Pages

میرے چاروں طرف افق ہے جو ایک پردہء سیمیں کی طرح فضائے بسیط میں پھیلا ہوا ہے،واقعات مستقبل کے افق سے نمودار ہو کر ماضی کے افق میں چلے جاتے ہیں،لیکن گم نہیں ہوتے،موقع محل،اسے واپس تحت الشعور سے شعور میں لے آتا ہے، شعور انسانی افق ہے،جس سے جھانک کر وہ مستقبل کےآئینہ ادراک میں دیکھتا ہے ۔
دوستو ! اُفق کے پار سب دیکھتے ہیں ۔ لیکن توجہ نہیں دیتے۔ آپ کی توجہ مبذول کروانے کے لئے "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ پوسٹ ہونے کے بعد یہ آپ کے ہوئے ، آپ انہیں کہیں بھی کاپی پیسٹ کر سکتے ہیں ، کسی اجازت کی ضرورت نہیں !( مہاجرزادہ)

جمعہ، 8 ستمبر، 2023

ماں کے لئے تنہائی کا عذاب

 بوڑھے کی ڈائری  ۔

بڑھیا تین دن سے سخت بیمار تھی ،   میں  سی ایم ایچ میڈیکل سپیشپسٹ کے پاس لے کر گیا  ۔ڈاکٹر نے بلڈ ٹیسٹ لکھ کر دیئے اور وجہ کمزوری بتائی ۔جو پھل کاٹ کر ساتھ لے کر گیا تھا ۔ کہ شوگر کی وجہ سے کوئی مسئلہ نہ ہوجائے ۔ مجھے بھوک نہیں ، دل نہیں کر رہا ۔ لہذا گراونڈ فلور  پر دواؤں کے انتظار کرتے ہوئے میں نے چائے پلائی ، یہ چائے شوگر فری ہونے  کے بجائے ہلکی شوگر کا ٹیسٹ لئے ہوئے تھے کیوں کہ ایوری ڈے میں مٹھاس ملائی ہوتی ہے ۔ بڑھیا کو چائے پسند آئی اور تعریف کی  ۔

 واپس آکر میں نے کمرے سے باہر نہ نکلنے کا حکم دیا ۔جو فروٹ لے گیا تھا  زبر دستی کھلائے ۔
مجھے کہا شاید میرا آخری وقت قریب آگیا ۔
میں نے کہا  1980 سے سن رہا ہوں ۔ نجانے یہ خوش خبری کب پوری ہوگی ۔
میرے بعد آپ کیا کریں گے ؟
وہی ، تمارے سوئم میں ولیمے کا پروگرام ہے ۔ نجانے یہ حسرت کب پوری ہوگی ؟
بڑھیا بولی : آپ کو اب بھی حسرت ہے ؟
میں نے کہا : مجھے نہیں ، اُس کو ہے ۔
بستر پر نقاہت سے کرہاتی ہوئی بڑھیا بجلی کی طرح بیٹھی ۔ کون ہے وہ ؟
میں نے کہا ایک عورت ہے بلکہ نہیں چار عورتیں ہیں ۔اگر چاروں کا ایک ایک بچہ ہو تو میرے تنہائی مرنے تک دور ہو جائے گی ۔ ہم خُرمہ و ہم ثواب ۔
بولی: آپ سب پلاٹس بیچیں اور تمام رقم میرے نام کریں ۔
میں نے کہا فائدہ ۔ سب رقم تو تمھارے پرلوک سدھانے کے بعد قانوناً میرے پاس آئے گی ۔
بولی میں بچوں کے نام کردوں گی ۔
میں نے کہا ، کسی کو ضرورت نہیں اگر ہوتی تو میں خوداُن کا حصہ اُنہیں دیتا ۔
بڑھیا سمجھ گئی کہ میں اُس سے مذاق کر رہا ہوں ۔ ھائے ھائے کرتے دوبارہ لیٹ گئی ۔
یوں صدیوں سے جاری یُدھ ابھی حتمی مرحلے پر میدان میں داخل ہونے کی طرح  رواں دواں تھا کہ دو مساجد کے ملاؤں کی طرح ایک  لاوڈ سپیکر بند ہونے پر  اختتام کو پہنچا ۔

سچ ہے کہ بیوی کے سامنے  دوسری عورت کی گاجر لٹکا دو ، تب اُس کے پوری کوشش ہوگی کہ وہ سدا سہاگن اِس دنیا سے جائے ۔
شام کو سو کر اُٹھے تو 4:45 پر بتایا کہ برفی آرہی ہے ۔ ہم گاڑی میں ہیں  بڑھیا میرے سہارے نیچے اتری ، اور ہم باہر جاکر فٹ پاتھ پر بیٹھ گئے ۔ میں نے 5:25 بڑھیا کے موبائل سے فون کیا ۔ تو معلوم ہوا کہ ابھی دس منٹ مزید ہیں ۔ خیر 5:40 پر گاڑی آئی ۔ بڑھیا نے لپک کر انابیہ کو لپٹا لیا ۔ مجھ سے ملی فلیٹ میں پہنچے تو عروضہ بھی یونیورسٹی سے آگئی ۔ایسے لگا کہ جیسے ٹرین سٹیشن پر آگئی ۔ 8:00 بچے اِس فلیٹ کے پہلے مقیم کرنل (ر) عرفان اپنی بیگم اور دو ہونہار بچیوں کے ساتھ ، ملاقات کے لئے آگئے  ۔ دوٹرینوں   کے مسافروں نے  بوڑھے اور بڑھیا کی تنہائی میں ہلا گلا مچا دیا ۔رات 10:00 میں بڑھیا کے بیڈ روم (گرلز بیڈ روم ) میں گیا ،

پوچھا : جی ی ی  ۔ ۔  بیوی کمزوری اور بیماری دور ہوگئی ؟
چمکتے چہرے سے بولی " جی میں ٹھیک ہو گئی ہوں"
سچ ہے   کہ بیوی کے لئے تنہائی کا عذاب اُس کی پوتے پوتیوں سے دوری بیماری کا سبب ہے ۔
پڑھنے والو دیکھو اور سمجھو !
(خالد مہاجرزادہ۔ بقلم خود)


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

خیال رہے کہ "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ !

افق کے پار
دیکھنے والوں کو اگر میرا یہ مضمون پسند آئے تو دوستوں کو بھی بتائیے ۔ آپ اِسے کہیں بھی کاپی اور پیسٹ کر سکتے ہیں ۔ ۔ اگر آپ کو شوق ہے کہ زیادہ لوگ آپ کو پڑھیں تو اپنا بلاگ بنائیں ۔