سے اپنے زنداں میں داخل ہوئے- 

”محمدعاشق بیدل“ ہمارا سامان ترتیب سے رکھ چکا تھا،  یعنی ساتھ کھلنے والے کمرے کے بند دروازے کے سامنے، بڑا بکس، اْس پر چھوٹا بکس، چھوٹے بکس کے اوپر سوٹ کیس، سوٹ کیس کے اوپر بیگ، اور بیگ کے جلو میں فوجی کا سب سے اہم آئیٹم لوٹا اور ان سب کے سامنے بالٹی اور اْس میں ایک عدد مگ۔ کمرے سے ہم نے باتھ روم کا رخ کیا ، باتھ روم کا دروازہ کھولنے کی نوبت نہیں آئی، کیوں کہ صرف ایک قبضے پر لٹکتے ہوئے دورازے کو کھولا نہیں جاتا، بلکہ اْسے اٹھا کر ایک طر ف رکھتے ہوئے باتھ روم میں داخل ہوئے، کونے میں چائیناکلے کا ایک بڑا سا باتھ ٹب پرا تھا جو کبھی سفید ہوا کرتا تھا، جس میں غالباً گرمیوں میں لیٹ کر نہانے کا لطف اٹھایا جاتا تھا، ٹب کے پیندے میں ایک شگاف تھا، دوسرے کونے میں کموڈ تھا، جس پر ” اخپل بندوبست“ کے تحت لکڑی کا ڈھکن لگایا ہوا تھا  یہ بھی استبداد زمانہ کے  بے رحم ہاتھوں  اپنی رنگت کھو کر دہری شخصیت اختیار کر چکا تھا، باہر کی طرف سے سیاہی مائل زرد اور اندر کئی رنگوں پر مشتمل تھا جس میں پیندے میں کالا رنگ اور پانی بہنے کی جگہوں پر گہرا بھورا رنگ اور باقی پیلے رنگ کے علاوہ چٹخی جگہوں پر کالی لکیریں نمایاں تھیں۔ کموڈ کے عین اوپر ایک سالخوردہ ہمہ صفات پر مشتمل واٹر ٹینک تھا،یہ پانی کی کیمیائی خصوصیات تبدیل کرکے اسے رنگدار بنادیتی،  اس کے ساتھ لٹکتی ہوئی زنجیر تھوڑا سا کھڑا ہو کر کھینچنے پر پانی کموڈ میں جانے کے علاوہ، اس کے نیچے لگے ہوئے جوڑوں  سے کموڈ پر بیٹھے ہوئے شخص پر پھوار کی مانندبرستا۔ زنجیر ہمارے قیام کے کچھ عرصہ بعد کھینچنے پر ہمارے ہاتھ میں آگئی، تو ہم نے اسے ”زنجیر عدل“ کا نام دے کر اپنے دروازے پر لٹکا دیا، جو کمرے میں داخل ہونے کے خواہش مند فریادیوں کی فریاد ہم تک پہنچاتی،اور ہمارا  بیٹ میں اْس صبح ہمیں جگانے کے لئے استعمال کرتا، جس کی سریلی آوازسے ہم تو نہیں البتہ ہمارے پڑوسی آفیسر بیدار ہوجاتے اور زنجیر کی سر سے اونچی آواز میں دی جانے والی صلواتیں، ہمیں گہری نیند سے بیدار کرتیں اور ہم انگڑائی لے کر خوابِ غفلت سے بیدار ہوجاتے، لیک ایک صبح کسی کم ظرف نے وہ  زنجیر چرا لی، خدا جانے اْسے زنجیر پسند آئی تھی یا ہماراعدل، نتیجتاً کورس کے خاتمے پر ہم کسی کے ناکردہ گناہ کی سزا کے مستحق ٹہرے  اور  اس سے پہلے کہ سرکاری املاک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچانے کی تلافی ہماری جیب سے کروائی جاتی، عاشق بیدل کہیں سے چار فٹ لمبی سالخوردہ زنجیر لے آیا، جس کو لگانے کے بعد، آرام باش پوزیشن سے پریشان باش  پوزیشن اختیار کرنا نہیں پڑتی تھی۔

            باتھ روم سے دوبارہ کمرے کا رخ کیا۔سفر کی تکان دور کرنے کے لئے بستر پر لیٹ گئے اور آنکھیں موندھ لیں،  اچانک ایک آواز سنائی دی، ” لیفٹنٹ، نعیم الدین خالد کا کمرہ کون سا ہے“۔ آواز جانی پہچانی لگی۔ باہر نکل کر دیکھا تو،  جہانزیب خان صاحب   اپنی سکوٹر کو کھڑا کر کے دائیں بائیں دیکھ رہے تھے،  زیبی اور عامر بھی ان کے ساتھ تھے،  ہم لان سے گذرتے ہوئے آگے بڑھے، تپاک سے گلے ملے، دونوں بچوں کو پیار کیا اور کمرے کی طرف چلنے کا کہا، ”چھوڑو، مڑا چلو گھر چلیں“، عاشق کو بتایا کہ ہم جارہے ہیں واپس آجائیں گے۔ اور خانصاحب کے ساتھ سکوٹر پر بیٹھ کر ان کے گھر کی طرف روانہ ہوئے، خانصاحب دراصل سبزی اور گوشت لینے، آئے تھے، بس اڈے سے معلوم کیا کہ کون کون آیا ہے، وہاں موجود سٹاف نے بتایا کہ صرف ابھی تک ہم آئے ہیں تو وہ سامان دکان پر چھوڑ کرہمیں لینے آگئے، دوبارہ واپس آئے، ہم نے بچوں کے لئے مٹھائی لی، اور خانصاحب کے گھر پہنچے، بھابی سے دعائیں لیں۔ دوپہر کا کھانا کھایا  اور تین بجے  خانصاحب نے ہمیں واپس ہمیں ہمارے ڈیرے پر چھوڑ دیا، وہاں معلوم ہوا کہ ہمارا پلاٹون میٹ، لیفٹنٹ مقبول احمد (سگنل) ، کورس میٹ  لیفٹننٹ  ریاض احمد اقبال  (بلوچ)  اور لیفٹننٹ مختار حیدر (اے کے)  بھی پہنچ گئے ہیں۔

            راتیں دبے پاؤں آنے لگیں،سوتے وقت، روشنی بجھانے یا زیرو کا بلب جلانے کی نوبت نہ آتی، کیوں کہ پندرہ واٹ کا بلب پانچ واٹ کی توانائی سے روشن ہوتا، اور کبھی صرف بلب کی جلتی تار بلب کی موجودگی کا پتہ دیتی،  کمرے کے عین درمیان بیس فٹ اونچی چھت سے لٹکتا ہوا ڈیڑھ ٹن کا نوکدار، پنکھا  جس کی وجہ سے ہمارا پلنگ، بتائے ہوئے طریقے کے مطابق ”محمدعاشق بیدل“ نے کونے میں کردیا تھا، کیوں کہ زندگی کا اعتبار تو نہیں، آنی جانی شئے ہے، لیکن کسے نوکدارپنکھے کے نیچے لیٹنا جو کارخانے سے نکلتے ہی، 1900میں سیدھا اس کمرے میں آیا ہواور کشمیر سے درآمد کردہ اس لکڑی کے شہتیر سے لٹکا ہوا جس پر کہیں کہیں دیمک کی ایک کالونی سے دوسری کالونی کے طرف جانے والی گذرگاہیں نظر آتی ہوں، نجانے کب ان کی خوش خوراکی کے باعث، شہتیر کی دوستی چھوڑ کر پنکھا، زمین کا رخ کرے، سراسر خودکشی کے مترادف ہے،  جس کا تجربہ ہم گذشتہ سال، کوہاٹ ڈویژنل آرٹلری میس میں سر ارشد کے ساتھ کر چکے تھے۔
            اکثر وبیشتر بجلی غائب رہتی، ہمارے  بیٹ مین نے دستیاب مقامی وسائل کی مدد دے اپنے ایجاد کردہ ”لیمپ“ اور پانی گرم کرنے کی ”مشین“سے یہ ثابت کر دیا تھا کہ وہ بھی عقل جیسی نعمت اپنے، قبضہ قدرت میں رکھتا ہے، اگر وہ یہ لیمپ انگلستان میں ایجاد کرتا تو آج، ایڈیسن کے بجائے ”محمدعاشق بیدل،  آف تلہ گنگ، تحصیل و ضلع چکوال“ کا نام پاکستانی فخر سے لیتے، اور آنے والی نسلیں اس کی یاد میں سمینار منعقد کرواتیں، ”اگر نم ہو تویہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی“  لیکن اداکار”ساقی“ کو یہ کیسے معلوم ہوا ۔ بہرحال، لیمپ،  تبت سنو کی خالی شیشی، ہمارے ازار بند کا دو انچی ٹکڑا اور گھانسلیٹ پر مشتمل تھا۔ اس طرح چراغ سے چراغ جلنے لگے اور جنگل میں منگل تو نہیں ہوا البتہ مزاروں کے چراغوں کا ماحول بیدار ہو گیا۔  پانی گرم کرنے کی مشین، ہمارے دو عدد استعمال شدہ بلیڈ، بجلی کی تار، لکڑی کے ٹکڑے پر مشتمل تھا، بلیڈوں کو الگ الاگ تار سے جوڑ کر  ”محمدعاشق بیدل“  نے لکڑی کے ٹکڑے پر دھاگے پر اپنی پوری مہارت سے جوڑا، اور اس”مشین“ کو وہ پانی میں ڈالتا اور تھوڑی دیر میں پانی گرم،  آہ لیکن اس کی اس ایجاد کو، نقادوں نے جذبہ حسد کی بنیاد پر ”روح کھِچ“ کا نام دے دیا، لیکن اِس کے باوجو د بھی اس کی یہ دو ایجادیں، گمنامی میں جانے سے بچ گئیں، ان ایجادات کی رائلٹی دیئے بغیر،  تمام بیٹ مینوں نے  اپنے اپنے صاحبان کی سہولت کی لئے یہ ایجادات، کاپی کر لیں یو ں نوشہرہ کے اس آسیبی حصے میں جہاں بوڑھے انگریزوں کی روحیں کبھی کبھار اپنی پرانی کمین گاہیں دیکھنے آجاتی تھیں، ایجادت کے ریکارڈ بننے لگے، اور یوں
"ضرورت ایجاد کی ماں اور تجربہ باپ قرار پایا"

1 تبصرہ:

خیال رہے کہ "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ !

افق کے پار
دیکھنے والوں کو اگر میرا یہ مضمون پسند آئے تو دوستوں کو بھی بتائیے ۔ آپ اِسے کہیں بھی کاپی اور پیسٹ کر سکتے ہیں ۔ ۔ اگر آپ کو شوق ہے کہ زیادہ لوگ آپ کو پڑھیں تو اپنا بلاگ بنائیں ۔