کیا انسان ایک پرندے کی طرح ہے دانہ دانہ چگنے کے لئے میلوں کا سفر کرتا ہے۔اور نئے نئے دیس دریافت کرنے کے بعد کسی نئے دیس کی زمین میں دفن ہوجاتا ہے۔ یا انسان کو سائبیریا (قطب شمالی) میں بسنے والی مرغابیوں کی طرح ہونا چاہیئے۔ جن کی ٹرین سخت موسم سرما میں ہزاروں میل کا سفر کرتیں ایک دوسرے براعظم کی طرف اُڑان بھرتیں اور سرما گزرنے کے بعد پھر واپس اپنے آبائی وطن لوٹ جاتیں۔ لیکن! لیکن وہ جن کے رفیق راستے میں بچھڑ جاتے وہ تھک کر کسی بھی جھیل میں پناہ لیتیں۔ اور پھر سائبیرین مرغابی کے نام سے پہچانی جاتیں، اُن سے اُن کے آبائی نام کو کوئی جدا نہیں کرسکتا کیوں؟ کہ یہی دستور ِ آفاقی سچ ہے۔
ایسی ہی ایک ٹرین ہندوستان سے روانہ ہوئی آگ اور خون کا دریا عبور کرتی امرتسر پر روک دی گئی۔ اِس ٹرین میں سے ایک 19سالہ لڑکی اپنی بوڑھی ماں اور دیگر رشتہ داروں کے ساتھ زندہ اور مردہ لاشوں کے ساتھ ڈرتی ہوئی اتری۔ اجمیر سے امرتسر سے والٹن تک کا طویل سفر کیسے طے ہوا ایک لمبی کہانی ہے۔
ایسی ہی ایک ٹرین ہندوستان سے روانہ ہوئی آگ اور خون کا دریا عبور کرتی امرتسر پر روک دی گئی۔ اِس ٹرین میں سے ایک 19سالہ لڑکی اپنی بوڑھی ماں اور دیگر رشتہ داروں کے ساتھ زندہ اور مردہ لاشوں کے ساتھ ڈرتی ہوئی اتری۔ اجمیر سے امرتسر سے والٹن تک کا طویل سفر کیسے طے ہوا ایک لمبی کہانی ہے۔
والٹن میں داخل ہونے سے پہلے وہ ہر فوجی کو غور سے دیکھتی جارہی تھی کیوں کہ اُس نے سنا تھا کہ اُس کا بھائی میڈیکل کور میں، روزگار اور انسانوں کی مدد کے لئے بھرتی ہو گیا۔ پھر اُسے خیال آتا کہ بھائی کو کیا معلوم کہ ہم آرہے ہیں۔ ہاں البتہ پاکستان میں داخل ہونے کے بعد جب اَس کی والدہ نے سنا کہ یہ پاکستان کی سرزمین ہے اور وہ باقی بوڑھوں کی طرح سجدے میں گر پڑی تو اُس وقت بھی اسے خیال آیا کہ شاید بھائی کوخبر ہو گئی ہو گی۔
والٹن کیمپ میں داخل ہونے کے بعد بھی اُس کی نظریں بھائی کو تلاش کرتی رہیں۔ ماں بار بار پوچھے،
”حنیف خان کو خبر ہوئی“ ،
”نہیں ماں“ اُس کا جواب ہوتا۔
دوسرے دن ماں سخت بیمار ہوگئی۔ موسمی بیماری اور اسہال نے بے جان کر دیا۔ وہ ماں کو لے کر کیمپ کے ہسپتال گئی۔ جو والٹن ریلوے سٹیشن کے بالکل نزدیک تھا۔ ڈاکٹر نے ماں کو داخل کرلیا۔ زمین پر لگے ہوئے صاف بستر، ذمہ داری کے ساتھ بیماروں کی دیکھابھال کرنے والا عملہ نہایت دلجمعی کے ساتھ، تیماردار اور دوسرے رشتہ دار بھی مریضوں کے پاس آ بیٹھتے۔ وہ ماں کے پاس بیٹھی تھی کہ اچانک ایک گونج دار آواز آئی،
”ڈاکٹر صاحب کا راونڈ آرہا ہے تما م ملاقاتی باہر نکل جائیں“۔
تمام لوگ باہر نکل گئے، لیکن وہ نیم بے ہوش ماں کے پاس بیٹھی رہی،
”اے لڑکی تم سے سنا نہیں؟“
۔اُس نے مڑ کر آواز کی طرف دیکھا۔ ایک چنگیزی شکل کا نائیک اُس سے مخاطب تھا۔
”اُٹھو باہر نکلو“۔
لڑکی کے ذہن میں فوراً سوچ ابھری،
”جلّاد کا ابّا“۔
" میں ملاقاتی نہیں " وہ تنک کر بولی
" ٹھیک ہے ، چلو نکلو باہر" نائیک بولا۔
وہ غصے اور نفرت کے جذبات لئے اُٹھی اور لمبے خیمے سے باہر نکل کر خیمے کے دروازے پر جم گئی۔ نائیک بھی خیمے کا چکر لگا کر دروزے پر آگیا۔ تھوڑی دیر بعد، ایک میجر صاحب، دو نرس خواتین اور دیگر نرسنگ کے افراد کے ساتھ خیمے میں داخل ہوئے۔ ہر مریض کو پوچھتے لڑکی کی ماں کے پاس آکر رکے نبض ٹٹولی۔ نرس سے کچھ کہا۔ نرس نے نائیک سے کہا اور نائیک زوردار آواز میں بولا،
”اِس مریض کے ساتھ کوئی ہے تو ادھر آئے۔ڈاکٹر صاحب بلا رہے ہیں“۔
لڑکی دوڑتی ہوئی ماں کے پاس پہنچی۔
”تمھارے ساتھ کوئی مرد ہے؟“ نائیک نے پوچھا۔
لڑکی بولی ”ہاں میرا بھائی ہے“۔
نائک نے کہا ”اُسے بلاؤ“۔
لڑکی غصے میں بولی،”کہاں سے بلاؤں وہ تمھاری طرح ہسپتال والوں کی فوج میں معلوم نہیں کہاں ہے“۔
نائیک نے پو چھا”کیا نام ہے؟“۔
”حنیف خان“لڑکی بولی۔ نائیک نے لڑکی کو غور سے دیکھا۔ پوچھا،”اجمیر والا؟“۔
”ہاں ہاں وہی“۔ لڑکی نے جلدی سے جواب دیا۔
نائیک نے آگے بڑھ کر میجر صاحب کو کچھ کہا۔ میجرصاحب بولے۔
”ٹیلیگرام دے دو یہ عورت مشکل سے بچے!“۔
لڑکی پر یہ الفاظ بجلی بن کر گرے اُس نے یہ سن کر وہیں بھاں بھاں رونا شروع کر دیا۔
والٹن کیمپ میں داخل ہونے کے بعد بھی اُس کی نظریں بھائی کو تلاش کرتی رہیں۔ ماں بار بار پوچھے،
”حنیف خان کو خبر ہوئی“ ،
”نہیں ماں“ اُس کا جواب ہوتا۔
دوسرے دن ماں سخت بیمار ہوگئی۔ موسمی بیماری اور اسہال نے بے جان کر دیا۔ وہ ماں کو لے کر کیمپ کے ہسپتال گئی۔ جو والٹن ریلوے سٹیشن کے بالکل نزدیک تھا۔ ڈاکٹر نے ماں کو داخل کرلیا۔ زمین پر لگے ہوئے صاف بستر، ذمہ داری کے ساتھ بیماروں کی دیکھابھال کرنے والا عملہ نہایت دلجمعی کے ساتھ، تیماردار اور دوسرے رشتہ دار بھی مریضوں کے پاس آ بیٹھتے۔ وہ ماں کے پاس بیٹھی تھی کہ اچانک ایک گونج دار آواز آئی،
”ڈاکٹر صاحب کا راونڈ آرہا ہے تما م ملاقاتی باہر نکل جائیں“۔
تمام لوگ باہر نکل گئے، لیکن وہ نیم بے ہوش ماں کے پاس بیٹھی رہی،
”اے لڑکی تم سے سنا نہیں؟“
۔اُس نے مڑ کر آواز کی طرف دیکھا۔ ایک چنگیزی شکل کا نائیک اُس سے مخاطب تھا۔
”اُٹھو باہر نکلو“۔
لڑکی کے ذہن میں فوراً سوچ ابھری،
”جلّاد کا ابّا“۔
" میں ملاقاتی نہیں " وہ تنک کر بولی
" ٹھیک ہے ، چلو نکلو باہر" نائیک بولا۔
وہ غصے اور نفرت کے جذبات لئے اُٹھی اور لمبے خیمے سے باہر نکل کر خیمے کے دروازے پر جم گئی۔ نائیک بھی خیمے کا چکر لگا کر دروزے پر آگیا۔ تھوڑی دیر بعد، ایک میجر صاحب، دو نرس خواتین اور دیگر نرسنگ کے افراد کے ساتھ خیمے میں داخل ہوئے۔ ہر مریض کو پوچھتے لڑکی کی ماں کے پاس آکر رکے نبض ٹٹولی۔ نرس سے کچھ کہا۔ نرس نے نائیک سے کہا اور نائیک زوردار آواز میں بولا،
”اِس مریض کے ساتھ کوئی ہے تو ادھر آئے۔ڈاکٹر صاحب بلا رہے ہیں“۔
لڑکی دوڑتی ہوئی ماں کے پاس پہنچی۔
”تمھارے ساتھ کوئی مرد ہے؟“ نائیک نے پوچھا۔
لڑکی بولی ”ہاں میرا بھائی ہے“۔
نائک نے کہا ”اُسے بلاؤ“۔
لڑکی غصے میں بولی،”کہاں سے بلاؤں وہ تمھاری طرح ہسپتال والوں کی فوج میں معلوم نہیں کہاں ہے“۔
نائیک نے پو چھا”کیا نام ہے؟“۔
”حنیف خان“لڑکی بولی۔ نائیک نے لڑکی کو غور سے دیکھا۔ پوچھا،”اجمیر والا؟“۔
”ہاں ہاں وہی“۔ لڑکی نے جلدی سے جواب دیا۔
نائیک نے آگے بڑھ کر میجر صاحب کو کچھ کہا۔ میجرصاحب بولے۔
”ٹیلیگرام دے دو یہ عورت مشکل سے بچے!“۔
لڑکی پر یہ الفاظ بجلی بن کر گرے اُس نے یہ سن کر وہیں بھاں بھاں رونا شروع کر دیا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
٭- اگلا مضمون:
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں