Pages

میرے چاروں طرف افق ہے جو ایک پردہء سیمیں کی طرح فضائے بسیط میں پھیلا ہوا ہے،واقعات مستقبل کے افق سے نمودار ہو کر ماضی کے افق میں چلے جاتے ہیں،لیکن گم نہیں ہوتے،موقع محل،اسے واپس تحت الشعور سے شعور میں لے آتا ہے، شعور انسانی افق ہے،جس سے جھانک کر وہ مستقبل کےآئینہ ادراک میں دیکھتا ہے ۔
دوستو ! اُفق کے پار سب دیکھتے ہیں ۔ لیکن توجہ نہیں دیتے۔ آپ کی توجہ مبذول کروانے کے لئے "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ پوسٹ ہونے کے بعد یہ آپ کے ہوئے ، آپ انہیں کہیں بھی کاپی پیسٹ کر سکتے ہیں ، کسی اجازت کی ضرورت نہیں !( مہاجرزادہ)

ہفتہ، 8 اگست، 2015

ھندوستانی-3- تم ہندوستانی ہو!

مہاجرزادوں کا مقدمہ - تم ہندوستانی ہو ؟
٭٭٭٭٭٭٭٭٭
     ہاشم خان یوسف زئی، سرکارِ برطانیہ کے سپاہیوں کو راشن سپلائی کرنے والا ٹھیکیدار تھا ۔ اُس نے بھی دو شادیاں کیں پہلی بیوی کی بچوں میں سب سے بڑے بھائی ابراہیم خان یوسف زئی ، کی دس سال پہلے حادثے میں جلنے کے بعد وفات ہو گئی تھی وہ ریلوے میں ملازم تھا،اُس کاایک بیٹا تھا سلیمان خان یوسف زئی تھا ۔ جو ریلوے میں ملازم ہوا اور ماں کے پاس رہتا تھا۔ 
دوسرا بیٹا عبدالحکیم خان یوسف زئی ،ٹیلیفون میں ملازم تھا اور دلّی میں تھا اُس کے بھی دو بچے تھے۔ بیٹا طیّب جو عمر زیتون کوثر یوسف زئی سے تین سال بڑا تھا اور چھوٹی بیٹی رشیدہ۔ 
تیسرے بھائی ٹیلیفون کے محکمے میں تھے اور بمبئی میں ملازم تھے۔اَن کے بھی دو بچے تھے،بیٹا حبیب اور بیٹی صغرا۔دوسری بیوی سے صرف دو بیٹیاں تھیں اور اجمیر سے چھ کلو میٹر دور پُشکرگاؤں میں رہتی تھیں۔تیسری بیوی جو دوسری بیوی کی رشتہ دار تھی دہلی میں تھی اُس کے بارے میں پاکستان آنے کے بعد معلوم ہوا۔ 
ہاشم خان کا انتقال 1935میں ہو چکا تھا۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭
دوسرے دن ماں کی طبعیت بہتر ہوگئی۔  بھائی نے ہسپتال سے ماں کو لیا اپنے خیمے میں آئے ضروری کاغذات بھرنے کے بعد، والٹن  کیمپ سے ریل کی پٹڑی کے ساتھ کچے راستے پر تانگے پر سات آٹھ میل کا سفر کرکے، باڈر پر جانے والی پٹڑی کے پاس ایک کچے پکے مکانوں اور ایک بڑی حویلی کی بستی میں پہنچے۔ یہاں بھائی کا فوجی دوست اپنی بیوی  ایک بچی اور ماں کے ساتھ،ایک ہندو کی حویلی میں مقیم تھا۔جو اُسے چھوڑ ہجرت کر گئے اِس امید پر کہ دوبارہ آئیں گے۔ حویلی میں سارا سامان موجود تھا۔جو انہوں نے ایک بڑے کمرے میں بند کر کے تالہ ڈال دیا تھا۔ جو بھی مہاجر ہندوستان سے آتے درخواست دے کر کسی بھی خالی مکا ن میں رہ سکتے تھے۔ جن کے عزیز یا دوست جو پہلے پاکستان آگئے تھے انہوں نے اُن کا بندو بست کر دیا تھا۔خاندان کے افراد کے حساب سے سٹلمنٹ والے کمرہ یا مکان الاٹ کرتے ایک مکان میں کمروں کے حساب سے دو یا تین گھرانوں کو جگہ ملتی۔اور حویلی میں تو کئی گھرانے مقیم ہوتے۔
 پہلے سے آئے ہوئے مہاجر والٹن کیمپ جاتے وہاں اپنے رشتہ داروں کو ڈھونڈتے انہیں لے کر سٹلمنٹ کے آفس جو والٹن میں قائم تھا۔انہیں بلڈنگ کا ایڈریس بتاتے وہ ایک کاغذ پر مہاجر گھرانے کے سربراہ کا نام لکھتا اور اُس کے گھرانے کے افراد کی تعداد لکھتا جتنے کمرے بنتے اُن کی تعداد لکھ کر الاٹ کر دیتا۔ 
بھائی کے دوست نے بھی بھائی کو ایک کمرہ دلوا دیا۔چنانچہ اب وہ اُس مکان کے سامنے کھڑی تھی۔بھائی تالا کھولا، وہ مکان میں داخل ہوئے یہ دو کمروں کا مکان تھا۔ ایک چھوٹا سا صحن تھا سامنے ایک کمرہ  اُس کے اوپر دوسرا کمرہ۔اوپر کے کمرے میں جانے کے لئے برآمدے کے اختتام پر بائیں جانب، بانس کی سیڑھی لگی ہوئی تھی۔نچلے کمرے کے سامنے برآمدہ تھا۔وہ کمرے میں داخل ہوئے۔د ائیں طرف کمرے میں لکڑی کی چارپائیوں پر دو گدے لگے تھے جن پر سفید چادر بچھی تھی اور سرھانے دو تکیے تھے جن کے غلاف کے اردگر د قریسیہ سے خوبصورت رنگوں میں جالی بُنی ہوئی تھی۔ ایک کونے میں اینٹوں پر مٹّکی دھری ہوئی تھی اور دیوار پر لکڑی کی الگنی گاڑی ہوئی تھی۔ 
ماں کو لٹا کر وہ شوق میں سیڑھیوں سے اوپر کمرے میں گئی۔کمرے میں دیوار پر کیلوں پر بھائی کی شلوار اور قمیض  اورلکڑی کے ہینگر میں سفید بشرٹ اور سلیٹی رنگ کی پینٹ لٹکی ہوئی تھی اور ایک کونے میں ٹین کا بکس اور ہولڈال پڑا ہوا تھا تھوڑی دیر گذری تھی دروزے پر شور سن کر بالکنی سے باہر جھانکا۔نیچے دو بچیاں کھڑی  ایک بارہ سال کی تھی اور دوسری غالباً  تیرہ سال کی۔
”کیا بات ہے“ اُس نے پوچھا۔
بڑی لڑکی نے جواباً سوال کیا ،”تم ہندوستانی ہو؟“۔ 
”ہندوستانی! نہیں۔ کیوں؟ ہم لوگ پٹھان ہیں۔“ اُس نے جواب دیا۔
”ماں! یہ  ہندوستانی لڑکی کہہ رہی ہے ہم پٹھان ہیں“۔ چھوٹی لڑکی نے آواز لگائی۔
”ٹھیک ہے اُس کو بول آکر کھانا کھا لے“ بائیں گھر سے ماں نے جواب دیا۔
    لڑکی بانس کی سیڑھی سے نیچے اتری، کمرے میں بھائی کو بتایا۔بھائی نے کہا کی اماں بیمار ہیں تم چلی جاؤ۔ لڑکی باہر نکلی اور دونوں لڑکیاں اسے لے کر ایک بڑے  اَدھ کھلے گیٹ سے لے کر حویلی کے اندر داخل ہوئیں۔ ایک بہت بڑا صحن تھا جس کے بیچ ہینڈ پمپ لگاہوا تھا , ہیڈ پمپ کا پانی پکی نالی میں بہتا ہوا ، غسل خانوں کی طرف جاتا ، ہینڈ پمپ کے دائیں طرف مہندی اور تُلسی کے پودے لگے ہوئے تھے اور صحن کے ارد گرد کمروں کی قطار تھی۔ تین چار درخت لگے ہوئے تھے جن کے نیچے کھجور کی رسّی سے بُنی ہوئی لکڑی کی چارپائیاں پڑی ہوئی تھیں۔ چھوٹی لڑکی اُسے لے کر بائیں طرف مڑی، جبکہ بڑی لڑکی سامنے کے کمروں کی طرف چلی گئی،تین کمرے چھوڑ کر دونوں چوتھے کمرے میں داخل ہوئیں وہاں دو خواتین بیٹھی ہوئی تھیں ایک اماّں سے کم عمر تھیں اور دوسری تیس، بتیس سال کی ہوگی۔
”تمھاری اماں نہیں آئیں۔آ ؤ یہاں بیٹھو“ ایک جوان عورت نے پوچھا۔
”اماں بیمار ہیں اور تھکی ہوئی ہیں“۔ لڑکی نے بیٹھتے ہوئے جواب دیا۔
”یہ بیچ کا دروازہ کھول کے بلا لو۔ تمھارا نام کیا ہے؟“ بوڑھی عورت بولی۔
لڑکی نے دروازے کی طرف دیکھا تو اسے احساس ہوا کہ جس کمرے میں امّاں اور بھائی ہیں اُس کے برآمدے  کے کونے میں اُس نے ایک اور دروازہ دیکھا تھا دوسرا دروازہ شاید اس کمرے میں کھلتا ہے۔
”زیتون۔
لڑکی نے جواب دیا۔ بھائی بھی گھر میں ہیں اورامّاں سوئی ہوئی ہیں“
”صغرا، جا کر یہ کھانا دے آؤ“۔پہلی عورت نے کہا۔
اور صغرا کو ایک گول خوان میں ایک بڑی رکابی میں سالن ڈالااور دوسری میں زردہ اور دونوں رکابیوں پر ایک ایک رکابی اُلٹ  ڈھک دی اوردستر خوان میں چھ روٹیاں لپیٹ کر خوان صغرا کے ہاتھ میں دیا ۔
”آرام سے لے جانا سالن نہ چھلکے۔ زیتون آرام سے بیٹھ جاؤ اور یہ لو کھانا“۔
زیتون، نے اپنے سامنے رکابی اور روٹی رکھ لی اور انتظار کرنے لگی۔صغرا کھانا دے کر آئی بولی ،
”ماں بھائی نے شکریہ کہا ہے“اور بیٹھ گئی،
”اچھا۔ چلو کھانا شروع کرو“۔
”زیتون، تمھارے باقی بہن بھائی کہاں ہیں“ بوڑھی عورت نے پوچھا۔ " جو بھی ہندوستان سے آئے ہیں ہجرت کر کے، اُنہیں یہاں ھندوستانی بولیں " ۔
”خالہ معلوم نہیں“۔زیتون نے جواب دیا اور سوچانجانے اب وہ کہاں ہوں گے اُس نے سوچا پاکستان آئے یا وہیں ہندوستان میں ہیں۔
     بوڑھی عورت کا نام بلقیس تھا۔ وہ صغرا کی دادی تھی اور جوان عور ت صغرا کی ماں کلثوم تھی۔ تین افراد پر مشتمل یہ گھرانا دلّی سے ہجرت کر کے آیا تھا۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

اگلا مضمون : 

ھندوستانی-4- مسجدکی روٹی اللہ کے نام پر

پہلے مضامین :  

 ھندوستانی-1- مہاجر سرمائی بطخیں

ھندوستانی-2- کثیر الازواجی


 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

خیال رہے کہ "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ !

افق کے پار
دیکھنے والوں کو اگر میرا یہ مضمون پسند آئے تو دوستوں کو بھی بتائیے ۔ آپ اِسے کہیں بھی کاپی اور پیسٹ کر سکتے ہیں ۔ ۔ اگر آپ کو شوق ہے کہ زیادہ لوگ آپ کو پڑھیں تو اپنا بلاگ بنائیں ۔