دھرنا جاری تھا اور وہ اپنے دو بچوں سمیت وہاں پچھلے 30 دنوں سے موجود تھی۔ اب آہستہ آہستہ تھکان کے آثار بھی نمایاں ہوتے جارھے تھے۔ وہ جو کپڑے ساتھ لائی تھی وہ بھی میلے ہوچکے تھے۔ بچوں کے کپڑوں کی حالت اس سے بھی خراب تھی۔ ایک دن وہ چپکے سے دھرنے سے باہر گئی اور کپڑے دھونے والا صابن لے آئی۔ شام کو علامہ صاحب کی تقریر میں ابھی کافی وقت تھا چنانچہ وہ قریب بنے ہوئے نلکے پر گئی اور اپنے اور اپنے بچوں کے کپڑے دھونے شروع کردیئے۔ آج دھوپ بھی چمک رہی تھی لیکن برسات کی وجہ سے موسم کا اعتبار نہیں تھا چنانچہ جلدی جلدی کپڑے دھوکر وہ سوکھانے کیلئے ایک طرف چل پڑی۔
تھوڑا آگے گئی تو ایک سفید رنگ کی پرشکوہ عمارت نظر آئی جہاں ایک بہت بڑا گیٹ لگا تھا۔ آس پاس کوئی نظر نہ آیا تو اس نے ایک شلوار اس گیٹ پر ٹانگ دی۔ قریب ہی ایک صحافی موجود تھا، اس نے فوراً تصویر کھینچ کر اپنے نیوزروم ارسال کردی اور ساتھ ہی بریکنگ نیوز چل پڑی کہ سپریم کورٹ کی عمارت پر کسی نے شلوار ٹانگ دی۔
آناً فاناً سپریم کورٹ کے چیف صاحب نے نوٹس لے لیا اور پوری حکومتی مشینری اور دھرنے کے منتظمین کو عدالت میں حاضر ہونے کا حکم دیا۔
چند گھنٹوں کے اندر اندر سب لوگ جج صاحبان کے سامنے موجود تھے اور اپنے اپنے حصے کے معافی مانگ رھے تھے۔
انہیں غصے سے لتاڑنے کے بعد جج صاحب نے حکم دیا کہ "اتار دو" اور فی الفور وہ شلوار سپریم کورٹ کے گیٹ سے اتار دی گئی۔
قصور میں پچھلے دس سالوں سے معصوم بچوں کی شلواریں اتاری جارہی تھیں اور ابھی تک کسی جج نے نوٹس نہیں لیا۔ بلکہ کل جج صاحبان نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ اس معاملے کی عدالتی انکوائری کی ضرورت نہیں، پولیس اپنا کام درست کررہی ھے۔
یاد رھے، نوٹس لینے کیلئے شلوار کا اتارنا ضروری نہیں بلکہ اس کا لٹکانا ضروری ہوتا ھے وہ بھی عدالت کے دروازے پر.
بہت ہی اعلی تحریر
جواب دیںحذف کریںبہت ہی اعلی تحریر
جواب دیںحذف کریں