مہاجرزادوں کا مقدمہ - انگریزوں کا ہندوستان پر احسان ۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭
زیتون بھی چودہ سال کی تھی۔ بڑے بھائی حکیم خان اُن دنوں پونا میں تھے۔ زیتون اپنی امی کے ساتھ اُن سے ملنے گئیں۔ انگریزوں کا متحدہ ہندوستان پر سب سے بڑا احسان ریلوے کا نظام تھا جو اُس نے اپنی حکومت کے استحکام کے لئے کیا اُ س کے خواب و خیال میں بھی نہیں تھا کہ اُسے ہندوستان سے جانا پڑے گا۔ تو وہ کبھی ہندوستان کا پیسہ ہندوستان میں خرچ نہ کرتا۔ دوسرا بڑا احسان سندھ کے ریگستان کو نہری نظام سے نخلستان میں تبدیل کرنا۔ بھائی کی ریلوے میں ملازمت کی وجہ سے زیتون نے اپنی امی کے ساتھ زیادہ وقت بھائی کے ساتھ مختلف شہروں میں گذارا۔
اجمیر (راجستان)سے پہلی دفعہ ابا کی وفات کے بعد زیتون اپنی امی کے ساتھ عبدالحکیم خان بھائی کے پاس بھیل واڑا گئی- جو سو میل دور راجستان ہی کا ایک قصبہ تھا۔ حکیم خان بھائی کا ایک بیٹا طیّب خان تھا اور بھابی امید سے تھیں۔ زیتون کی عمر تقریباً سات سال ہوگی اور طیّب چھ سال کا دونوں پھوپی اور بھتیجا آپس میں کھیلتے اور خوب شرارتیں کرتے۔ آم کے درختوں سے آم توڑنا، توتے اور فاختہ کے بچوں کو گھونسلوں میں دیکھنا یا اجمیر سے آنے والی یا اجمیر کو جانے والی ٹرین کو دیکھنا۔ انجن کی سیٹی سنتے ہی یہ دونوں دوڑ کر گھر سے باہر نکل جاتے کبھی اُن کے پیچھے ماں دوڑتی اور کبھی بھابی اِن کی کوشش ہوتی کی وہ انجن کے زیادہ سے زیادہ قریب جا کر دیکھیں اور انجن گزرنے کے بعد طیب دوڑ کر لوہے کی تار یا واشر کا ٹکڑا اتھا کر لاتا جو چپٹا ہو کر پھیل کر بڑا ہو جاتا۔
ایک دن بھابھی طیب کے پیچھے بھاگتے ہوئے پھسل گئیں۔ ساتویں مہینے کا حمل ضائع ہو گیا، لڑکا تھا۔بھابی کو جان کے لالے پڑ گئے۔ سال تک علاج ہوتا رہا۔ بھائی نے اپنی ٹرانسفر نیمچ کروالی جو فوجی چھاونی تھی اور ریلوے کا ہسپتال تھا۔ نیمچ اصل میں زیتون کا خاندانی شہر تھا جہاں اُس کے دادا پردادا دفن تھے اور ریلوے اسٹیشن سے جنوب میں یوسف زئیوں کا محلہ تھا۔ بنیادی طور پر یہ لوگ بیوپاری اور تاجر تھے۔اور تقریباً سارے ہندوستان میں پھیلے ہوئے تھے۔ زیتون کے پردادا انگریز فوج کو راشن سپلائی کرتے تھے جو ریلوے لائین کے مشرق میں کافی رقبے پر پھیلی ہوئی تھی۔اُس کے والد ہاشم خان نے اجمیر میں اپنا گودام بنایا تھا۔ جو فرخ شہریار بادشاہ کے وزیر میاں خان کے مقبرے کے پاس تھا۔جہاں سے وہ اپنے بھائیوں کو نیمچ، اندو ر، اورنگ آباد اور پونا میں سامان بھجوایا کرتا تھا۔ سامان لینے کے لئے وہ دلّی سے پونا تک کا سفر کیا کرتا تھا۔ ہاشم خان کے بیٹوں نے بزنس کے بجائے نوکری کو ترجیح دی۔ جس میں آرام تھا اور ریلوے کی ملازمت میں تو کئی فائدے تھے۔ کواٹر، مفت سفر علاج، چھٹیاں، وقت پر کام اور نئے نئے شہر وں میں ٹرانسفر اور پھر ترقی بھی تھی۔
دو بیٹوں نے ریلوے میں نوکری کی ایک بیٹا ٹیلیفون کے محکمے میں لگ گیا۔چھ فٹ لمبے حنیف خان نے فوج پسند کی۔ حنیف خان کو کشتی اور پہلوانی کا بڑا شوق تھا، چودہ سال کی عمر سے مقابلے کی کشتیاں لڑنی شروع کر دیں۔ دستور تھا کہ کشتی سے ایک دن پہلے پہلوان معین الدین چشتی کی درگاہ پر جاتے تھے اور فتح کے لئے دعائیں مانگتے۔ حنیف خان بھی دعا کے لئے درگاہ گئے کوئی بارہ بجے گھر واپس آئے اور کھاناکھا کر سو گئے۔ خواب دیکھتے ہیں کہ کوئی انہیں کھینچ کر لے جارہا ہے اور ایک بڑے منبر کے پاس کھڑا کر دیا جو بہت اونچا تھا۔ آواز آئی،
” ہمارے پہلوان حنیف خان کو لائے ہو؟“۔
جو شخص حنیف خان کو لے کر آیا تھا اُس نے کہا،”جی جناب حاضر ہے“۔
”یہ نہیں ہے اِس کو واپس لے جاؤ“۔
لانے والے شخص نے حنیف خان کو کھینچ کر پیچھے دھکا دیا۔ حنیف خان فضا میں قلا بازیاں کھاتے ہوئے گرنے لگا۔ خوف سے آنکھ کھل گئی کیا دیکھتا ہے، اماں، بھابیاں اور زیتون پاس بیٹھی رو رہی ہیں۔آنکھ کھلتے دیکھ کر بھابی چلائی،
”اماں حنیف زندہ ہے“۔
حنیف خان کو سخت بخار پورا ایک ہفتہ رہا اُس نے پہلوانی سے توبہ کی اور پکا نمازی بن گیا۔
پونا میں عبدالحکیم بھائی کو ریلوے کی طرف سے دو کمروں کا گھر ملا تھا۔ یہاں یوسف زئیوں کے کئی خاندان آباد تھے اور سب کا ایک دوسرے سے خوشی غمی میں رابطہ تھا۔ ایک یوسف زئی خاندان کی عورتوں کو زیتون پسند آگئی، انہوں نے اپنے بیٹے کے لئے رشتہ ڈالا جو رائل نیوی میں ایک سال ہوا سیلربھرتی ہوا تھا اور بمبئی سے وہ چھٹی پر گھر آیا۔ ماں اور بھائی نے قبول کر لیا،
1943نو میلاد کے دوسرے دن بدھ تھا اور پندرہ سالہ زیتون کی شادی ہو گئی شادی کے ہفتہ بعد شوہر کی چھٹی ختم ہوگئی اور وہ واپس جہاز پر چلا گیا۔ بعد میں معلوم ہوا جہاز اٹلی کی طرف چلا گیا۔ دوسری جنگ لگی ہوئی تھی اتحادی فوجوں نے اٹلی پر حملہ کیا۔ اٹلی کی فوجوں نے بھی جواباً کاروائی کی ایک توپ کا گولہ جہاز پر آکر گرا۔ زیتون کا شوہر اور دیگر افراد مارے گئے۔یہ خبررجب کے دوسرے ہفتے دوپہر کے وقت گھر پہنچی۔ گھر میں کہرام مچ گیا۔ زیتون کمرے میں سو رہی تھی رونے کا شور سن کر کمرے سے گبھرا کر دوڑی آئی۔ پانچ چھ عورتیں دھاڑ مار مار کر رو رہیں تھیں، زیتون کی ساس زمین پر پچھاڑیں مار رہی تھی زیتون نے ہاتھ لگا کر پوچھا،
”اماں کیا ہوا“۔
ساس ایک دم کھڑی ہوئی زیتون کو دھکا دیتی ہوئی بولی،
”ڈائن، منحوس میرے بچے کو کھا گئی"
اور زیتون کو دھکا دیا، وہ اپنے پیچھے بیٹی ہوئی عورت کے اورپر سے الٹ کر گری۔ پیٹ میں زور کا درد اٹھا۔ اُس نے چینخ ماری اس وقت سب چینخ کر رو رہے تھے ، زیتون کو کون پوچھتا ۔ زیتون درد سے بے ہوش ہوگئی۔ ہوش آیا توریلوے ہسپتال میں تھی۔ چار ماہ کا حمل ضائع ہو چکا تھا۔ بے ہوش ہونے کے بعد آدھے گھنٹے بعد اماں اور بھابی شوہر کی موت کا سن کر آئیں۔ زیتون کو بے ہوش دیکھا تو فورا بھائی کو بلایا زیتون کو ہسپتال لے آئے۔ ہسپتال میں ہفتہ رہی پھر ماں بھائی کے گھر لے آئی۔ عدت گذارنے کے بعد ماں واپس لے کر اجمیر آگئی۔بھائی نے پونا واپس آنے کہا کئی بار پیغام بھیجا مگر زیتون نے انکار کر دیا پونا سے اس کی یادوں میں تلخیاں بھری ہوئی تھیں۔اُسے خوابوں میں اپنے بیٹے کے رونے کی آوازیں آتیں۔وہ بچے کی طرف دوڑتی تو آگے ساس نظر آتی جو بڑے بڑے ناخونوں سے اس کے بیٹے کو نوچ رہی ہوتی۔ پھر پلٹ کر اُس پر حملہ کرتی۔ زیتون پاگلوں کی طرح چینخیں مارتی اُٹھ جاتی۔ یہ خواب اس کا کئی سالوں تک پیچھا کرتا رہا۔ شادی کے نام سے اُسے نفرت ہوگئی تھی۔
اجمیر (راجستان)سے پہلی دفعہ ابا کی وفات کے بعد زیتون اپنی امی کے ساتھ عبدالحکیم خان بھائی کے پاس بھیل واڑا گئی- جو سو میل دور راجستان ہی کا ایک قصبہ تھا۔ حکیم خان بھائی کا ایک بیٹا طیّب خان تھا اور بھابی امید سے تھیں۔ زیتون کی عمر تقریباً سات سال ہوگی اور طیّب چھ سال کا دونوں پھوپی اور بھتیجا آپس میں کھیلتے اور خوب شرارتیں کرتے۔ آم کے درختوں سے آم توڑنا، توتے اور فاختہ کے بچوں کو گھونسلوں میں دیکھنا یا اجمیر سے آنے والی یا اجمیر کو جانے والی ٹرین کو دیکھنا۔ انجن کی سیٹی سنتے ہی یہ دونوں دوڑ کر گھر سے باہر نکل جاتے کبھی اُن کے پیچھے ماں دوڑتی اور کبھی بھابی اِن کی کوشش ہوتی کی وہ انجن کے زیادہ سے زیادہ قریب جا کر دیکھیں اور انجن گزرنے کے بعد طیب دوڑ کر لوہے کی تار یا واشر کا ٹکڑا اتھا کر لاتا جو چپٹا ہو کر پھیل کر بڑا ہو جاتا۔
ایک دن بھابھی طیب کے پیچھے بھاگتے ہوئے پھسل گئیں۔ ساتویں مہینے کا حمل ضائع ہو گیا، لڑکا تھا۔بھابی کو جان کے لالے پڑ گئے۔ سال تک علاج ہوتا رہا۔ بھائی نے اپنی ٹرانسفر نیمچ کروالی جو فوجی چھاونی تھی اور ریلوے کا ہسپتال تھا۔ نیمچ اصل میں زیتون کا خاندانی شہر تھا جہاں اُس کے دادا پردادا دفن تھے اور ریلوے اسٹیشن سے جنوب میں یوسف زئیوں کا محلہ تھا۔ بنیادی طور پر یہ لوگ بیوپاری اور تاجر تھے۔اور تقریباً سارے ہندوستان میں پھیلے ہوئے تھے۔ زیتون کے پردادا انگریز فوج کو راشن سپلائی کرتے تھے جو ریلوے لائین کے مشرق میں کافی رقبے پر پھیلی ہوئی تھی۔اُس کے والد ہاشم خان نے اجمیر میں اپنا گودام بنایا تھا۔ جو فرخ شہریار بادشاہ کے وزیر میاں خان کے مقبرے کے پاس تھا۔جہاں سے وہ اپنے بھائیوں کو نیمچ، اندو ر، اورنگ آباد اور پونا میں سامان بھجوایا کرتا تھا۔ سامان لینے کے لئے وہ دلّی سے پونا تک کا سفر کیا کرتا تھا۔ ہاشم خان کے بیٹوں نے بزنس کے بجائے نوکری کو ترجیح دی۔ جس میں آرام تھا اور ریلوے کی ملازمت میں تو کئی فائدے تھے۔ کواٹر، مفت سفر علاج، چھٹیاں، وقت پر کام اور نئے نئے شہر وں میں ٹرانسفر اور پھر ترقی بھی تھی۔
دو بیٹوں نے ریلوے میں نوکری کی ایک بیٹا ٹیلیفون کے محکمے میں لگ گیا۔چھ فٹ لمبے حنیف خان نے فوج پسند کی۔ حنیف خان کو کشتی اور پہلوانی کا بڑا شوق تھا، چودہ سال کی عمر سے مقابلے کی کشتیاں لڑنی شروع کر دیں۔ دستور تھا کہ کشتی سے ایک دن پہلے پہلوان معین الدین چشتی کی درگاہ پر جاتے تھے اور فتح کے لئے دعائیں مانگتے۔ حنیف خان بھی دعا کے لئے درگاہ گئے کوئی بارہ بجے گھر واپس آئے اور کھاناکھا کر سو گئے۔ خواب دیکھتے ہیں کہ کوئی انہیں کھینچ کر لے جارہا ہے اور ایک بڑے منبر کے پاس کھڑا کر دیا جو بہت اونچا تھا۔ آواز آئی،
” ہمارے پہلوان حنیف خان کو لائے ہو؟“۔
جو شخص حنیف خان کو لے کر آیا تھا اُس نے کہا،”جی جناب حاضر ہے“۔
”یہ نہیں ہے اِس کو واپس لے جاؤ“۔
لانے والے شخص نے حنیف خان کو کھینچ کر پیچھے دھکا دیا۔ حنیف خان فضا میں قلا بازیاں کھاتے ہوئے گرنے لگا۔ خوف سے آنکھ کھل گئی کیا دیکھتا ہے، اماں، بھابیاں اور زیتون پاس بیٹھی رو رہی ہیں۔آنکھ کھلتے دیکھ کر بھابی چلائی،
”اماں حنیف زندہ ہے“۔
حنیف خان کو سخت بخار پورا ایک ہفتہ رہا اُس نے پہلوانی سے توبہ کی اور پکا نمازی بن گیا۔
پونا میں عبدالحکیم بھائی کو ریلوے کی طرف سے دو کمروں کا گھر ملا تھا۔ یہاں یوسف زئیوں کے کئی خاندان آباد تھے اور سب کا ایک دوسرے سے خوشی غمی میں رابطہ تھا۔ ایک یوسف زئی خاندان کی عورتوں کو زیتون پسند آگئی، انہوں نے اپنے بیٹے کے لئے رشتہ ڈالا جو رائل نیوی میں ایک سال ہوا سیلربھرتی ہوا تھا اور بمبئی سے وہ چھٹی پر گھر آیا۔ ماں اور بھائی نے قبول کر لیا،
1943نو میلاد کے دوسرے دن بدھ تھا اور پندرہ سالہ زیتون کی شادی ہو گئی شادی کے ہفتہ بعد شوہر کی چھٹی ختم ہوگئی اور وہ واپس جہاز پر چلا گیا۔ بعد میں معلوم ہوا جہاز اٹلی کی طرف چلا گیا۔ دوسری جنگ لگی ہوئی تھی اتحادی فوجوں نے اٹلی پر حملہ کیا۔ اٹلی کی فوجوں نے بھی جواباً کاروائی کی ایک توپ کا گولہ جہاز پر آکر گرا۔ زیتون کا شوہر اور دیگر افراد مارے گئے۔یہ خبررجب کے دوسرے ہفتے دوپہر کے وقت گھر پہنچی۔ گھر میں کہرام مچ گیا۔ زیتون کمرے میں سو رہی تھی رونے کا شور سن کر کمرے سے گبھرا کر دوڑی آئی۔ پانچ چھ عورتیں دھاڑ مار مار کر رو رہیں تھیں، زیتون کی ساس زمین پر پچھاڑیں مار رہی تھی زیتون نے ہاتھ لگا کر پوچھا،
”اماں کیا ہوا“۔
ساس ایک دم کھڑی ہوئی زیتون کو دھکا دیتی ہوئی بولی،
”ڈائن، منحوس میرے بچے کو کھا گئی"
اور زیتون کو دھکا دیا، وہ اپنے پیچھے بیٹی ہوئی عورت کے اورپر سے الٹ کر گری۔ پیٹ میں زور کا درد اٹھا۔ اُس نے چینخ ماری اس وقت سب چینخ کر رو رہے تھے ، زیتون کو کون پوچھتا ۔ زیتون درد سے بے ہوش ہوگئی۔ ہوش آیا توریلوے ہسپتال میں تھی۔ چار ماہ کا حمل ضائع ہو چکا تھا۔ بے ہوش ہونے کے بعد آدھے گھنٹے بعد اماں اور بھابی شوہر کی موت کا سن کر آئیں۔ زیتون کو بے ہوش دیکھا تو فورا بھائی کو بلایا زیتون کو ہسپتال لے آئے۔ ہسپتال میں ہفتہ رہی پھر ماں بھائی کے گھر لے آئی۔ عدت گذارنے کے بعد ماں واپس لے کر اجمیر آگئی۔بھائی نے پونا واپس آنے کہا کئی بار پیغام بھیجا مگر زیتون نے انکار کر دیا پونا سے اس کی یادوں میں تلخیاں بھری ہوئی تھیں۔اُسے خوابوں میں اپنے بیٹے کے رونے کی آوازیں آتیں۔وہ بچے کی طرف دوڑتی تو آگے ساس نظر آتی جو بڑے بڑے ناخونوں سے اس کے بیٹے کو نوچ رہی ہوتی۔ پھر پلٹ کر اُس پر حملہ کرتی۔ زیتون پاگلوں کی طرح چینخیں مارتی اُٹھ جاتی۔ یہ خواب اس کا کئی سالوں تک پیچھا کرتا رہا۔ شادی کے نام سے اُسے نفرت ہوگئی تھی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
اگلا مضمون :
Zabardast
جواب دیںحذف کریں