ہفتہ ٹہرنے کے بعد حنیف خان، بھائی واپس لاہور چلے گئے۔ زیتون اور امی نواب شاہ ٹہر گئے۔ مہینہ کے بعد بڑی بہن واپس میرپور خاص جانے کے لئے تیار ہوئی اور اپنے ساتھ امی اور زیتون کو بھی لے لیا۔مارچ کے پہلے ہفتے یہ سب نواب شاہ سے پسنجر ٹرین پر میر پور خاص پہنچے، جہاں سے مولچند باغ آئے، یہ مہاجروں کا کیمپ تھا جہاں راجپوتانہ، حیدر آباد اور اس کے آس پاس کے علاقوں کے لوگ کھوکرا پار، عمرکوٹ کے راستے پاکستان میں داخل ہوئے اور کراچی تک پھیل گئے۔ یہاں سب سے زیادہ قائم خانی برادری آباد ہوئی۔جو راجپوتانہ سے ہجرت کر کے آئے ۔
موسم ہلکا ہلکا گرم ہونا شروع ہو گیا تھا۔نواب شاہ کے مقابلے میں میرپورخاص کی ٹھنڈی راتیں زیتون کو بہت پسند تھیں، بڑی بہن کے شوہر نور محمد خان سبزیوں اور پھلوں کا کاروبار کرتے تھے۔ میرپور خاص میں بہن کے گھر رہتے ہوئے ابھی دو ہفتے ہوئے تھے، شام کو نور محمد خان نے بتایا کہ حنیف خان کا کوئی فوجی دوست نظام الدین آیا تھا وہ انہیں اور چاند محمد کو لے کر سٹلمنٹ کے آفس گیا جہاں نظام الدین کا چھوٹا بھائی اکرام الدین ملازم ہے۔ نور محمد خان اور چاند محمد خان کا نام مہاجروں کی نئی بستی سیٹلائیٹ ٹاؤن میں الاٹمنٹ کے لئے لکھا دیا ہے۔ یہ سب لوگ بہت خوش ہوئے۔
دوسرے دن، نظام الدین اور اس کی امی ملنے آئے یہ لوگ شہر میں ایک مکان میں ٹہرے ہوئے تھے، جو ہندووں نے خالی کیا تھا، شام کا کھانا کھا کر یہ لوگ واپس چلے گئے۔
جولائی میں زیتون اور امی، نواسے چاند خان کے ساتھ نواب شاہ آگئے، چاند خان دونوں کو چھوڑ کر واپس میرپور خاص چلا گیا۔ جنوری 1949میں حنیف خان، دو مہینے کی چھٹی لے کر نواب شاہ آئے، معلوم ہوا کہ خاتون بھابی امید سے ہیں اس لئے ساتھ نہ آسکیں، حنیف خان کو شہداد پور میں دو مربعے، کاشتکاری رقبہ اور ایک مکان الاٹ ہوا ہے۔ وہ دیکھنے چلنا ہے ۔
حنیف خان، سلیمان خان، امی اور زیتون کو لے کر نوابشاہ سے شہداد پور روانہ ہوئے۔ بھائی، اِن سب کو سٹیشن پر ٹہرا کر سٹلمنٹ آفس گیا انہوں نے شہر میں ایک مکان حوالے کیا، حنیف خان چابی لے کر سٹیشن آیا، یہ سب مکان پہنچے دیکھا کہ تالا توڑ کر کوئی اور خاندان گھسا ہوا ہے۔ بھائی کے فوجی ہونے کے ناطے پولیس والوں نے تعاون کیا۔ اور ناجائز قابضین کو نکالا یہ دو بوڑھوں، دو عورتوں، ایک لڑکے اور چھ لڑکیوں پر مشتمل،ایک خاندان تھا۔ جنہوں نے نکلتے ہی اماں کو پکڑ لیا اور اپنی زبان میں دہائیاں دینے لگیں، غالباً مشرقی پنجاب سے آئے ہوئے لوگ تھے۔ اماں کو سمجھ تو نہ آئی لیکن فریاد سن کر اماں کا پسیج گیا۔ اوپر کی منزل کے دو کمرے اس خاندان کو دے دیئے اور نچلے کمرے انہوں نے لے لئے۔
تین چار دن بعد احساس ہوا کہ انہوں نے بہت سخت غلطی کی ہے۔جس کا اندازہ انہیں اس خاندان کے گھر آنے والے مقامی نوجوانوں سے ہو ا، بھائی کو زمین مل گئی تھی جو شہر سے باہر بلوچستان جانے والی سڑک پر تین میل دور سڑک سے ہٹ کر تھی، جہاں کاشت کاری ممکن نہ تھی۔ بہر حال دو ہفتے بعد انہوں نے پروگرام بنایا کہ سلیمان خان، یہاں ٹہرے گا، ریلوے میں ہونے کی وجہ سے وہ اپنی پوسٹنگ روہڑی جیکب آباد سیکشن پر کروالے گا اور یہ تینوں واپس لاہور چلے جائیں گے۔ بھائی نے پولیس کو اپنے جانے اور بھتیجے کو اپنا نمائیندہ چھوڑنے کی اطلاع دی اور یہ تینوں لاہور چلے گئے-
جون میں سلمان خان پر قاتلانہ حملہ ہوا، سلمان خان ڈیوٹی سے تین دن بعد گھر آیا تو چابی لگانے کے باوجود تالا نہیں کھل رہا تھا سیڑھیاں چڑھ کر اوپر کی منزل پر پہنچا تاکہ معلوم کیا جائے کہ تالا کس نے تبدیل کیا ہے دروازہ بجایا تو ایک مقامی آدمی نکلا۔ سلمان نے پوچھا کہ وہ کون ہے ِ الٹا اس نے سلمان سے پوچھا کہ تم کون ہو سلمان نے بتایا کہ وہ اس مکان کے مالک کا بھتیجا ہے اور نیچے رہتا ہے۔ معلوم ہوا کہ پہلی منزل پر رہنے والا خاندان نہ صرف پہلی منزل بلکہ پورا مکان مہینہ پہلے بیچ کر جا چکا ہے۔
گورنمٹ کا ملازم ہونے کے باوجود سلیمان خان کو قابضین نے زدو کوب کیا۔ معاملہ تھانے میں پہنچا۔ تھانے دار سب کچھ جانتے ہوئے خاموش تما شائی رہا۔الٹا سلیماں خان کو دھمکی دی کہ وہ مکان پر قبضہ کرنا چاہتا ہے۔ بہرحال سلیمان خان نواب شاہ پہنچا وہاں سے حنیف خان کو تفصیلاً خط لکھا۔ حنیف خان نے اپنے محکمے کے ذریعے کاروائی کی تین سال بعد جواب آیا کہ حنیف خان، تین سال پہلے یہ مکان بیچ کر جا چکا ہے۔
الغرض 1969میں ریٹائر منٹ کے بعد حنیف خان الاٹ کی گئی دو مربع زمین کو دیکھنے اپنے بیٹے کے ساتھ شہداد پور گیا تو معلوم ہوا، کہ حنیف خان 1950میں اپنی زمین بیچ چکا تھا۔
کس کو؟
کاغذات مانگے، کاغذات کو دیمک کھا گئی۔
لہذا،محمدحنیف خان صبر کر کے بیٹھ گیا۔
جن دنوں یہ واقعات ہوئے حنیف خان کی پہلی بیٹی ہوئی، ضیاول خاتون نام رکھا۔ حنیف خان، کو سیالکوٹ میں دو کمرے کا مکان مل گیا تھا، وہ اپنی بیوی، امی اور زیتون کے ساتھ رہ رہا تھا۔
نومبر کا پہلا ہفتہ تھا حوالدار نظام الدین کی پوسٹنگ سیالکوٹ ہو گئی۔ شام کا وقت تھا۔ پرانے دوست بیٹھے ہوئے تھے گپیں لگ رہی تھیں کہ ایک دوست حوالدار مرزا سلیم بیگ نے نظام الدین کو چھیڑ ا
”نظام الدین تم شادی کب کرو گے؟ اب تو تمھارے شاگرد کے ہاں بھی بچی ہو گئی ہے۔ تیس سال کے ہونے والے ہو!“
”کوئی لڑکی شادی کے لئے تیار ہوئی تو کر لوں گا“ نظام الدین نے کہا۔
”ارے بھائی حنیف خان کی بہن بیٹھی ہے اور ویسے بھی تم دونوں دوست بھی ہو“ ۔
”مرزا، بات کر ومیں تیار ہوں“ نظام الدین نے جواب دیا۔
مرزا سلیم بیگ اور نظام الدین دونوں ایک ساتھ1937میں رائل انڈین میڈیکل کور میں بھرتی ہوئے اور دونوں اکھٹے دہلی پوسٹ ہوئے، مرزا کا تعلق اورنگ آباد سے تھا۔ جہاں نظام الدین کے ننھیالی رشتہ دار رہتے تھے۔
1939کے آخر میں نظام الدین کی پوسٹنگ لاہور سی ایم ایچ ہوگئی۔ مرزا سلیم بیگ پاکستان بنتے وقت اپنے بیوی اور چار بچوں کے ساتھ سیالکوٹ سی ایم ایچ پوسٹ ہو گئے۔
مرزا سلیم بیگ نے دوسرے دن حنیف خان سے بات کی۔ حنیف خان نے خوشی سے حامی بھر لی۔1949ماہ صفر کے پہلے جمعہ کے دن مغرب سے پہلے زیتون کوثر اور حوالدارنظام الدین کی شادی ہو گئی۔
موسم ہلکا ہلکا گرم ہونا شروع ہو گیا تھا۔نواب شاہ کے مقابلے میں میرپورخاص کی ٹھنڈی راتیں زیتون کو بہت پسند تھیں، بڑی بہن کے شوہر نور محمد خان سبزیوں اور پھلوں کا کاروبار کرتے تھے۔ میرپور خاص میں بہن کے گھر رہتے ہوئے ابھی دو ہفتے ہوئے تھے، شام کو نور محمد خان نے بتایا کہ حنیف خان کا کوئی فوجی دوست نظام الدین آیا تھا وہ انہیں اور چاند محمد کو لے کر سٹلمنٹ کے آفس گیا جہاں نظام الدین کا چھوٹا بھائی اکرام الدین ملازم ہے۔ نور محمد خان اور چاند محمد خان کا نام مہاجروں کی نئی بستی سیٹلائیٹ ٹاؤن میں الاٹمنٹ کے لئے لکھا دیا ہے۔ یہ سب لوگ بہت خوش ہوئے۔
دوسرے دن، نظام الدین اور اس کی امی ملنے آئے یہ لوگ شہر میں ایک مکان میں ٹہرے ہوئے تھے، جو ہندووں نے خالی کیا تھا، شام کا کھانا کھا کر یہ لوگ واپس چلے گئے۔
جولائی میں زیتون اور امی، نواسے چاند خان کے ساتھ نواب شاہ آگئے، چاند خان دونوں کو چھوڑ کر واپس میرپور خاص چلا گیا۔ جنوری 1949میں حنیف خان، دو مہینے کی چھٹی لے کر نواب شاہ آئے، معلوم ہوا کہ خاتون بھابی امید سے ہیں اس لئے ساتھ نہ آسکیں، حنیف خان کو شہداد پور میں دو مربعے، کاشتکاری رقبہ اور ایک مکان الاٹ ہوا ہے۔ وہ دیکھنے چلنا ہے ۔
حنیف خان، سلیمان خان، امی اور زیتون کو لے کر نوابشاہ سے شہداد پور روانہ ہوئے۔ بھائی، اِن سب کو سٹیشن پر ٹہرا کر سٹلمنٹ آفس گیا انہوں نے شہر میں ایک مکان حوالے کیا، حنیف خان چابی لے کر سٹیشن آیا، یہ سب مکان پہنچے دیکھا کہ تالا توڑ کر کوئی اور خاندان گھسا ہوا ہے۔ بھائی کے فوجی ہونے کے ناطے پولیس والوں نے تعاون کیا۔ اور ناجائز قابضین کو نکالا یہ دو بوڑھوں، دو عورتوں، ایک لڑکے اور چھ لڑکیوں پر مشتمل،ایک خاندان تھا۔ جنہوں نے نکلتے ہی اماں کو پکڑ لیا اور اپنی زبان میں دہائیاں دینے لگیں، غالباً مشرقی پنجاب سے آئے ہوئے لوگ تھے۔ اماں کو سمجھ تو نہ آئی لیکن فریاد سن کر اماں کا پسیج گیا۔ اوپر کی منزل کے دو کمرے اس خاندان کو دے دیئے اور نچلے کمرے انہوں نے لے لئے۔
تین چار دن بعد احساس ہوا کہ انہوں نے بہت سخت غلطی کی ہے۔جس کا اندازہ انہیں اس خاندان کے گھر آنے والے مقامی نوجوانوں سے ہو ا، بھائی کو زمین مل گئی تھی جو شہر سے باہر بلوچستان جانے والی سڑک پر تین میل دور سڑک سے ہٹ کر تھی، جہاں کاشت کاری ممکن نہ تھی۔ بہر حال دو ہفتے بعد انہوں نے پروگرام بنایا کہ سلیمان خان، یہاں ٹہرے گا، ریلوے میں ہونے کی وجہ سے وہ اپنی پوسٹنگ روہڑی جیکب آباد سیکشن پر کروالے گا اور یہ تینوں واپس لاہور چلے جائیں گے۔ بھائی نے پولیس کو اپنے جانے اور بھتیجے کو اپنا نمائیندہ چھوڑنے کی اطلاع دی اور یہ تینوں لاہور چلے گئے-
جون میں سلمان خان پر قاتلانہ حملہ ہوا، سلمان خان ڈیوٹی سے تین دن بعد گھر آیا تو چابی لگانے کے باوجود تالا نہیں کھل رہا تھا سیڑھیاں چڑھ کر اوپر کی منزل پر پہنچا تاکہ معلوم کیا جائے کہ تالا کس نے تبدیل کیا ہے دروازہ بجایا تو ایک مقامی آدمی نکلا۔ سلمان نے پوچھا کہ وہ کون ہے ِ الٹا اس نے سلمان سے پوچھا کہ تم کون ہو سلمان نے بتایا کہ وہ اس مکان کے مالک کا بھتیجا ہے اور نیچے رہتا ہے۔ معلوم ہوا کہ پہلی منزل پر رہنے والا خاندان نہ صرف پہلی منزل بلکہ پورا مکان مہینہ پہلے بیچ کر جا چکا ہے۔
گورنمٹ کا ملازم ہونے کے باوجود سلیمان خان کو قابضین نے زدو کوب کیا۔ معاملہ تھانے میں پہنچا۔ تھانے دار سب کچھ جانتے ہوئے خاموش تما شائی رہا۔الٹا سلیماں خان کو دھمکی دی کہ وہ مکان پر قبضہ کرنا چاہتا ہے۔ بہرحال سلیمان خان نواب شاہ پہنچا وہاں سے حنیف خان کو تفصیلاً خط لکھا۔ حنیف خان نے اپنے محکمے کے ذریعے کاروائی کی تین سال بعد جواب آیا کہ حنیف خان، تین سال پہلے یہ مکان بیچ کر جا چکا ہے۔
الغرض 1969میں ریٹائر منٹ کے بعد حنیف خان الاٹ کی گئی دو مربع زمین کو دیکھنے اپنے بیٹے کے ساتھ شہداد پور گیا تو معلوم ہوا، کہ حنیف خان 1950میں اپنی زمین بیچ چکا تھا۔
کس کو؟
کاغذات مانگے، کاغذات کو دیمک کھا گئی۔
لہذا،محمدحنیف خان صبر کر کے بیٹھ گیا۔
جن دنوں یہ واقعات ہوئے حنیف خان کی پہلی بیٹی ہوئی، ضیاول خاتون نام رکھا۔ حنیف خان، کو سیالکوٹ میں دو کمرے کا مکان مل گیا تھا، وہ اپنی بیوی، امی اور زیتون کے ساتھ رہ رہا تھا۔
نومبر کا پہلا ہفتہ تھا حوالدار نظام الدین کی پوسٹنگ سیالکوٹ ہو گئی۔ شام کا وقت تھا۔ پرانے دوست بیٹھے ہوئے تھے گپیں لگ رہی تھیں کہ ایک دوست حوالدار مرزا سلیم بیگ نے نظام الدین کو چھیڑ ا
”نظام الدین تم شادی کب کرو گے؟ اب تو تمھارے شاگرد کے ہاں بھی بچی ہو گئی ہے۔ تیس سال کے ہونے والے ہو!“
”کوئی لڑکی شادی کے لئے تیار ہوئی تو کر لوں گا“ نظام الدین نے کہا۔
”ارے بھائی حنیف خان کی بہن بیٹھی ہے اور ویسے بھی تم دونوں دوست بھی ہو“ ۔
”مرزا، بات کر ومیں تیار ہوں“ نظام الدین نے جواب دیا۔
مرزا سلیم بیگ اور نظام الدین دونوں ایک ساتھ1937میں رائل انڈین میڈیکل کور میں بھرتی ہوئے اور دونوں اکھٹے دہلی پوسٹ ہوئے، مرزا کا تعلق اورنگ آباد سے تھا۔ جہاں نظام الدین کے ننھیالی رشتہ دار رہتے تھے۔
1939کے آخر میں نظام الدین کی پوسٹنگ لاہور سی ایم ایچ ہوگئی۔ مرزا سلیم بیگ پاکستان بنتے وقت اپنے بیوی اور چار بچوں کے ساتھ سیالکوٹ سی ایم ایچ پوسٹ ہو گئے۔
مرزا سلیم بیگ نے دوسرے دن حنیف خان سے بات کی۔ حنیف خان نے خوشی سے حامی بھر لی۔1949ماہ صفر کے پہلے جمعہ کے دن مغرب سے پہلے زیتون کوثر اور حوالدارنظام الدین کی شادی ہو گئی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭ جاری ہے
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں