Pages

میرے چاروں طرف افق ہے جو ایک پردہء سیمیں کی طرح فضائے بسیط میں پھیلا ہوا ہے،واقعات مستقبل کے افق سے نمودار ہو کر ماضی کے افق میں چلے جاتے ہیں،لیکن گم نہیں ہوتے،موقع محل،اسے واپس تحت الشعور سے شعور میں لے آتا ہے، شعور انسانی افق ہے،جس سے جھانک کر وہ مستقبل کےآئینہ ادراک میں دیکھتا ہے ۔
دوستو ! اُفق کے پار سب دیکھتے ہیں ۔ لیکن توجہ نہیں دیتے۔ آپ کی توجہ مبذول کروانے کے لئے "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ پوسٹ ہونے کے بعد یہ آپ کے ہوئے ، آپ انہیں کہیں بھی کاپی پیسٹ کر سکتے ہیں ، کسی اجازت کی ضرورت نہیں !( مہاجرزادہ)

ہفتہ، 8 اگست، 2015

ھندوستانی-5- عجیب رسم اور شادی

  مہاجرزادوں کا مقدمہ -عجیب رسم   اور شادی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭
مہینے کے بعد نومبر میں بھائی سیالکوٹ سے چھٹی آئے، اُن سے معلوم ہوا کہ، دونوں بڑے بھائی اپنے بچوں اور ابراہیم بھائی کے بیٹے کے ساتھ پاکستان اُن سے پہلے پہنچ گئے تھے۔ عبدالحکیم خاں بھائی جو ریلوے میں ملازم تھے۔ اپنے بچوں اور بھتیجے سلیمان کے ساتھ نوابشاہ مہاجر کیمپ میں ،  چھوٹے بھائی عبداللہ خان ٹیلیفون کے محکمے میں تھے وہ مہاجر کیمپ بہاولپور اور بڑی بہن بسم اللہ خاتون میر پورخاص مہاجر کیمپ مولچند باغ میں ٹہرے ہیں اور باقی تما م رشتہ دار مورو، حیدر آباد اور کراچی میں مختلف مرحلوں میں آئے۔ بھائی نے پروگرام بنایا کہ وہ  فروری میں دو مہینے کی چھٹی لے گا اور یہ لوگ بڑے بھائیوں اور رشتہ داروں سے ملنے اُن کے پاس جائیں گے۔
جنوری میں ایک عجیب بات ہوئی۔ شام کاوقت زیتون اپنی امی کے پاس بیٹھی چاول صاف کر رہی تھی کہ خاتون کی امی، دو خالائیں اور ممانی ملنے آئیں ادھر اُدھر کی باتوں کے بعد خاتون کی خالہ نے زیتون کی امی سے پوچھا،
”بہن حنیف خان کی شادی کی کہیں بات کے ہے“۔
زیتون کی امی  نے جواب دیا،”نہیں“۔
تو وہی خالہ پھر بولیں،”ہم حنیف خان کے لئے خاتون کا رشتہ لائے ہیں“۔
زیتون اور اس کی امی کو جھٹکا لگا۔ کیوں کہ رشتہ تو لڑکے والے،لڑکی کے گھر لے کر جاتے ہیں۔ انہوں نے ایک دوسرے کے طرف دیکھا۔  زیتون کی امی،
”بہن خیریت تو ہے، کیا حنیف خان نے آپ لوگ سے اس سلسلے میں کوئی بات کی ہے۔ یا آپ شکایت لے کر آئی ہیں“۔
”نہیں بہن، حنیف خان تو بہت شریف لڑکا ہے۔ ہمیں تو وہ بہت اچھا لگتا ہے۔ ہمارے ہاں لڑکی والے، لڑکے کے ہاں رشتہ دینے آتے ہیں“۔
خالہ بولیں۔
  زیتون کی امی  نے کہا،”بہن خاتون بہت اچھی بچی ہے۔ میں حنیف خان سے پوچھ کر جواب دوں گی“۔

    شام کو کہانیاں سننے سب لڑکیاں آئیں، خاتون نہیں آئی۔ زبیدہ نے بتا یا کہ اب وہ شادی کے بعد ہی اِس گھر میں آئے گی۔ زیتون نے سوچا عجیب رسم ہے۔ رشتہ کی ابھی بات چلی ہے۔ یہ پہلے سے ہی یقین کر بیٹھے ہیں۔ محرم ختم ہو چکا تھا  جمعرات کا دن تھابھائی چار دن کی چھٹی پر آئے تو ماں نے کسی قسم کی بات کرنے سے زیتون کو منع کر دیا۔ حالانکہ زیتون کی خواہش تھی کہ وہ بھائی کو چونکا دے اور اُسے چھیڑے۔ لیکن ماں کی ہدایت پر سختی سے عمل کیا۔مغرب سے پہلے ماں کھانے کے بعد لیٹ گئی، حنیف خان نے معمول کے مطابق پاؤں دبانے شروع کئے۔
”حنیف۔ تجھے خاتون کیسی لگتی ہے؟‘ ماں نے پوچھا۔
حنیف نے جواباً سوال کیا،”اماں کیا موٹی (زیتون) سے اس کی لڑائی ہو گئی ہے“۔
”مذاق میں مت ٹال میرے سوال کا جواب دے“ ماں نے پیار بھرے غصے سے پوچھا۔
”اماں میں کیا جواب دوں عام لڑکیوں جیسی ہے۔ ہنسنے کے علاوہ اُسے کچھ نہیں آتا۔ بات کیا ہے؟“ حنیف خان نے جواب دیا۔
”اِن کے ہاں سے تمھارا رشتہ آیا ہے“۔ماں بولی۔
حنیف خان نے حیرت سے پوچھا،”کیا میرا رشتہ!  لاحول ولا قوۃ۔ میں کوئی لڑکی ہوں؟“۔
اُن کے ہاں رواج ہے کہ اپنی پسند کے لڑکے کے ہاں رشتہ بھجواتے ہیں۔ اگر تم مناسب سمجھو میں ہاں کہہ دوں؟  ماں نے  رائے مانگی۔
”جو آپ کی مرضی“ حنیف خان نے جواب دیا
اور مغرب کی نماز کے لئے مسجد چلا گیا۔ بھائی کا نکلنا تھا کہ تینوں عورتیں آگئیں۔
”ہاں بہن، بیٹے سے پوچھا“ خالہ نے پوچھا۔
”مجھ پر چھوڑ دیا ہے“ زیتون کی امی نے جواب دیا۔
”تو آپ کی کیا رائے ہے؟“ خالہ نے پوچھا،
”مجھے کوئی اعتراض نہیں“ زیتون کی امی نے جواب دیا۔
خاتون کی ممانی نے دوپٹے کے پلو سے گڑ کی ڈلیاں نکالیں۔ زیتون کی امی کے منہ میں ڈالتی ہوئی بولی،”خالہ مبارک ہو“
باقی عورتوں کو بھی گڑدیا۔ خالہ نے زیتون کی امی سے پوچھا ”باجی!پرسوں شادی کر دیں“ِ
زیتون کی امی گھبرا کر بولیں،”ارے باؤلی ہوگئی ہو۔ اتنی جلدی؟  تیاری نہیں کرنی“۔
”خالہ ہم ہندوستان سے لٹ پٹ کر آئے ہیں ہم نے کیا تیاری کرنی۔ تم ہاں کرو! پرسوں  ہفتے کو عصر کے بعد نکاح کردیں گے۔ کلثوم کی امی کو اندر والا کمرہ دے دیں گے اور یہ کمرہ  دولہا اور دلہن کو دے دیں گے۔ ہاں مہر بتیس روپے ہوگا۔جو نکاح کے وقت دینا ہوگا۔تم دو جوڑے تیار کر دینا۔ باقی رہا زیور، جب اللہ دے گا توشوہر بعد میں بنا دے گا “۔

ممانی نے بلا تکان سارا پروگرام پیش کر دیا۔ ماں ہکا بکا ہو کر سارا پروگرام سنا اور سر ہلا دیا۔
زیتون نے حساب لگایا کم از کم تقریباً پچاس روپے خرچ ہوں گے،عبداللہ خان کی شادی پرنوے روپے خرچ آیا تھا۔جو ابا کے انتقال سے دو ماہ قبل ہوئی تھی جس پر زیادہ  تر رشتہ داروں کے کھانے کا تھا۔ ایک ہفتہ روازنہ عشاء کے بعد قوال، قوالی کرتے رہے۔ ان دنوں گھر بھر کے جہیز کی قبیح رسم مسلم معاشرے میں داخل نہیں ہوئی تھی۔باورچی خانے کے سامان میں پیتل کی دیگچیاں،پلیٹیں،گلاس،پلیٹیں، توا،پرات، بستر،رضائی، اور چند کپڑے، زیورات میں چاندی زیادہ استعمال ہوتی تھی، سونے میں انگوٹھی، چوڑیاں اور بندے۔ 
ہندو رسومات سے سخت پرہیز کیا جاتا تھا۔ ایک روپے کا من آٹا ملا کرتا تھا۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ لڑکی کے ماں باپ کو فکر نہ ہوتی تھی کہ بیٹی کے ہاتھ پیلے کرنے کے لئے رقم کہاں سے آئے گی، چودہ سال کی عمر میں لڑکی کی شادی ہو جاتی تھی، ہاں البتہ تعلیم حاصل کرنے والی لڑکیوں کے لئے رشتے محدود ہو جاتے تھے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

خیال رہے کہ "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ !

افق کے پار
دیکھنے والوں کو اگر میرا یہ مضمون پسند آئے تو دوستوں کو بھی بتائیے ۔ آپ اِسے کہیں بھی کاپی اور پیسٹ کر سکتے ہیں ۔ ۔ اگر آپ کو شوق ہے کہ زیادہ لوگ آپ کو پڑھیں تو اپنا بلاگ بنائیں ۔