مہاجرزادوں کا مقدمہ ۔ کثیر الازدواجیت ۔
”اماں، کیا ہوا میری ماں کو؟“
ماں کے پاس بیٹھے ہوئے سپاہی نے مڑ کر دیکھا تو خوشی سے بے قابو ہو گئی۔ ماں کے پاس بھائی وردی میں بیٹھا تھا۔چھ فٹ لمبا اور دبلا پتلا بھائی ڈھیلی ڈھالی، وردی میں اُسے عجیب سا لگا۔اُس سے کلف کی بو بھی آرہی تھی، جبکہ باقی فوجی صحت مند تھے۔یہ سب سے چھوٹا بھائی تھا، چار بھائی اور دو بہنیں کل چھ افراد اور ماں پر مشتمل یہ یوسف زئی خاندان تھا،جو برسوں پہلے کسی حملہ آور قافلے کے ساتھ پہاڑوں کے دیس سے نکلے اور وسیع اور عریض ہندوستان میں لڑتے بھڑتے چلتے جاتے حملہ آور جہاں فتح کے شادیانے بجاتے تھک جاتے وہیں سکونت اختیار کر لیتے۔
پٹھانوں میں جنگ جو بھی ہوتے اور تاجر بھی۔ جنگ جو تنہا ہوتے اور تاجر اپنے کنبے کے ساتھ چلتے۔ہندوستان میں پھیلے ہوئے پہاڑوں کے باسیوں نے اپنی ضرورت کے مختلف مسلمان قوموں میں شادیا ں کیں اور اپنی بیٹیاں بھی دیں اور پھر ایک دو نہیں پورے چار چار شادیاں کیں۔
میڈیا اور اخبارات کے اُس دور تنہائی میں ممکن ہے کہ کئی پٹھانوں نے اِس ریکارڈ کو توڑا ہو۔اپنے عربی آباواجداد کی طرح جوعرب سے سامانِ تجارت لے کر جہازوں پر نکلتے اپنے ساتھ جنگجو فوجی بھی رکھتے۔ جس ساحل پر یہ اترتے۔ وہاں ایک شادی ضرور کرتے اور گھر بناتے تاکہ آئیندہ کے لئے روٹی پانی اور رہائش کا تردد ختم ہو جائے۔
اس میں ہندو اوردیگر مذاہب کی کوئی تخصیص نہیں تھی۔ ہندو مذھب میں ایک شادی کے قانون کی وجہ سے کئی دوشیزائیں مندروں میں موجود ستونوں کے گرد منگل سوتر باند ھ کر، پنڈتوں اور پروہتوں کی آشیر باد پر گذارا کرتیں۔ محمد بن قاسم کے ساتھ آنے والے فوجیوں نے تو سندھ میں موجود دوشیزاؤں کے بھاگ کھول دیئے۔ ستونوں کے بجائے اب صرف کلمہ پڑھ کر وہ یہ منگل سوتر کسی بھی فوجی کے گلے میں ڈال دیتیں۔
فوج میں موجود ہر فرد کو مقامی آبادی احترام میں سید(جناب) کہتی اور جو ذرا رتبے میں اونچا ہوتا وہ شاہ (بادشاہ کا مخفف) کہلایا جاتا۔ چنانچہ دیبل سے لیکر ملتان تک نومسلم مقامی خواتین کی اولادوں کو بھی یہی لقب دیا جانے لگا۔اُن دنوں فیملی پلاننگ کا رواج عام نہیں تھا لہذا ہر سال مسلمان پیدا ہونے شروع ہوگئے۔جن کی تربیت کی ذمہ دار اُن کی مائیں تھیں اور اُن کی مسلم خصوصیت صرف یہ تھی کہ انہیں نکاح خوان نے کلمہ پڑھ کر مسلمان کیا تھا اور دوسرے لوگوں کی دیکھا دیکھی انہوں نے رسومات پرخضوع و خشوع سے عمل کرنے کو اسلام کی بنیاد سمجھ لیا تھا۔اور اپنی ہند و رسومات پر تبّرک چھڑک کر اُنہیں بھی مسلمان کر لیا تھا باقی کمی مولوی صاحب پوری کردیتے۔اُن دنوں بھی مولوی ہوا کرتے تھے جو چند آیات حفظ کر کے عالم کہلایا کرتے تھے۔ جس گاؤں میں جاتے مسجد اور گھر بنانے کی جگہ مل جاتی کھانے اور کھانا پکانے کے لئے بھی انتظام ہو جاتا۔ایک مٹھی آٹایا چار روٹیوں میں سے ایک روٹی ہر کھانے پر اللہ کے لئے نکالی جاتی اور مسجد یا غریب کو دے دی جاتی۔
مسجد میں دینی تعلیم حاصل کرنے والے شام کو دوڈبے اور کپڑا لے کر نکل کھڑے ہوتے ہر گھر کے سامنے کھڑے ہو کر یہ آواز لگاتے،
”مسجدکی روٹی لاؤ جی ی ی ی“
اور ہر گھر سے سالن روٹی اور میٹھا دے دیاجاتا۔ ہر قسم کا سالن وہ ایک ڈول میں ڈالتے اور میٹھا دوسرے ڈول میں، روٹی کندھے پر لٹکے ہوئے کپڑے میں ڈالی جاتی، یہ اُن کا شام اور صبح کا کھانا ہوتا اگر گرمیاں زیادہ نہ ہوتیں تو یہ دوپہر کو بھی چل جاتا- عموماً دوپہر کو روٹی پانی سے گیلی کر کے کھائی جاتی۔ اِ ن کا مختلف کلچر میں مختلف نام تھے - کہیں یہ مولائی کہلاتے، کہیں یہ صافی (اصحآب الصحف کا مخفف) اور کہیں یہ طالب۔ بعدمیں یہی لوگ مولوی کا لقب اختیار کرکے مسجدوں میں نماز پڑھانے کے فرائض سنبھال لیتے پھر ان کے پاس طالب آنا شروع ہوجاتے۔ یہ بھی دو سے چار شادیوں تک کا ریکارڈ بناتے۔
چنانچہ درہ خیبر سے ہندوستان میں داخل ہونے والوں میں چار شادیا ں عموماً تاجر یا وہ فوجی کرتے جو مختلف شہروں میں ڈیوٹی پر جاتے یا پھر وہ جو چھٹیوں پر اپنے پہاڑوں میں موجود گھر کا رخ کرتے۔ دوران سفر سراؤں میں ٹہرتے، یہ دونوں طرز کے افراد،خود کو تنہائی کے شکار کا روناروتے، کوئی کثیر البناتی باپ اُن پر ترس کھاتے ہوئے اپنے کندھے کا بوجھ اُن پر لادھ دیتا۔ کچھ تو ماہ عسل پورا کرکے آگے جانے کے بجائے واپس چلے جاتے اور کچھ اپنی والدہ صاحبہ سے ملنے کے لئے وطن جانے کی اجازت لیتے۔
وطن پہنچتے ہی ماں نے ایک لڑکی پہلے ہی سے تیار رکھی ہوتی جو اُس کی بہن یا بھائی کی بیٹی ہوتی چنانچہ تین کا ٹوٹل تو پورا ہو جاتا، یعنی ایک ہندوستان کے گھر میں، ایک دورانِ سفر اور ایک وطن میں، ان دنوں چونکہ این۔جی۔اوز نہیں ہوتی تھیں اوراُن دنوں عورت کو کیاچاہیئے ہوتا،ایک شوہر اور بچے، گھر یا ماں باپ کا ہوتا یا سسرال، شوہر ہر سال موسمِ بہار کی طرح آتا اور پھر دورے پر نکل جاتا۔اگر حاسدوں سے اُسے پتہ بھی چل جاتا کہ اُس نے ہندوستان میں بھی شادی کی ہے تو اُس پر دورے بھی نہیں پڑتے اور ہندوستان والی بیوی کو خبر ملتی کہ شوہر نے اپنے وطن میں شادی کر لی ہے تو وہ بھی پروا نہیں کرتی کیوں کہ سوکن کئی دریا پاررہتی چنانچہ اُسے کوئی خطرہ نہیں۔ جہاد پر جانے والوں کا یہ حق سمجھا جاتا تھا اورپھر جہاد کی کئی قسمیں دریافت ہو گئیں چنانچہ سویلین تاجر بھی کثیرالازدواجی سے فیضیاب ہونے لگے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭
ماں کی حالت بگڑتی جا رہی تھی وہ بے ہوشی میں بیٹے کو پکارتی۔دوسرے دن گیارہ بجے وہ، باہر میدان میں بنائے ٹاٹ کے باتھ روم سے واپس ہسپتال کے ٹینٹ میں داخل ہوئی تو اُس نے دیکھا کہ نائیک صاحب ماں کے پاس کھڑے ہیں نرس اور ایک سپاہی بھی ہے اور ماں کے پاس ایک اور سپاہی بیٹھا ہے اس کا دل دھک سے رہ گیا تیز چلتی ہوئی وہ ماں کی طرف لپکی۔ ”اماں، کیا ہوا میری ماں کو؟“
ماں کے پاس بیٹھے ہوئے سپاہی نے مڑ کر دیکھا تو خوشی سے بے قابو ہو گئی۔ ماں کے پاس بھائی وردی میں بیٹھا تھا۔چھ فٹ لمبا اور دبلا پتلا بھائی ڈھیلی ڈھالی، وردی میں اُسے عجیب سا لگا۔اُس سے کلف کی بو بھی آرہی تھی، جبکہ باقی فوجی صحت مند تھے۔یہ سب سے چھوٹا بھائی تھا، چار بھائی اور دو بہنیں کل چھ افراد اور ماں پر مشتمل یہ یوسف زئی خاندان تھا،جو برسوں پہلے کسی حملہ آور قافلے کے ساتھ پہاڑوں کے دیس سے نکلے اور وسیع اور عریض ہندوستان میں لڑتے بھڑتے چلتے جاتے حملہ آور جہاں فتح کے شادیانے بجاتے تھک جاتے وہیں سکونت اختیار کر لیتے۔
پٹھانوں میں جنگ جو بھی ہوتے اور تاجر بھی۔ جنگ جو تنہا ہوتے اور تاجر اپنے کنبے کے ساتھ چلتے۔ہندوستان میں پھیلے ہوئے پہاڑوں کے باسیوں نے اپنی ضرورت کے مختلف مسلمان قوموں میں شادیا ں کیں اور اپنی بیٹیاں بھی دیں اور پھر ایک دو نہیں پورے چار چار شادیاں کیں۔
میڈیا اور اخبارات کے اُس دور تنہائی میں ممکن ہے کہ کئی پٹھانوں نے اِس ریکارڈ کو توڑا ہو۔اپنے عربی آباواجداد کی طرح جوعرب سے سامانِ تجارت لے کر جہازوں پر نکلتے اپنے ساتھ جنگجو فوجی بھی رکھتے۔ جس ساحل پر یہ اترتے۔ وہاں ایک شادی ضرور کرتے اور گھر بناتے تاکہ آئیندہ کے لئے روٹی پانی اور رہائش کا تردد ختم ہو جائے۔
اس میں ہندو اوردیگر مذاہب کی کوئی تخصیص نہیں تھی۔ ہندو مذھب میں ایک شادی کے قانون کی وجہ سے کئی دوشیزائیں مندروں میں موجود ستونوں کے گرد منگل سوتر باند ھ کر، پنڈتوں اور پروہتوں کی آشیر باد پر گذارا کرتیں۔ محمد بن قاسم کے ساتھ آنے والے فوجیوں نے تو سندھ میں موجود دوشیزاؤں کے بھاگ کھول دیئے۔ ستونوں کے بجائے اب صرف کلمہ پڑھ کر وہ یہ منگل سوتر کسی بھی فوجی کے گلے میں ڈال دیتیں۔
فوج میں موجود ہر فرد کو مقامی آبادی احترام میں سید(جناب) کہتی اور جو ذرا رتبے میں اونچا ہوتا وہ شاہ (بادشاہ کا مخفف) کہلایا جاتا۔ چنانچہ دیبل سے لیکر ملتان تک نومسلم مقامی خواتین کی اولادوں کو بھی یہی لقب دیا جانے لگا۔اُن دنوں فیملی پلاننگ کا رواج عام نہیں تھا لہذا ہر سال مسلمان پیدا ہونے شروع ہوگئے۔جن کی تربیت کی ذمہ دار اُن کی مائیں تھیں اور اُن کی مسلم خصوصیت صرف یہ تھی کہ انہیں نکاح خوان نے کلمہ پڑھ کر مسلمان کیا تھا اور دوسرے لوگوں کی دیکھا دیکھی انہوں نے رسومات پرخضوع و خشوع سے عمل کرنے کو اسلام کی بنیاد سمجھ لیا تھا۔اور اپنی ہند و رسومات پر تبّرک چھڑک کر اُنہیں بھی مسلمان کر لیا تھا باقی کمی مولوی صاحب پوری کردیتے۔اُن دنوں بھی مولوی ہوا کرتے تھے جو چند آیات حفظ کر کے عالم کہلایا کرتے تھے۔ جس گاؤں میں جاتے مسجد اور گھر بنانے کی جگہ مل جاتی کھانے اور کھانا پکانے کے لئے بھی انتظام ہو جاتا۔ایک مٹھی آٹایا چار روٹیوں میں سے ایک روٹی ہر کھانے پر اللہ کے لئے نکالی جاتی اور مسجد یا غریب کو دے دی جاتی۔
مسجد میں دینی تعلیم حاصل کرنے والے شام کو دوڈبے اور کپڑا لے کر نکل کھڑے ہوتے ہر گھر کے سامنے کھڑے ہو کر یہ آواز لگاتے،
”مسجدکی روٹی لاؤ جی ی ی ی“
اور ہر گھر سے سالن روٹی اور میٹھا دے دیاجاتا۔ ہر قسم کا سالن وہ ایک ڈول میں ڈالتے اور میٹھا دوسرے ڈول میں، روٹی کندھے پر لٹکے ہوئے کپڑے میں ڈالی جاتی، یہ اُن کا شام اور صبح کا کھانا ہوتا اگر گرمیاں زیادہ نہ ہوتیں تو یہ دوپہر کو بھی چل جاتا- عموماً دوپہر کو روٹی پانی سے گیلی کر کے کھائی جاتی۔ اِ ن کا مختلف کلچر میں مختلف نام تھے - کہیں یہ مولائی کہلاتے، کہیں یہ صافی (اصحآب الصحف کا مخفف) اور کہیں یہ طالب۔ بعدمیں یہی لوگ مولوی کا لقب اختیار کرکے مسجدوں میں نماز پڑھانے کے فرائض سنبھال لیتے پھر ان کے پاس طالب آنا شروع ہوجاتے۔ یہ بھی دو سے چار شادیوں تک کا ریکارڈ بناتے۔
چنانچہ درہ خیبر سے ہندوستان میں داخل ہونے والوں میں چار شادیا ں عموماً تاجر یا وہ فوجی کرتے جو مختلف شہروں میں ڈیوٹی پر جاتے یا پھر وہ جو چھٹیوں پر اپنے پہاڑوں میں موجود گھر کا رخ کرتے۔ دوران سفر سراؤں میں ٹہرتے، یہ دونوں طرز کے افراد،خود کو تنہائی کے شکار کا روناروتے، کوئی کثیر البناتی باپ اُن پر ترس کھاتے ہوئے اپنے کندھے کا بوجھ اُن پر لادھ دیتا۔ کچھ تو ماہ عسل پورا کرکے آگے جانے کے بجائے واپس چلے جاتے اور کچھ اپنی والدہ صاحبہ سے ملنے کے لئے وطن جانے کی اجازت لیتے۔
وطن پہنچتے ہی ماں نے ایک لڑکی پہلے ہی سے تیار رکھی ہوتی جو اُس کی بہن یا بھائی کی بیٹی ہوتی چنانچہ تین کا ٹوٹل تو پورا ہو جاتا، یعنی ایک ہندوستان کے گھر میں، ایک دورانِ سفر اور ایک وطن میں، ان دنوں چونکہ این۔جی۔اوز نہیں ہوتی تھیں اوراُن دنوں عورت کو کیاچاہیئے ہوتا،ایک شوہر اور بچے، گھر یا ماں باپ کا ہوتا یا سسرال، شوہر ہر سال موسمِ بہار کی طرح آتا اور پھر دورے پر نکل جاتا۔اگر حاسدوں سے اُسے پتہ بھی چل جاتا کہ اُس نے ہندوستان میں بھی شادی کی ہے تو اُس پر دورے بھی نہیں پڑتے اور ہندوستان والی بیوی کو خبر ملتی کہ شوہر نے اپنے وطن میں شادی کر لی ہے تو وہ بھی پروا نہیں کرتی کیوں کہ سوکن کئی دریا پاررہتی چنانچہ اُسے کوئی خطرہ نہیں۔ جہاد پر جانے والوں کا یہ حق سمجھا جاتا تھا اورپھر جہاد کی کئی قسمیں دریافت ہو گئیں چنانچہ سویلین تاجر بھی کثیرالازدواجی سے فیضیاب ہونے لگے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
اگلا مضمون :
Now I understand why there are so too many Syeds and Shahs are there in Sind.
جواب دیںحذف کریںحسب اور نسب کے اس کرہ ارض پر پھیلنے کی بنیادہ وجہ ، تاجر اور فوجی ہیں۔
جواب دیںحذف کریں