Pages

میرے چاروں طرف افق ہے جو ایک پردہء سیمیں کی طرح فضائے بسیط میں پھیلا ہوا ہے،واقعات مستقبل کے افق سے نمودار ہو کر ماضی کے افق میں چلے جاتے ہیں،لیکن گم نہیں ہوتے،موقع محل،اسے واپس تحت الشعور سے شعور میں لے آتا ہے، شعور انسانی افق ہے،جس سے جھانک کر وہ مستقبل کےآئینہ ادراک میں دیکھتا ہے ۔
دوستو ! اُفق کے پار سب دیکھتے ہیں ۔ لیکن توجہ نہیں دیتے۔ آپ کی توجہ مبذول کروانے کے لئے "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ پوسٹ ہونے کے بعد یہ آپ کے ہوئے ، آپ انہیں کہیں بھی کاپی پیسٹ کر سکتے ہیں ، کسی اجازت کی ضرورت نہیں !( مہاجرزادہ)

ہفتہ، 1 مارچ، 2014

پہلی اینگلو افغان جنگ

 پہلی اینگلو افغان جنگ  (1839-1842) جو شاہ شجاع (بابا احمد شاہ کا نواسہ ) کے تخت نشینی کو کنفرم کرنا بھی مقصود تھا ۔  جب انگریز فوج بولان سے گزر رہے تھے ۔  تو انگریز نے ریاست قلات   کے  خان قلات میر محراب خان  - دوئم (1817-1839)پر دباؤ ڈالا کہ وہ افغانستان کے خلاف  جنگ میں ہمارے ساتھ شامل ہوں ۔ حریت پسند میر محراب خان نے  صاف انکار کیا ۔
خان آف قلات، اپنے آپ کو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا حمزہ کی اولاد مانتے تھے۔ محراب خان نے دعویٰ کیا کہ وہ 23 نسلوں سے اپنے نسب کا پتہ لگا سکتا ہے، اور یہ کہ اس کے آباؤ اجداد حلب (شام)  سے ہجرت کر کے آئے تھے۔
   محراب خان ، ایک کمزور حکمران،  نے داؤد محمد نامی ایک شخص کے اثر و رسوخ کے سامنے ہتھیار ڈال کر اپنے سرداروں کو الگ کر دیا، جو کہ ایک ادنیٰ آدمی تھا، اپنے موروثی وزیر فتح محمد کو داؤد کو اقتدار دینے کے لیے قربان کر دیا۔ تاہم، فتح محمد کے بیٹے نائب ملا محمد حسن نے داؤد کو قتل کر دیا اور اپنا موروثی دفتر واپس لے لیا ۔ حسن نے  محراب خان کو کبھی معاف نہیں کیا جو اس کے والد کے ساتھ کیا گیا تھا۔ 
 کیپٹن سر الیگزینڈر برنس (1805-1841) کو خان ​​کی مبینہ دشمنی سے نمٹنے اور اس کے ساتھ معاہدہ کرنے کے لیے قلات بھیجا گیا۔ حسن کی خفیہ خواہشات کے برخلاف معاہدہ نمبر CLXXIII پر دستخط کیے گئے اور خان نے شاہ شجاع کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے کوئٹہ جانے پر رضامندی ظاہر کی۔ برنس اس سے پہلے چلا گیا، اور جب وہ جا رہا تھا، حسن نے برنس سے اس معاہدے پر ڈاکہ ڈالا جس پر خان نے دستخط کیے تھے، جس سے انگریزوں کو یقین ہو گیا کہ یہ خان کے حکم پر کیا گیا تھا، جسے حسن نے کوئٹہ کا سفر نہ کرنے پر آمادہ کیا، جہاں اس نے کہا کہ انگریزوں نے اسے گرفتار کرنے کا منصوبہ بنایا تھا۔ اب انگریزوں کے پاس، جیسا کہ ان کا خیال تھا، خان کی ان سے دشمنی کا ثبوت تھا اور انہوں نے موقع ملنے پر اسے سزا دینے کا فیصلہ کیا۔ 
  انگریز افغانستان کے خلاف جنگ   میں  افغانستان کو شکست دی اور مقاصد میں کامیاب رہے  ۔   افغان جنگ سے فارغ ہو کر  انگریزوں نے  پہلے بلوچ سرداروں کو خرید کر   اور پھر 5نومبر 1839 ء کو دارلحکومت قلات پر چھڑہائی کی  خان محراب خان کے کے اکثر سردار  نے انگریزوں کا ساتھ دیا  مگر پھر بھی جانثاری سے مقابلہ کیا  اور شکست کھا گئے اور شہید ہوئے  برصغیر کی تاریخ میں ٹیپو سلطان کے بعد خان محراب خان کا نام سب سے اہم ہے جس نے اپنے مقامی بلوچ سرداروں کی غداری کے باوجود انگریز فوج کا ڈٹ کر مقابلہ کیا مگر شکست کھا گیا۔
اس جنگ میں فتح حاصل کرنے کے بعد انگریزوں نے ساتھ دینے والے بلوچ سرداروں کے ماہانہ وظیفے مقرر کیئے جو درج ذیل تھے ۔
سردار رئیسانی 400 روپے ماہانہ ، سردار شاہوانی 300 روپے ماہانہ
سردار بنگلزئی 300 روپے ماہانہ ، سردار محمد شہی  300 روپے ماہانہ
سردار لہری 300 روپے ماہانہ ، سردار شاہوانی 300 روپے ماہانہ ۔
دوسری اینگلو افغان وار 1879 کے درمیان بلوچستان کے علاقے میں جب انگریزوں نے پشین، لورالائی، ہرناہی، سبی، ژوب پر قبضہ کرلیا تو جنگ کے دوران وفاداری نبھانے والے اورذاتی خدمات انجام والے بلوچ سرداروں کو جو ماہانہ وظیفہ دیا جاتا تھا وہ یہ ہے ۔
نواب مری 818 روپے , نواب بگٹی 800 روپے , نواب جوگیزئی 400 روپے , سردار سنجرانی 350 روپے , ارباب کاسی 350 روپے , سردار زگر مینگل 300 روپے , سردار پانیزئی 240 روپے , سردار ناصر 218 روپے , سردار کھیتران 200 روپے , سردار باروزئی 168 روپے , سردار لونی 125 روپے , سردار موسیٰ 60 روپے ۔
قیام پاکستان کے بعد بھی یہ وظیفے ادا ہوتے رہے ہیں اور 1976 کے سرداری آرڈیننس کے نفاذ کے بعد وظیفے لینے والوں کی تعداد اس طرح تھی۔
والیان ریاست 4 ، نواب اور سردار 74 ، ملک اور معتبر 101 ، جرگہ کے اراکین 87 ، ذاتی خدمات 2995 ۔
اس میں والیان نواب سردار ملک 117 بلوچ اور 61 پشتون تھے۔ جبکہ ذاتی خدمات والے 914 بلوچ اور 2168 پشتون تھے۔
ان کو وظیفے دینے کا سب سے بڑا سبب یہ تھا کہ کوئی ایک متحد گروپ یا اتحاد بننے سے روکا جائے، حکومت کے خلاف کوئی احتجاج یا تحریک کامیاب نہ ہونے دی جائے۔ اور مختلف قبائل میں اختلافات پیدا کرکے جھگڑے اور تصادم کروائے ۔ 

٭٭٭٭٭٭٭ ٭

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

خیال رہے کہ "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ !

افق کے پار
دیکھنے والوں کو اگر میرا یہ مضمون پسند آئے تو دوستوں کو بھی بتائیے ۔ آپ اِسے کہیں بھی کاپی اور پیسٹ کر سکتے ہیں ۔ ۔ اگر آپ کو شوق ہے کہ زیادہ لوگ آپ کو پڑھیں تو اپنا بلاگ بنائیں ۔