Pages

میرے چاروں طرف افق ہے جو ایک پردہء سیمیں کی طرح فضائے بسیط میں پھیلا ہوا ہے،واقعات مستقبل کے افق سے نمودار ہو کر ماضی کے افق میں چلے جاتے ہیں،لیکن گم نہیں ہوتے،موقع محل،اسے واپس تحت الشعور سے شعور میں لے آتا ہے، شعور انسانی افق ہے،جس سے جھانک کر وہ مستقبل کےآئینہ ادراک میں دیکھتا ہے ۔
دوستو ! اُفق کے پار سب دیکھتے ہیں ۔ لیکن توجہ نہیں دیتے۔ آپ کی توجہ مبذول کروانے کے لئے "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ پوسٹ ہونے کے بعد یہ آپ کے ہوئے ، آپ انہیں کہیں بھی کاپی پیسٹ کر سکتے ہیں ، کسی اجازت کی ضرورت نہیں !( مہاجرزادہ)

ہفتہ، 8 اگست، 2015

ھندوستانی-4- مسجدکی روٹی اللہ کے نام پر

     شام کو دورازہ بجا زیتون نے باہر جھانکا۔جلّادچنگیز ی نائیک، بھائی جیسی پینٹ بش شرٹ پہن کر سائیکل لئے کھڑا تھااور سائیکل کے پیچھے ایک بڑا سا کریٹ رسیوں سے باندھا ہوا تھا۔ سوال کیا،
”حنیف خان ہے“۔
” جی بھیجتی ہوں“ زیتون نے کہا۔
اندر جا کر بھائی کو بتایا۔
”ارے استاد صاحب۔آئے ہیں“
  یہ کہہ کر بھائی تیزی سے اٹھا اور باہر نکل گیا۔ تھوڑی دیر بعد بھائی سائیکل لے کر اندر آیا اور کھڑی کر دی۔
”زیتون۔ تو ذرا ایک طرف ہو جا استاد نے امی سے ملنے آنا ہے“
زیتون سیڑھی کے پاس جا کر دیوار کی طرف منہ کر کے کھڑی ہو گئی۔
”نظام صاحب۔ اندر آجائیے“ بھائی نے آواز لگائی۔
نظام صاحب نائیک کھانستے ہوئے اندر آئے اور کمرے میں چلے گئے۔ بھائی نے امی سے ملایا۔ 
نظام نے امی کو سلام کیااور طبیعت پوچھی امی نے جواب طبیعت بتائی۔سلام کر کے باہر آگئے۔
زیتون سائیکل کے پیچھے کھڑی کریٹ کا معائنہ کر رہی تھی اسے امید نہ تھی کہ اتنی جلدی سلام دعا ہو جائے گی۔ گھبراہٹ میں وہ ایک طرف ہٹی، سائیکل دھکا لگنے سے گر گئی اور وہ کمرے میں جھپاک سے گھس گئی۔ 
بھائی اور نظام صاحب نے سائیکل کھڑی کی کریٹ کھول کر سائیکل سے اتارا اور نظام صاحب اپنی سائیکل لے کر چلے گئے۔
کریٹ میں دیگچی، توا، تام چینی کی پلیٹیں، دو مگے، اور باورچی خانے کا دیگر سامان کے علاوہ دالیں، مرچ نمک گرم مصالحہ دو کلو آٹا، گھی چینی وغیرہ  تھا۔
بھائی باہر سے چار اینٹیں اٹھا لایا۔ تاکہ چولہا بنایا جائے۔ زیتون، کلثوم آپا سے لکڑیاں لے آئی اور شام کا کھانا انہوں نے بنایا۔ زیتون نے ایک پلیٹ میں دال ڈالی اور کلثوم آپا کو دے آئی۔جواباً انہوں نے پلیٹ دھو کر زردہ ڈال کر صغرا کے ہاتھ بھجوایا۔مغرب سے پہلے کھانا کھانا بیٹھے کہ آوازآئی۔
”مسجدکی روٹی اللہ کے نام پر“۔
زیتون نے حسب عادت مسجد کے لئے بنائی ہوئی روٹی اور پلیٹ میں دال ڈال کر بھائی کو دی۔ 
بھائی” صافی“ کو روٹی دے آیا اور یوں حنیف خان کے الاٹمنٹ والے گھر میں پاکستان میں پہلے دن کے غروب ہونے کی آذان آئی یہ ستمبر 1947 کی بیس تاریخ ہفتے کا دن تھا۔

پاکستان میں وہ ستمبر کےشروع میں داخل ہوئے تھے۔ بھائی نماز پڑھنے حویلی کے نزدیک چٹائیوں سے بنی ہوئی مسجد میں نماز پڑھنے چلا گیا۔زیتون نے برتن سمیٹے، دھوئے اور ماں کے پاس جاکر بیٹھ گئی۔
    تھوڑی دیر بعد کلثوم آپا کے کمرے میں کھلنے والا دروازہ بجنے کی آوازآئی۔ زیتون دروازے کے پاس گئی اور پوچھا
”کلثوم آپا کیا بات ہے“۔
”دروازہ کھولو“ کلثوم آپا  کی آواز آئی۔
کلثوم آپا  اور  ان کی ساس بلقیس اندر داخل ہوئیں۔
”تمھاری امی کی طبیعت کیسی ہے“ انہوں نے کمرے کی طرف بڑھتے ہوئے پوچھا
”اب اچھی ہے“ زیتون نے جواب دیا
”زیتون تم نے دال بہت مزیدار پکائی ہے“ بلقیس بولی
”شکریہ خالہ“ زیتون نے جواب دیا۔

دونوں عورتیں کمرے میں داخل ہوئیں اور زیتون کی امی کے پاس جا کر بیٹھ گئیں۔ زیتون کے با ربار دروازے کی طرف دیکھنے پر کلثوم بولی
”فکر نہ کرو تمھارے بھائی اب عشاء پڑھ کر ہی آئیں گے"
۔ وہ باتیں کر رہی تھیں کی صغرا، چھ لڑکیوں کے ساتھ کمرے میں داخل ہوئی۔صبح والی لڑکی بھی اس کے ساتھ تھی۔ لڑکیاں ایک طرف فرش پر بیٹھ گئیں سب نے اپنا تعارف کرایا۔ زیتون اِن سب میں بڑی تھی۔
صبح والی لڑکی کا نام خاتون تھا۔ نجمہ سولہ سال کی تھی اور باقی سب لڑکیاں دس دس اور بارہ سال کی تھیں۔ خاتون کا صرف ایک کام تھا اور وہ ہر بات پر ہنسنا۔ سب نے زیتون کو کہانی سنانے پر مجبور کیا۔
اجمیر کے رہنے والے کہانی سنانے کا فن جانتے ہیں۔
زیتون کاپورا نام زیتون کوثر تھا، اُس نے مدرسہ سے پانچ کلاسیں پڑھیں تھیں۔ جو اُس زمانے میں لڑکیوں کے لئے اعلیٰ تعلیم تھی اس کے علاوہ  الف لیلہ ہزار داستان، اجمیر کی وادی، داستانِ رومی، بوستان اور گلستان  بھی تعلیم کا حصہ تھیں۔ نعت گوئی میں بھی اُسے مہارت تھی۔ چنانچہ ہر رات محلے کی لڑکیا ں اُس کے گھر آجاتیں اور ایک نئی کہانی سنتیں۔ جنوں، بھوتوں، دیو، پریوں، امیر حمزہ اور اڑنے والے قالین کی کہانیاں باقی کہانیوں پر سبقت لے گئیں۔ اِس کے علاوہ زیتون نے لڑکیوں کو قرآن بھی پڑھانا شروع کر دیا۔
زیتون نے قران ترجمے سے نہیں پڑھا تھا ان دنوں رواج بھی نہیں تھا لہذا ترجمے والے قران خال خال ملتے تھے۔ ایک دن بھائی کرائے کی سائیکل لایا۔ بھائی کے سونے کے بعد زیتون نے حویلی کے سامنے میدان میں حویلی کی ساری لڑکیوں کو سائیکل کی سیر کرائی۔ لڑکیوں کو ایک اور مشغلہ ہاتھ آگیا وہ صدر سے باغبان پورہ  جانے والی سڑک پر  پھاٹک کے پاس سائیکلوں کی دکان سے سائیکل ایک پیسہ گھنٹہ کے حساب سے کرائے پر لاتیں اور زیتون انہیں سائیکل پر سیر کراتی اور انہیں سائیکل بھی سکھاتی -
یوں سوائے خاتون کے باقی سب لڑکیاں سائیکل چلانے کی ماہر ہو گئیں۔ خاتون سائیکل کو ہاتھ میں پکڑتی تو اس کو ہنسی آنی شروع ہو جاتی جونہی وہ ایک پیڈل پر پیر رکھ کر کھڑی ہوتی تو اُس پر ہنسی کا دورہ پڑتا وہ سائیکل سمیت گر جاتی جب بھی ہنستی رہتی چنانچہ اُس نے سائیکل سے دوری میں بھلائی سمجھی  وہ لڑکیوں کو سائیکل چلاتا دیکھ کر خوشی سے ہنستی رہتی۔
    بھائی دس دن کی چھٹی گذار کر واپس سیالکوٹ چلا گیا۔ زیتون اور اماں اکیلے رہ گئے لیکن حویلی کے پندرہ  خاندانوں کی وجہ سے انہوں نے کبھی تنہائی محسوس نہیں کی۔ سوائے کلثوم آپا کے جو درانی پٹھان تھے باقی سب روہتک کے میو گھرانے تھے ۔ 
لڑکیاں کہانی سنتے سنتے وہیں فرش پر سو جاتیں اور صبح آذان کے وقت اُٹھ کر کلثوم آپا کے کمرے کے راستے اپنے اپنے کمروں کا رخ کرتیں۔ خاتون اور زیتون میں بہت دوستی ہو گئی تھی۔
کلثوم آپا کے بھائی ضمیراحمد خان درانی ریلوے میں گارڈ تھے۔ جو روزانہ صبح ایشور نگر کے پاس ریلوے سٹیشن سے مال گاڑی کے ڈبے لے کر لاہور جاتے جو ساڑھے چار یا پانچ کلومیٹر دور تھا  اور شام کو چار بجے لاہور سے انجن اور گارڈ کا ڈبہ لے کر واپس ایشور نگر آتے۔
لڑکیوں اور اُن کی ماؤں کے ساتھ اتوار کو یہ صبح ناشتہ کر کے ایشور نگر کی اِس حویلی سے  بڑی سی چادر ڈال کر نکلتیں،مال گاڑی میں گارڈ کے ڈبے میں سوار ہوتیں لاہور ریلوے سٹیشن پر اترتیں۔ ریلوے سٹیشن سے انارکلی بازار تک تانگے کا کرایہ ایک پیسہ تھا۔ یہ سب ٹولنٹن مارکیٹ، چڑیا گھر، مال روڈ  وغیرہ گھومتی ہوئی واپس ریلوے سٹیشن آجاتیں۔ایشور نگر سے لاہور اور واپسی کامال گاڑی پر سفر کرنے کاکرایہ فی فرد دو پیسہ تھا۔ ہاں ریلوے کے ملازمین کے لئے کرایہ معاف تھا۔ ضمیر بھائی ایمانداری سے سب کا اکھٹا ووچر بناتے اور اکاونٹ میں یہ رقم جمع کروا دیتے۔

لڑکیاں اور عورتیں صدر میں گھومتے ہوئے یہ دیکھ کر حیران ہوتیں کہ اینگلو انڈین عیسائی عورتیں بڑے مزے سے بغیر بازو کی قمیضیں اور پاجامے پہن کر سائیکل پر گھوما کرتیں۔ افسروں کی بیگمات اور اُن کی بچیاں بھی اُنہی جیسا لباس پہن کر سائیکل چلاتیں تھیں۔شالامار باغ میں اُنہیں بہت مزا آتا گھنے درخت، پانی کے تالاب جن میں  نہرکا پانی آتا تھا۔ جب عورتوں کا دن ہوتا تو یہ سب مہینے میں ایک بار ضرور جاتیں کھانا پکا کر ساتھ لے جاتیں اور خوب کھیلتیں ۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
اگلا مضمون : 

ھندوستانی-5- عجیب رسم

پہلے مضامین :  

 ھندوستانی-1- مہاجر سرمائی بطخیں

ھندوستانی-2- کثیر الازواجی

ھندوستانی-3- تم ہندوستانی ہو!


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

خیال رہے کہ "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ !

افق کے پار
دیکھنے والوں کو اگر میرا یہ مضمون پسند آئے تو دوستوں کو بھی بتائیے ۔ آپ اِسے کہیں بھی کاپی اور پیسٹ کر سکتے ہیں ۔ ۔ اگر آپ کو شوق ہے کہ زیادہ لوگ آپ کو پڑھیں تو اپنا بلاگ بنائیں ۔