Pages

میرے چاروں طرف افق ہے جو ایک پردہء سیمیں کی طرح فضائے بسیط میں پھیلا ہوا ہے،واقعات مستقبل کے افق سے نمودار ہو کر ماضی کے افق میں چلے جاتے ہیں،لیکن گم نہیں ہوتے،موقع محل،اسے واپس تحت الشعور سے شعور میں لے آتا ہے، شعور انسانی افق ہے،جس سے جھانک کر وہ مستقبل کےآئینہ ادراک میں دیکھتا ہے ۔
دوستو ! اُفق کے پار سب دیکھتے ہیں ۔ لیکن توجہ نہیں دیتے۔ آپ کی توجہ مبذول کروانے کے لئے "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ پوسٹ ہونے کے بعد یہ آپ کے ہوئے ، آپ انہیں کہیں بھی کاپی پیسٹ کر سکتے ہیں ، کسی اجازت کی ضرورت نہیں !( مہاجرزادہ)

بدھ، 26 فروری، 2014

لیڈر شپ ! الطاف حسین

مہاجرزادوں کا مقدمہ۔ (الطاف حسین مہاجرزادہ)
شاید آپ سندھ میں نہیں رہے ، میری عمر کا کچھ حصہ سندھ میں گذرا ہے ، 1973 میں ،میں نے وہاں غیر سندھیوں کا قتل دیکھا ہے

" مہاجر سٹوڈنٹ  فیڈرشن "سے میرا تعارف 1970 میں نیشنل سروس کی ٹرینگ کے دوران دوسرےہفتے میں ہوا تھا ۔جب پہلے بیج کے الطاف حسین سے میرا تعارف کراچی کے ایک دوست نے کروایا تھا ۔

اردو بولنے کے باوجود الطاف حسین کی تقریر نے مجھے متاثر نہیں کیا کیوں کہ اس سے عصبیت کی بو آتی تھی ، عصبیت کی یہ تعریف میں نے جماعت اسلامی کے اکابرین سے سنی تھی ۔

پھر الطاف گروپ سے دوبارہ ملاقات کراچی یونیورسٹی میں ہوئی ۔جب سندھ میں فسادات پھوٹے ، سندھی اور غیر سندھی (پنجابی ، پٹھان اورمہاجر) گو کہ ان کا اتحاد عارضی تھا، لیکن اس کے باوجود سندھی اور پٹھان مہاجروں کے خلاف تھے۔ اس کے بعد کا حال سب کے سامنے ہے۔
 پھر  1985کے بعد ، پٹھانوں اور سندھیوں کی طرح ،مہاجر زادوں نے اسلحہ ہاتھ میں لے لیا ، کیوں کہ مہاجر "قلم" پکڑنے والی قوم تھی ، جبکہ پٹھان بندوق کو اور سندھی کلہاڑی کو اپنا زیور سمجھتے تھے ۔
چنانچہ "مہاجر زادوں" نے اپنے والدین کے اصولوں سے بغاوت کی اور ہاتھ میں ، پٹھانوں کے درہ آدم خیل سے لائے ہوئے، ریوالورکو اپنا زیور بنا دیا۔

مجھے اچھی طرح یاد ہے ، کہ 1967 میں، میں آٹھویں میں پڑھتا تھا  ،  کوئیٹہ میں سردیوں کی چھٹیاں ہوئی ، والدہ محترمہ ہمیں لے کر نومبر کے آخری ہفتے میں فروری تک کی چھٹیاں گذارنے   میرپورخاص، خالہ کے گھر آئیں  ۔ آوارہ گردی سے بچانے کے لئے انہوں نے ہمیں  محلے کے سکول میں داخل کروادیا ، ہیڈ ماسٹر میرے مرحوم چچا کے ساتھی تھے ،  میرے ملتان بورڈ کے امتحان مارچ  1968 میں ہونے تھے سکول کا امتحان میں نے پاس کر لیا تھا  ۔

ہمیں آئے ہوئے کوئی دوسرا یا تیسرا دن تھا ،میرا  دس سالہ چھوٹا بھائی زخمی ،کپڑے پھٹے ، گھر آیا ، خواتین کا رونا پیٹنا اپنی جگہ ، میں نے اس سے پوچھا کیا ہوا ، اس نے  پاکستان کی ایک زبان بولنے والوں  کے متعلق بتایا  ، کہ وہ  (چھوٹا بھائی ) اور اس   کے دوسرے ساتھی  ، کرمچ  (ٹینس) کی گیند سے پٹھو گرم کھیل رہے تھے  ۔ کہ گیند ان کے گھر کے سامنے چلی گئی ، تو ایک لڑکا جو وہاں کھڑا ، ہمیں دیکھ رہا تھا وہ  دوڑ کر  گھر میں گیا ، میں اس کے پیچھے گیند لینے گیا ۔ تو اس نے اور اس کے دو اور بھائیوں نے مجھے مارا ۔
 میں نے خالہ زاد بھائی سے پوچھا ، اس نے تصدیق کی۔
میں اور مجھ سے ڈیڑھ سالہ چھوٹا بھائی ، ہم دونوں گیند لینے ۔ ان کے گھر جانے لگے تو ، خالہ زاد بھائی بولا ، 

" بھائی جان وہ بہت لڑاکا ہیں ، مار مار کر خون نکال دیتے ہیں "۔
 امی اور خالہ نے روکنے کی کوشش کی لیکن ہم دونوں بھائی ، اپنی ہاکیاں لے کے باہر نکلے ۔ اس لڑکے کے گھر کے باہر چار لڑکے ہماری گیند سے کھیل رہے تھے ۔ میں نے قریب جا کر کہا ۔
" یہ گیند دے دو ہم نے ہاکی کھیلنی ہے ۔"
جس لڑکے نے گیند چھینی تھی ، اس نے مجھ سے قد میں بڑے لڑکے کی طرف اچھال دی ، اس نے کہا،
" آؤ مجھ سے لے لو "۔
میں سمجھ گیا ، کہ یہ اب گیند ایک دوسرے کی طرف اچھال کر ہمیں زچ کریں گے ، میں اسکی طرف بڑھا تو اس نے گیند پیچھے چھپا لی اور میرے سینے پر مکہ مارا ۔ میں اس کے لئے تیار نہیں تھا ۔ چھوٹے بھائی نے ہاکی پوری قوت سے گھما کر اس کے ٹخنے پر ماری اور پھر تھوڑی دیر میں تین لڑکے اپنے ٹخنے سہلا رہے تھے اور زور زور سے رو رہے تھے ،
ہم نے اپنی گیند لی اور دوڑ کر گھر واپس آگئے ۔
تھوڑی دیر میں ایک پورا وفد ، یونین کونسل کے ممبر سمیت  ہماری خالہ کے دروازے پر ، ہمیں باہر بلایا گیا ۔  انکوائری ہوئی ، ہم بے قصور اور مخالف پارٹی مجرم ،  دونوں پارٹیوں میں دوستی کروائی گئی  ۔ اور ایسی دوستی ہوئی کہ اب بھی قائم ہے ۔
ہم والد کی فوج میں  ملازمت کی وجہ سے پنجاب ، سرحد اور بلوچستان کی خاک چھان چکے تھے ، لہذا میری بڑی بہن، میں اور چھوٹا بھائی ، عموما موقع محل کے مطابق ، پنجابی ، پشتو ، فارسی اور حتمی سیکیورٹی کے لئے ، ف ، چ ک اور الٹی بولی بولا کرتے تھے۔ الٹی بولی کو ہم نے جرمن زبان کے کچھ لفظ ملا کر ، جرمنی کی زبان ڈکلئیر کر دیا تھا ۔
 
لیکن وہ  مہاجر زادے جو " رمضانی کمزور مار کھانے کی نشانی " سمجھا جاتا تھا ، اپنا حق لینے پر ،میڈیا نے انہیں دہشت گرد بنا دیا ۔ہمارے وقتوں میں میڈیا اتنا مادر پدر آزاد نہ تھا ، لیکن اس کے باوجود ،  ان کے مقابلے میں:
پٹھان اگر قتل کرتا تو وہ "غیرت" کے رجسٹر میں درج ہوتا ،
سندھی قتل کرتا تو وہ "سندھی دھرتی ماتا " کے اتہاس میں لکھا جاتا ۔

اور مہاجر کو "پنجابی" استعمال کرتا اور
اسے بچانے کے بجائے پولیس میں پکڑوا دیتا ۔

یہ ساری کہانی ہے ، "مہاجر قومی مومنٹ" کے وجود کی۔  
کراچی میں ،
 ایم کیو ایم ،کوئی نئی شریعت نہیں لا رہی اور نہ ہی کسی نئے صوبے کا نعرہ لگا رہی ہے ۔ اس کے باوجود ،" شیر آیا شیر آیا " کا نعرہ بلند کروایا جاتا ہے ۔ تاکہ مہاجروں  زادوں کے  خلاف دلوں میں نفرت کی خلیج کا بیج بویا جائے ۔
 
ہمارے والدین جو ہندوستان سے آئے ہوئےمہاجر تھے  ، قائداعظم کے نعرے  سن کر اپنی جائدادیں ، آباء و اجداد کی قبریں ،  بہن ، بھائی  اور دیگر رشتہ دارچھوڑ کر پاکستان آئے۔کیوں؟
کہ وہ سنہرہ نعرہ " مسلم ہے تو مسلم لیگ میں آ " جو 1940 سے 1947 تک خون میں شامل ہو کر رگوں میں دوڑ رہا تھا ۔  اس نے ہجرت پر مجبور کیا ۔

پاکستان میں آکربھی،  ہندوستان سے آئے ہوئے مہاجروں نے قربانیاں دیں ، وہ سب پڑھے لکھے لوگ تھے ۔ 

مغربی پاکستان کے تمام سکول ، تمام حکومتی ادارے ، تمام کھیت اور بزنس کو فروغ تو ہندوستان سے آئے ہوئے مہاجروں نے ہی دیا  - خواہ یہ مہاجر پنجابی ہوں ، پٹھان ہوں یا اور قومیں  ۔
 یاد رہے کہ مہاجروں میں اردو بولنے والے نہیں البتہ اردو سمجھنے والے زیادہ لوگ تھے  ۔ لہذا ان کے درمیان اردو رابطے کی زبان بن گئی ۔ ایک بات یاد رہے ، کہ میں نے مشرقی پاکستان کی طرف جانے والے مہاجروں (بہاریوں)  کا ذکر نہیں کیا ، جن کی بے مثال قربانیاں اب بھی جاری ہیں  ۔ 
ہاں،  بلوچستان میں گئے ہوئے ، یہ مہاجر بلوچستان کو تقریباً خالی کر کے ملک کے دوسرے حصوں میں چلے گئے ہیں -
میں  ایم کیو ایم کا  ووٹر نہیں نہ ہی الطاف حسین میرا لیڈر ہے ، لیکن میں اس کی لیڈر شپ کا قائل ہوں ، کہ جو لندن میں بیٹھ کر ، جب مجمع سے کہتا ہے!
 میری بہنوں ، بھائیو ، بزرگو اور میرے کارکنو ذرا خاموش ہو جاؤ ،
تو نعیم صادق سر،  میں نے خود ماؤں کو چھوٹے بچوں کے منہ پر ہاتھ رکھ کر چپ کرواتے دیکھا ہے ، کہیں ان کے  قائد کو اس کے شور کی آواز نہ  چلی جائے ، اس وقت اس ماں کے سر پر نہ کوئی پستول رکھا ہوتا ہے اور نہ کوئی دہشت گرد کھڑا ہوتا ہے ۔
نعیم صادق سر : اسے لیڈر شپ کہتے ہیں ۔
 ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

راجپوتانہ سے اُٹھنے والے مکّڑ (ٹڈیاں

 ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

خیال رہے کہ "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ !

افق کے پار
دیکھنے والوں کو اگر میرا یہ مضمون پسند آئے تو دوستوں کو بھی بتائیے ۔ آپ اِسے کہیں بھی کاپی اور پیسٹ کر سکتے ہیں ۔ ۔ اگر آپ کو شوق ہے کہ زیادہ لوگ آپ کو پڑھیں تو اپنا بلاگ بنائیں ۔