Pages

میرے چاروں طرف افق ہے جو ایک پردہء سیمیں کی طرح فضائے بسیط میں پھیلا ہوا ہے،واقعات مستقبل کے افق سے نمودار ہو کر ماضی کے افق میں چلے جاتے ہیں،لیکن گم نہیں ہوتے،موقع محل،اسے واپس تحت الشعور سے شعور میں لے آتا ہے، شعور انسانی افق ہے،جس سے جھانک کر وہ مستقبل کےآئینہ ادراک میں دیکھتا ہے ۔
دوستو ! اُفق کے پار سب دیکھتے ہیں ۔ لیکن توجہ نہیں دیتے۔ آپ کی توجہ مبذول کروانے کے لئے "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ پوسٹ ہونے کے بعد یہ آپ کے ہوئے ، آپ انہیں کہیں بھی کاپی پیسٹ کر سکتے ہیں ، کسی اجازت کی ضرورت نہیں !( مہاجرزادہ)

پیر، 17 اگست، 2015

مرنے کے پانچ بڑے پچھتاوے

" برونی وئیر "(Bronnie Ware) ایک آسٹریلین نرس تھی۔ مگر اس کا کام عام نرسوں جیسا نہیں تھا۔
وہ ایک ایسے کلینک میں کام کرتی رہی جہاں ایسے مریض لائے جاتے تھے جو زندگی کی بازی ہار رہے ہوتے تھے۔
ان کی سانسیں چندہفتوں کی مہمان ہوتی تھیں۔ مریضوں میں ہرعمر اور ہر مرض کے لوگ ہوتے تھے۔

ان میں صرف ایک چیز یکساں ہوتی کہ وہ صرف چندہفتوں کے مہمان ہوتے تھے۔ زندگی کی ڈورٹوٹنے والی ہوتی تھی۔ برونی نے محسوس کیاکہ اس کے کلینک میں دس بارہ ہفتوں سے زیادہ کوئی زندہ نہ رہتا تھا۔

کلینک میں موجود دوسرے ڈاکٹروں اور دیگر نرسوں نے ان چند دنوں کی اہمیت کو محسوس نہیں کیا مگر برونی ایک حساس ذہن کی مالک تھی۔
اس نے محسوس کیا کہ اگر انسان کو یہ پتہ ہو کہ وہ اب اس دنیا سے جانے والا ہے تو غیر معمولی حد تک سچ بولنے لگتا ہے۔
اپنے گزرے ہوئے وقت پر نظر ڈال کرنتائج نکالنے کی صلاحیت سے مالا مال ہوجاتا ہے‘ اپنی تمام عمر کے المیے، خوشیاں اورنچوڑ سب کچھ بتانا چاہتا ہے۔ 

برونی نے محسوس کیا، کہ موت کی وادی کے سفر پر روانگی سے چنددن پہلے انسان مکمل طور پر تنہا ہوجاتا ہے۔
خوفناک اکیلے پن کے احساس میں مبتلا شخص لوگوں کو اپنی زندگی کے بارے میں بتانا چاہتا ہے۔ باتیں کرنا چاہتا ہے۔ مگر اس کے پاس کوئی نہیں ہوتا۔ کوئی رشتہ دار، کوئی عزیز اور کوئی ہمدرد۔
برونی نے فیصلہ کیا کہ زندگی سے اگلے سفر پر جانے والے تمام لوگوں کی باتیں سنے گی۔ان سے مکالمہ کرے گی۔ ان سے ان کے بیتے ہوئے وقت کی خوشیاں، غم، دکھ، تکلیف اورمسائل سب کچھ غورسے سن کرمحفوظ کرلے گی۔ چنانچہ برونی نے اپنے مریضوں کے آخری وقت کو کمپیوٹر پرایک" بلاگ (Blog) " کی شکل میں مرتب کرناشروع کر دیا۔

اس کے بلاگ کو بے انتہا مقبولیت حاصل ہوگئی۔ لاکھوں کی تعدادمیں لوگوں نے پوری دنیاسے ان کی لکھی ہوئی باتوں کو پڑھنا شروع کر دیا۔ برونی کے خواب وخیال میں نہیں تھا کہ اس کے اور مریضوں کے تاثرات کو اتنی پذیرائی ملے گی۔

اور یہ سب کچھ ایک کتاب میں لکھ دیا۔
اس کتاب کانام
” مرنے کے پانچ بڑے پچھتاوے”

The top five regrets of Dying
تھا۔
برونی کی تصنیف شدہ کتاب مقبولیت کی بلندترین سطح کوچھونے لگی۔
حیرت کی بات یہ بھی تھی کہ تمام دم توڑتے لوگوں کے تاثرات بالکل یکساں تھے۔ وہ ایک جیسے ذہنی پُل صراط سے گزررہے تھے۔ یہ پانچ پچھتاوے کیا تھے!

پہلی بات سب نے کہی۔ اس سے کوئی بھی مستثناء نہیں تھا۔ ہرایک کی زبان پر تھا کہ مجھ میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ زندگی کو اپنی طرح سے جیتا۔ پوری زندگی کو اپنے ارد گرد کے لوگوں کی توقعات کے حساب سے بسر کرتا رہا۔

برونی کواندازہ ہوا کہ ہر انسان کے خواب ہوتے ہیں۔ مگر وہ تمام خواب ادھورے صرف اس وجہ سے رہ جاتے ہیں کہ انسان اپنی زندگی کی ڈور ارد گرد کے واقعات، حادثات اور لوگوں کے ہاتھ میں دے دیتاہے۔ وہ زندگی میں خود فیصلے کر ہی نہیں پاتا۔ یہ تمام لوگوں کا پہلا اور یکساں پچھتاوا تھا۔

دوسری بات جو خصوصاً مرد حضرات نے زیادہ کہی کیونکہ اکثرحالات میں گھر کے اخراجات پورے کرنے کی ذمے داری مرد کی ہوتی ہے۔ یہ کہ انھوں نے اپنے کام یا کاروبار پر اتنی توجہ دی کہ اپنے بچوں کابچپن نہ دیکھ پائے۔ وقت کی قلت کے باعث اپنے خاندان کو اچھی طرح جان نہیں پائے۔ کام اور روزگار کے غم نے ان سے تمام وقت ہی چھین لیا جس میں دراصل انھیں کافی ٹائم اپنے بچوں اور اہل خانہ کو دینا چاہیے تھا۔
ساری محنت جن لوگوں کے لیے کر رہے تھے، کام کی زیادتی نے دراصل اسے ان سے دورکر دیا۔ کام ان کے لیے پھانسی کا پھندا بن گیاجس نے ان کی زندگی میں کامیابی ضرور دی، مگر ان کو اپنے نزدیک ترین رشتوں کے لیے اجنبی بنادیا۔
برونی نے اپنے اکثر مریضوں کو یہ کہتے سنا کہ انھیں اپنی زندگی میں اتناکام نہیں کرنا چاہیے تھاکہ رشتوں کی دنیا میں اکیلے رہ جائیں۔ یہ دوسرا احساس زیاں تھا۔

تیسری بات بھی انتہائی اہم تھی۔
اکثر لوگوں نے خودسے گلہ کیا کہ ان میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ اپنے اصل خیالات اورجذبات سے دوسروں کو آگاہ کر پاتے۔
بیشتر لوگ صرف اس لیے اپنے اصل جذبات کا اظہار نہ کر پائے کہ دوسروں کو ناراض نہیں کرنا چاہتے تھے یا دوسروں کا خیال رکھنا چاہتے تھے۔
مگراس کا نقصان یہ ہوا کہ وہ ایک عامیانہ سی زندگی گزارتے رہے۔ ان کی تمام صلاحیتیں ان کے اندر قید رہ گئیں ۔ کئی افراد کے مزاج میں اس وجہ سے اتنی تلخی آگئی کہ تمام عمر کڑھتے رہے۔ انھیں ہونے والے نقصان کاعلم اس وقت ہوا جب بیمار پڑ گے اور کسی قابل نہ رہے۔

چوتھا غم بھی بڑا فکر انگیز تھا۔

اکثر لوگ اس افسوس کا اظہار کرتے رہے کہ اپنے پرانے دوستوں سے رابطہ میں نہ رہ پائے۔ نوکری، کام، روزگار یا کاروبار میں اتنے مصروف ہوگئے کہ ان کے بہترین دوست ان سے دور ہوتے گئے۔
ان کو اس زیاں کا احساس تک نہ ہوا۔ اپنے اچھے دوستوں کو وقت نہ دے پائے جن سے ایک بے لوث جذبے کی آبیاری ہوتی رہتی۔ کشمکشِ زندگی نے انھیں اپنے قریب ترین دوستوں سے بھی اتنا دور کردیا کہ سب عملی طور پر اجنبی سے بن گئے۔
سالہاسال کے بعد ملاقات اور وہ بھی ادھوری سی۔
برونی نے محسوس کیاکہ سب لوگوں کی خواہش تھی کہ آخری وقت میں ان کے بہترین دوست ان کے ساتھ ہوتے۔ عجیب حقیقت یہ تھی کہ کسی کے ساتھ بھی سانس ختم ہوتے وقت اس کے دوست موجود نہیں تھے۔
اکثر مریض برونی کو اپنے پرانے دوستوں کے نام بتاتے تھے۔ ان تمام خوشگوار اور غمگین لمحوں کو دہراتے تھے جو وقت کی گرد میں کہیں گم ہوچکے تھے۔ اپنے دوستوں کی حِس مزاح، عادات اور ان کی شرارتوں کا ذکر کرتے رہتے تھے۔

برونی تمام مریضوں کو جھوٹا دلاسہ دیتی رہتی تھی کہ وہ فکر نہ کریں، ان کے دوست ان کے پاس آتے ہی ہوں گے۔
مگر حقیقت میں کسی کے پاس بھی ایک دوسرے کے لیے وقت نہیں تھا۔ زندگی میں بھی اور آخری سانسوں میں بھی!

پانچویں اور آخری بات
بہت متاثر کن تھی۔ تمام مریض یہ کہتے تھے کہ انھوں نے اپنے آپ کو ذاتی طورپرخوش رکھنے کے لیے کوئی محنت نہیں کی۔

اکثریت نے دوسروں کی خوشی کواپنی خوشی جان لیا۔ اپنی خوشی کو جاننے اور پہچاننے کا عمل شروع ہی نہیں کیا۔

اکثر لوگوں نے اپنی خوشی کو قربان کرڈالا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ان کی زندگی سے مسرت کا خوبصورت پرندہ غائب ہوگیا۔ وہ لوگوں کو ظاہری طور پر متاثر کرتے رہے کہ انتہائی مطمئن زندگی گزار رہے ہیں۔

دراصل انھوں نے نئے تجربے کرنے چھوڑ دیے۔ وہ یکسانیت کا شکار ہوگئے۔ تبدیلی سے اتنے گھبرا گئے کہ پوری زندگی ایک غلط تاثر دیا
کہ بہت اطمینان سے اپنی زندگی گزاررہے ہیں۔ لیکن انھوں نے اپنے اندرہنسی اور قہقہوں کو مصلوب کردیا۔ تمام خوبصورت اور بھرپور جذبے پنہاں رہے بلکہ پابند سلاسل ہی رہے۔

عمر کے ساتھ ساتھ اپنے اوپر سنجیدگی اور غیرجذباتیت کا ایسا خول چڑھا لیا، کہ ہنسنا بھول گئے۔ اپنے قہقہوں کی بھر پور آواز سنی ہی نہیں۔ اپنے اندر گھٹ گھٹ کر جیتے رہے مگر اپنی خوشی کی پروا نہیں کی۔ حماقتیں کرنے کی جدوجہد بھی ترک کر ڈالی۔
نتیجہ یہ ہواکہ عجیب سی زندگی گزار کر سفر عدم پر روانہ ہوگئے۔



کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

خیال رہے کہ "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ !

افق کے پار
دیکھنے والوں کو اگر میرا یہ مضمون پسند آئے تو دوستوں کو بھی بتائیے ۔ آپ اِسے کہیں بھی کاپی اور پیسٹ کر سکتے ہیں ۔ ۔ اگر آپ کو شوق ہے کہ زیادہ لوگ آپ کو پڑھیں تو اپنا بلاگ بنائیں ۔